Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 154
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ١ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ
وَلَا : اور نہ تَقُوْلُوْا : کہو لِمَنْ : اسے جو يُّقْتَلُ : مارے جائیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ اَمْوَاتٌ : مردہ بَلْ : بلکہ اَحْيَآءٌ :زندہ ہیں وَّلٰكِنْ : اور لیکن لَّا تَشْعُرُوْنَ : تم شعور نہیں رکھتے
اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے جائیں ان کی نسبت یہ نہ کہنا کہ وہ مرے ہوئے ہیں (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں جانتے
تفسیر آیت 154: شہدائے بدر : وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآئٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ : ( اور تم نہ کہو ان کو جو لوگ مارے جائیں اللہ کی راہ میں کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم سمجھ نہیں سکتے) ولا تقولوا یہ شہدائے بدر کے متعلق نازل ہوئی ان کی تعداد چودہ تھی۔ اموات یہ مبتدا محذوف ہُمْکی خبر ہے کہ وہ مردہ ہیں۔ بل احیاء یعنی وہ زندہ ہیں۔ عدم شعور کی تفسیر : لاتشعرون۔ یعنی تم اس کو نہیں جانتے۔ کیونکہ شہید کی زندگی حساً معلوم نہیں ہوسکتی۔ حضرت حسن ؓ سے مروی ہے کہ شہداء اللہ کے ہاں زندہ ہیں۔ ان کا رزق ان کی ارواح کو پہنچایا جاتا ہے پس ان کو راحت و خوشی پہنچتی ہے جیسا کہ آگ اٰل فرعون کی ارواح پر صبح و شام پیش کی جاتی ہے۔ پس ان کو اس سے تکلیف پہنچتی ہے حضرت مجاہد (رح) کہتے ہیں ان کو جنت کے پھلوں سے رزق ملتا ہے اور اس کی ہوائیں ان کو پہنچتی ہیں۔ مگر وہ جنت میں نہیں۔
Top