Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 154
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ١ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ
وَلَا : اور نہ تَقُوْلُوْا : کہو لِمَنْ : اسے جو يُّقْتَلُ : مارے جائیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ اَمْوَاتٌ : مردہ بَلْ : بلکہ اَحْيَآءٌ :زندہ ہیں وَّلٰكِنْ : اور لیکن لَّا تَشْعُرُوْنَ : تم شعور نہیں رکھتے
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں ان کے بارے میں یوں نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم اس کا ادراک نہیں کرتے۔
شہداء کے فضائل علامہ واحدی اسباب النزول (ص 40) میں لکھتے ہیں کہ یہ آیت بدر میں شہید ہو جانیوالے مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ جن میں آٹھ حضرات انصار میں سے اور چھ حضرات مہاجرین میں سے تھے۔ شہید ہوجانے والوں کے بارے میں بعض لوگوں نے یوں کہا کہ فلاں مرگیا اور دنیا میں لذت اور نعمت اس سے فوت ہوگئی تو آیات بالا کا نزول ہوا۔ 1 ھ اللہ کے دین کے پھیلانے اور حق کے آگے بڑھنے میں جو لوگ آڑے آتے ہیں ان سے نبٹنے کے لیے جہاد اور قتال کرنا پڑتا ہے جب جہاد کرتے ہیں تو ضروری نہیں کہ سب کافر ہی مقتول ہوں اس میں بہت سے مسلمان بھی مقتول ہوجاتے ہیں ان مقتول مسلمانوں کو شہداء کا معزز خطاب دیا گیا ہے۔ شہیدوں کے بڑے مرتبے ہیں ان سے بلند درجات کے وعدے ہیں ان کی برزخی زندگی بھی دوسروں سے ممتاز ہے اسی لیے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں ان کے بارے میں یوں نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں ان پر موت طاری ہوئی ہے۔ لیکن برزخی زندگی میں ان کو امتیازی مرتبہ حاصل ہے۔ تم لوگ ان کی اس حیات کا ادراک نہیں کرسکتے۔ سورة آل عمران میں شہدا کے بارے میں ارشاد فرمایا (وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ فَرِحِیْنَ بِمَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ) (اور ان لوگوں کے بارے میں جو اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ہرگز یہ گمان نہ کرو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق پاتے ہیں، اللہ نے جو کچھ ان کو اپنے فضل سے عطا فرمایا اس پر خوش ہیں) ۔ حیات برزخیہ میں سب سے زیادہ قوی تر حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی حیات ہے۔ ان کے اجسام کو زمین نہیں کھاتی۔ حدیث شریف میں ہے۔ ان اللّٰہ حرّم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء (رواہ ابوداؤد ص 150 ج 1) اور ان کی حیات برزخیہ اس قدر ممتاز ہے کہ اس کے بعض آثار و احکام دنیا میں بھی بعض امور میں ظاہر ہیں مثلاً ان کی میراث کا تقسیم نہ ہونا اور ازواج مطہرات کا ان کی وفات کے بعد دوسروں سے نکاح جائز نہ ہونا۔ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی ممتاز اور قوی ترحیات برزخیہ کے بعد شہداء کی حیات کا درجہ ہے جس کا آیت بالا میں اور سورة آل عمران کی آیت میں تذکرہ ہے۔ ان کے بعد دوسرے لوگوں کی حیات ہے جس کے ذریعہ قبر میں عذاب ہوتا یا آرام ملتا ہے۔ ان کی تفصیلات احادیث شریفہ میں موجود ہیں۔ شہید چونکہ اپنا جان ومال لے کر حاضر ہوجاتا ہے اور اللہ کی راہ میں سب کچھ قربان کردیتا ہے اس لیے اس کا اللہ تعالیٰ کے یہاں بہت بڑا مرتبہ ہے۔ ان کا جو وہاں اکرام ہوتا ہے وہ اتنا زیادہ ہے کہ دنیاوی زندگی اس کے سامنے ہیچ در ہیچ ہے۔ حضرت مسروق تابعی نے بیان فرمایا کہ ہم نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے آیت کریمہ (وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ ) (الآیۃ) کے بارے میں معلوم کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم نے اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ شہیداء کی روحیں سبز پرندوں کے پوٹوں میں ہیں ان کے لیے قندیل ہیں جو عرش کے نیچے لٹکے ہوئے ہیں یہ پرندے جنت میں جہاں چاہتے ہیں چلتے پھرتے ہیں۔ پھر ان قندیلوں میں آجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے ان سے فرمایا کہ تم کچھ خواہش رکھتے ہو انہوں نے کہا ہم کیا خواہش کریں۔ (اس سے زیادہ کیا ہوگا کہ) ہم جنت میں جہاں چاہیں پھرتے ہیں اور کھاتے پیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ شانہ، نے تین مرتبہ ان سے یہی سوال فرمایا جب انہوں نے دیکھا کہ سوال ہوتا ہی رہے گا کچھ نہ کچھ جواب دینا ہی ہے تو عرض کیا اے رب ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری روحیں دوبارہ جسموں میں واپس کردی جائیں تاکہ ہم پھر تیری راہ میں مقتول ہوجائیں۔ جب انہوں نے کسی اور حاحت کا سوال نہ کیا (اور وہاں سے واپسی کا قانون نہیں ہے) تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ (رواہ مسلم ص 135 ج 2) حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو بھی کوئی بندہ وفات پا جاتا ہے جس کے لیے اللہ کے پاس خیر ہو (یعنی عذاب سے نجات ہو اور وہاں کی نعمتوں سے متمتع ہو رہا ہو) اسے یہ خوشی نہیں ہوتی کہ دنیا میں واپس آجائے۔ اگرچہ دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے وہ سب اسے مل جائے سوائے شہید کے، شہید کو اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ دنیا میں دوبارہ آجائے اور پھر اللہ کی راہ میں قتل ہوجائے کیونکہ وہ (وہاں پہنچ کر) شہادت کی فضیلت دیکھ لیتا ہے۔ (بخاری ص 392 ج 1) حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ ضرور میری یہ خواہش ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کر دیاجاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں۔ (بخاری ص 392 ج 1) نبوت کا مرتبہ تو ہر مرتبہ سے فائق ہے اور برتر ہے پھر بھی آنحضرت ﷺ نے اللہ کی راہ میں بار بار شہید ہونے کی تمنا ظاہر فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کی بہت سی حکمتیں ہیں بار بار قتل ہونے اور زندہ ہونے کی تمنا تو پوری نہ فرمائی لیکن آپ کو درجہ شہادت اس طرح سے عطا فرما دیا کہ غزوہ خیبر میں جو ایک یہودی عورت نے بکری کے بھنے ہوئے دست میں زہر ملا کردیا تھا اس کا اثر وقتی طور پر رک گیا تھا لیکن وفات کے وقت اس نے اثر کیا اور وہ آپ کی وفات کا ذریعہ بن گیا۔ حقوق العباد کے علاوہ شہید کا سب کچھ معاف ہے : شہید کی بہت بڑی فضیلت ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا لیکن فی سبیل اللہ قتل ہوجانے سے حقوق العباد معاف نہیں ہوتے۔ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے یغفر للشھید کل ذنب الا الدین۔ (کہ شہید کا ہر گناہ معاف کردیا جاتا ہے قرض کے علاوہ) ۔ (صحیح مسلم ص 135 ج 2) جہاد میں اخلاص کی ضرورت : شہادت کا درجہ ملنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ صرف اللہ کی رضا کے لیے دشمنان دین سے جنگ کی ہو اور اس میں مقتول ہوا ہو اور اللہ کی بات اونچی کرنے کے لیے لڑا ہو۔ حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ایک شخص غنیمت کے لیے جنگ کرتا ہے ایک شخص اپنی شہرت کے لیے لڑتا ہے اور ایک شخص اس لیے لڑتا ہے کہ بہادری میں اس کا مقام اور مرتبہ مشہور ہوجائے۔ سو ان میں اللہ کی راہ میں کون سا ہے آپ نے فرمایا جو اس لیے جنگ کرے کہ اللہ کی بات بلند ہو وہ اللہ کی راہ میں ہے۔ (صحیح بخاری ص 394 ج 1 و صحیح مسلم 139 ج 2) دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص بہادری ظاہر کرنے کے لیے جنگ کرتا ہے اور ایک شخص، (قوم یا وطن) کی حمیت کی وجہ سے جنگ کرتا ہے اور ایک شخص ریا کاری کے لیے جنگ کرتا ہے۔ سو ان میں اللہ کی راہ میں کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو اس لیے جنگ کرتا ہے کہ اللہ کی بات بلند ہو وہ اللہ کی راہ میں ہے۔ (صحیح مسلم ص 140 ج 2) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی بھی شخص کو اللہ کی راہ میں زخم پہنچ جائے اور اللہ ہی کو معلوم ہے کہ اس راہ میں کس کو زخم پہنچا تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون جاری ہوگا۔ رنگ خون کا ہوگا، اور خوشبو مشک کی ہوگی۔ (صحیح مسلم ص 133 ج 2) اس میں یہ جو فرمایا کہ ” اللہ ہی کو معلوم ہے جو اللہ کی راہ میں زخمی ہوا۔ “ اس میں اسی اخلاص کی طرف اشارہ ہے جس کی ہر عبادت میں ضرورت ہے۔ بندے ظاہری اعمال تو دیکھتے ہیں لیکن اصل معاملہ اللہ سے ہے اگر اللہ کے نزدیک اس کی نیت یہ ہے کہ میرا اللہ مجھ سے راضی ہوجائے تو عمل کا ثواب ملتا ہے اور وہ فضیلتیں حاصل ہوتی ہیں جن کا وعدہ کیا گیا ہے اور اگر کسی عمل سے ریا اور شہرت مقصود ہو تو اس سے ثواب کیا ملتا۔ وہ تو آخرت میں و بال بن جائے گا۔ اور آخرت میں دوزخ میں داخل کرانے کا ذریعہ ہوگا۔ وطنی اور قومی جنگ میں قتل ہونے والے شہید نہیں ہیں : آج کل بھی دنیا میں جنگ وجدال اور قتل و قتال جاری ہے۔ لوگ برابر مر رہے ہیں۔ قتل ہو رہے ہیں۔ لیکن عموماً قومی، وطنی، لسانی، صوبائی عصبیت کی وجہ سے لڑائیاں ہو رہی ہیں۔ اللہ کی رضا کا کہیں سے کہیں تک بھی خیال نہیں۔ پھر ان لڑائیوں میں جو کوئی مارا جاتا ہے اس کو شہید بھی کہتے ہیں حالانکہ شہید وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہید ہو اور اب تو شہید وطن اور شہید قوم کے الفاظ بھی زبانوں پر جاری رہیں اور صحیفوں جریدوں میں آ رہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ کافروں اور ملحدوں کے لیے شہید کا لفظ استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ سب جہالت اور الحاد اور بےدینی کی باتیں ہیں۔ حفظنا اللہ من الضلال
Top