Dure-Mansoor - Al-An'aam : 65
قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰۤى اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ یَلْبِسَكُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ١ؕ اُنْظُرْ كَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّهُمْ یَفْقَهُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں هُوَ : وہ الْقَادِرُ : قادر عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ يَّبْعَثَ : بھیجے عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابًا : عذاب مِّنْ : سے فَوْقِكُمْ : تمہارے اوپر اَوْ : یا مِنْ : سے تَحْتِ : نیچے اَرْجُلِكُمْ : تمہارے پاؤں اَوْ يَلْبِسَكُمْ : یا بھڑا دے تمہیں شِيَعًا : فرقہ فرقہ وَّيُذِيْقَ : اور چکھائے بَعْضَكُمْ : تم میں سے ایک بَاْسَ : لڑائی بَعْضٍ : دوسرا اُنْظُرْ : دیکھو كَيْفَ : کس طرح نُصَرِّفُ : ہم پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیات لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَفْقَهُوْنَ : سمجھ جائیں
آپ فرمادیجئے کہ وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب بھیج دے تمہارے اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا بھڑا دے تم کو مختلف جماعتیں کر کے اور چکھا دے ایک کو دوسرے کی سختی، آپ دیکھ لیجئے کہ ہم کیسے مختلف پہلوؤں سے آیات کو بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔
(1) امام ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت قل ھو القادر علی ان یبعث علیکم عذابا من فوقکم سے مراد امراء کی جانب سے آنے والے عذاب ہے اور لفظ آیت تحت ارجلکم سے مراد وہ اذیت اور تکلیف ہے جو تمہارے گھٹیا لوگوں کی جانب ہے پہنچے لفظ آیت اویلبسکم شیعا سے مراد مختلف خواہشات رکھنے والے لوگوں میں غلط ملط ہونا اور لفظ آیت ویذیق بعضکم باس بعض یعنی وہ تم میں سے بعض کو بعض پر قتل اور عذاب کے ساتھ مسلط کردے۔ (2) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ایک اور سند کے ساتھ ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت قل ھو القادر علی ان یبعث علیکم عذابا من فوقکم یعنی برے آئمہ (اور) لفظ آیت اومن تحت ارجلکم یعنی برے خدام۔ (3) امام ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت عذابا من فوقکم یعنی وہ عذاب جو مالدار اور تمہارے باعزت لوگوں کی طرف سے پہنچے لفظ آیت اومن تحت ارجلکم یعنی تمہارے نیچے کے لوگوں اور تمہارے غلاموں کی جانب سے پہنچے۔ (4) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے ابو مالک ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت عذابا من فوقکم یعنی پتھر وغیرہ برسانا لفظ آیت او من تحت ارجلکم یعنی زمین میں دھنسا دینا۔ (5) امام ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت قل ھو القادر علی ان یبعث علیکم عذابا من فوقکم یعنی چیخ پتھر اور ہوا کا عذاب لفظ آیت ویذیق بعضکم باس بعض سے مراد اہل اقرار کا عذاب ہے۔ (6) امام ابن جریر اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت عذابا من فوقکم یعنی پتھر لفظ آیت اومن تحت ارجلکم یعنی زمین میں دھنسا دینا لفظ آیت اویلبسکم شیعا یعنی (آپس میں) اختلاف میں مختلف خواہشات۔ (7) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ اس امت کے اہل قرار کے عذاب تلوار سے ہے اور لفظ آیت او یلبسکم شیعا ویذیق بعضکم باس بعض اور جھٹلانے والے کا عذاب شدید چیخ اور زلزلہ سے ہوگا۔ (8) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید، بخاری، ترمذی نسائی، نعیم بن حماد نے فتن میں، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن حبان، ابو الشیخ، ابن مردویہ اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت لفظ آیت قل ھو القادر علی ان یبعث علیکم عذابا من فوقکم نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (اے اللہ) میں تیری ذات سے پناہ مانگتا ہوں لفظ آیت اومن تحت ارجلکم فرمایا میں تیری ذات سے پناہ مانگتا ہوں لفظ آیت اویلبسکم شیعا ویذیق بعضکم باس بعض فرمایا یہ آسان اور نرم ہے۔ (9) امام ابن مردویہ نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت لفظ آیت قل ھوالقادر علی ان یبعث علیکم عذابا من فوقکم اومن تحت ارجلکم نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس سے پناہ مانگتا ہوں۔ اور لفظ آیت اویلبسکم شیعا (جو یہ الفاظ اترے) تو فرمایا یہ آسان ہے اگر میں نے اس سے پناہ مانگی تو اللہ تعالیٰ پناہ دے گا۔ (10) امام احمد، ترمذی (اس کو آپ نے حسن بھی کہا ہے) نعیم بن حماد نے فتن میں، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے سعد بن وقاص ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے اس آیت یعنی لفظ آیت قل ھو القادر علی ان یبعث علیکم عذابا من فوقکم اومن تحت ارجلکم کے بارے میں فرمایا۔ بلاشبہ اس طرح ہونے والا ہے اور اس کے بعد اس کی کوئی تاویل نہیں۔ (11) امام ابن ابی شیبہ، احمد، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ، ابن مردویہ اور ابو نعیم نے حلیہ میں ابو العالیہ کے طریق سے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت قل ہو القادر الایہ کے بارے میں فرمایا کہ یہ چار چیزوں کا ذکر ہے اور ہر ایک میں ان میں سے عذاب ہے۔ اور ان میں سے ہر ایک لامحالہ واقع ہونے والا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد وہ تو گزر چکے ہیں پچیس سال کے دوران اور وہ یہ ہیں کہ متفرق گروہ آپس میں غلط ملط ہوئے اور بعض نے بعض کی لڑائی کو چکھا۔ اور دو واقعات باقی ہیں جو ضرورواقع ہوں گے زمین میں دھنسا دینا اور پتھر برسانا۔ امت کے حق میں دعاء (12) امام ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت لفظ آیت قل ھو القادر نازل ہوئی تو آپ نے وضو فرمایا پھر فرمایا اے اللہ ! میری امت پر ان کے اوپر سے عذاب نہ بھیج۔ اور نہ ان کے پاؤں کے نیچے سے اور نہ ان کو گروہوں میں بانٹ دے۔ اور نہ ان کے بعض کو بعض کی لڑائی کا مزہ چکھا جبرئیل تشریف لائے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت کو پناہ دے دی ہے۔ ان کے اوپر سے عذاب بھیجنے سے یا ان کے نیچے سے (یعنی پاؤں کی جانب سے) (13) امام ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ میری امت سے چاروں چیزوں کو منع فرمادے۔ تو ان سے دو چیزوں کو منع کردیا گیا۔ اور ان میں سے دو چیزوں کو اٹھانے سے انکار فرما دیا۔ میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ آسمان سے پتھر برسنے کو اٹھا لیا جائے۔ اور زمین میں غرق ہونے کو بھی اور ان کو خلط ملط نہ کیجئے گروہوں میں اور ان کو آپس میں ایک دوسرے کی شدت نہ چکھائی جائے تو اس نے پتھر برسنے اور غرق ہونے کو اٹھا لیا گیا اور قتل اور فساد کو اٹھانے سے انکار فرما دیا۔ (14) امام ابن ابی شیبہ، احمد، مسلم، ابو الشیخ، ابن مردویہ، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ ایک دن عالیہ کی جانب سے تشریف لائے یہاں تک کہ جب مسجد بنو معاویہ سے گزرے آپ اس میں داخل ہوئے اور دو رکعت نماز پڑھی اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی اور اپنے رب سے لمبی دعا فرمائی پھر ہمارے پاس لوٹ آئے اور فرمایا میں نے اپنے رب سے تین سوال کئے دو مجھ کو دے دیئے گئے اور ایک سے منع کردیا گیا۔ میں نے سوال کیا کہ میری امت غرق میں ہلاک نہ ہو تو نے یہ بھی عطا فرمادیا اور میں نے سوال کیا کہ میری امت قحط سے ہلاک نہ ہو تو نے یہ بھی مجھے عطا فرما دیا اور میں نے سوال کیا کہ آپس میں ان کے درمیان قتل و غارت نہ ہو تو اس سے منع کردیا گیا۔ (15) امام ابن مردویہ نے معاویہ بن ابی سفیان ؓ سے روایت کیا کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا تم آپس میں یہ باتیں کرتے ہو کون تم میں سے سب سے آخر میں ہوگا وفات کے لحاظ سے ہم نے کہا ہاں ! آپ نے فرمایا میں وفات کے لحاظ سے تم سے پہلے ہوں گا اور تم میرے پیچھے آؤ گے۔ گروہ در گروہ ہو کر کہ بعض تمہارا بعض کو ہلاک کرے گا۔ پھر یہ آیت پڑھی لفظ آیت قل ھو القادر علی ان یبعث علیکم عذابا من فوقکم یہاں تک کہ اس آیت میں پہنچے یعنی لفظ آیت لکل بنا مستقر وسوف تعلمون مشرق و مغرب کی سیر (16) امام احمد، عبد بن حمید، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان اور حاکم نے (اور آپ نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) اور لفظ حاکم کے ہیں اور ابن مردویہ نے ثابان ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میرے رب نے میرے لئے زمین لپیٹ دی۔ یہاں تک کہ میں نے اس کی مشرقوں اور مغربوں کو دیکھا اور مجھ کو سرخ اور سفید دو خزانے عطا فرمائے۔ اور میری امت عنقریب اس کی مالک ہوجائے گی۔ جو کچھ اس میں سے میرے لئے لپیٹ دیا گیا۔ میں نے اپنے رب سے اپنی امت کے لئے سوال کیا کہ اس کو ہلات نہ کیا جائے قحط سالی سے تو (یہ چیز) مجھ کو عطا کردی گئی۔ اور میں نے سوال کیا کہ اس پر غیر دشمن کو مسلط نہ کیا جائے۔ تو یہ چیز بھی مجھ کو عطا کردی گئی۔ اور میں نے یہ بھی سوال کیا کہ ان کا بعض، بعض کی لڑائی کو نہ چکھے۔ تو یہ چیز مجھ سے منع کردی گئی۔ اور فرمایا اے محمد ایسے فیصلہ فرما دیئے ہیں جن کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے تجھ کو تیری امت کے لئے یہ چیز دے دی ہے کہ میں اس کو قحط سالی سے ہلاک نہیں کروں گا۔ اور ان پر کوئی بیرونی دشمن کو مسلط نہیں کروں گا کہ جو عمومی طور پر ان کو قتل کرنے لگے اگرچہ وہ لوگ زمین کی مختلف اطراف سے جمع ہوجائیں البتہ ان میں سے بعض بعض کو قتل کریں گے اور ان کا بعض دوسروں کو قید بنائیں گے۔ اور اس میں اپنی امت پر نہیں ڈرتا ہوں مگر گمراہ کرنے والے آئمہ سے اور ہرگز قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ میری امت میں سے کچھ قبائل مشرکین سے مل جائیں گے۔ یہاں تک کہ کچھ قبائل میری امت میں سے بتوں کی عبادت کریں گے جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو پھر قیامت تک ان سے نہیں اٹھائی جائے گی۔ اور آپ نے فرمایا یہ سب واقعات سو سال میں پائے جائیں گے عنقریب میری امت میں تیس کذاب نکلیں گے ان میں سے ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ اللہ کا نبی سے اور میں نبیوں کا ختم کرنے والا ہوں میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ اور میری امت میں ہمیشہ ایک ایسی جماعت رہے گی۔ جو حق پر قتال کریں گے تو وہ غالب رہیں گے۔ مخالفین ان کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا حکم (یعنی قیامت) آجائے گی۔ پھر فرمایا یہ یقینی امر ہے کہ جنت والوں میں سے کوئی آدمی اس سے پھلوں کو توڑے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ اس طرح کا پھل پیدا فرمادے گا۔ اور آپ نے فرمایا کوئی دینار جس کو آدمی خرچ کرتا ہے زیادہ بڑھا ہوا نہیں ہے۔ اس کے لحاظ سے اس دینار میں جو وہ اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے۔ پھر وہ دینار جس کو وہ اللہ کے راستے میں اپنے گھوڑے پر خرچ کرتا ہے۔ پھر وہ دینار جو اللہ کے راستے میں ساتھیوں پر خرچ کرتا ہے پھر فرمایا یہ یقینی بات ہے کہ اللہ کا نبی اللہ سے مانگنے میں بڑی شان والا ہے۔ قیامت کے دن جاہلیت والے اپنے بتوں کو اپنی پٹھون پر لادے ہوئے آئیں گے ان کا رب ان سے سوال کرے گا کیا تم ان کی زیارت کرتے تھے۔ وہ کہیں گے اے ہمارے رب آپ نے ہمارے لئے رسول نہیں بھیجا اور ہمارے پاس کوئی حکم ہیں آیا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تم بتاؤ اگر میں تم کو کس کام کا حکم کروں تو کیا تم میرا کہنا مانوں گے۔ وہ کہیں گے ہاں ! تو اس بات پر اللہ تعالیٰ ان سے پکا وعدہ لیں گے۔ اور ان کو حکم دیں گے کہ وہ جہنم کی طرف چلے جائیں اور اس میں داخل ہوجائیں۔ وہ چلے جائیں گے یہاں تک کہ جب اس (جہنم) کے پاس آئیں گے اور اس کے غیظ و غضب اور چلانے کو دیکھیں گے تو وہ بھاگ جائیں گے اور اپنے رب کی طرف لوٹیں گے۔ کہیں گے اے ہمارے رب ہم کو اس سے جدا کر دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تم نے میرے ساتھ یہ عہد نہیں کیا تم یقیناً میری اطاعت اور فرمانبرداری کرو گے تم چلے جاؤ اس کی طرف اور اس میں داخل ہوجاؤ پس وہ چل پڑے یہاں تک کہ جب اس کو دیکھیں گے تو ایک دوسرے سے متفرق ہوجائیں گے اور پھر واپس لوٹ آئیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ ان سے فرمائیں گے۔ داخل ہوجاؤ اس میں ذلیل ہو کر نبی ﷺ نے فرمایا اگر پہلی مرتبہ داخل ہوجائے تو (آگ) ان پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجائے گی۔ رسول اللہ ﷺ کی امت کے لئے تیں دعائیں (17) امام احمد اور حاکم نے (اور اس کی تصحیح بھی کی ہے) عبد اللہ بن عبداللہ بن جابر عتیک سے اور انہوں نے جابر بن عتیک (رح) سے روایت کیا کہ عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ہمارے پاس اور بنو معاویہ کے پاس آئے اور یہ ایک بستی ہے انصار کی بستیوں میں سے مجھ سے فرمایا کیا تو جانتا ہے تمہاری اس مسجد میں رسول اللہ ﷺ نے کہاں نماز پڑھی تھی میں نے کہا ہاں۔ میں نے ان کو اس میں سے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا پھر پوچھا کیا تو جانتا ہے کون سی تین دعائیں تھیں جو رسول اللہ ﷺ نے اس میں کی تھیں میں نے کہا ہاں مجھ کو بتاؤ میں نے کہا یہ دعا کی تھی اللہ تعالیٰ ان پر کسی بیرونی دشمن کو غلبہ نہ دے۔ اور نہ ان کو ہلاک کیا جائے قحط سالی سے تو یہ مجھ کو دے دی گئیں اور یہ بھی دعا کی کہ ان کے درمیان آپس میں لڑائی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس سے روک دیا۔ ابن عمر ؓ نے فرمایا تو نے سچ کہا قیامت کے دن تک برابر فتنہ فساد رہے گا۔ (18) امام احمد، طبرانی اور ابن مردویہ نے ابو نضرہ غفاری ؓ سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا میں نے اپنی رب سے چار چیزوں کا سوال کیا۔ تین چیزیں مجھ کو عطا کردی گئیں۔ اور ایک چیز سے روک دیا گیا میں نے اللہ سے سوال کیا کہ میری امت گمراہی میں جمع نہ ہوگی تو یہ چیز مجھ کو عطا کردی گئی اور میں نے اللہ سے سوال کیا کہ ان پر کسی بیرونی دشمن کا غلبہ نہ ہو تو اس کو بھی عطا کردیا گیا۔ اور میں نے اللہ سے سوال کیا کہ ان کو قحط سالی سے ہلاک نہ فرمائیں جیسے کہ آپ نے دوسری امتوں کو ہلاک کیا تو یہ چیز بھی مجھ کو دے دی گئی۔ اور میں نے اللہ سے سوال کیا اللہ تعالیٰ ان کے مختلف گروپوں کو خلط ملط نہ کرے اور ان کے بعض کو بعض کی لڑائی نہ چکھائے تو اس سے منع فرمایا۔ (19) امام احمد، نسائی اور ابن مردویہ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک سفر میں چاشت کی آٹھ رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھا جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا میں نے نماز پڑھی ہے رغبت کرتے ہوئے اور ڈرتے ہوئے میں نے اپنے رب سے تین سوال کئے۔ دو مجھ کو عطا فرما دیئے اور ایک کا انکار فرمادیا۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ میری امت قحط سالی میں مبتلا نہ ہو تو اسے قبول کرلیا گیا اور میں نے ان سے سوال کیا کہ ان پر دشمنی کا غلبہ نہ ہو تو اسے بھی قبول کرلیا اور میں نے ان سے سوال کیا کہ ان مختلف گروہوں کو خلط ملط نہ کرے۔ اس کا انکار کردیا گیا۔ (20) امام ابن ابی شیبہ اور ابن مردویہ نے حذیفہ بن یمان ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ حرہ بنو معاویہ کی طرف تشریف لے گئے میں آپ کے قدموں کے نشانوں پر چلا یہاں تک کہ آپ ﷺ وہاں پہنچے آپ نے آٹھ رکعات چاشت کی نماز پڑھی۔ ان میں لمبائی اختیار فرمائی (یعنی لمبی رکعتیں پڑھیں) پھر میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا میں نے اللہ تعالیٰ سے تین چیزوں کا سوال کیا مجھ کو دو عطا فرمادیں اور ایک سے منع کردیا گیا۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ میری امت پر کسی بیرونی امت کو مسلط نہ کرے تو مجھ کو یہ چیز دے دی گئی۔ اور میں نے ان سے سوال کیا کہ ان کو غرق کرنے سے ہلاک نہ کرے تو یہ بھی مجھ کو دے دی گئی اور میں نے تیسرا سوال کیا کہ ان کے درمیان آپس میں لڑائی نہ ہو تو مجھ سے اللہ تعالیٰ نے روک لیا۔ (21) امام ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے اپنے رب سے تین چیزوں کا سوال کیا۔ دو چیزیں مجھ کو عطا فرمادیں اور ایک سے منع کردیا گیا میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری امت کو قحط سالی سے ہلاک نہ کرنا تو ایسا کردیا گیا اور میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری امت پر کسی دشمنی کو مسلط نہ کرے تو ایسا کردیا گیا۔ اور میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری امت کے بعض افراد بعض کو ہلاک نہ کریں تو اس سے منع کردیا گیا۔ (22) امام ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا میں نے نماز پڑھی رغبت کرتے ہوئے اور ڈرتے ہوئے۔ اور میں نے دعا کی رغبت کرتے ہوئے اور ڈرتے ہوئے یہاں تک کہ میرے لئے جنت کھول دی گئی میں نے انگوروں کو دیکھا اور میں جھکاتا کہ اس میں سے کوئی چیز لے لوں تو مجھ آگ سے ڈرایا گیا۔ میں نے اپنے رب سے تین چیزوں کا سوال کیا۔ دو مجھ کو دے دی گئیں۔ اور ایک کو مجھ سے روک دیا گیا۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ میری امت پر اس کے دشمن کا غلبہ نہ ہو تو ایسا کردیاگا۔ اور میں نے ان سے سوال کیا کہ اس کو قحط سالی سے ہلاک نہ کیا جائے تو ایسا کردیا گیا اور میں نے اس سے سوال کیا کہ اسے مختلف گروہوں میں خلط ملط نہ کرے۔ اور ان کا بعض بعض کی لڑائی کو نہ چکھے تو اس کو مجھ سے روک دیا گیا۔ (23) امام ابن مردویہ نے عبد اللہ بن شداد (رح) سے روایت کیا کہ معاذ بن جبل اور سعد بن معاذ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو گم کردیا تو ان کو حرہ میں نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ میں ان کے پاس آیا اور کھانسا جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے کہا یا رسول اللہ میں نے آپ کو ایسی نماز پڑھتے دیکھا ہے کہ آپ نے ایسی نماز کبھی نہیں پڑھی۔ آپ نے فرمایا میں نے نماز پڑھی رغبت کرتے ہوئے اور ڈرتے ہوئے میں نے اپنے رب سے اس میں تین سوال کئے۔ مجھ کو دو دے دئیے گئے۔ اور ایک کو مجھ سے روک دیا گیا۔ میں نے اس سے سوال کیا کہ میری امت بھوک سے ہلاک نہ ہو تو ایسا کردیا گیا۔ پھر یہ آیت پڑھی لفظ آیت ولقد اخذنا ال فرعون بالسنین اور میں نے اس سے سوال کیا کہ ان پر دشمن کو مسلط نہ کرے تو ایسا کردیا گیا۔ پھر آپ نے پڑھا لفظ آیت ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق آیت کے آخر تک اور میں نے اس سے سوال کیا کہ اس کے درمیان (آپس میں) لڑائی نہ ہو تو مجھ کو منع کردیا گیا۔ پھر آپ نے اسے پڑھا لفظ آیت قل ھو القادر علی ان یبعث علیکم عذابا من فوقکم آیت کے آخر تک پھر فرمایا برابر یہ دین پر غالب رہے گا۔ جنہوں نے اس سے دوری اختیار کی۔ نماز میں دلجمعی اور دھیان (24) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید، ترمذی (اور اس کی تصحیح بھی کی ہے) نسائی، ابن جریر، ابن منذر اور ابن مردویہ نے خباب بن ارت ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت اویلبسکم شیعا کے بارے میں فرمایا کہ خباب نے تاک کر دیکھا نبی ﷺ کو اس حال میں کہ آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ حتی کہ جب صبح ہوئی تو ان سے عرض کیا اے اللہ کے نبی میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ اس رات میں آپ نے ایسی نماز پڑھی کہ میں نے آپ کو کبھی ایسی نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا آپ نے فرمایا ہاں یہ نماز تھی رغبت کے ساتھ اور خوف کے ساتھ میں نے اس میں اپنے رب سے تین چیزوں کا سوال کیا۔ دو مجھ کو عطا فرمادیں اور ایک سے منع کردیا میں نے ان سے سوال کیا کہ ہم کو ہلاک نہ فرمائیں جیسے تم سے پہلے امتوں کو ہلاک کردیا گیا۔ تو یہ مجھ کو عطا فرما دیا اور میں نے ان سے سوال کیا کہ ہم پر کوئی بیرونی دشمن مسلط نہ کرے۔ تو یہ بھی مجھ کو عطا فرمادیا۔ اور میں نے ان سے سوال کیا کہ ہمیں مختلف گروہوں میں خلط ملط نہ کرے تو مجھ کو منع کردیا گیا۔ (25) امام ابن جریر اور ابن مردویہ نافع بن خالد خزاعی سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے پوری رکوع اور سجود کے ساتھ ہلکی نماز پڑھی پھر فرمایا یہ رغبت کی نماز تھی۔ میں نے اس میں اللہ تعالیٰ سے تین چیزوں کا سوال کیا۔ دو چیزیں مجھ کو دے دی گئیں۔ اور ایک باقی رہ گئی میں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا۔ کہ وہ تم کو ایسا عذاب نہیں پہنچائیں گے جو تم سے پہلے (لوگوں کو) پہنچا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے مجھ کو یہ عطا فرمایا اور میں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ تم پر ایسا دشمن مسلط نہ ہوجائے جو تمہارے سازوسامان اور ہر چیز کو مباح کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بھی قبول فرمایا پھر میں نے سوال کیا کہ وہ تمہیں مختلف گروہوں میں خلط ملط نہ کرے۔ ایک کو دوسرے کی جنگ کا مزا چکھا دے تو اس سے منع کردیا گیا۔ (26) امام طبرانی نے خالد خزاعی ؓ سے روایت کیا کہ جو اصحاب شجرہ میں سے تھے کہ ہم کو رسول اللہ ﷺ نے ایک دن نماز پڑھائی نماز کو ہلکا فرمایا اور بیٹھ گئے۔ اور طویل قعدہ فرمایا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے کہا یا رسول اللہ آپ نے اپنی نماز میں بیٹھنے کو لمبا فرمایا آپ نے فرمایا یہ رغبت اور رہبت والی نماز تھی میں نے اللہ تعالیٰ سے اس میں تین چیزوں کا سوال کیا۔ دو چیزیں مجھ کو دے دی گئیں اور ایک چیز سے مجھ کو منع کردیا گیا۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ وہ تم کو ایسے عذاب سے ہلاک نہ کر دے جو تم سے پہلے لوگوں کو بھیجا تو یہ بھی مجھ کو عطا فرمادیا۔ اور میں نے ان سے سوال کیا کہ ان پر دشمن کو مسلط نہ کردے کہ وہ اس کو تباہ و برباد کردے۔ تو یہ بھی مجھ کو عطا فرمادیا اور میں نے ان سے سوال کیا کہ تمہیں مختلف گروہوں میں خلط ملط نہ کرے۔ بعض کی شدت اور سختی دوسرے بعض کو نہ چکھائے تو اس سے مجھ کو منع کردیا گیا۔ (27) امام نعیم بن حماد نے کتاب الفتن میں ضرار بن عمر و ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے لفظ آیت اذیلبسکم شیعا کے بارے میں فرمایا کہ چار فتنے ہوں گے۔ پہلا فتنہ آئے گا تو خونوں کو اس میں خلل کردیا جائے گا۔ اور دوسرے فتنہ میں خون کو اور مالوں کو حلال کردیا جائے گا اور تیسرے فتنہ میں خونوں کو مالوں کو اور شرم گاہوں کو حلال کردیا جائے گا۔ اور چوتھا فتنہ اندھا ظلم ہوگا۔ جو سمندر کی موجوں کی طرح جوش مار کر ہر طرف پھیل جائے گا۔ یہاں تک کہ عرب کا کوئی گھر نہیں بچے گا۔ مگر وہ اس میں وہ داخل ہوگا۔ دین اسلام کے پھیلنے کے بارے میں پیشنگوئی (28) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن مردویہ نے شداد بن اوس ؓ سے ایک مرفوع حدیث میں روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میرے لئے زمین کو لپیٹ دیا یہاں تک کہ میں نے اس کے مشارق اور اس کے مغارب کو دیکھا اور میری امت کا ملک (یعنی بادشاہ) عنقریب وہاں پہنچے گا۔ جہاں تک میرے لئے زمین کو لپیٹا گیا ہے اور مجھ کو دو خزانے سرخ اور سفید عطا فرمائے۔ اور میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری قوم قحط سالی سے ہلاک نہ ہو اور تم کو مختلف گروہوں میں خلط ملط نہ کرے۔ اور ایک کو دوسرے کی جنگ کا مزہ نہ چکھائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے محمد ﷺ جب میں کوئی فیصلہ کردیتا ہوں۔ تو اسے رد نہیں کیا جاسکتا۔ اور میں نے تیری امت کو یہ عطا کردیا ہے کہ ان کو قحط سالی سے ہلاک نہیں کروں گا۔ اور ان پر بیرونی دشمن کو مسلط نہیں کروں گا کہ وہ ان کو ہلاک کردے۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض کو بعض کو ہلاک کر دے گا۔ اور ان کا بعض بعض کو قتل کردے گا۔ اور ان کا بعض بعض کو قیدی بنائے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا میں اپنی امت پر گمراہ کرنے والے آئمہ سے ڈرتا ہوں جب میری امت میں سے تلوار رکھ دی جائے تو پھر ان سے قیامت کے دن تک نہیں اٹھائی جائے گی۔ (29) امام ابن ابی شیبہ، احمد، ابن ماجہ، ابن منذر اور الفاظ امام ابن منذر کے ہیں اور ابن مردویہ نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسی نماز پڑھی جس میں اس کے قیام کو اس کے رکوع کو اور اس کے سجود کو خوب لمبا فرمایا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آج آپ نے نماز کو اتنا لمبا فرمایا ؟ آپ نے فرمایا یہ رغبت اور رھبت کی نماز تھی۔ میں نے اپنے رب سے تین چیزوں کا سوال کیا۔ دو مجھ کو عطا فرمادیں اور ایک چیز مجھ سے روک لی گئی میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری امت پر بیرونی دشمن مسلط نہ کرے جو ان کے عام لوگوں کو ہلاک کردے اور یہ چیز مجھ کو عطا فرمادی اور میں نے ان سے سوال کیا کہ ان پر قحط سالی مسلط نہ کرے جو ان کے عام لوگوں کو ہلاک کر دے تو یہ چیز بھی مجھ کو عطا فرمادی۔ اور احمد اور ابن ماجہ کے یہ الفاظ ہیں۔ اور میں نے ان سے سوال کیا کہ ان کے درمیان (آپس میں) لڑائی نہ ہو۔ تو اس سے مجھ کو روک دیا گیا۔ (یعنی اسے قبول نہیں فرمایا) چار سوالات میں سے تین قبول ہوئے (30) امام ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا میں نے اپنے رب سے اپنی امت کے لئے چار چیزوں کا سوال کیا مجھ کو تین چیزیں عطا فرمادیں اور ایک چیز کو مجھ سے منع کردیا میں نے ان سے سوال کیا کہ میری امت کسی کفر میں مبتلا نہ ہو تو یہ چیز مجھ کو عطا فرمادی اور میں نے ان سے سوال کیا کہ اس پر کسی بیرونی دشمن کا غلبہ نہ ہو کہ یہ بھی مجھ کو عطا فرمادیا اور میں نے ان سے سوال کیا کہ ان کو ایسا عذاب نہ دے جو ان سے پہلی امتوں کو عذاب دیا گیا۔ تو یہ بھی مجھ کو عطا فرمادیا۔ اور میں نے ان سے سوال کیا کہ ان کے درمیان (آپس میں) لڑائی نہ ہو تو اسے منع کردیا گیا۔ (31) امام ابن جریر نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت لفظ آیت قل ھو القادر علی ان یبعث علیکم عذابا نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور وضو فرمایا اور اپنے رب سے سوال کیا کہ ان پر عذاب نہ بھیجے ان کے اوپر سے اور ان کے پاؤں کے نیچے سے اور اس امت کو گروہوں میں خلط ملط نہ کرے اور بعض کی شدت بعض کو نہ چکھائے جیسے کہ بنی اسرائیل کو چکھایا۔ جبرئیل آپ کی طرف اترے ا اور فرمایا اے محمد ﷺ آپ نے اپنے رب سے چار چیزوں کا سوال کیا ہے۔ دو چیزیں آپ کو دے دی گئیں اور دو چیزوں سے منع کردیا گیا۔ ان پر ہرگز ان کے اوپر اور ان کے نیچے سے ایسا عذاب نہیں آئے گا کہ ان کو جڑ سے کاٹ دے۔ یہ دونوں عذاب ہیں ہر امت کے لئے جو جمع ہوئی اپنے نبی کو جھٹلانے پر اور اپنے رب کی کتاب کو رد کردیا۔ لیکن ان کو مختلف گروہوں میں خلط ملط کردے گا اور بعض بعض کی لڑائی کا مزا چکھا دے گا یہ دونوں عذاب ہیں جو کتابوں کا اقرار کرتے ہیں اور انبیاء کی تصدیق کرتے ہیں لیکن وہ اپنے گناہوں کے بدلے عذاب دیئے جاتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ لفظ آیت فاما نذھبن بک فانا منھم منتقمون یعنی ہم تیری امت میں سے بدلہ لیں گے۔ یا ہم تجھ کو دکھائیں گے۔ وہ چیز جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا تھا عذاب میں سے حالانکہ آپ زندہ ہیں ہم اس پر قدرت رکھنے والے ہیں۔ اللہ کے نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور اپنے رب سے رجوع کرتے ہوئے فرمایا کون سی مصیبت زیادہ سخت ہوگی اس سے کہ میں اپنی امت کو دیکھوں کہ بعض بعض کو عذاب دے رہا ہے اور آپ کی طرف وحی کی گئی لفظ آیت الم احسب الناس ان یترکوا (دو آیتیں) اور آپ ﷺ کو بتایا کہ آپ کی امت کو فتنوں کے لئے خاص نہیں کیا گیا۔ دوسری امتوں کے علاوہ بلکہ عنقریب اس امت کو بھی مبتلا کیا جائے گا جیسے دوسری امتوں کو مبتلا کیا گیا۔ پھر ان پر اتارا گیا لفظ آیت قل رب اما ترینی ما یوعدون رب فلا تجعلنی فی القوم الظلمین اللہ کے نبی ﷺ نے پناہ مانگی تو ان کو اللہ نے پناہ دے دی آپ کو نہیں دکھایا گیا آپ کی امت میں سے مگر اتفاق و اتحاد کو الفت و محبت کو اور اطاعت و عبادت کو پھر ان پر آیت نازل ہوئی اس میں ڈرایا گیا اصحاب فتنہ کو اور آپ کو خبر دی گئی کہ بعض لوگ ہی اس فتنہ میں مبتلا نہ ہوں گے۔ اور فرمایا لفظ آیت واتقوا فتنۃ لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصۃ واعلموا ان اللہ شدید العقاب پس نبی ﷺ کے بعد آپ کی امت کے کئی گروہ ان فتنوں میں مبتلا ہوئے اور کئی ان سے محفوظ رہے۔ (32) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے زید بن اسلم ؓ سے روایت کیا کہ جب (یہ آیت) لفظ آیت قل ھو القادر علی ان یبعث علیکم عذابا نازل ہوئی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے بعد کافر ہو کہ نہ لوٹ جانا کہ بعض تمہارا بعض کی گردنوں کو تلواروں سے مارنے لگے صحابہ نے کہا کیا ہم گواہی نہیں دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں ؟ فرمایا ہاں بعض لوگوں نے کہا یہ ہمیشہ نہیں ہوگا تو اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت انظر کیف نصرف الایت لعلھم یفقھون و کذب بہ قومک وھو الحق سے لے کر لفظ آیت وسوف تعلمون تک۔ (33) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت عذابا من فوقکم او من تحت ارجلکم یہ مشرکین کے لئے ہے (اور) لفظ آیت اویلبسکم شیعا ویذیق بعضکم باس بعض یہ مسلمانوں کے لئے ہے۔ (34) امام ابن ابی حاتم اور ابن قانع نے معجم میں ابن اسحاق سے اور انہوں نے عبد اللہ بن ابی بکر (رح) سے روایت کیا کہ عبداللہ بن سہیل ؓ نے اپنے والد کے پاس یہ آیت پڑھی لفظ آیت وکذب بہ قومک وھو الحق قل لست علیکم بوکیل اور فرمایا اللہ کی قسم اے میرے بیٹے اگر تو وہاں ہوتا جب ہم مکہ مکرمہ میں نبی ﷺ کے ساتھ تھے تو اس سے وہ کچھ سمجھتا جو میں آج سمجھا ہوں اور میں اس وقت اسلام لا چکا تھا۔ (35) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت وکذب بہ قومک یعنی قریش نے قرآن کو جھٹلایا لفظ آیت وھو الحق حالانکہ وہ سچ ہے اور لفظ آیت بوکیل اس کا معنی ہے حفاظت کرنے والا اور لفظ آیت لکل نبا مستقر یعنی قرآن کی خبر کا ظہور بدر کا دن اسی عذاب اور شدت کی صورت میں ہوا جو ان کے لئے عذاب تیار کیا گیا تھا۔ (36) امام نحاس نے ناسخ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت قل لست علیکم بوکیل کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت منسوخ کردی گئی آیۃ السیف یعنی لفظ آیت فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم سے۔ (37) امام ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت لکل نبا مستقر یعنی حقیقتا کہ نبا سے مراد حقیقت ہے۔ (38) امام ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے یوں پڑھا لفظ آیت لکل نبا مستقر یعنی اس کی سزا کو روک لیا گیا یہاں تک کہ گناہ کا عمل اس سزا کو آزاد کرالیتا ہے (یعنی گناہ کرنے پر سزا دی جاتی ہے) (39) امام ابن جریر نے عوفی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت نبا مستقر وسوف تعلمون کے بارے میں فرمایا کہ ایک فعل ہے اور حقیقت ہے کہ جو کچھ بھی دنیا میں ہوا ہے اور جو کچھ آخرت میں ہوگا۔ (40) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت لکل نبا مستقر وسوف تعلمون کے بارے میں فرمایا کہ ہر خبر کے لئے ایک حقیقت ہے لیکن دنیا میں عنقریب تم اس کو دیکھ لو گے۔ اور آخرت میں بھی عنقریب وہ تمہارے لئے ظاہر ہوجائے گی۔
Top