Al-Quran-al-Kareem - Al-Waaqia : 88
فَاَمَّاۤ اِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ
فَاَمَّآ : پھر اگر اِنْ كَانَ : اگر ہے وہ مِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ : مقربین میں سے
پس لیکن اگر وہ ان لوگوں سے ہوا جو قریب کیے ہوئے ہیں۔
فَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ۔۔۔۔:”فروح“ اور ”ریحان“ پر تنوین تعظیم کے لیے ہے۔ ’ ’ روح“ کے معنی ہیں راحت ، خوشی اور رحمت اور ”ریحان“ ہر خوشبو دار پودے اور پھول کو کہتے ہیں۔ ”ریحان“ کا ایک معنی رزق بھی ہے۔ سورت کے آخر میں تینوں گروہوں کا جان کنی کے وقت کا حال بیان فرمایا۔ مقصد ترغیب و ترہیب ہے ، یعنی اگر مرنے والا مقربین سے ہوا تو مرتے وقت اس کے لیے عظیم راحت ، خوشی اور اللہ کی رحمت ہے ، خوشبو دار پھول ہیں اور نعمتوں سے بھری ہوئی جنت ہے۔ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :(المیت تحضرہ الملائکۃ فاذا کان الرجل صالحا ًقالوا اخرجی ایتھا النفس الطیبۃ ! کانت فی الجسد الطیب ، اخرجی حمیدۃ وابشری بروح و ریحان ورب غیر غضبان فلا یزال یقال لھا ذلک حتی تخرج ثم یعرج بھا الی السماء فیفتح لھا فیقال من ھذا ؟ فیقولون فلان ، فیقال مرحبا ًبالنفس الطیبۃ کانت فی الجسد الطیب ادخلی حمیدہ وابشری بروح وریحان ورب غیر غضبان ، فلا یزال یقال لھا ذلک حتی ینتھی بھا الی السماء النبی فیھا اللہ عزوجل) (ابن ماجہ ، الزھد ، باب ذکر الموت والاستعداد لہ ، 4262، وقال الالبانی صحیح)”مرنے والے کے پاس فرشتے آتے ہیں جب آدمی صالح ہو تو وہ کہتے ہیں :”نکل اے پا ک جان جو پاک جسم میں تھی ! نکل ، تو تعریف والی ہے اور عظیم راحت کی اور خوشبو دار پھولوں کی اور غصے نہ ہونے والے رب کی خوش خبری پر خوش ہوجا“۔ وہ اسے یہی کہتے رہتے ہیں حتی کہ وہ نکل آتی ہے ، پھر اسے آسمان کی طرف اوپر لے جایا جاتا ہے اور اس کے لیے دروازہ کھولا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے :”یہ کون ہے“ وہ کہتے ہیں :”فلاں ہے“۔ تو کہا جاتا ہے : ”اس پاک جان کو مرحبا جو پاک جسم میں تھی ، اندر آجاء ، تو تعریف والی ہے اور عظیم راحت کی اور خوشبو دار پھولوں کی اور غصے نہ ہونے والے رب کی خوش خبری پر خوش ہوجا“۔ پھر اسے یہی الفاظ کہتے رہتے ہیں ، حتیٰ کہ اسے اس آسمان تک پہنچا دیا جاتا ہے جس میں اللہ عزوجل ہے“۔
Top