Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 65
قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰۤى اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ یَلْبِسَكُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ١ؕ اُنْظُرْ كَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّهُمْ یَفْقَهُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں هُوَ : وہ الْقَادِرُ : قادر عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ يَّبْعَثَ : بھیجے عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابًا : عذاب مِّنْ : سے فَوْقِكُمْ : تمہارے اوپر اَوْ : یا مِنْ : سے تَحْتِ : نیچے اَرْجُلِكُمْ : تمہارے پاؤں اَوْ يَلْبِسَكُمْ : یا بھڑا دے تمہیں شِيَعًا : فرقہ فرقہ وَّيُذِيْقَ : اور چکھائے بَعْضَكُمْ : تم میں سے ایک بَاْسَ : لڑائی بَعْضٍ : دوسرا اُنْظُرْ : دیکھو كَيْفَ : کس طرح نُصَرِّفُ : ہم پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیات لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَفْقَهُوْنَ : سمجھ جائیں
اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں ‘ وہ اللہ تعالیٰ قادر ہے اس بات پر کہ بھیج دے تم پر عذا ب تمہارے اوپر سے یا تمہارے پائوں کے نیچے سے یا تم کو خلط ملط کر دے مختلف فرقوں میں اور چکھائے تم میں سے بعض کو بعض کی لڑائی کا مزہ۔ دیکھو کس طرح ہم پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں آیتوں کو تا کہ یہ لوگ سمجھ جائیں
پہلے اللہ تعالیٰ کے علاوہ غیروں کی عبادت کرنے سے منع کیا گیا…… کہ یہ کفر شرک اور گمراہی کی بات ہے۔ اس کے بعد الوہیت کی صفات مختصہ کا بیان تھا کہ عالم الغیب صرف وہی ہے وہی ہر چیز پر غالب ہے لہٰذا عبادت بھی صرف اسی کی ہونی چاہئے اور مدد بھی اسی سے طلب کرنی چاہئے۔ پھر درمیان میں فرمایا کہ لوگوں کو خشکی یا تری میں جو مشکلات پیش آتی ہیں ان سے بچا کر لانے والا بھی اللہ ہی ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ لوگ پھر بھی اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔ یہ ایک قسم کی تنبیہہ تھی کہ جب علم غیب کا مالک وہ ہے ‘ غلبہ اور قدرت اس کو حاصل ہے ‘ تو پھر الہ بھی اس کے سوا کوئی نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ فوراً گرفت نہیں کرتا تو یہ اس کیطرف سے مہلت ہوتی ہے جس سے غلط فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے بلکہ پہلی وارننگ پر ہی کفر و شرک اور بدعات کو ترک کر کے اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا اقرار کرلینا چاہئے۔ عذاب الٰہی کا انتظار اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت قادر مطلق کو بیان فرمایا ہے۔ قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں ھوالقادر وہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے علی ان یبعث علیکم عذابا کہ وہ تم پر کوئی عذاب بھیج دے گزشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی طرف توجہ دلائی تھی کہ تمہیں مصائب سے بچانے والا خود اللہ ہے ‘ مشکلات کے وقت تم صرف اسی کو پکارتے ہو مگر جب وہ مصیبت ٹل جاتی ہے تو پھر شرک میں مبتلا ہوجاتے ہو۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ اگر تمہیں ایک مصیبت سے نجات مل گئی تو اب دوبارہ مشکل میں نہیں پھنس سکتے بلکہ وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب مسلط کر دے من فوقکم تمہارے اوپر سے اومن تحت ارجلکم یا پائوں کے نیچے سے۔ قرآن پاک میں سابقہ کئی اقوام کے حالات مذکور ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے اوپر سے عذاب نازل فرمایا۔ قوم لوط پر پتھروں کی بارش کی گئی جس سے پوری قوم کو ہلاک کردیا گیا۔ سورة ہود میں موجود ہے ” وامطرنا علیھا حجارۃ من سجیل منضود مسومۃ عند ربک “۔ ہم نے ان پر نشان زدہ پتھروں کی بارش کی۔ ہر پتھر پر نام لکھا ہوا تھا کہ فلاں کے سر پر لگے گا۔ اصحاب فیل کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہوا۔ ” ترمیھم بحجارۃ من سجیل “ ان پر چھوٹے چھوٹے سنگریزوں کی بارش کی گئی ‘ گویا اللہ تعالیٰ اوپر فضا سے عذاب نازل کرنے پر قادر ہے اوپر سے کوئی طوفان بھی آسکتا ہے جیسا قوم نوح (علیہ السلام) پر آیا۔ ” فاخذھم الطوفان “۔ (العنکبوت) پھر انہیں طوفان نے گھیر لیا۔ اس قسم کی سزا قوم فرعون پر بھی آئی تھی اور وہ ہلاک ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نیچے سے بھی کوئی عذاب بھیج سکتا ہے۔ دنیا میں بڑے بڑے زلزلے آتے ہیں اور لوگ آناً فاناً تباہ ہوجاتے ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریاں بھی آئے دن مشاہدے میں آتی رہتی ہیں ‘ یہ بھی نیچے کی طرف سے عذاب الٰہی ہے تو بہرحال فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ وہ تمہارے اوپر سے کوئی عذاب بھیج دے یا تمہارے پائوں کے نیچے کوئی آفت برپا کر دے۔ امام ابن جریر طبری (رح) ‘ امام بیضاوی (رح) ‘ اور امام فخر الدین رازی (رح) نے حضرت عبدلالہ بن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ من فوق علم کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر ظالم حاکم مقرر کر دے جو تمہیں ہر وقت پریشانی میں مبتلا رکھیں۔ انسانی سوسائٹی میں اس قسم کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں کہ بڑے بڑے بادشاہوں یا ڈکٹیٹروں نے عوام کو کچل کر رکھ دیا۔ یہ روس میں کیا ہوتا ہے ‘ برسراقتدار ٹولے نے اپنے ماتحتوں کے خیالات پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔ حکومت کی خلاف نہ کسی کو سوچنے کی اجازت ہے اور نہ زبان کھولنے کی۔ جو ایسا کرتا ہے نیست و نابود کردیا جاتا ہے۔ چین کا کمیونزم بھی ایسا ہی ہے ۔ لوگوں کے مذہب پر بھی پابندی ہے۔ یہ عذاب الٰہی نہیں تو کیا ہے ؟ کوئی آدمی اوپر والوں کی مرصی کے خلاف کوئی بات نہیں کرسکتا۔ ایسا کرنے والوں کو غدار سمجھا جاتا ہی ‘ سزائے موت دیدی جاتی ہے ‘ جلاوطن کردیا جاتا ہے ‘ یا سائبیریا کے بیابانوں میں پھینک دیا جاتا ہے ‘ جہاں چار چار ہزار میل تک کوئی رسل و رسائل نہیں ‘ وہاں سے انسان بھاگ بھی نہیں سکتا۔ امریکہ نے بھی بعض قوموں کو غلام بنا رکھا ہے۔ اقتصادی امداد کے نام پر ملکوں کو اپنا دست نگر بنا لیا جاتا ہے اور پھر انہیں اپنی مرضی سے سانس بھی نہیں لینے دیا جاتا۔ کبھی جمہوریت کے نام پر اور کبھی مذہب کے نام پر لوگوں پر ظلم کیا جاتا ہے۔ فلسطینیوں اور مصریوں پر جو ظلم ہو رہے ہیں ‘ یہ سب امریکہ کی سازش ہے۔ ایسی سکیم لڑاتا ہے کہ بظاہر لوگوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار ہوتا ہے مگر درحقیقت ان کی جڑیں کاٹ دی جاتی ہیں ‘ برطانیہ کا بھی یہی معمول رہا ہے۔ وہ بھی کمزوروں کو غلام اور بےگیرت بنانے کے درپے رہا ہے۔ مشنریوں کے ذریعے سکول اور ہسپتال بنا کر لوگوں کے مذہب پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے۔ کھیل اور تماشے میں الجھا کر کاہل اور سست بنا دیا جاتا ہے۔ یہ سب اوپر والے عذاب کی مثالیں ہیں۔ جب لوگ اپنی مرکز سے ہٹ جاتے ہیں اور اپنے مسلک کو چھوڑ بیٹھتے ہیں تو پھر وہ اپنا سب کچھ بھول کر غیروں کی ترجمانی کرنے لگتے ہیں ‘ یہی سزا ہے۔ زبردست لوگوں کی طرف سے سزا کے مشاہدات بھی ہوتے رہتے ہیں مزدوروں ‘ کسانوں اور ملازموں کی طرف سے تحریکیں اور روزمرہ کی ایجی ٹیشن انجمن سازی ‘ فرائض سے غفلت اور حقوق کے مطالبات اور والوں کے لئے درد سر بن جاتے ہیں اور وہ ہر وقت پریشانی میں غرق رہتے ہیں۔ اوپر والے نیچے والوں کو کچلتے ہیں اور نیچے والے اوپر والوں کا چین حرام کردیتے ہیں۔ کارخانے داروں کو مزدور پریشان کرتے ہیں ‘ زمینداروں اور وڈیروں کو مزارع تنگ کرتے ہیں ‘ کرایہ دار مالک مکان و دکان سے برسرپیکار رہتا ہے اور ماتحت ملازمین اپنے افسران کا ناک میں دم کردیتے ہیں ۔ یہ سلسلہ اس طرح چلتا رہتا ہے اور اوپر والوں اور نیچے والوں دونوں کے لئے عذاب الٰہی ثابت ہوتا ہے اسی لئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ تمہیں اوپر سے کسی عذاب میں مبتلا کر دے یا نیچے سے کوئی سزا مقرر کر دے۔ …گھر کے چراغ سے فرمایا اللہ تعالیٰ اس بات پر بھی قادر ہے او یلبسکم شیعا تمہارے مختلف فرقے بنا کر تمہیں خلط ملط کر دے۔ لبس کا معنی گڈ مڈ کردینا یا خلط ملط کردینا ہے تو فرمایا سزا کی ایک صورت یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں مختلف فرقوں میں تقسیم کر دے۔ و یذیق بعضکم باس بعض پھر بعض کو بعض کی لڑائی کا مزہ بھی چکھائے۔ جب لوگ مختلف فرقوں میں بٹ جائیں گے ‘ ان میں اختلافات پیدا ہو جائین گے تو پھر وہ آپس میں ہی برسر پیکار ہوجائیں گے اور یہ بھی عذاب ہی کی ایک صورت ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اس آیت کے جب یہ الفاظ نازل ہوئے عذاباً من فوقکم تو حضور ﷺ نی دعا کی اعوذ بوجھک اے اللہ ! میں تیری ذات کے ساتھ اس عذاب سے پناہ مانگتا ہوں ‘ پھر جب الفاظ او من تحت ارجلکم اترے ‘ تب بھی نبی (علیہ السلام) نے نیچے والے عذاب سے پناہ مانگی۔ آیت کا تیسرا ٹکڑا او یلبسکم شیعا ً آیا تو آپ نے فرمایا ‘ یہ نسبتاً سہل ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ ان تین دعائوں میں سے پہلی دو کو اللہ نے منظور کرلیا اور وعدہ فرمایا کہ امت نبی آخر الزمان (علیہ السلام) پر نہ تو نوح (علیہ السلام) کی قوم جیسا بارش یا پتھروں کا عذاب آئے گا کہ پوری قوم ہی ہلاک ہوجائے اور نہ نیچے سے زلزلے اور سیلاب وگیرہ ہی پوری امت کے لئے تباہ کن ہوں گے۔ البتہ آپس کی فرقہ بندی سے متعلق اللہ نے حضور ﷺ کی دعا قبول نہ کی ‘ چناچہ تفرقہ بازی اس امت میں قیامت تک قائم رہے گی۔ حضرت سعد ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ نبی (علیہ السلام) نے یہ دعا بھی کی ‘ اے اللہ ! میری امت پر کس دشمن کو مسلط نہ فرمانا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا بھی قبول فرمائی کہ دشمن تو مسلط نہ ہوگا۔ مگر آپس کی لڑائی بھڑائی جاری رہے گی۔ چناچہ امت محمدیہ میں تاتاریوں کا فتنہ محض اپنوں کی وجہ سے پیدا ہوا۔ افغانستان کی جنگ میں جو لوگ ہلاک ہو رہے ہیں وہ بھی آپس کی جنگ وجدال کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔ اس برصغیر میں انگریزوں کو تسلط اپنوں کی وجہ سے حاصل ہوا۔ غرضیکہ دنیا میں جہاں پر بھی مسلمانوں کو غلام بنایا گیا اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے ہیں۔ سب اندرونی غداروں کی وجہ سے ہوا ہے حضور ﷺ نے فرمایا میری اپنی امت کے لوگ ہی ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ فرقہ بندی کا عذاب اب مسلمانوں میں فرقہ پرستی کی وبا عام ہے ۔ خیر القرون میں تو لوگ اس بیماری سے محفوظ رہے مگر آپ کے رخصت ہونے کے 53 برس بعد یہ عذاب شروع ہوگیا۔ سب سے پہلا اختلاف خلیفہ راشد حضرت عثمان ؓ کے زمانے میں پیدا ہوا جو ان کی شہادت پر منتج ہوا۔ پھر مسلمانوں کے درمیان جمل اور صفین کی جنگیں ہوئیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ جب میری امت میں ایک دفعہ تلوار چل جائے گی تو پھر قیامت تک چلتی رہے گی۔ اس کے بعد عام فتنے شروع ہوگئے۔ فرقہ بندی پیدا ہوگئی۔ خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوگئی۔ شہنشاہیت اور امپریلزم آ گیا۔ اجتماعیت کی جگہ انفرادیت نے لے لی اور اس طرح امت میں مستقل انتشار پیدا ہوگیا۔ نیک لوگ دنیا سے بالکل ناپید تو نہیں ہوئے مگر اکثر وبیشتر شر ہی کا غلبہ رہا۔ یہ سب اندرونی خلفشار کا نتیجہ ہے اپنے ملک میں فرقہ بندی کی حالت دیکھ لیں۔ ایک دوسرے کے خلاف کس طرح کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے دیئے جاتے ہیں۔ پراپیگنڈا کے ذریعے ایک دوسرے کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہی اور اس طرح لوگوں کو بیوقوف بنایا جارہا ہے یہی خدا کا عذاب ہے ‘ یہ آخری علمی امت ہے اور علم کا تقاضا ہے کہ ان کے نظریات اور آرا مختلف ہوں ‘ بعض کے نظریات اچھے ہیں مگر ان میں بعض کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔ بعض لوگ فاسد رائے رکھتے ہیں اور بعض سو فیصدی گمراہی میں مبتلا ہیں ‘ شرک کفر اور بدعات کی وجہ سے فکر فاسد ہ وجاتی ہے عمل سے بےبہرہ لوگ نئے نئے نظریات وضع کرتے ہیں جس کی وجہ سے آپس میں ٹکرائو پیدا ہونا ضروری ہوجاتا ہے۔ اسی چیز کے متعلق کہا کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ وہ تمہیں مختلف فرقوں میں تقسیم کر دے۔ اور تم ایک دوسرے کے لئے باعث عذاب بن جائو۔ آج یہ عذاب ہم پر مسلط ہے حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ جو قوم سنت کو ترک کردیتی ہے۔ اس کو لڑائی جھگڑے میں مبتلا کردیا جاتا ہے جب سنت چھوٹتی ہے تو اس کی جگہ بدعت آتی ہے اور اس کے نتیجے میں جھگڑے کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ آخری امت اسی چیز کی سزا بھگت رہی ہے۔ مقام غور و فکر فرمایا ” انظر کیف نصرف الایت “ دیکھو ! ہم کس طرح پھیر پھیر کر آیات کو بیان کرتے ہیں۔ ہم مختلف طریقوں سے شرک کی تردید کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ الوہیت کی صفت صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اللہ نے اپنی قدرت تامہ اور حکمت بالغہ کی صفات بھی سمجھائی ہیں۔ یہ صفات کسی غیر میں مانو گے تو شرک کے مرتکب ہوجائو گے ۔ علیم کل اور قادر مطلق بھی وہی ہے۔ مشکلات سے نکالنے والا اس کے سوا کوئی نہیں لہٰذا اس کی سامنے التجا کرو۔ مصیبت میں اسی کو پکارو ‘ اس کی توحید کو مانو ‘ اس کے سامنے عاجزی کا اظہار کرو ‘ اور اس کی عبادت بجا لائو ‘ فرمایا ہم یہ آیات ‘ معجزات اور نشانیاں پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں۔ لعلھم یفقھون تا کہ یہ لوگ سمجھ جائیں شرک کی تردید میں سورة کے اگلے حصے میں بھی مختلف طریقوں سے بات سمجھائی گئی ہے۔ تکذیب اور سزا فرمایا و کذب بہ قومک آپ کی قوم نے اس قرآن پاک کو جھٹلا دیا و ھوا الحق۔ حالانکہ وہ برحق ہی۔ سب سے پہلے قریش مکہ اور پھر عرب کے باقی لوگوں نے وحی الٰہی کی تکذیب کی۔ اسی سورة میں پہلے بیان ہوچکا ہے کہ مشرکین کہتے ہیں کہ ہم آپ کو تو صادق اور امین جانتے ہیں مگر ہم اس کتاب کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ یہ ہمارے طور طریقوں اور ہمارے معبودوں کی تردید کرتی ہے۔ فرمایا اے پیغمبر (علیہ السلام) ! جب یہ لوگ کلام الٰہی کی تکذیب کرتے ہیں۔ قل لست علیکم بوکیل تو آپ ان سے کہہ دیں کہ میں کوئی تمہارا نگہبان تو نہیں ہوں۔ تمہارا نگران تو خدا تعالیٰ ہے۔ وہ جب چاہے سزا دے سکتا ہی۔ میرا کام تو تمہیں سمجھانا ہے اللہ کے حکم سے آگاہ کرنا ہے اور اس بات کا مجھے علم نہیں کہ سزا کب آئے گی۔ حقیقت یہ ہے لکل نباء مستقر ہر خبر کی لئے وقت مقرر ہے۔ جب وہ وقت آئے گا تو وہ چیز واقع ہوجائے گی۔ تاہم مجھے اس کا علم نہیں ۔ کفر و شرک کرنے والے ہمیشہ عذاب میں گرفتار ہوئے ہیں۔ جب اللہ کی مشیت ہوگی وہ مجرمین کو پکڑ لے گا۔ ” قد جعل اللہ لکل شیء قدرا “ اللہ نے ہر چیز کے لئے ایک اندازہ مقرر کر کھا ہے جس کے مطابق وہ ظاہر ہوجاتی ہے عروج وزوال وقت پر آتا ہے۔ جزا اور سزا بھی اپنے وقت مقررہ پر آئے گی ‘ موت اور قیامت کے لئے ایک وقت متعین ہے۔ ہر چیز ایک وقت پر ٹک جاتی ہے قرار پا لیتی ہے اس کا علم اس وقت مجھے بھی نہیں اور تمہیں بھی نہیں و سوف تعلمون ‘ البتہ تم چاہے عنقریب جان لو گے۔ جب اللہ کی طرف سے سزا آئے گی تو پتہ چل جائے گا کہ یہ وہی عذاب ہے جس کے متعلق اللہ کا پیغمبر خبردار کیا کرتا تھا مگر تم اسے جھٹلاتے رہے۔
Top