Kashf-ur-Rahman - Al-Furqaan : 44
اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَهُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ١ؕ اِنْ هُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا۠   ۧ
اَمْ تَحْسَبُ : کیا تم سمجھتے ہو اَنَّ : کہ اَكْثَرَهُمْ : ان کے اکثر يَسْمَعُوْنَ : سنتے ہیں اَوْ يَعْقِلُوْنَ : یا عقل سے کام لیتے ہیں اِنْ هُمْ : نہیں وہ اِلَّا : مگر كَالْاَنْعَامِ : چوپایوں جیسے بَلْ هُمْ : بلکہ وہ اَضَلُّ : بدترین گمراہ سَبِيْلًا : راہ سے
یا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان کافروں میں سے اکثر سنتے اور سمجھتے ہیں یہ تو محض ایسے ہیں جیسے چوپائے بلکہ یہ ان سے بھی زیادہ بےراہ ہیں
(44) یا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان کافروں میں سے اکثر سنتے اور سمجھتے ہیں یہ تو محض ایسے ہیں جیسے چوپائے بلکہ یہ ان چوپایوں سے بھی زیادہ گمر کردہ راہ اور بےراہ ہیں یعنی جس شخص نے اپنی نفسانی خواہش کو خدا بنا رکھا ہے تو آپ پر ایسے شخص کی کیا ذمہ داری ہے یہ شاید ان لوگوں کو فرمایا کہ جن کو جب کوئی اچھا پتھرنظر آیا تو اس کو لاکر معبود بنالیا پھر جب کوئی اس سے اچھا پتھر ملا اس کو معبود بنایا یا ان کو فرمایا کہ جو ہر بات اپنی نفسانی خواہش کے مطابق کرتے ہیں جو دل میں آیا وہ کرلیا قطع نظر اس کے کہ اس کام کا اخلاقی اثر کیا ہوگا اور آسمانی شریعت اس کام کو جائز سمجھتی ہے یا نہیں اس قسم کے بدذوق لوگوں کے نہ آپ نگراں ہیں نہ ان سے کوئی امید ہے کیونکہ یہ نہ سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں سننے کا یہ مطلب کہ توجہ کے ساتھ آپ کی باتوں کو اور قرآن کریم کی آیتوں کو سنیں اور سمجھیں یہ تو محض چوپائے ہیں کانوں میں ان کے بھی آواز پڑتی ہے لیکن سمجھتے نہیں بلکہ یہ تو ان سے بھی گئے گزرے ہیں وہ بھی اپنے مالک اور محسن کو پہچانتے اور اپنے گھر اور تھان کو جانتے ہیں یہ بدنصیب اس کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے یہی وجہ ہے کہ قیامت میں کہیں گے لوکنا تسمح او نعقل ماکنا فی اصحب السحیر اس آیت میں اکثر کی قید شاید اس لئے لگائی کہ انہی منکروں میں سے بعض سن کر اور سمجھ کر کفر سے تائب ہوئے اور اسلام لائے۔
Top