Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 65
قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰۤى اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ یَلْبِسَكُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ١ؕ اُنْظُرْ كَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّهُمْ یَفْقَهُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں هُوَ : وہ الْقَادِرُ : قادر عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ يَّبْعَثَ : بھیجے عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابًا : عذاب مِّنْ : سے فَوْقِكُمْ : تمہارے اوپر اَوْ : یا مِنْ : سے تَحْتِ : نیچے اَرْجُلِكُمْ : تمہارے پاؤں اَوْ يَلْبِسَكُمْ : یا بھڑا دے تمہیں شِيَعًا : فرقہ فرقہ وَّيُذِيْقَ : اور چکھائے بَعْضَكُمْ : تم میں سے ایک بَاْسَ : لڑائی بَعْضٍ : دوسرا اُنْظُرْ : دیکھو كَيْفَ : کس طرح نُصَرِّفُ : ہم پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیات لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَفْقَهُوْنَ : سمجھ جائیں
(اے پیغمبر اسلام ! ) تم کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر اوپر (یعنی آسمان) سے کوئی عذاب بھیج دے یا تمہارے پاؤں تلے سے کوئی عذاب اٹھا دے یا ایسا کرے کہ تم گروہ گروہ ہو کر آپس میں لڑ پڑو اور ایک دوسرے کی شدت کا مزہ چکھو سو دیکھو کس طرح ہم گوناگوں طریقوں سے آیتیں بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں بوجھیں
اے پیغمبر اسلام ! تم کہہ دو وہ قادر ہے کہ تم پر اوپر سے کوئی عذاب بھیج دے : 101: اس آیت میں عذاب الٰہی کی تین قسموں کا ذکر کیا گیا۔ ایک وہ عذاب جو اوپر سے آئے۔ دوسرے وہ عذاب جو نیچے سے آئے اور تیسرا وہ عذاب جو اپنی قوم یا نسل انسانی کے اندر سے پھوٹ پڑے۔ پھر ان تینوں ہی قسموں کے عذاب دیئے گئے ، دیئے جا رہے ہیں اور دیئے جائیں گے۔ اگر کوئی فرق ہے تو صرف یہ کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی بعثت کے زمانہ میں علاقہ و قوم کا نبی اپنے مخالفین کو حکم الٰہی کے مطابق آگاہ کردیتا تھا جس کیلئے وقت اور تاریخ کا اعلان ہوجاتا تھا اور پھر وہ عذاب جو وقت اور تاریخ کے ساتھ اعلان کردیا جائے وہ اس تاریخ اور وقت پر آدھمکتا اور لوگوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیتا تھا اب جب کہ انبیاء کا دور ختم ہوگیا تو اس طرح اس کا اعلان نہیں کیا جاتا۔ پھر مفسرین نے ان تینوں عذابوں کی مختلف کیفیتیں بھی بیان کی ہیں کہ اوپر سے عذاب کا مطلب کیا ہے اور نیچے سے عذاب کا مطلب کیا اور اس میں اختلاف بھی موجود ہے۔ قرآن کریم کی آیات سے جو ہماری تفہیم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اوپر سے عذاب وہ آسمانی بلیات ہیں اور نیچے سے عذاب کا مطلب مختلف وباؤں کا پھوٹنا ، طغیانی اور طوفان کا اٹھنا اور اندورنی عذاب نسل انسانی کا جنگ وجدال ہے۔ اس جگہ ان تینوں مختلف عذابوں کی ایک ایک مثال اس آیت کے تحت بیان کی جائے گی تاکہ عبرت حاصل ہو۔ اوپر کے عذابوں کا بیان قرآن کریم میں ہوا ان ہی سے قوم عاد ، قوم ثمود اور قوم لوط کی مثالیں قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں ہم اس جگہ مختصر سے مختصر ذکر قوم عاد کے عذاب کا کرتے ہیں جو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے : قوم عاد ایک بت پرست قوم تھی ، عاد کا مسکن ارض احقاف ہے جو حضر موت کے شمال میں اسطرح واقع تھا کہ مشرق میں عمان اور شمال میں ربع الخالی خلیج فارس سے عراق تک وسیع تھا۔ یہ لوگ اپنے بزرگوں کے مجسمے تیار کر کے ان کی پرستش کرتے تھے۔ اس قوم کی طرف ہود (علیہ السلام) کو نبی مبعوث کیا گیا۔ انہوں نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی عبادت کی طرف دعوت دی۔ قوم عاد نے جب سناتو وہ عجیب حیرت میں پڑگئے۔ ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ ایک اللہ کی عبادت چہ معنی دارد ؟ وہ غم و غصہ میں آگئے کہ کس طرح ہم باپ دادا کی ریت یعنی بزرگوں کے بتوں کی پرستش کو چھوڑ دیں ؟ یہ تو ہماری اور ہمارے باپ دادا کی سخت توہین ہے۔ ان کا غیظ و غضب بھڑک اٹھا کہ ان کی یاد کو تازہ کرنے کیلئے تراشتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہود (علیہ السلام) کی دعوت کو مان لینا ان کے معبودوں اور بزرگوں کی توہین و تحقیر تھی جن کو وہ ” الہٰ “ کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ اور شفیع مانتے تھے اور اس لئے ان کی پرستش کرتے تھے کہ وہ خوش ہو کر ہماری سفارش کریں گے اور عذاب الٰہی سے نجات دلائیں گے۔ ہود (علیہ السلام) ایک مدت تک تبلیغ کا فرض انجام دیتے رہے لیکن اس سے ان کی سرکشی مزید بڑھتی گئی اور سوائے چند معدودے آدمیوں کے اکثریت ان سے بگڑ گئی اور جب ہود (علیہ السلام) نے عذاب الٰہی سے ان کو ڈرایا تو وہ بپھر گئے کہ تو نے ہم کو عذاب الٰہی کی دھمکی دی ہے ہم سے تیری یہ روز روز کی نصیں ودت نہیں سنی جا سکتیں اگر تو اپنی بات میں سچا ہے تو وہ عذاب جلد لے آ کہ ہمارا تیرا قصہ پاک ہو اور یہ روز روز کی فرخش ختم ہوجائے۔ ہود (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اگر میری مخلصانہ اور صادقانہ نصائح کا یہی جواب ہے تو بسم اللہ ، تم کو عذاب کا اگر اتنا ہی شوق ہے تو وہ کچھ دور نہیں۔ جن کی تم پرستش کرتے ہو ان کے نام تو تم نے اور تمہارے آباء و اجداد نے خود گھڑے ہیں اور اس من گھڑت طریقہ سے تم ان کو اپنا شفیع اور سفارشی مانتے ہو اور میرے روشن دلائل سے انحراف اور سرکشی کر کے عذاب کے طالب ہوتے ہو اگر ایسا ہی شوق ہے تو اب تم بھی انتطار کرو اور میں بھی انتظار کرتا ہوں کہ وہ وقت کب آتا ہے جس سے تمہارا تیاپانچہ کردیا جاتا ہے یا تکہ بوٹی ہوتی ہے۔ الحاصل قوم ہود جن کو عاد کہا جاتا تھا کی انتہائی شرارت وبغاوت اور اپنے پیغمبر کی تعلیم سے بےپناہ بغض وعناد کی پاداش عمل اور قانون جزاء کا وقت آپہنچا اور غیرت حق حرکت میں آئی اور عذاب الٰہی نے سب سے پہلے خشک سالی شکل اختیار کی۔ عاد سخت گھبرائے ، پر یسان ہوئے اور عاجز و درماندہ نظر آنے لگے تو حضرت ہود علہا اسلام کو جوش ہمدردی نے اکسایا اور مایوسی کے بعد پھر ایک مرتبہ ان کو سمجھایا کہ راہ حق اختیار کرلو ، میری نصائح پر ایمان لے آؤ کہ یہی نجات کی راہ ہے ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ورنہ پچھتاؤ گے۔ لیکن بدبخت و بدنصیب قوم پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ بغض وعناد اور دوبالا ہوگیا تب ہولناک عذاب نے ان کو آگھیرا۔ آٹھ دن اور سات راتیں پہیم تیز و تند ہوا کے طوفان اٹھے اور ان کو اور ان کی آبادی کو تہ بالا کر کے رکھ دیا۔ تنومند اور قوی ہیکل انسان جو اپنی جسمانی قوتوں کے گھمنڈ سر مست سرکش تھے اس طرح بےحس و حرکت پڑے نظر آتے تھے جس طرح آندھی سے تن آور درخت بےجان ہو کر گر جاتا ہے۔ غرض ان کو صفحہ ہستی سے مٹادیا گیا ہے تاکہ آنے والی نسلوں کے لئے عبرت بنیں اور دنیا و آخرت کی لعنت کا عذاب ان پر مسلط کردیا گیا کہ وہ اس کے مستحق تھے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کے اس واقعہ کو قرآن کریم میں سورة الاعراف آیت 65 سورة ہود کی آیات 50 سے 89 اور سورة الشعراء کی آیت 134 میں بیان کیا گیا ہے۔ اللہ اپنے قانوں کے مطابق تمہارے نیچے ہی سے عذاب کھڑا کرسکتا ہے : 102: نیچے سے عذاب الٰہی کی مثالیں نوح (علیہ السلام) کے مشہور سیلاب اور فرعون اور اسکی قوم کے غرق ہونے سے دی جاسکتی ہیں اس جگہ مختصر ذکر غرق فرعون ہی کا کیا جاتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے رسول اور فرعون کی داستان سے کون واقف نہیں ، بچہ بچہ کی زبان پر ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون اور اسکی قوم نے مصر میں غلام بنا رکھا تھا اور اس قوم پر اس نے وہ زیادتیاں کیں جن کا نام سن کر قوی سے قوی۔ قوی دل بھی کانپ اٹھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو زندہ کرنے کے لئے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو نبی بنا کر فرعون کی طرف بھیجا گیا لیکن فرعون نے سیدھے منہ بات کرنا بھی پسند نہ کیا۔ ایک عرصہ تک اس دعوت کا سلسلہ جاری رہا جب فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی کوئی بات بھی نہ مانی تو انجام کار موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل قوم کو مصر سے لے جانے کی ٹھان لی۔ فرعون نے بنی اسرائیل کونہ نکلنے دینے کے سارے سامان کر لئے لیکن اس کے باوجود وہ وقت آیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کی اکثریت کو لے کر مصر سے نکل گئے ، آپ ﷺ بحر احمر یا بحر قلزم کے راستے سمندر پار کرنا چاہتے تھے کہ فرعون کو بھی آپ کا نکلنا معلوم ہوگیا۔ اس نے اپنے ایک بڑے لشکر کے ساتھ ان پر پیچھے سے حملہ کردیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) سمندر تک ابھی پہنچے ہی تھے کہ پیچھے سے فرعون کا لشکر بھی گرد اڑاتے چلا آتا نظر آیا۔ بنی اسرائیل گھبرائے لیکن موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو تسلی دی کہ میں اپنے ارادے سے نہیں نکلا بلکہ اللہ کے فرمان کے مطابق خروج کیا ہے۔ مختصر یہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اس جگہ سے سمندر پار کرنے کا حکم دیا جہاں سے وہ پایاب تھا اور حکم الٰہی کے مطابق اپنی لاٹھی سے ان کی نشاندہی بھی کردی کہ اس سے اس جگہ تک تمہارے پار ہونے کی جگہ ہے بس اللہ کا نام لے کر اس طرح پار نکل جاؤ جس طرح ایک صحرا سے آدمی نکل جاتا ہے۔ جب بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) کے نشان زدہ راستہ سے نکل رہے تھے تو فرعون اور اس کے لشکر نے بھی ان کا پیچھا شروع کردیا بلکہ قوم کو للکار کر کہا کہ بس اب بنی اسرائیل مارے گئے ، پکڑے گئے دیکھتے کیا ہو آگے بڑھو اور اس بحر میں ان کو دھر رکھو اللہ تعالیٰ کی کرشمہ سازی دیکھو کہ جب اس کا پورا لشکر سمندر میں اتر گیا تو اس کا حکم ان کی غرقابی کا نافذ ہوگیا۔ اللہ نے ان سب کو پانی کی منجھدار میں اسطرح پھنسا دیا کہ ان کے لیڈر سمیت ہزاروں کو غرق کر کے رکھ دیا اور بنی اسرائیل کی آنکھوں کے سامنے ان کو وہ ڈبکیاں دیں کہ وہ بنی اسرائیل کو پکڑتے پکڑتے ہی خود ہی قانون الٰہی کی پکڑ میں آگئے اور ایسے آئے کہ شاید ہی ان میں سے کوئی جان بچا کر نکل سکا ہو۔ فرعون کے منہ میں پانی کے دو گھونٹ گئے تو وہ تائب ہونے لگا لیکن اب وہ وقت نکل چکا تھا اور اس کی جان کو امان دینا قانون خداوندی کے خلاف تھا۔ حکم ہوا ! اے فرعون ! اب تیری اپیل سے بھی تیری جان کو امان تو نہیں مل سکتی لیکن تیری نعش کو درس عبرت بنانے کے لئے ایک عرصہ تک ہم محفوظ کردیں گے تاکہ آنے والی قوموں کو یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کو عذاب میں مبتلا کرنے کے لئے کہیں سے لاؤ لشکر لانے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ وہی چیزیں جن پر اس کی زندگی کی بقاء کا انحصار ہوتا ہے وہی اس کی ہلاکت کا باعث بنا کر رکھ دی جاتی ہیں اور قوموں کا عروج وزوال بھی اسی طرح معرض وجود میں آجاتا ہے کیونکہ ہرچیز اس کے حکم تکوینی کی پابند ہے۔ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔ عذاب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ تم گروہ بندیوں میں تقسیم ہو کر رہ جاؤ : 103: عذاب الٰہی کی یہ تیسری صورت پہلی دونوں صورتوں سے زیادہ خطرناک اور زیادہ ہلاکت انسان کی باعث ہوئی لیکن افسوس کہ انسانوں نے بہت کم اس عذاب الٰہی کو سمجھا۔ اس کی داستانیں اتنی لمبی ہیں کہ اس عذاب الٰہی سے دنیا کی تاریخ بھری پڑی ہے اور ہر روز اس میں ہزاروں صفحات کا اصافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اس میں سے کسی ایک واقعہ کا انتخاب بھی اتنا مشکل ہے جتنا کہ اس کا شمار کرنا مشکل ہے تاہم ایک مختصر سا واقعہ نقل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اگر کسی نے بغور پڑھا تو انشاء اللہ بہت مفید رہے گا۔ لیکن کوئی پڑھے گا بھی ؟ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔۔۔۔۔ آریہ اور منگوں قومول کا شمار دنیا کی بڑی قوموں میں ہوتا ہے۔ ظہور اسلام سے قبل منگولیا کا آخری قبائلی سیلاب وہ تھا جو چوتھی صدی مسیح میں مغرب و شمال کی طرف پھیلنا شروع ہوا اور یورپ کے مختلف قطعات میں منقسم ہو کر تھم گیا۔ اس کے بعد ان قبائل کے نئے سیلابوں کا خروج رک گیا۔ اسلام آیا اور پھر اسلامی فتوحات کا دور شروع ہوا تو انہی قبائل کو وہاں آباد پایا جو آہستہ آہستہ مسلمان ہوتے گئے چناچہ ترک ، خزر ، قجر ، تاجیک ، چرکس ، کرد زبک اور سلجوق وغیرہ سے مقصود یہی قبائل ہیں۔ مسلمانوں کا زور بھی آہستہ آہستہ کمزور ہوتا گیا۔ حتی کہ چھٹی صدی ہجری میں اصل منگول قوم جو ابھی تک اپنے علاقے میں آباد تھی اس کا زور شروع ہوا اور ان مختلف منگول قبائل کو اکٹھا کر کے مشہور سنگدل سردار چنگیز خاں ایک ایسا منظم سیلاب لایا جس کو دنیا کی کوئی طاقت روک نہ سکی۔ چنگیز خاں کے بیٹے اوکتائی خان کے عہد میں اس سیلاب کا بند ٹوتا اور پھر اس طرح ہر طرف پھیل گیا گویا دنیا اپنی بربادی کے لئے صرف اسی بند کے ٹوٹنے کی منتظر تھی۔ اس سیلاب کے انقلاب حال کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس سے عرب خلافت کا مکمل خاتمہ ہوگیا۔ اس آہ وفغاں کے لئے ہم نے اسکو اس جگہ درج کرنے کے لئے انتخاب کیا کیونکہ اسلام کامورخ کبھی اس واقعہ کے ماتم سے فارغ نہیں ہو سکتا کہ تاتاریوں کی ابتدائی تاخت اور آخری تاخت دونوں کا باعث خود مسلمانوں کی فرقہ بندی اور اس کی جاہلی عصبیت ہوئی یعنی بربادی کا پہلا دروازہ حنفیوں اور شافعیوں کے باہمی جدال سے کھلا اور بربادی کی آخری تکمیل یعنی بغداد کا قتل عام سنیوں اور شیعوں کے اختلاف کا نتیجہ تھا۔ بلاشبہ چنگیز خاں سے وسط ایشیاء کا بالائی علاقہ خوارزم تک فتح کرلیا تھا لیکن وہ اس سے آگے قدم نہ بڑھا سکا بعد میں جب اس کے پوتوں میں سلطنت تقسیم ہوئی تو وسط ایشیا اور اس کے ملحقات ہلاکو خاں کے زیر حکومت آئے لیکن اسے بھی آگے بڑھنے کی جرات نہ ہوئی کیونکہ اسلامی مملکتوں کی شش صد سالہ عظمت کا رعب ابھی تک دلوں سے محو نہیں ہوا تھا مگر اس اثناء میں اچانک ایک واقعہ ایسا پیش آیا جس نے خود بخود ہلاکو کے آگے فتح و تسخیر کی راہیں کھول دیں۔ خراسان میں حنفیوں اور شافعیوں میں باہمی جنگ وجدال کا بازار گرم تھا۔ طوس کے حنفیوں نے شافعیوں کی ضد میں آکر ہلاکو کو حملہ کی دعوت دی اور اس کے لئے شہر کے دروازے کھول دیئے پھر جب تاتاریوں کی تلوار چمک گئی تو اس نے نہ حنفیوں کی چھوڑا نہ شافعیوں کو دونوں کا خاتمہ کردیا۔ اس طرح خراسان کی تسخیر نے بغداد کی شاہراہ کھول دی تھی۔ پھر بھی ہلاکو اس کی جرات نہ کرسکا کہ عباسی دار الخلافہ پر حملہ کرے لیکن اب پھر خود مسلمانوں کے باہمی قتال نے اسے بلوا بھیجا۔ بغداد سنیوں اور شیعوں کے باہمی پیکار کا میدان جنگ بن چکا تھا۔ خلیفہ معتصم کا وزیر ابن علقمی شیعہ تھا اور سنیوں کے ہاتھوں اذیتیں برداشت کرچکا تھا۔ اس نے خواجہ نصیر الدین طوس کے ذریعہ جو ہلاکو کا وزیر اور معتمد تھا ہلاکو کو بغداد آنے کی ترغیب دی اور اس طرح تاریخ اسلام کی سب سے بڑی بربادی اپنی آخری تکمیل تک پہنچ گئی۔ آج تاریخی حیثیت سے یہ واقعہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ چنگیز خاں کو خوار زم پر حملہ کرنے کی ترغیب خود خلیفہ الناصر الدین اللہ عباسی نے دی تھی کیونکہ سلجوقیوں کے بعد خوارزم شاہیوں کا اقتدار قائم ہوگیا تھا ، خلیفہ بغداد اس اقتدار کی وجہ سے سخت تنگی میں تھا۔ چنگیز خاں کا نام تیموجن تھا۔ 601 ھ مطابق 1602 ء میں اس نے چنگیز خاں کا شہنشاہی لقب اختیار کیا 614 ھ بمطابق 1219 ء میں خوارزم فتح کرلیا اس کا سال وفات 622 ھ 1227 ہے۔ اس کے بعد اس کا بیٹا اوکتائی خاں جانشین ہوا اوکتائی کے بعد منکوخاں اور منکو کے بعد قبلائی اور قبلائی کے بعد ہلاکو کے حصے میں وسط ایشیاء آیا اس نے 656 ھ بمطابق 1258 میں بغداد پر حملہ کیا اور عربی خلافت کا آخری نقش قدم بھی مٹ گیا۔ اس وقت سے آج تک جو کچھ ہوتا چلا آرہا ہے یہ سب کچھ سورج کی طرح عیاں ہے اور اس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس میں بھی خود مسلمانوں کا اپنا ہاتھ سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ اس ملک پاکستان کی سیاسی ، مذہبی گروہ بندی کا حال بھی سب کی آنکھوں کے سامنے ہے اسکی تفصیل کی ضرورت نہیں اس جگہ ایک بار زیر نظر آیت کو پھر دیکھ لیں۔ فرمایا۔ قُلْ ہُوَ الْقَادِرُ عَلٰۤى اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ یَلْبِسَكُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ 1ؕ اُنْظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّهُمْ یَفْقَهُوْنَ 0065 ( الانعام 6 : 65) ” (اے پیغمبر اسلام ! ) تم کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر اوپر (یعنی آسمان) سے کوئی عذاب بھیج دے یا تمہارے پاؤں تلے سے کوئی عذاب اٹھا دے یا ایسا کرے کہ تم گروہ گر [ 1 ] وہ ہو کر آپس میں لڑ پڑو اور ایک دوسرے کی شدت کا مزہ چکھو سو دیکھو کس طرح ہم گوناگوں طریقوں سے آیتیں بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں بوجھیں۔ “ دیکھو کس طرح گوناں گوں طریقوں سے آیتیں بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں : 104: اوپر جو کچھ بیان ہوا وہ اتنا مختصر ہے کہ شاید کوئی اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکے گا یا نہیں ؟ اچھی طرح سمجھ لینے اور یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اس وقت تک جتنی خرابیاں معرض وجود میں آئیں ان کا اصل باعث وسبب اختلاف رائے ہے یا اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے یہ محض اس لئے ہے کہ سیاسی بصیرت رکھنے والوں اور مذہبی بصیرت رکھنے والوں میں اختلاف رائے موجود ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو حالات اس سے مختلف ہوتے۔ ہم آپ کی اس رائے سے کبھی متفق نہیں ہو سکتے۔ ہمارے خیال میں اختلاف رائے کا ہونا نہ برا ہے اور نہ مہلک بلکہ بعض اوقات اس کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں اس لئے کہ اختلاف رائے فطری چیز ہے اور فطری چیز کو ختم کردینا کبھی محمود نہیں ہو سکتا۔ ہماری رائے میں جو چیز مہلک ہے وہ صرف ایک دوسرے کے اختلاف کو برداشت نہ کرنے کا مرض ہے۔ آپس کا سارا جنگ وجدال محض اختلاف کے برداشت نہ کرنے کے باعث ہے۔ مثلاً حنفیوں اور شافعیوں میں اختلاف تھا اگر وہ اس کو برداشت کرتے اور دونوں ایک دوسرے کے جواب تک ہی محدود رہتے اور جو ان کے ذہن میں حق تھا اس پر عمل کرتے رہتے تو وہ حالت پیدا ہوتی جس سے وہ دوچار ہوئے ؟ اس طرح بغداد میں سنیوں اور شعیوں میں جو اختلاف تھا اگر وہ اختلاف تک محدود رہتا۔ وہ ضد ، ہٹ دھرمی اور ایک دوسرے کو مٹا دینے کا تصور اختیار نہ کرتا تو اس کا وہ نتیجہ برآمد ہوتا جو اس وقت ہوا ؟ جس طرح فطری بداعتدالی بری چیز ہے بالکل اسی طرح فطری رکاوٹ بھی بری چیز ہے جس طرح فطری بداعتدالیوں کے کبھی نتائج اچھے نہیں نکل سکتے اسی طرح فطری رکاوٹوں کے نتایج بھی کبھی اچھے نہیں نکل سکتے۔ بدقسمتی سے ہماری ہر سوچ الٹی ہے اور اس کا کوئی رخ بھی سیدھا ہونے میں نہیں آتا۔ قرآن پڑھتے ہیں ، حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں۔ وعظ کہتے ہیں اور وعظ سنتے ہیں لیکن مخالف کو برداشت کرنا ہمارے بس کی بات نہیں اور مزید بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے واعظ اور مذہبی پیشوا بھی ہمیں یہ بات اچھی طرح یاد کراتے ہیں کہ مخالف کے وجود کو ختم کردینا جنت کا مستحق ہونا ہے۔ حالانکہ یہ بات اتنی ہی غلط ہے جتنی کہ ” گدھے کے سر پر سینگ “ اگر میری قوم مسلم کو مخالف کے وجود کو برداشت کرنا آجائے اور مخالف کے ساتھ پیار کرنا آجائے تو یہ خود بخود زندہ قوم بن جائے بشرطیکہ برداشت کرنا بےغیرتی کا برداشت کرنا نہ ہو اور یہ پیار کرنا اندھوں جیسا پیار نہ ہو کیونکہ ہر رحمت اپنی حدتک رحمت ہوتی ہے اگر حد سے تجاوز کر جائے تو وہ زحمت بن کر رہ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ عطا فرمادے۔ آمین اس آیت 65 کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کے احکام سے سرتابی کر کے انسان امن و عافیت کی زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ کبھی اوپر سے بجلی کڑک رہی ہے۔ موسلادھار بارشیں سیلاب کی صورت اختیار کر کے قیامت ڈھارہی ہیں۔ تو پیں آگ اگل رہی ہیں ، بلند پرواز طیارے اور راکٹ بم اور ایٹم بم برسا رہے ہیں۔ کبھی نیچے سے باردوی سرنگیں پھٹ رہی ہیں۔ آبدوز کشتیاں سمندر کی گہرائیوں سے ابھر کر بھاری بھرکم جہازوں کو اڑا رہی ہیں۔ کہیں زلزلے آباد شہروں کو کھنڈرات میں بدل رہے ہیں۔ علاوہ ازیں سخت تر عذاب یہ ہے کہ آپس میں انتشار اور بےاتفاقی کی وبا پھوٹ پڑتی ہے۔ ایک قوم کے فرزند ، ایک ملت کے افراد مختلف ٹولیوں اور فرقوں میں بٹ جاتے ہیں۔ کہیں مذہب وجہ فساد بن جاتا ہے اور کہیں سیاست باعث انتشار۔ اپنوں کی عزت کو اپنے ہاتھوں خاک میں ملا دینا بڑا کارنامہ تصور کیا جاتا ہے۔ اوروں کو رہنے دیجئے ، اپنے گھر کا حال دیکھئے جب سے ہم نے صرا ط مستقیم سے انحراف کیا ہم کن پستیوں میں دھکیل دیئے گئے ہیں۔ ایک رب ، ایک رسول ، ایک کتاب ، ایک کعبہ پر ایمان رکھنے والے کس نفاق اور انتشار کا شکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال زار پر رحم فرمائے۔ ہم کیا تھے اور کیا ہو کر رہ گئے ؟ اور کیا سے کیا ہوتے چلے جا رہے ہیں ؟
Top