Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 153
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اسْتَعِيْنُوْا : تم مدد مانگو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلٰوةِ : اور نماز اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
اے ایمان والو ! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد حاصل کرو، بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔
صبر اور صلوٰۃ کے ذریعہ مدد مانگنے کا حکم اس سے پہلی آیت میں ذکر اور شکر کا حکم فرمایا اور اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ صبر اور صلاۃ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو۔ لفظ صبر کا لغوی معنی رکنے اور ٹھہر جانے کا ہے۔ شریعت میں یہ لفظ تین معنی کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اول اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور طاعت و فرما نبرداری پر لگائے رہنا دوم اپنے نفس کو گناہوں سے روک کر رکھنا۔ سوم آفات اور مصائب پر جو تکلیف ہوا سے سہ جانا اور اس طرح سے گزر جانا کہ اللہ تعالیٰ کی قضا اور قدر پر راضی ہو اور اللہ تعالیٰ پر کوئی اعتراض نہ کرے اور دکھ تکلیف اور مصیبت پر ثواب کا امید وار رہے عام لوگ صبر صرف تیسرے معنی ہی کے لیے استعمال کرتے ہیں پہلے دو معنی کی طرف ان کا ذہن نہیں جاتا حالانکہ یہ تینوں صورتیں صبر کا جزو ہیں اور صبر کے مفہوم میں شامل ہیں اور تینوں میں مشترک امر وہی ایک بات ہے یعنی نفس کو دبانا اور ہر اس بات سے روکنا جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہو۔ جو شخص بھی صبر کے ان تینوں طریقوں کو اختیار کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور نصرتیں اس پر نازل ہوں گی۔ سورة زمر میں ارشاد فرمایا۔ (اِِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ ) کہ صابروں کو پورا پورا اجر بغیر حساب کے دیا جائے گا۔ صبر کی فضیلت اور اہمیت : درحقیقت صبر اور شکر مومن کی زندگی کے لیے (جو ایک رواں دواں سیارہ کے مشابہ ہے) پہیے ہیں اور مومن کی کوئی چیز ضائع نہیں ہے۔ آرام و راحت ہو نعمتیں ہوں یا دکھ تکلیف ہو اور کلفتیں ہوں ہر حال میں اس کے لیے نفع ہے۔ حضرت صہیب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مومن کا معاملہ عجب ہے۔ اس کی ہر حالت خیر ہے۔ اور یہ مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں اگر مومن کو خوش کرنے والی حالت پہنچ گئی تو اس نے شکر کیا جو اس کے لیے بہتر ہوا اور اگر اس کو تکلیف دینے والی حالت پہنچ گئی تو اس نے صبر کیا یہ بھی اس کے لیے بہتر ہوا۔ (رواہ مسلم ص 413 ج 2) صحیح بخاری ص 958 ج 2 میں ہے کہ ولن تعطوا عطاء خیر او اوسع من الصبر (یعنی تم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے صبر سے بہتر اور وسیع کوئی چیز نہیں دی گئی۔ ) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو چار چیزیں عطا کردی گئیں اسے دنیاو آخرت کی بھلائی دے دی گئی۔ 1۔ شکر گزار دل، 2۔ ذکر کرنے والی زبان۔ 3۔ مصیبت پر صبر کرنے والا بدن، 4۔ ایسی بیوی جو اپنی جان کے بارے میں اور شوہر کے مال کے بارے میں شوہر کی خیانت نہ کرے۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان کما فی المشکوٰۃ ص 283) صبر میں تھوڑی سی تکلیف تو ہوتی ہے مگر اس کے بعد نعمتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور وہ کچھ ملتا ہے جس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ تکلیفیں تو سبھی کو پہنچتی ہیں۔ مومن ہو یا کافر نیک ہو یا بد۔ فرق اتنا ہے کہ جو لوگ صبر کرلیتے ہیں وہ ثواب بھی لیتے ہیں اور آئندہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد رحمت اور نصرت کے دروازے بھی ان کے لیے کھل جاتے ہیں۔ جو لوگ صبر نہیں کرتے واویلا کرتے ہیں چیختے چلاتے ہیں۔ اللہ پر اعتراض کرتے ہیں اور اس کی قضا اور قدر پر راضی نہیں ہوتے تکلیف بھی اٹھاتے ہیں اور ثواب سے بھی محروم ہوتے ہیں اور اللہ پر اعتراض کر کے کافر ہوجاتے ہیں۔ اور درحقیقت اصل مصیبت زدہ وہی لوگ ہیں جو ثواب سے بھی محروم رہتے ہیں۔ وانما المصاب من حرم الثواب۔ (رواہ البیہقی فی دلائل النبوۃ) جس نے اپنی تکلیف پر صبر کرکے ثواب لے لیا آخرت میں درجات بلند کروا لیے اس کی تکلیف کوئی تکلیف نہیں ہے کیونکہ اسے اس تکلیف کی قیمت مل گئی۔ دنیا میں دیکھتے ہیں کہ مہینہ بھر ملازمت کی ڈیوٹی انجام دینے کے لیے تکلیف اٹھاتے ہیں۔ مزدور دن بھر دھوپ میں کام کرتے ہیں لیکن چونکہ ان سب کا معاوضہ مل جاتا ہے اس لیے یہ تکلیف خوشی سے برداشت کرلیتے ہیں اور اس کو تکلیف سمجھا ہی نہیں جاتا۔ دفع مصائب کے لیے نماز : صبر کے ساتھ نماز کا تذکرہ بھی فرمایا اور نماز کے ذریعہ بھی مدد حاصل کرنے کا حکم فرمایا۔ نماز بھی اللہ کی مدد اور نصرت لانے کے لیے بہت بڑی چیز ہے۔ اور ہر طرح کی پریشانیاں دور کرنے کے لیے اکسیر ہے۔ حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب کوئی مشکل پیش آجاتی تھی تو نماز میں مشغول ہوجاتے تھے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 117) نماز فرض کا تو بہر حال اہتمام ہوتا ہی تھا۔ مشکلات سے نکلنے کے لیے اور حاجات پوری کرانے کے لیے آنحضرت سرور عالم ﷺ خصوصیت کے ساتھ نفل نماز میں مشغول ہوجاتے تھے صلوٰۃ الحاجت، صلوٰۃ الاستخارہ۔ صلوٰۃ التوبہ۔ صلوٰۃ الاستسقاء (بارش طلب کرنے کی نماز) یہ سب رسول اللہ ﷺ سے مروی ہیں۔ جو اللہ کی رحمت اور نصرت کرنے کے لیے مشروع کی گئی ہیں۔ اس سلسلہ کی بعض روایات آیت کریمہ (وَاسْتَعِیْنُوْا بالصَّبْرِ وَ الصَّلوٰۃِ ) کے ذیل میں گزر چکی ہے لوگوں کا یہ طریقہ ہے کہ کوئی مصیبت آجائے دنیا بھر کی تدبیریں کرتے ہیں اور مخلوق سے مدد چاہتے ہیں لیکن صبر اور صلوٰۃ کو مدد حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بناتے بلکہ اس کے برعکس بےصبری کرتے ہیں اور تھوڑے بہت چند افراد جو نمازیں پڑھتے ہیں وہ فرض نمازیں بھی چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ نفل نمازوں میں لگنے کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ اور جن گناہوں میں مبتلا تھے ان سب گناہوں میں بھی لگے رہتے ہیں۔ پھر رحمت اور نصرت کیسے ملے ؟ آخر میں فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ) کہ اللہ تعالیٰ صابروں کے ساتھ ہے۔ صابروں کے لیے یہ کتنی بڑی سعادت ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہے۔ اگر حکومت کا کوئی معمولی درجہ کا آدمی بھی یقین دلا دے کہ فکر نہ کرو میں تمہارے ساتھ ہوں تو اس سے بڑی ڈھارس بندھ جاتی ہے۔ طبیعت میں بڑا اطمینان ہوجاتا ہے۔ لیکن اللہ جل شانہ نے جو وعدہ فرمایا کہ میں صبر والوں کے ساتھ ہوں اس وعدہ پر عموماً لوگ یقین نہیں رکھتے اور صبر کے موقع میں بےصبری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ درحقیقت مومن کو کسی بھی جگہ ناکام ہونے اور گھبرانے کا کوئی موقع نہیں اللہ تعالیٰ کے ذکر و شکر میں اور صبر و صلاۃ میں لگا رہے پھر اس کے لیے کامیابی ہی کامیابی ہے۔
Top