Tafseer-e-Madani - Al-Furqaan : 44
اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَهُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ١ؕ اِنْ هُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا۠   ۧ
اَمْ تَحْسَبُ : کیا تم سمجھتے ہو اَنَّ : کہ اَكْثَرَهُمْ : ان کے اکثر يَسْمَعُوْنَ : سنتے ہیں اَوْ يَعْقِلُوْنَ : یا عقل سے کام لیتے ہیں اِنْ هُمْ : نہیں وہ اِلَّا : مگر كَالْاَنْعَامِ : چوپایوں جیسے بَلْ هُمْ : بلکہ وہ اَضَلُّ : بدترین گمراہ سَبِيْلًا : راہ سے
کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے یا سمجھتے ہیں ؟ یہ تو محض چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی کہیں بڑھ کر گمراہ،
55 لوگوں کی اکثریت حق کو سننے سمجھنے سے عاری ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا اور استفہام انکاری کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ " کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے یا سمجھتے ہیں ؟ "۔ استفہام انکاری ہے۔ یعنی ایسے نہیں سمجھنا چاہیئے کہ ایسے لوگ نہ سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں۔ اور جب یہ سنتے سمجھتے ہی نہیں اور انہوں نے اپنے کانوں اور دلوں کو حق کے سننے اور سمجھنے سے بند کر رکھا ہے تو پھر ان سے کسی خیر کی توقع ہی کیا اور کیسے ہوسکتی ہے ؟ اور پھر ان کی ایذاء رسانیوں اور حق دشمنیوں سے صدمہ اور دکھ ہی کیا ؟ پس ضد اور عناد و ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں۔ ایسے ضدی عناصر کو چھوڑ دو یہ اپنے انجام کو خود پہنچ جائیں گے ۔ { فَذَرْہُمْ وَمَا یَفْتَرُوْنَ } ۔ (الانعام : 113) ۔ سو قصور آپ کی دعوت و تبلیغ کا نہیں بلکہ ان لوگوں کا اپنا ہے کہ انہوں نے اپنی ہٹ دھرمی اور خواہش پرستی کی بنا پر اپنے کانوں کو سماع حق اور اپنے دلوں کو قبول حق سے بند اور اپنی عقلوں کو صحیح غور و فکر سے ماؤف کر رکھا ہے۔ تو پھر ان کو حق و ہدایت کی روشنی اور دولت ملے تو کیسے اور کیونکر ؟ نیز یہاں سے یہ حقیقت بھی ایک مرتبہ پھر واضح ہوگئی کہ عوام کی اکثریت کی رائے کا کسی امر کے حق میں یا اس کے خلاف ہوجانا اس کے حق یا باطل اور صحیح یا غلط ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ جس طرح کہ مغربی جمہوریت کے پرستاروں کا کہنا ہے اور جس طرح کہ ہمارے یہاں کے اہل بدعت کا کہنا اور ماننا ہے کہ فلاں فلاں بدعات چونکہ عوام کی اکثریت میں پائی جاتی ہیں لہذا یہ ٹھیک ہیں۔ سو ایسا کہنا اور ماننا غلط ہے کہ عوام کی اکثریت اس طرح کی نصوص صریحہ کے مطابق نہ سنتی ہے نہ سمجھتی ہے۔ وہ جانوروں سے بھی بدتر ہے۔ تو پھر ایسوں کی اکثریت کا آخر کیا وزن اور اعتبار ہوسکتا ہے ؟۔ 56 نور حق و ہدایت سے محروم لوگ چوپایوں سے بھی بدتر ۔ والعیاذ باللہ : سو اس سے تصریح فرما دی گئی کہ نور حق و ہدایت سے محروم لوگ چوپایوں کی طرح بلکہ ان سے بھی بڑھ کر گمراہ ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ایسے لوگ تو محض چوپایوں کی طرح بلکہ ان سے بھی کہیں بڑھ کر گمراہ ہیں "۔ کہ جانوروں اور چوپایوں کو تو عقل ہی نہیں دی گئی تھی اس لئے وہ احکام و شرائع کے مکلف ہی نہیں۔ جبکہ ان کو عقل و فکر کی دولت سے نواز کر مکلف بنایا گیا تھا۔ جانور تو اپنے مالک و محسن کو پہچانتے ہیں اور اس سے انس و محبت رکھتے ہیں جبکہ یہ اپنے رب کے احسانات سے غافل اور اس کے ناشکرے ہیں۔ جانور تو اپنے دشمن کو پہچان کر اس سے دور و نفور رہتے ہیں مگر ایسے لوگ اپنے اس دشمن سے محبت رکھتے اور اس کے پیچھے چلتے ہیں جو ان کو جہنم کی طرف لے جا رہا ہے۔ جانور اگر کسی کو نقصان پہنچائے تو بس وہیں تک جہاں تک کہ ان کے سینگ پہنچ سکیں یا لات مارسکیں یا اپنے دانتوں سے کاٹ سکیں وغیرہ۔ جبکہ انسان جب جانوروں کی راہ پر چلتا ہے تو سب سے بڑا درندہ بن جاتا ہے اور اس کی تباہ کاریوں اور ہلاکت سامانیوں سے ساری دنیا اپنے آپ کو آگ کے منہ میں تصور کرتی ہے۔ اور یہ ایسے ایسے آلات ایجاد کرتا ہے کہ ہزاروں، لاکھوں بےگناہوں کی جان لینے میں بس ایک بٹن دبانے کی دیر رہ جاتی ہے۔ پھر چوپایہ جانور کسی کو راہ حق و ہدایت سے نہیں روکے گا جبکہ یہ بہکا بھٹکا انسان دوسروں کو بھی راہ حق و صواب سے روکنے اور ان کو نور ہدایت سے محروم کرنے کے لئے طرح طرح کے حیلے حوالے اور ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ سو اس طرح کے ان امور سے یہ امر پوری طرح واضح ہوجاتا ہے کہ انسان جب نور حق و ہدایت سے محروم ہوتا ہے تو یہ سب سے بڑھ کر گمراہ ۔ اضل ۔ اور سب نیچوں سے نیچ ۔ اسفل سافلین ۔ بن جاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ پس ایسے لوگ اگر حق کو قبول نہیں کرتے تو اس سے نہ کسی کو کوئی تعجب اور اچنبھا ہونا چاہیے اور نہ ہی کوئی صدمہ و افسوس کہ یہ انسان نہیں حیوان ہیں۔ بلکہ اس سے بھی بدتر۔ تو پھر ایسوں سے قبول حق کی امید اور خیر کی کوئی توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے ؟ ۔ والعیاذ باللہ ۔ اللہ تعالیٰ زیغ وضلال کے ہر شائبے سے ہمیشہ محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top