Dure-Mansoor - Al-Baqara : 154
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ١ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ
وَلَا : اور نہ تَقُوْلُوْا : کہو لِمَنْ : اسے جو يُّقْتَلُ : مارے جائیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ اَمْوَاتٌ : مردہ بَلْ : بلکہ اَحْيَآءٌ :زندہ ہیں وَّلٰكِنْ : اور لیکن لَّا تَشْعُرُوْنَ : تم شعور نہیں رکھتے
جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں ان کے بارے میں یوں نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم اس کا ادراک نہیں کرتے
شہید کی فضیلت کا ذکر (1) ابن منذر نے المعرفہ میں السدی الصغیر کے طریق سے الکلبی سے انہوں نے ابو صالح سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ تمیم بن حمام ؓ بدر میں شہید ہوئے ان کے بارے میں اور ان کے علاوہ (دوسرے شہیداء) کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات “ (الآیہ) (2) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لمن یقتل فی سبیل اللہ “ کا معنی ہے ” فی طاعۃ اللہ فی قتال المشرکین “ یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مشرکین سے جنگ کرنا۔ (3) ابن ابی حاتم اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات، بل احیاء “ سے مراد ہے کہ وہ سبز پرندوں کی صورت میں جنت میں زندہ ہیں جنت میں جہاں چاہتے ہیں اڑتے پھرتے ہیں اور جہاں سے چاہتے ہیں کھاتے ہیں۔ (4) ابن ابی شیبہ نے المصنف میں اور ابن جریر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات “ (الآیہ) سے مراد ہے کہ شہداء کی روحیں میں انتہائی سفید پرندوں کی صورتوں میں ہیں۔ (5) ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے البعث والنشور میں کعب ؓ سے روایت کیا کہ جنت الماوی میں سبز پرندے ہیں جس میں شہداء کی روحیں ان سبز پرندوں کے پوٹوں میں بلند ہوتی ہیں اور مؤمنین کے نابالغ بچے ( جو مرتے ہیں) وہ جنت کی چڑیوں میں سے چڑیاں ہیں جو (جنت میں) چرتی پھرتی ہیں۔ (6) عبد الرزاق نے معمر سے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ شہداء کی روحیں سفید پرندے کی صورت میں جنت کے پھلوں میں سے کھاتی پھرتی ہیں کلبی ؓ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ شہداء کی روحیں سفید پرندوں کی صورتوں میں ان قنادیل میں پناہ لیتی ہیں جو عرش کے نیچے معلق ہیں۔ (7) عبد بن حمید، ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات، بل احیاء ولکن لا تشعرون “ کے بارے میں ہم سے ذکر کیا گیا کہ شہداء کی روحیں پرندوں میں معروف ہیں اور جنت کے پھلوں سے کھاتی پھرتی ہیں اور ان کے رہنے کی جگہیں سدرہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ مجاہد کو خیر میں سے تین چیزیں عطا فرماتے ہیں۔ (پہلی چیز) جو شخص اللہ کے راستے میں شہید ہوتا ہے وہ زندہ ہوتا ہے اور اسے رزق دیا جاتا ہے (دوسری چیز) جو شخص (دشمن پر) غالب آجائے اللہ تعالیٰ اس کو اجر عظیم عطا فرماتے ہیں (تیسری چیز) اور جو شخص (اللہ کے راستے میں) مرجائے اللہ تعالیٰ اس کو بہترین رزق عطا فرماتے ہیں۔ (8) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” بل احیاء “ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ لوگ جنت کے پھلوں کی وجہ سے زندہ ہیں اور جنت کی خوشبو پاتے ہیں جبکہ وہ جنت میں نہیں ہیں۔ (9) احمد، ترمذی (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) نسائی، ابن ماجی نے کعب بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے پوٹوں میں ہیں جو جنت کے پھلوں یا درختوں سے معلق ہیں۔ (10) عبد الرزاق نے المصنف میں عبد اللہ بن کعب بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شہداء کی روحیں سبز پرندوں کی صورتوں میں ہیں جو جنت کے قنادیل کے ساتھ لٹکے ہوئے ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کو قیامت کے دن لوٹائے گا۔ (11) امام نسائی، حاکم نے (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اہل جنت میں سے ایک آدمی کو لایا جائے گا اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے اے ابن آدم ! تو نے اپنے گھر کو کیسے پایا ؟ وہ عرض کرے گا اے میرے رب ! بہترین گھر ہے اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو سوال کر اور کسی خواہش کا اظہار کر وہ عرض کرے گا میں آپ نے کیا سوال کروں اور کیا خواہش کروں ہاں البتہ یہ سوال کرتا ہوں کہ مجھے دنیا کی طرف دوبارہ لوٹا دیجئے میں تیرے راستے میں دس مرتبہ شہید کیا جاؤں جب وہ دیکھ چکا ہوگا شہادت کی فضیلت کو۔
Top