Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 154
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ١ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ
وَلَا : اور نہ تَقُوْلُوْا : کہو لِمَنْ : اسے جو يُّقْتَلُ : مارے جائیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ اَمْوَاتٌ : مردہ بَلْ : بلکہ اَحْيَآءٌ :زندہ ہیں وَّلٰكِنْ : اور لیکن لَّا تَشْعُرُوْنَ : تم شعور نہیں رکھتے
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوجاتے ہیں تو یہ مت کہو کہ وہ مردہ ہیں ، نہیں ! وہ تو زندہ ہیں لیکن تم ان کی زندگی کا شعور نہیں رکھتے
شہید کی موت کبھی موت نہیں ہوتی بلکہ وہی تو اصل حیات ہے : 277: اب ان آیات میں ان مواقع کا ذکر کیا جاتا ہے جہاں صبر کے بغیر چارہ نہیں اور جوہر راہ رو حق کے لئے ضروری و ناگزیر ہیں کہ بغیر ان تکالیف و مصائب کے اچھے اور برے میں تمیز نہیں ہوسکتی ۔ قرآن کریم نے اکثر مقامات پر جہاں لڑائیوں کا فلسفہ بیان کیا ہے وہاں باربار اس حقیقت کبریٰ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جنگ صرف اس لئے ہوئی اور ان مصیبتوں کا نزول اس بنا پر ہوا کہ منافق اور مؤمن میں تمیز ہوجائے چناچہ ارشاد الٰہی ہے : وَ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ یَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَآءَ 1ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَۙ00140 وَ لِیُمَحِّصَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ یَمْحَقَ الْكٰفِرِیْنَ 00141 (آل عمران 3 : 140 ، 141) ” یہ اس لئے ضروری تھا کہ اس بات کی آزمائش ہوجائے کہ کون سچا ایمان رکھنے والا ہے ، کون نہیں ہے اور اسلئے کہ تم میں سے ایک گروہ کو شاہد حال بنا دے یعنی وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ احکام حق کی نافرمانی سے کیسے کچھ نتیجے پیش آسکتے ہیں اور اللہ ظلم کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ “ دوسری جگہ ارشاد ہوا کہ : وَ لِیَبْتَلِیَ اللّٰهُ مَا فِیْ صُدُوْرِكُمْ وَ لِیُمَحِّصَ مَا فِیْ قُلُوْبِكُمْ 1ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ 00154 (آل عمران 3 : 154) اللہ کو منظور تھا کہ جو کچھ تمہارے سینوں میں چھپا ہوا ہے اس کے لئے تمہیں آزمائش میں ڈالے اور جو کدورتیں تمہارے دلوں میں پیدا ہوگئی تھیں انہیں پاک و صاف کردے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے جو انسان کے دل میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ “ اصل بات یہ ہے کہ قوموں کی زندگی شہداء کے خون اور گوشت سے وابستہ ہوتی ہے۔ کھیتی کے لئے پانی اور سورج کی حررات کی ضرورت ہوتی ہے ایسے ہی آزادی حاصل نہیں ہو سکتی جب تک اس کے لئے گردنیں نہ کٹیں ، ہزاروں انسانوں کا خون نہ بہے۔ قوموں کی کھیتی کو خون سے سینچا جاتا ہے ۔ جب تک کسی قوم کے بہترین افراد قتل نہ ہوں اس میں کبھی جوش وولولہ وانتقام نہیں پیدا ہوتا۔ اس کی طرف قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے اور فرمایا جب قوم کی قوم میں جذبہ ایثار و فدویت پیدا ہوجائے گا اور بچہ بچہ یکسر جوش وانتقام بن جائے گا تو کس کو ہمت ہوگی اس سے مقابلہ کرنے کی ؟ یہی وہ حیات قومی ہے جو شہداء کے خون بہنے سے پیدا ہوتی ہے۔ دنیا میں سب سے بڑی لعنت یہ ہے کہ ایک قوم پر غیروں کو مسلط کردیا جائے اس لئے فرمایا کہ جو لوگ ہماری راہ میں اپنی جانیں دیں گے ان کی قوم کبھی غیروں کی غلام و محکوم نہیں بن سکتی بلکہ وہ ابدی زندگی کی وارث بن جاتی ہے۔ مگر یہ زندگی عظیم الشان قربانی کے بعد شروع ہوتی ہے۔ دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد ۔ ہے ابتداء ہماری تری انتہاء کے بعد سمجھ لینا چاہئے کہ ایسے مقتول کو جو اللہ کی راہ میں قتل کیا جائے شہید کہتے ہیں اور اس کی نسبت گویہ کہنا کہ وہ مر گیا صحیح اور جائز ہے لیکن اس کی موت کو دوسرے مردوں کی سی موت سمجھنے کی ممانعت کی گئی ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ اس دنیا میں جو بھی آیا مرنے ہی کے لئے آیا اور مرنے کے بعد دوبارہ زندگی ضروری اور لازمی ہے لیکن دوبارہ زندگی میں کس کو معلوم ہے کہ وہ جنتی ہے یا دوزخی ؟ ظاہر ہے کہ اگر جنتی ہے تو اس کی زندگی کامیاب زندگی ہی ہے اور اگر خدا نخواستہ دوزخی ہے تو وہ ناکام زندگی ہوئی ۔ شہید کے لئے یہ فیصلہ ہے کہ اس کی زندگی ہمیشہ کامیاب ہی ہے یعنی شہید کو گویا جنت کا سرٹیفکیٹ دیا گیا ہے لہٰذا اس کی زندگی کا میاب زندگی ہوئی جو موت کے بعد شروع ہوگی۔ اب مرنا تو سب کو ہے لیکن ایک مرنا کامیاب زندگی کا مرنا ہوا اور دوسرے کا ناکام زندگی کا مرنا۔ پھر خود ہی سمجھ لو کہ جو کامیاب زندگی کا مرنا ہوگا وہ مرنا کیوں مرنا ہوگا ؟ اور یہی بات اس جگہ سمجھائی ہے۔ بیوقوف ہیں وہ لوگ جواب اسی زندگی کو جو کامیابی کی زندگی ہے اس ناکامی کی زندگی کے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اس طرح لوگوں کو بیوقوف بنا کر اپنے پیٹ کے لئے ایندھن مہیا کرتے رہتے ہیں ۔ ایک شہید اس دنیا سے اس طرح رخصت ہوجاتا ہے جس طرح عام مرنے والا آدمی شہید کی شہادت کے بعد اس پر تمام وہ احکام لازم ہوجائیں گے جوہر مرنے والے پر ہوتے ہیں اور اس کی زندگی کا معاملہ آخرت کی زندگی سے متعلق ہے نہ کہ اس دنیوی زندگی سے اس کی مثال اس طرح سمجھ لو کہ آپ نے ایک جانور قربانی کی خاطر خریدا اور عید الاضحی کے روز اس کو ذبح کر کے اس کی بوٹی بوٹی کردی اور کئی حصوں میں تقسیم کر کے کھا گئے۔ آپ سے کوئی کہے کہ وہ جانور جو آپ نے خریدا تھا وہ مر گیا ؟ آپ ضرور کہیں گے نہیں نہیں مرا نہیں وہ تو قربانی دے دیا گیا۔ آپ غور کریں کہ وہ جانور مرا ہے یا زندہ ہے ظاہر ہے کہ وہ مر گیا لیکن وہ عام موت نہیں مرا بلکہ ایک خاص موت مرا جس کو قربان ہونا کہتے ہیں گویا جس مقصد کے لئے وہ خریدا گیا تھا وہ پورا ہوگیا اس لئے ہم نہیں کہتے کہ وہ مر گیا حالانکہ وہ زندہ بھی نہیں ہے ۔ بالکل اسی طرح شہید بھی کامیاب موت مرا اس لئے اس کو مرگیا نہیں کہتے بلکہ شہید ہوگیا کہتے ہیں۔ اللہ سمجھ کی توفیق دے۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد الٰہی ہے۔ وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا 1ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَۙ00169 فَرِحِیْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ 1ۙ وَ یَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِهِمْ مِّنْ خَلْفِهِمْ 1ۙ اَلَّا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَۘ00170 یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَضْلٍ 1ۙ وَّ اَنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ ۚ ۛ (رح) 00171 (آل عمران 3 : 169 تا 171) ” اور اے پیغمبر اسلام ! جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں ان کی نسبت ایسا خیال نہ کرنا کہ وہ مر گئے نہیں وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے حضور اپنی روزی پا رہے ہیں۔ اللہ نے اپنے فضل و کرم سے جو کچھ انہیں عطا فرمایا ہے۔ اس سے خوش حال ہیں اور جو لوگ ان کے پیچھے دنیا میں رہ گئے ہیں اور ابھی ان سے ملے نہیں ان کے لئے خوش ہو رہے ہیں کہ نہ تو ان کے کسی طرح کا کھٹکا ہوگا نہ کسی طرح غمگینی اور اللہ کی نعمت اور فضل کے عطیوں سے مسرور ہیں نیز اس بات سے کہ انہوں نے دیکھ لیا اللہ ایمان رکھنے والوں کا اجر کبھی اکارت نہیں کرتا۔ “ یہی وہ قتال فی سبیل اللہ ہے جس کی نسبت قرآن کریم اعلان کرتا ہے کہ اس راہ میں مرنے کے بعد تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ اس کے سوا اور کوئی نیکی نہیں جس کے لئے اس قسم کا وعدہ کیا گیا ہو۔ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ 1ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَۙ0011 یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ (الصف 61 : 11 ، 12) ” اللہ اور اس کے رسول (a) پر کامل ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال و دولت اور اپنی جانوں سے جہاد کرو یہی طریقہ تمہارے لئے بہتر ہے بشرطیکہ تم وقت کی مصیبت کو سمجھو اگر تم نے ایسا کیا تو اللہ تمہارے قصوروں سے در گزرے کرے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں آنے کی آرزو شہید فی سبیل اللہ کے سوا اور کوئی نہیں کرتا : ( مَا مِنْ أَحَدٍ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ یُحِبُّ أَنْ یَرْجِعَ إِلَی الدُّنْیَا وَأَنَّ لَهُ مَا عَلَی الْأَرْضِ مِنْ شَیْئٍ غَیْرُ الشَّهِیدِ فَإِنَّهُ یَتَمَنَّی أَنْ یَرْجِعَ فَیُقْتَلَ عَشْرَ مَرَّاتٍ لِمَا یَرَی مِنْ الْکَرَامَةِ ) (مسلم : 371) شہید چاہتا ہے کہ دنیا میں آئے اور راہ حق وحریت میں بار ہا قتل ہو اور یہ خواہش اس عزت و کرامت نے پیدا کی جو مرنے کے بعد اسے میسر آئی اس لئے کہ اس کی راہ میں جان دینے کی لذت وسعادت ایک ہی مرتبہ میں ختم نہ ہوجائے۔ ایک حدیث میں ہے کہ : مامن میت یموت الا ختم عملہ الا من مات مرابطا فی سبیل اللہ فانہ ینمولہ عملہ الی یوم القیمۃ وامن من فتنۃ القبر۔۔۔۔ کوئی ایسی مدت نہیں جس کے ساتھ اعمال کا سلسلہ بھی ختم نہ ہوتا ہو سوائے اس شخص کے جو جہاد کی راہ میں دشمن کے حملے کا انتظار کرتا ہوا دنیا سے رخصت ہوگیا پس اس کا عمل ایسا ہے جو مرنے کے بعد بھی قیامت تک بڑھتا رہے گا۔ احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حسنات جاریہ تین ہیں : اولاد صالح ، علم نافع اور اوقاف و تعمیرات۔ خیریہ گزشتہ حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ جہاد کا ہر کام بھی اس قسم میں داخل ہے کیونکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اپنے بعد کے زمانے اور آنے والی نسلوں کی حفاظت وسعادت کے لئے اپنا وجود قربان کردیا جائے۔ پس کوئی عمل نہیں جو اس سے زیادہ سچی اور بےلاگ انسانی خدمت اور نوعی حفاظت کے جذبات رکھتا ہو اور اس لئے ضروری ہوا کہ اس کا اجر بھی وقتی نہ ہو بلکہ دائمی ہو۔ عمل کا اجر تو نتائج پر موقوف ہے جب نتائج بعد کے زمانوں اور نسلوں کو ملیں گے تو صاحب عمل کا اجر بھی فوراً کیوں منقطع ہوجائے ؟ اسی چیز کی طرف آیت زیر بحث نے اشارہ کیا کہ جب حق پر کبھی موت طاری نہیں ہوسکتی تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس کی راہ میں قربان ہونے والے پر موت طاری ہو اس کے اعمال حسنہ کے ثمرات و نتائج میں کسی قسم کا انقطاع نہیں ہوتا۔
Top