Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 65
قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰۤى اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ یَلْبِسَكُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ١ؕ اُنْظُرْ كَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّهُمْ یَفْقَهُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں هُوَ : وہ الْقَادِرُ : قادر عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ يَّبْعَثَ : بھیجے عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابًا : عذاب مِّنْ : سے فَوْقِكُمْ : تمہارے اوپر اَوْ : یا مِنْ : سے تَحْتِ : نیچے اَرْجُلِكُمْ : تمہارے پاؤں اَوْ يَلْبِسَكُمْ : یا بھڑا دے تمہیں شِيَعًا : فرقہ فرقہ وَّيُذِيْقَ : اور چکھائے بَعْضَكُمْ : تم میں سے ایک بَاْسَ : لڑائی بَعْضٍ : دوسرا اُنْظُرْ : دیکھو كَيْفَ : کس طرح نُصَرِّفُ : ہم پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیات لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَفْقَهُوْنَ : سمجھ جائیں
آپ فرما دیجیے کہ وہ اس پر قارد ہے کہ تم پر عذاب بھیج دے تمہارے اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا بھڑا دے تم کو مختلف جماعتیں کر کے اور چکھا دے ایک کو دوسرے کی سختی۔ آپ دیکھ لیجیے کہ ہم کیسے مختلف پہلوؤں سے آیات کو بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں،
اللہ اس پر قادر ہے کہ اوپر سے یا نیچے سے عذاب بھیج دے یا آپس میں جنگ کرا دے انسانوں کو بحرو بر میں جو تکلیفیں پہنچ جاتی ہیں اور جن مصائب میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ان کے دفعیہ کے لیے اخلاص کے ساتھ سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگتے ہیں۔ پھر جب مصیبت ٹل جاتی ہے تو ساری دعائیں بھول جاتے ہیں یہ تو ان مصیبتوں کا حال ہے جن میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور بیشمار مصیبتیں ایسی ہیں جو پہنچتی ہی نہیں ہیں اللہ تعالیٰ کو قدرت ہے کہ اوپر سے عذاب بھیج دے پتھر برسا کر ہلاک کر دے۔ بہت زیادہ بارش بھیج دے یا سخت چیخوں کی آوازیں آجائیں، اور اسے اس پر بھی قدرت ہے کہ بندوں پر نیچے سے عذاب بھیج دے۔ سیلاب آجانا۔ زمین میں دھنس جانا۔ یہ نیچے سے عذاب آنے کی صورتیں ہیں اوپر اور نیچے دونوں جہتیں بیان فرما دیں جن سے عام طور پر عذاب آنے کا تصور ہوسکتا ہے ورنہ اللہ کو ہر چھ جہت سے عذاب بھیجنے کی قدرت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں میں یہ بھی منقول ہے۔ اللّٰھم احفظنی من بین یدی و من خلفی و عن یمینی و عن شمالی و من فوقی وَ اعوذبک بعظمتک ان اغتال من تحتی یعنی الخسف۔ ” اے اللہ ! میری حفاظت فرما ! میرے سامنے سے اور میرے پیچھے سے اور میرے دائیں سے اور میرے بائیں سے اور میرے اوپر سے اور میں آپ کی عظمت سے اس کی پناہ لیتا ہوں کہ اپنے نیچے سے ہلاک کردیا جاؤں۔ “ (مشکوٰۃ المصابیح ص 210) اس روایت میں ان اغتال من تحتی کی تفسیر خسف یعنی زمین میں دھنسا جائیے جانے سے کی ہے اور اس سے اللہ کی پناہ مانگی ہے۔ سورة ملک میں فرمایا (ءَ اَمِنتُمْ مَنْ فِی السَّمَآءِ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمْ الاَرْضَ فَاِِذَا ھِیَ تَمُوْرُ اَمْ اَمِنتُمْ مَنْ فِی السَّمَآءِ اَنْ یُّرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا فَسَتَعْلَمُوْنَ کَیْفَ نَذِیرِ ) (کیا تم اس سے نڈر ہوگئے جو آسمان میں ہے کہ تم پر ایک تند ہوا بھیج دے پھر عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا کہ کیسا ہے میرا ڈرانا) ۔ (اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیْعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَأْسَ بَعْضٍ ) (یا بھڑا دے تم کو گروہ گروہ کر کے اور چکھا دے بعض کو بعض کی سختی) یہ حاصل ترجمہ ہے، مفسر ابو البرکات نسفی اپنی تفسیر مدارک التنزیل میں ج 2 ص 71 لکھتے ہیں۔ او یخکطلم فرقا مختلفین علی اھواء شتی کل فرقہ منکم مشایعۃ لا مام و معنی خلطھم ان ینشب القتال بینھم فیختلطوا و یشتبکوا فی ملاحم القتال۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ تمہارے مختلف فرقے بنا دے جن کے اھواء افکار مختلف ہوں۔ ہر فرقہ اپنے اپنے پیشوا کے پیچھے چلتا ہو۔ خلط کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے درمیان جنگ کھڑی ہوجائے اور قتل و قتال کے معرکہ میں خلط ملط ہوجائیں اور ایک فریق دوسرے فریق میں گھس جائے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس پر قدرت ہے کہ تمہارے بہت سے فرقے بنا کر آپس میں جنگ کرا دے اور بعض کو بعض کی قدرت و طاقت اور دشمنی کا مزہ چکھا دے۔ یہ بھی ایک سزا ہے نہ تو آسمان سے آتی ہے اور نہ زمین سے نکلتی ہے۔ انسانوں کے اپنے افکار و تصورات اور معتقدات کی بناء پر فرقے بن جاتے ہیں اور آپس میں لڑائیاں ہوتی ہیں۔ اور یہ عذاب بہت بڑا عذاب ہے۔ پہلی امتوں پر بھی آتا رہا ہے اور اس امت میں بھی اس کے مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔ حضرت زید بن اسلم (تابعی) نے بیان کیا کہ جب آیت بالا نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لا ترجعوا بعدی کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض بالسیوف (تم لوگ میرے بعد کافر مت ہوجانا جس کی وجہ سے ایک دوسرے کو تلوار سے قتل کیا کرو گے۔ ) حضرت حسن (تابعی) نے فرمایا کہ (عَذَاباً مِّنْ فَوْقِکُمْ اَوْمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ ) مشرکین کے لیے ہے (اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیْعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَأْسَ بَعْضٍ ) مسلمانوں کے لیے ہے۔ (درمنثور ج 3 ص 20) حضرت سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ قبیلہ بنی معاویہ کی مسجد پر گزرے۔ وہاں آپ نے دو رکعت نماز پڑھی اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی آپ نے لمبی دعا کی اور اس کے بعد فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے تین چیزوں کا سوال کیا۔ مجھے دو چیزیں عطا فرما دیں اور ایک کو قبولیت سے منع فرما دیا۔ میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری امت کو قحط سے ہلاک نہ فرمانا یہ دعا قبول ہوگئی۔ اور میں نے یہ سوال کیا کہ میری امت کو غرق کرکے ہلاک نہ فرمانا۔ میری یہ دعا قبول ہوگئی۔ اور میں نے سوال کیا کہ آپس میں ان کی لڑائی نہ ہو تو اس بات کو قبول نہیں فرمایا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 512 ج 2) کبھی کبھار کہیں سیلاب آجائے کچھ لوگ غرق ہوجائیں یا قحط سے کچھ لوگ مرجائیں یہ دوسری بات ہے قحط سے یا غرق سے پوری امت ہلاک نہ ہوگی۔ اس کی دعا اللہ جل شانہٗ نے قبول فرما لی ہے پھر فرمایا (اُنْظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّھُمْ یَفْقَھُوْنَ ) (آپ دیکھ لیجیے ہم کیسے آیات کو مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ لوگ سمجھیں) اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ مختلف طریقوں سے تفصیل کے ساتھ دلائل بیان فرمائے تاکہ سمجھنے والے غور و فکر کریں اور سمجھنے کا ارادہ کریں تو سمجھ لیں۔
Top