Anwar-ul-Bayan - Al-Furqaan : 44
اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَهُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ١ؕ اِنْ هُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا۠   ۧ
اَمْ تَحْسَبُ : کیا تم سمجھتے ہو اَنَّ : کہ اَكْثَرَهُمْ : ان کے اکثر يَسْمَعُوْنَ : سنتے ہیں اَوْ يَعْقِلُوْنَ : یا عقل سے کام لیتے ہیں اِنْ هُمْ : نہیں وہ اِلَّا : مگر كَالْاَنْعَامِ : چوپایوں جیسے بَلْ هُمْ : بلکہ وہ اَضَلُّ : بدترین گمراہ سَبِيْلًا : راہ سے
آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے ہیں یا سمجھتے ہیں، یہ لوگ محض چوپایوں کی طرح سے ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ بےراہ ہیں۔
اہل مکہ اپنے کفر و شرک پر خوش تھے اور اس میں بڑا کمال سمجھتے تھے کہ ہم نے توحید کی دعوت قبول نہیں کی وہ کہتے تھے کہ اگر ہم اپنی معبودوں پر جمے ہوئے نہ رہتے تو یہ شخص تو ہمیں ان کی پرستش سے ہٹا ہی دیتا ان کی جہالت کا جواب دیتے ہوئے فرمایا (وَ سَوْفَ یَعْلَمُوْنَ ) (الآیۃ) اور جس وقت یہ لوگ عذاب دیکھیں گے اس وقت جان لیں گے کہ راہ حق سے ہٹا ہوا کون تھا، عذاب سب سمجھا دے گا اور اس وقت حقیقت ظاہر ہوجائے گی، دنیا میں رسول اللہ ﷺ کو جو بےراہ بتاتے تھے قیامت کے دن ان کا اپنا گمراہ ہونا واضح ہوجائے گا، ان کے بعد رسول اللہ ﷺ کو خطاب کرکے فرمایا (اَرَاَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوَاہُ ) (کیا آپ نے اس کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا) (اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلاً ) (سو کیا آپ نگرانی کرنے والے ہیں) (اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَھُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ ) (کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے ہیں یا سمجھتے ہیں) (اِِنْ ھُمْ اِِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا) (یہ لوگ محض چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بےراہ ہیں) ۔ اس میں رسول اللہ ﷺ کو تسلی دی ہے کہ اگر یہ لوگ ایمان قبول نہ کریں تو آپ پریشان نہ ہوں آپ پر قبول کرانے کی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی لہٰذا آپ ان کے نگران نہیں ہیں آپ کا کام صرف واضح طور پر پہنچا دینا ہے سورة الزمر میں فرمایا (اِِنَّا اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ للنَّاس بالْحَقِّ فَمَنْ اھْتَدٰی فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ ضَلَّ فَاِِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْہَا وَمَا اَنْتَ عَلَیْہِمْ بِوَکِیْلٍ ) (ہم نے لوگوں کے لیے آپ پر یہ کتاب حق کے ساتھ اتاری ہے جو شخص راہ راست پر آئے گا تو اپنے نفع کے واسطے اور جو شخص بےراہ رہے گا اس کا بےراہ ہونا اس پر پڑے گا اور آپ ان پر مسلط نہیں کیے گئے) آپ کے یہ مخاطب گمراہی میں بہت آگے بڑھ چکے ہیں حق کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے انہوں نے تو خواہش نفس ہی کو اپنا معبود بنا رکھا ہے جو جی میں آتا ہے وہ کہتے ہیں جو نفس خواہش کرتا ہے اسی کی فرمانبر داری کرتے ہیں جیسے معبود کی فرماں برداری کی جاتی ہے ایسے لوگوں سے ہدایت کی توقع نہ رکھیئے۔ آپ یہ بھی خیال نہ کریں کہ ان میں اکثر سنتے ہیں یا سمجھتے ہیں۔ یہ تو راہ حق سے اتنی دور جا پڑے ہیں کہ بس چوپایوں کی طرح ہوگئے ہیں۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ راہ سے بھٹک گئے ہیں کیونکہ چوپائے مکلف نہیں ہیں وہ نہ سمجھیں تو ان کی طرف کوئی مذمت متوجہ نہیں ہوتی اور یہ مکلف ہیں پھر بھی سننے کی طرح نہیں سنتے اور سمجھنے کی طرح نہیں سمجھتے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ جانور تو اپنے مجازی مالک کی فرمانبر داری کرتے ہیں محسن اور غیر محسن کو پہچانتے ہیں اپنے کھانے پینے کے مواقع کو جانتے ہیں اپنے ٹھہرنے اور بیٹھنے کے ٹھکانوں کو سمجھتے ہیں اپنے نفع کے طالب رہتے ہیں اور ضرر سے بچتے ہیں، برخلاف ان لوگوں کے جنہیں اللہ نے عقل دی اور سمجھ دی ہے یہ لوگ اپنے خالق اور رازق کی فرمانبر داری نہیں کرتے اور اس کے احسان مند نہیں ہوتے خواہشوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں نہ ثواب کی طلب ہے نہ عقاب کا خوف، حق سامنے آگیا معجزات دیکھ لیے دلائل عقلیہ سے لا جواب ہوگئے لیکن ان سب کے باو جود ایمان قبول نہیں کرتے لا محالہ جانوروں سے بھی زیادہ گم کردہ راہ ہیں۔ یہ جو فرمایا (اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَھُمْ ) (الایۃ) اس کے بارے میں صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ چونکہ ان میں سے بعض کا ایمان لانا بھی مقدر تھا اس لیے لفظ اکثر لایا گیا، آیت شریفہ سے خواہشات نفس کے پیچھے چلنے کی قباحت اور شناعت معلوم ہوئی یہ خواہشات نفس کا اتباع انسان کو کفر و شرک پر بھی ڈالتا ہے اور گناہ بھی کرواتا ہے جو لوگ نفس کے پابند ہوتے ہیں نفس ہی کی خواہشوں کا اتباع کرتے ہیں اور اس طرح چلتے ہیں جیسے نفس ہی ان کا معبود ہو، یہ ذہن اور مزاج تباہ کر کے رکھ دیتا ہے، حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خوف خواہشات نفس کے پیچھے چلنے کا ہے اور لمبی امیدیں آخرت کو بھلا دیتی ہیں۔ (الحدیث) (مشکوۃ المصابیح ص 444) ایک حدیث میں یہ ارشاد ہے کہ ہلاک کرنے والی یہ چیزیں ہیں (1) نفس کی خواہش جس کا اتباع کیا جائے (2) وہ کنجوسی جس کی اطاعت کی جائے (3) انسان کا اپنے نفس پر اترانا، اور یہ ان تینوں میں سب سے زیادہ سخت ہے۔ (مشکوۃ المصابیح ص 434) جو لوگ مسلمان نہیں ہیں ان کا اپنی خواہشات کا متبع ہونا ظاہر ہے کہ توحید کی دعوت پر کان نہیں دھرتے اور کفر و شرک ہی کو اختیار کیے رہتے ہیں نفس نہیں چاہتا کہ اللہ کے رسول کا اتباع کریں لہٰذا نفس کے غلام بنے رہتے ہیں۔ دلائل سے حق واضح ہوجانے پر بھی حق کی طرف نہیں آتے، اتباع نفس کا مرض بہت سے مدعیان اسلام میں بھی ہے قرآن حدیث کی صاف صریح تعلیمات کو پس پشت ڈال کر ایسے عقائد اور ایسے اعمال تراش لیتے ہیں جن میں بعض تو کفر کی حد تک پہنچا دیتے ہیں مثلاً کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے علم کو اللہ تعالیٰ کے علم کے برابر مانتے ہیں اور کچھ لوگ آپ کے بشر ہونے کے منکر ہیں۔ یہ دونوں کفریہ باتیں ہیں قرآن حدیث کے خلاف ہیں بعض فرقے تحریف قرآن کے قائل ہیں ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو دو تین حضرات کے علاوہ تمام صحابہ کو کافر کہتے ہیں یہ بھی کفریہ عقیدے ہیں اور یہ سب نفس کا اتباع ہے یعنی خواہشات نفس کی پابندی ہے۔ یہ ہم نے بعض ایسے عقیدے بتائے ہیں جو اتباع ہویٰ کی وجہ سے لوگوں نے اختیار کرلیے ہیں اب رہے وہ اعمال جنہیں بدعت عملی کہا جاتا ہے یہ بھی بہت زیادہ ہیں۔ مختلف علاقوں میں مختلف بدعات رواج پذیر ہیں یہ بد عتیں خوشی میں اور مرنے جینے میں، محرم الحرام کے مہینے میں ربیع الاول میں رجب میں اور شعبان میں بہت زیادہ مروج ہیں جن کی تفاصیل حضرت حکیم الامت تھانوی کی کتاب اصلاح الرسوم میں بیان کردی گئی ہیں اور چونکہ بدعت کے لیے کسی سند کی ضرورت نہیں خود تراش لینے ہی سے وجود میں آجاتی ہے اس لیے مختلف علاقوں میں مختلف بدعات ہیں، احقر نے ایک مرتبہ جنوبی ہند کا سفر کیا ظہر کا وقت تھا مسجد میں امام صاحب کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا مؤذن نے اذان دی تو اس کے بعد نقارہ بجا دیا گیا احقر نے امام صاحب سے پوچھا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ عورتوں کو بتانے کے لیے ہے کہ مسجد میں اذان ہوگئی ہے میں نے عرض کیا کیا سرکار دو عالم ﷺ کے زمانہ میں عورتوں کی اطلاع دینے کے لیے اذان کے علاوہ نقارہ پیٹا جاتا تھا، کہنے لگے ایسا تو نہیں، میں نے کہا کہ پھر آپ لوگوں نے یہ نئی چیز کیوں نکالی ؟ ایک تو نئی چیز وہ بھی نقارہ ؟ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ وہاں یہ بھی رواج ہے کہ دفن کرنے کے بعد دفن میں شرکت کرنے والوں کو میٹھی روٹیاں بانٹتے ہیں جب تک روٹیاں تیار نہیں ہوجاتیں میت کو گھر ہی میں رکھے رہتے ہیں، دمشق کا سفر کیا وہاں دیکھا کہ اذان سے چند منٹ پہلے مؤذن مینار پر چڑھ کر بہ آواز بلند درود شریف پڑھتا ہے اور جمعہ کے دن خطیب خطبہ پڑھنے کے لیے اپنے حجرہ سے چلتا ہے تو جب اس پر نظر پڑجائے چند آدمی مل کر زور زور سے درود شریف پڑھتے ہیں اور اس کے منبر میں بیٹھ جانے تک برابر پڑھتے رہتے ہیں، مختلف علاقوں میں مختلف بدعات ہیں اہل بدعات کو جب متنبہ کیا جاتا ہے تو ماننے کے بجائے الٹی الٹی دلیلیں لے آتے ہیں اور سینکڑوں سنتیں جو احادیث کی کتابوں میں مذکور ہیں ان پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہوتے یہ اتباع ہویٰ ہے اگرچہ دینی جذبات کے ساتھ ہے۔
Top