Urwatul-Wusqaa - Al-Waaqia : 89
فَرَوْحٌ وَّ رَیْحَانٌ١ۙ۬ وَّ جَنَّتُ نَعِیْمٍ
فَرَوْحٌ : تو راحت ہے وَّرَيْحَانٌ : اور رزق ہے وَّجَنَّتُ نَعِيْمٍ : اور نعمتوں والی جنت ہے
اس کے لیے تو آرام اور آسائش مقدر ہے اور نعمتوں والی جنت بھی
اس کے لیے تو آرام و آسائش مقرر ہے اور نعمتوں والی جنت میں 98 ہم نے اوپر وضاحت سے عرض کردیا ہے کہ یہاں پہنچ کر دو گروہ جاتے ہیں ایک جسم اور جان یا روح کو دو الگ الگ چیزیں مانتے ہیں اور ایک گروہ جسم و جان یا روح کو ایک ہی چیز تصور کرتا ہے تاہم اوپر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے ہم اس گروہ میں شامل ہیں جو جسم و جان یا روح کو الگ الگ دو چیزیں تسلیم کرتا ہے اس لیے ہم پورے ایمان و ایقان سے کہتے ہیں کہ جان نکلتے ہی اس کو ربِّ کریم کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے اور جسم انسانوں کے پاس رہ جاتا ہے اس جسم کے ساتھ انسان اپنے رسم و رواج کے ساتھ جو کچھ بھی کرتے ہیں سب پر روشن ہے اور جان کا تعلق اگر اس نے نیک اور صالح جسم کو چھوڑا ہے تو عالم بالا میں مقام علیین میں اس کو ٹھہرایا جاتا ہے اور اگر اس کا تعلق کسی برے اور بد جسم کے ساتھ تھا تو اس کو مقام سجیین مہیا کیا جاتا ہے۔ قیامت تک ان کو انہی دونوں مقامات پر رہنا ہے ہاں نیک اور صالح جسموں سے الگ ہونے والی ارواح کا تعلق جنت کے ساتھ برے جسموں سے الگ رہنے والی ارواح کا تعلق دوزخ کے عذاب سے جو ڑدیا جاتا ہے حقیقت اس کی اللہ جانتا ہے کیونکہ یہ عالم غیب کا مسئلہ ہے عالم شہود کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں اور یہ محض اس لیے کہا جا رہا ہے تاکہ دونوں قسم کی ارواح اپنے اپنے مقام کو اچھی طرح جان لیں اور سمجھ لیں کہ انجام کار ان کا سابقہ کس جگہ سے پڑنے والا ہے اور اس سے خوف کھا کر جو اپنی اصلاح چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے خیال میں مداخلت بیجا ہے کیونکہ اس جگہ مقام بحث نہیں مجض مقام تفہیم ہے اور جس طرح کسی کی ہوجائے اس کو مبارک ہے ۔ رُح اور ریحان سے مراد راحت و آرام ہی یعنی عالم دنیا سے رخصت ہوتے ہی جب عالم آخرت کے ساتھ اس کا تعلق قائم ہوگیا تو نعمتوں والی جنت سے ان کا رابطہ بھی قائم کردیا گیا ۔ آپ اس کو اس طرح سمجھ لیں کہ وہ شخص جو کسی ایسے عہدہ پر فاز نہ ہو لیکن کسی ایسے عہدہ پر فائز ہونے والے اس کے تعلقات ہوں تو اس کو ان تعلقات سے بھی کوئی خوشی ملتی ہے یا نہیں اور اس طرح ایک شخص کسی مصیبت اور دکھ میں براہ راست تو مبتلا نہیں ہوا لیکن اس سے کوئی خاص تعلق رکھنے والا اگر کسی مصیبت اور دکھ میں مبتلا ہوجائے تو آیا اس کو بھی اس سے کچھ حصہ فطری طور پر مل جاتا ہے یا نہیں۔ دونوں صورتوں میں آپ کا جواب یقینا ہاں ہی ہو سکتا ہے لاریب جو کچھ کیا وہ جسم و جان دونوں نے مل کر کیا ان میں سے کسی ایک نے فقط نہیں کیا لیکن دونوں اپنی اپنی جفہ مجرم و ملزم یا خوشی و مسرت میں ہیں۔ جسم کو موت آگئی اور روح کو موت نہیں ہے جو لوگ تسلیم کرتے ہیں ان کو حق ہے کہ وہ روح کے متعلق جس طرح کے جسم سے وہ جدا ہوئی ہے اس کا تصور قائم کریں اور جو دونوں کی موت کے قائل ہیں ان کا معاملہ ان کے ساتھ ہے اس لیے ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جو مقربین کی روحیں ہیں ان کا رابطہ مرتے ہی جنت کے ساتھ قائم ہوجاتا ہے اور زیر نظر آیت میں یہی بات ارشاد فرمائی جا رہی ہے اور وضاحت اس کے پیچھے گزشتہ آیات میں ہم کر آئے ہیں اس لیے اس جگہ اشارہ ہی سے بات کہہ رہے ہیں اور جنت کے آرام و آسائش کو دیکھ کر وہ بحمداللہ خوش و خرم ہیں اور وہ کبھی دنیا میں واپسی کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔
Top