Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 65
قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰۤى اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ یَلْبِسَكُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ١ؕ اُنْظُرْ كَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّهُمْ یَفْقَهُوْنَ
قُلْ
: آپ کہ دیں
هُوَ
: وہ
الْقَادِرُ
: قادر
عَلٰٓي
: پر
اَنْ
: کہ
يَّبْعَثَ
: بھیجے
عَلَيْكُمْ
: تم پر
عَذَابًا
: عذاب
مِّنْ
: سے
فَوْقِكُمْ
: تمہارے اوپر
اَوْ
: یا
مِنْ
: سے
تَحْتِ
: نیچے
اَرْجُلِكُمْ
: تمہارے پاؤں
اَوْ يَلْبِسَكُمْ
: یا بھڑا دے تمہیں
شِيَعًا
: فرقہ فرقہ
وَّيُذِيْقَ
: اور چکھائے
بَعْضَكُمْ
: تم میں سے ایک
بَاْسَ
: لڑائی
بَعْضٍ
: دوسرا
اُنْظُرْ
: دیکھو
كَيْفَ
: کس طرح
نُصَرِّفُ
: ہم پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں
الْاٰيٰتِ
: آیات
لَعَلَّهُمْ
: تاکہ وہ
يَفْقَهُوْنَ
: سمجھ جائیں
(اے پیغمبر اسلام ! ) تم کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر اوپر (یعنی آسمان) سے کوئی عذاب بھیج دے یا تمہارے پاؤں تلے سے کوئی عذاب اٹھا دے یا ایسا کرے کہ تم گروہ گروہ ہو کر آپس میں لڑ پڑو اور ایک دوسرے کی شدت کا مزہ چکھو سو دیکھو کس طرح ہم گوناگوں طریقوں سے آیتیں بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں بوجھیں
اے پیغمبر اسلام ! تم کہہ دو وہ قادر ہے کہ تم پر اوپر سے کوئی عذاب بھیج دے : 101: اس آیت میں عذاب الٰہی کی تین قسموں کا ذکر کیا گیا۔ ایک وہ عذاب جو اوپر سے آئے۔ دوسرے وہ عذاب جو نیچے سے آئے اور تیسرا وہ عذاب جو اپنی قوم یا نسل انسانی کے اندر سے پھوٹ پڑے۔ پھر ان تینوں ہی قسموں کے عذاب دیئے گئے ، دیئے جا رہے ہیں اور دیئے جائیں گے۔ اگر کوئی فرق ہے تو صرف یہ کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی بعثت کے زمانہ میں علاقہ و قوم کا نبی اپنے مخالفین کو حکم الٰہی کے مطابق آگاہ کردیتا تھا جس کیلئے وقت اور تاریخ کا اعلان ہوجاتا تھا اور پھر وہ عذاب جو وقت اور تاریخ کے ساتھ اعلان کردیا جائے وہ اس تاریخ اور وقت پر آدھمکتا اور لوگوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیتا تھا اب جب کہ انبیاء کا دور ختم ہوگیا تو اس طرح اس کا اعلان نہیں کیا جاتا۔ پھر مفسرین نے ان تینوں عذابوں کی مختلف کیفیتیں بھی بیان کی ہیں کہ اوپر سے عذاب کا مطلب کیا ہے اور نیچے سے عذاب کا مطلب کیا اور اس میں اختلاف بھی موجود ہے۔ قرآن کریم کی آیات سے جو ہماری تفہیم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اوپر سے عذاب وہ آسمانی بلیات ہیں اور نیچے سے عذاب کا مطلب مختلف وباؤں کا پھوٹنا ، طغیانی اور طوفان کا اٹھنا اور اندورنی عذاب نسل انسانی کا جنگ وجدال ہے۔ اس جگہ ان تینوں مختلف عذابوں کی ایک ایک مثال اس آیت کے تحت بیان کی جائے گی تاکہ عبرت حاصل ہو۔ اوپر کے عذابوں کا بیان قرآن کریم میں ہوا ان ہی سے قوم عاد ، قوم ثمود اور قوم لوط کی مثالیں قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں ہم اس جگہ مختصر سے مختصر ذکر قوم عاد کے عذاب کا کرتے ہیں جو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے : قوم عاد ایک بت پرست قوم تھی ، عاد کا مسکن ارض احقاف ہے جو حضر موت کے شمال میں اسطرح واقع تھا کہ مشرق میں عمان اور شمال میں ربع الخالی خلیج فارس سے عراق تک وسیع تھا۔ یہ لوگ اپنے بزرگوں کے مجسمے تیار کر کے ان کی پرستش کرتے تھے۔ اس قوم کی طرف ہود (علیہ السلام) کو نبی مبعوث کیا گیا۔ انہوں نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی عبادت کی طرف دعوت دی۔ قوم عاد نے جب سناتو وہ عجیب حیرت میں پڑگئے۔ ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ ایک اللہ کی عبادت چہ معنی دارد ؟ وہ غم و غصہ میں آگئے کہ کس طرح ہم باپ دادا کی ریت یعنی بزرگوں کے بتوں کی پرستش کو چھوڑ دیں ؟ یہ تو ہماری اور ہمارے باپ دادا کی سخت توہین ہے۔ ان کا غیظ و غضب بھڑک اٹھا کہ ان کی یاد کو تازہ کرنے کیلئے تراشتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہود (علیہ السلام) کی دعوت کو مان لینا ان کے معبودوں اور بزرگوں کی توہین و تحقیر تھی جن کو وہ ” الہٰ “ کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ اور شفیع مانتے تھے اور اس لئے ان کی پرستش کرتے تھے کہ وہ خوش ہو کر ہماری سفارش کریں گے اور عذاب الٰہی سے نجات دلائیں گے۔ ہود (علیہ السلام) ایک مدت تک تبلیغ کا فرض انجام دیتے رہے لیکن اس سے ان کی سرکشی مزید بڑھتی گئی اور سوائے چند معدودے آدمیوں کے اکثریت ان سے بگڑ گئی اور جب ہود (علیہ السلام) نے عذاب الٰہی سے ان کو ڈرایا تو وہ بپھر گئے کہ تو نے ہم کو عذاب الٰہی کی دھمکی دی ہے ہم سے تیری یہ روز روز کی نصیں ودت نہیں سنی جا سکتیں اگر تو اپنی بات میں سچا ہے تو وہ عذاب جلد لے آ کہ ہمارا تیرا قصہ پاک ہو اور یہ روز روز کی فرخش ختم ہوجائے۔ ہود (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اگر میری مخلصانہ اور صادقانہ نصائح کا یہی جواب ہے تو بسم اللہ ، تم کو عذاب کا اگر اتنا ہی شوق ہے تو وہ کچھ دور نہیں۔ جن کی تم پرستش کرتے ہو ان کے نام تو تم نے اور تمہارے آباء و اجداد نے خود گھڑے ہیں اور اس من گھڑت طریقہ سے تم ان کو اپنا شفیع اور سفارشی مانتے ہو اور میرے روشن دلائل سے انحراف اور سرکشی کر کے عذاب کے طالب ہوتے ہو اگر ایسا ہی شوق ہے تو اب تم بھی انتطار کرو اور میں بھی انتظار کرتا ہوں کہ وہ وقت کب آتا ہے جس سے تمہارا تیاپانچہ کردیا جاتا ہے یا تکہ بوٹی ہوتی ہے۔ الحاصل قوم ہود جن کو عاد کہا جاتا تھا کی انتہائی شرارت وبغاوت اور اپنے پیغمبر کی تعلیم سے بےپناہ بغض وعناد کی پاداش عمل اور قانون جزاء کا وقت آپہنچا اور غیرت حق حرکت میں آئی اور عذاب الٰہی نے سب سے پہلے خشک سالی شکل اختیار کی۔ عاد سخت گھبرائے ، پر یسان ہوئے اور عاجز و درماندہ نظر آنے لگے تو حضرت ہود علہا اسلام کو جوش ہمدردی نے اکسایا اور مایوسی کے بعد پھر ایک مرتبہ ان کو سمجھایا کہ راہ حق اختیار کرلو ، میری نصائح پر ایمان لے آؤ کہ یہی نجات کی راہ ہے ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ورنہ پچھتاؤ گے۔ لیکن بدبخت و بدنصیب قوم پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ بغض وعناد اور دوبالا ہوگیا تب ہولناک عذاب نے ان کو آگھیرا۔ آٹھ دن اور سات راتیں پہیم تیز و تند ہوا کے طوفان اٹھے اور ان کو اور ان کی آبادی کو تہ بالا کر کے رکھ دیا۔ تنومند اور قوی ہیکل انسان جو اپنی جسمانی قوتوں کے گھمنڈ سر مست سرکش تھے اس طرح بےحس و حرکت پڑے نظر آتے تھے جس طرح آندھی سے تن آور درخت بےجان ہو کر گر جاتا ہے۔ غرض ان کو صفحہ ہستی سے مٹادیا گیا ہے تاکہ آنے والی نسلوں کے لئے عبرت بنیں اور دنیا و آخرت کی لعنت کا عذاب ان پر مسلط کردیا گیا کہ وہ اس کے مستحق تھے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کے اس واقعہ کو قرآن کریم میں سورة الاعراف آیت 65 سورة ہود کی آیات 50 سے 89 اور سورة الشعراء کی آیت 134 میں بیان کیا گیا ہے۔ اللہ اپنے قانوں کے مطابق تمہارے نیچے ہی سے عذاب کھڑا کرسکتا ہے : 102: نیچے سے عذاب الٰہی کی مثالیں نوح (علیہ السلام) کے مشہور سیلاب اور فرعون اور اسکی قوم کے غرق ہونے سے دی جاسکتی ہیں اس جگہ مختصر ذکر غرق فرعون ہی کا کیا جاتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے رسول اور فرعون کی داستان سے کون واقف نہیں ، بچہ بچہ کی زبان پر ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون اور اسکی قوم نے مصر میں غلام بنا رکھا تھا اور اس قوم پر اس نے وہ زیادتیاں کیں جن کا نام سن کر قوی سے قوی۔ قوی دل بھی کانپ اٹھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو زندہ کرنے کے لئے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو نبی بنا کر فرعون کی طرف بھیجا گیا لیکن فرعون نے سیدھے منہ بات کرنا بھی پسند نہ کیا۔ ایک عرصہ تک اس دعوت کا سلسلہ جاری رہا جب فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی کوئی بات بھی نہ مانی تو انجام کار موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل قوم کو مصر سے لے جانے کی ٹھان لی۔ فرعون نے بنی اسرائیل کونہ نکلنے دینے کے سارے سامان کر لئے لیکن اس کے باوجود وہ وقت آیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کی اکثریت کو لے کر مصر سے نکل گئے ، آپ ﷺ بحر احمر یا بحر قلزم کے راستے سمندر پار کرنا چاہتے تھے کہ فرعون کو بھی آپ کا نکلنا معلوم ہوگیا۔ اس نے اپنے ایک بڑے لشکر کے ساتھ ان پر پیچھے سے حملہ کردیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) سمندر تک ابھی پہنچے ہی تھے کہ پیچھے سے فرعون کا لشکر بھی گرد اڑاتے چلا آتا نظر آیا۔ بنی اسرائیل گھبرائے لیکن موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو تسلی دی کہ میں اپنے ارادے سے نہیں نکلا بلکہ اللہ کے فرمان کے مطابق خروج کیا ہے۔ مختصر یہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اس جگہ سے سمندر پار کرنے کا حکم دیا جہاں سے وہ پایاب تھا اور حکم الٰہی کے مطابق اپنی لاٹھی سے ان کی نشاندہی بھی کردی کہ اس سے اس جگہ تک تمہارے پار ہونے کی جگہ ہے بس اللہ کا نام لے کر اس طرح پار نکل جاؤ جس طرح ایک صحرا سے آدمی نکل جاتا ہے۔ جب بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) کے نشان زدہ راستہ سے نکل رہے تھے تو فرعون اور اس کے لشکر نے بھی ان کا پیچھا شروع کردیا بلکہ قوم کو للکار کر کہا کہ بس اب بنی اسرائیل مارے گئے ، پکڑے گئے دیکھتے کیا ہو آگے بڑھو اور اس بحر میں ان کو دھر رکھو اللہ تعالیٰ کی کرشمہ سازی دیکھو کہ جب اس کا پورا لشکر سمندر میں اتر گیا تو اس کا حکم ان کی غرقابی کا نافذ ہوگیا۔ اللہ نے ان سب کو پانی کی منجھدار میں اسطرح پھنسا دیا کہ ان کے لیڈر سمیت ہزاروں کو غرق کر کے رکھ دیا اور بنی اسرائیل کی آنکھوں کے سامنے ان کو وہ ڈبکیاں دیں کہ وہ بنی اسرائیل کو پکڑتے پکڑتے ہی خود ہی قانون الٰہی کی پکڑ میں آگئے اور ایسے آئے کہ شاید ہی ان میں سے کوئی جان بچا کر نکل سکا ہو۔ فرعون کے منہ میں پانی کے دو گھونٹ گئے تو وہ تائب ہونے لگا لیکن اب وہ وقت نکل چکا تھا اور اس کی جان کو امان دینا قانون خداوندی کے خلاف تھا۔ حکم ہوا ! اے فرعون ! اب تیری اپیل سے بھی تیری جان کو امان تو نہیں مل سکتی لیکن تیری نعش کو درس عبرت بنانے کے لئے ایک عرصہ تک ہم محفوظ کردیں گے تاکہ آنے والی قوموں کو یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کو عذاب میں مبتلا کرنے کے لئے کہیں سے لاؤ لشکر لانے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ وہی چیزیں جن پر اس کی زندگی کی بقاء کا انحصار ہوتا ہے وہی اس کی ہلاکت کا باعث بنا کر رکھ دی جاتی ہیں اور قوموں کا عروج وزوال بھی اسی طرح معرض وجود میں آجاتا ہے کیونکہ ہرچیز اس کے حکم تکوینی کی پابند ہے۔ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔ عذاب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ تم گروہ بندیوں میں تقسیم ہو کر رہ جاؤ : 103: عذاب الٰہی کی یہ تیسری صورت پہلی دونوں صورتوں سے زیادہ خطرناک اور زیادہ ہلاکت انسان کی باعث ہوئی لیکن افسوس کہ انسانوں نے بہت کم اس عذاب الٰہی کو سمجھا۔ اس کی داستانیں اتنی لمبی ہیں کہ اس عذاب الٰہی سے دنیا کی تاریخ بھری پڑی ہے اور ہر روز اس میں ہزاروں صفحات کا اصافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اس میں سے کسی ایک واقعہ کا انتخاب بھی اتنا مشکل ہے جتنا کہ اس کا شمار کرنا مشکل ہے تاہم ایک مختصر سا واقعہ نقل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اگر کسی نے بغور پڑھا تو انشاء اللہ بہت مفید رہے گا۔ لیکن کوئی پڑھے گا بھی ؟ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔۔۔۔۔ آریہ اور منگوں قومول کا شمار دنیا کی بڑی قوموں میں ہوتا ہے۔ ظہور اسلام سے قبل منگولیا کا آخری قبائلی سیلاب وہ تھا جو چوتھی صدی مسیح میں مغرب و شمال کی طرف پھیلنا شروع ہوا اور یورپ کے مختلف قطعات میں منقسم ہو کر تھم گیا۔ اس کے بعد ان قبائل کے نئے سیلابوں کا خروج رک گیا۔ اسلام آیا اور پھر اسلامی فتوحات کا دور شروع ہوا تو انہی قبائل کو وہاں آباد پایا جو آہستہ آہستہ مسلمان ہوتے گئے چناچہ ترک ، خزر ، قجر ، تاجیک ، چرکس ، کرد زبک اور سلجوق وغیرہ سے مقصود یہی قبائل ہیں۔ مسلمانوں کا زور بھی آہستہ آہستہ کمزور ہوتا گیا۔ حتی کہ چھٹی صدی ہجری میں اصل منگول قوم جو ابھی تک اپنے علاقے میں آباد تھی اس کا زور شروع ہوا اور ان مختلف منگول قبائل کو اکٹھا کر کے مشہور سنگدل سردار چنگیز خاں ایک ایسا منظم سیلاب لایا جس کو دنیا کی کوئی طاقت روک نہ سکی۔ چنگیز خاں کے بیٹے اوکتائی خان کے عہد میں اس سیلاب کا بند ٹوتا اور پھر اس طرح ہر طرف پھیل گیا گویا دنیا اپنی بربادی کے لئے صرف اسی بند کے ٹوٹنے کی منتظر تھی۔ اس سیلاب کے انقلاب حال کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس سے عرب خلافت کا مکمل خاتمہ ہوگیا۔ اس آہ وفغاں کے لئے ہم نے اسکو اس جگہ درج کرنے کے لئے انتخاب کیا کیونکہ اسلام کامورخ کبھی اس واقعہ کے ماتم سے فارغ نہیں ہو سکتا کہ تاتاریوں کی ابتدائی تاخت اور آخری تاخت دونوں کا باعث خود مسلمانوں کی فرقہ بندی اور اس کی جاہلی عصبیت ہوئی یعنی بربادی کا پہلا دروازہ حنفیوں اور شافعیوں کے باہمی جدال سے کھلا اور بربادی کی آخری تکمیل یعنی بغداد کا قتل عام سنیوں اور شیعوں کے اختلاف کا نتیجہ تھا۔ بلاشبہ چنگیز خاں سے وسط ایشیاء کا بالائی علاقہ خوارزم تک فتح کرلیا تھا لیکن وہ اس سے آگے قدم نہ بڑھا سکا بعد میں جب اس کے پوتوں میں سلطنت تقسیم ہوئی تو وسط ایشیا اور اس کے ملحقات ہلاکو خاں کے زیر حکومت آئے لیکن اسے بھی آگے بڑھنے کی جرات نہ ہوئی کیونکہ اسلامی مملکتوں کی شش صد سالہ عظمت کا رعب ابھی تک دلوں سے محو نہیں ہوا تھا مگر اس اثناء میں اچانک ایک واقعہ ایسا پیش آیا جس نے خود بخود ہلاکو کے آگے فتح و تسخیر کی راہیں کھول دیں۔ خراسان میں حنفیوں اور شافعیوں میں باہمی جنگ وجدال کا بازار گرم تھا۔ طوس کے حنفیوں نے شافعیوں کی ضد میں آکر ہلاکو کو حملہ کی دعوت دی اور اس کے لئے شہر کے دروازے کھول دیئے پھر جب تاتاریوں کی تلوار چمک گئی تو اس نے نہ حنفیوں کی چھوڑا نہ شافعیوں کو دونوں کا خاتمہ کردیا۔ اس طرح خراسان کی تسخیر نے بغداد کی شاہراہ کھول دی تھی۔ پھر بھی ہلاکو اس کی جرات نہ کرسکا کہ عباسی دار الخلافہ پر حملہ کرے لیکن اب پھر خود مسلمانوں کے باہمی قتال نے اسے بلوا بھیجا۔ بغداد سنیوں اور شیعوں کے باہمی پیکار کا میدان جنگ بن چکا تھا۔ خلیفہ معتصم کا وزیر ابن علقمی شیعہ تھا اور سنیوں کے ہاتھوں اذیتیں برداشت کرچکا تھا۔ اس نے خواجہ نصیر الدین طوس کے ذریعہ جو ہلاکو کا وزیر اور معتمد تھا ہلاکو کو بغداد آنے کی ترغیب دی اور اس طرح تاریخ اسلام کی سب سے بڑی بربادی اپنی آخری تکمیل تک پہنچ گئی۔ آج تاریخی حیثیت سے یہ واقعہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ چنگیز خاں کو خوار زم پر حملہ کرنے کی ترغیب خود خلیفہ الناصر الدین اللہ عباسی نے دی تھی کیونکہ سلجوقیوں کے بعد خوارزم شاہیوں کا اقتدار قائم ہوگیا تھا ، خلیفہ بغداد اس اقتدار کی وجہ سے سخت تنگی میں تھا۔ چنگیز خاں کا نام تیموجن تھا۔ 601 ھ مطابق 1602 ء میں اس نے چنگیز خاں کا شہنشاہی لقب اختیار کیا 614 ھ بمطابق 1219 ء میں خوارزم فتح کرلیا اس کا سال وفات 622 ھ 1227 ہے۔ اس کے بعد اس کا بیٹا اوکتائی خاں جانشین ہوا اوکتائی کے بعد منکوخاں اور منکو کے بعد قبلائی اور قبلائی کے بعد ہلاکو کے حصے میں وسط ایشیاء آیا اس نے 656 ھ بمطابق 1258 میں بغداد پر حملہ کیا اور عربی خلافت کا آخری نقش قدم بھی مٹ گیا۔ اس وقت سے آج تک جو کچھ ہوتا چلا آرہا ہے یہ سب کچھ سورج کی طرح عیاں ہے اور اس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس میں بھی خود مسلمانوں کا اپنا ہاتھ سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ اس ملک پاکستان کی سیاسی ، مذہبی گروہ بندی کا حال بھی سب کی آنکھوں کے سامنے ہے اسکی تفصیل کی ضرورت نہیں اس جگہ ایک بار زیر نظر آیت کو پھر دیکھ لیں۔ فرمایا۔ قُلْ ہُوَ الْقَادِرُ عَلٰۤى اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ یَلْبِسَكُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ 1ؕ اُنْظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّهُمْ یَفْقَهُوْنَ 0065 ( الانعام 6 : 65) ” (اے پیغمبر اسلام ! ) تم کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر اوپر (یعنی آسمان) سے کوئی عذاب بھیج دے یا تمہارے پاؤں تلے سے کوئی عذاب اٹھا دے یا ایسا کرے کہ تم گروہ گر [ 1 ] وہ ہو کر آپس میں لڑ پڑو اور ایک دوسرے کی شدت کا مزہ چکھو سو دیکھو کس طرح ہم گوناگوں طریقوں سے آیتیں بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں بوجھیں۔ “ دیکھو کس طرح گوناں گوں طریقوں سے آیتیں بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں : 104: اوپر جو کچھ بیان ہوا وہ اتنا مختصر ہے کہ شاید کوئی اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکے گا یا نہیں ؟ اچھی طرح سمجھ لینے اور یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اس وقت تک جتنی خرابیاں معرض وجود میں آئیں ان کا اصل باعث وسبب اختلاف رائے ہے یا اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے یہ محض اس لئے ہے کہ سیاسی بصیرت رکھنے والوں اور مذہبی بصیرت رکھنے والوں میں اختلاف رائے موجود ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو حالات اس سے مختلف ہوتے۔ ہم آپ کی اس رائے سے کبھی متفق نہیں ہو سکتے۔ ہمارے خیال میں اختلاف رائے کا ہونا نہ برا ہے اور نہ مہلک بلکہ بعض اوقات اس کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں اس لئے کہ اختلاف رائے فطری چیز ہے اور فطری چیز کو ختم کردینا کبھی محمود نہیں ہو سکتا۔ ہماری رائے میں جو چیز مہلک ہے وہ صرف ایک دوسرے کے اختلاف کو برداشت نہ کرنے کا مرض ہے۔ آپس کا سارا جنگ وجدال محض اختلاف کے برداشت نہ کرنے کے باعث ہے۔ مثلاً حنفیوں اور شافعیوں میں اختلاف تھا اگر وہ اس کو برداشت کرتے اور دونوں ایک دوسرے کے جواب تک ہی محدود رہتے اور جو ان کے ذہن میں حق تھا اس پر عمل کرتے رہتے تو وہ حالت پیدا ہوتی جس سے وہ دوچار ہوئے ؟ اس طرح بغداد میں سنیوں اور شعیوں میں جو اختلاف تھا اگر وہ اختلاف تک محدود رہتا۔ وہ ضد ، ہٹ دھرمی اور ایک دوسرے کو مٹا دینے کا تصور اختیار نہ کرتا تو اس کا وہ نتیجہ برآمد ہوتا جو اس وقت ہوا ؟ جس طرح فطری بداعتدالی بری چیز ہے بالکل اسی طرح فطری رکاوٹ بھی بری چیز ہے جس طرح فطری بداعتدالیوں کے کبھی نتائج اچھے نہیں نکل سکتے اسی طرح فطری رکاوٹوں کے نتایج بھی کبھی اچھے نہیں نکل سکتے۔ بدقسمتی سے ہماری ہر سوچ الٹی ہے اور اس کا کوئی رخ بھی سیدھا ہونے میں نہیں آتا۔ قرآن پڑھتے ہیں ، حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں۔ وعظ کہتے ہیں اور وعظ سنتے ہیں لیکن مخالف کو برداشت کرنا ہمارے بس کی بات نہیں اور مزید بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے واعظ اور مذہبی پیشوا بھی ہمیں یہ بات اچھی طرح یاد کراتے ہیں کہ مخالف کے وجود کو ختم کردینا جنت کا مستحق ہونا ہے۔ حالانکہ یہ بات اتنی ہی غلط ہے جتنی کہ ” گدھے کے سر پر سینگ “ اگر میری قوم مسلم کو مخالف کے وجود کو برداشت کرنا آجائے اور مخالف کے ساتھ پیار کرنا آجائے تو یہ خود بخود زندہ قوم بن جائے بشرطیکہ برداشت کرنا بےغیرتی کا برداشت کرنا نہ ہو اور یہ پیار کرنا اندھوں جیسا پیار نہ ہو کیونکہ ہر رحمت اپنی حدتک رحمت ہوتی ہے اگر حد سے تجاوز کر جائے تو وہ زحمت بن کر رہ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ عطا فرمادے۔ آمین اس آیت 65 کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کے احکام سے سرتابی کر کے انسان امن و عافیت کی زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ کبھی اوپر سے بجلی کڑک رہی ہے۔ موسلادھار بارشیں سیلاب کی صورت اختیار کر کے قیامت ڈھارہی ہیں۔ تو پیں آگ اگل رہی ہیں ، بلند پرواز طیارے اور راکٹ بم اور ایٹم بم برسا رہے ہیں۔ کبھی نیچے سے باردوی سرنگیں پھٹ رہی ہیں۔ آبدوز کشتیاں سمندر کی گہرائیوں سے ابھر کر بھاری بھرکم جہازوں کو اڑا رہی ہیں۔ کہیں زلزلے آباد شہروں کو کھنڈرات میں بدل رہے ہیں۔ علاوہ ازیں سخت تر عذاب یہ ہے کہ آپس میں انتشار اور بےاتفاقی کی وبا پھوٹ پڑتی ہے۔ ایک قوم کے فرزند ، ایک ملت کے افراد مختلف ٹولیوں اور فرقوں میں بٹ جاتے ہیں۔ کہیں مذہب وجہ فساد بن جاتا ہے اور کہیں سیاست باعث انتشار۔ اپنوں کی عزت کو اپنے ہاتھوں خاک میں ملا دینا بڑا کارنامہ تصور کیا جاتا ہے۔ اوروں کو رہنے دیجئے ، اپنے گھر کا حال دیکھئے جب سے ہم نے صرا ط مستقیم سے انحراف کیا ہم کن پستیوں میں دھکیل دیئے گئے ہیں۔ ایک رب ، ایک رسول ، ایک کتاب ، ایک کعبہ پر ایمان رکھنے والے کس نفاق اور انتشار کا شکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال زار پر رحم فرمائے۔ ہم کیا تھے اور کیا ہو کر رہ گئے ؟ اور کیا سے کیا ہوتے چلے جا رہے ہیں ؟
Top