Tafseer-e-Madani - Al-Waaqia : 89
فَرَوْحٌ وَّ رَیْحَانٌ١ۙ۬ وَّ جَنَّتُ نَعِیْمٍ
فَرَوْحٌ : تو راحت ہے وَّرَيْحَانٌ : اور رزق ہے وَّجَنَّتُ نَعِيْمٍ : اور نعمتوں والی جنت ہے
تو اس کے لئے ایک عظیم الشان راحت عمدہ روزی اور نعمتوں بھری جنت ہوگی
[ 76] مقربین کیلئے عمدہ روزی کی بشارت کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا اور عمدہ روزی و سرور بھی۔ ریحان کے معنی روزی کے بھی کیے گئے ہیں اور خوشبو و سرور کے بھی اور جیسا کہ اوپرے حاشیے میں بھی گزرا اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں ہی اللہ پاک کی دو عظیم الشان نعمتیں ہیں، وہ ان سے وہاں پر اپنے فضل و کرم سے اپنے نیک بندوں کو نوازے گا اور سرفراز فرمائے گا جیسا کہ حضرت براء بن عازب ؓ کی روایت میں ہے کہ انتقال کے وقت رحمت کے فرشتے اس کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ اے پاکیزہ روح جو کہ اس پاکیزہ جسم میں رہی، تو نے اسے آباد رکھا پس اب تو نکل چل ایک عظیم الشان راحت و روزی اور اپنے اس رب کی طرف جو کہ غصے میں نہیں ہے۔ { فاخرجی الیٰ روحٍ و ریحان ورب غیر غضبان } [ ابن کثیر، مراغی وغیرہ ] اور سنن ترمذی (رح) وغیرہ کی روایت میں ہے کہ ملک الموت جب کسی نیک بندے کی روح قبض کرنے آتے ہیں تو ان کے ساتھ پانچ سو ایسے فرشتے ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں خوشبو دار ڈالیوں کے گچھے ہوتے ہیں، جن میں سے ہر ڈالی پر بیس رنگ ہوتے ہیں، اور ہر رنگ کی خوشبو دوسرے سے مختلف اور جدا ہوتی ہے، سو جنت کی اس خوشبو کے جلو میں ایسے خوش نصی حضرات کی روحیں قبض ہوتی ہیں، [ جامع البیان وغیرہ ] سبحان اللّٰہ ! کیا کہنے اس اکرم الاکرمین کے انعام و اکرام اور بخشش و عطا کے، فلہٗ الحمد ولہ الشکر قبل کل شی وبعد کل شیء اے اللہ ! بےنہایت رحمت اور لامحدود و کرم والے اللہ ! محض اپنے فضل و کرم سے مجھے میرے بیوی بچوں کو اور میرے بہن بھائیوں میرے اساتذہ و مشائخ اور دوسرے تعلق داروں اور جملہ اہل ایمان کو اپنی ان عظیم الشان رحمتوں اور نعمتوں کا اہل بنا دے اور ان سے سرفراز فرما دے اور محض اپنے فضل و کرم سے ان کا اہل بنا دے اور ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین واکرم الاکرمین، [ 77] نعمتوں بھری جنتوں کی بشارت کا ذکر وبیان : سو مقربین کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ان کیلئے نعمتوں بھری جنتیں ہونگی جن میں وہ سب کچھ ہوگا جو ان کے دل چاہیں گے اور جس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہونگی اور مقربین سے یہاں پر مراد وہی خوش نصیب ہیں جن کو اس سورة کریمہ کے شروع میں " السابقون " کے وصف کے ساتھ ذکر فرمایا گیا ہے، [ القرطبی ] سو ان خوش نصیبوں کو انکے انتقال کے وقت ان تینوں نعمتوں کی خوشخبری سنا دی جائے گی [ جامع البیان وغیرہ ] جس سے وہ اللہ سے ملنا اور اس کے حضور حاضری و پیشی کو پسند کریں گے اور جس کو انتقال کے وقت یہ سعادت نصیب ہوگئی اس کا کام بن گیا، اللہ نصیب فرمائے اور محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے آمین ثم آمین یا ارحم الراحمین کیونکہ حدیث میں فرمایا گیا جو اللہ اس سے ملنا پسند کرے گا اور جو اللہ سے ملنا ناپسند کرے گا اللہ اس سے ملنا پسند کرے گا تو اس پر حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ اللہ سے ملنا اور اس کے حضور پیشی کا ذریعہ تو مرت ہے اور موت کو تو ہر کوئی طبعی طور پر ناپسند کرتا ہے، تو پھر اللہ سے ملاقات کو پسند کرنے کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ تو اس پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیک آدمی جو جب وہاں پر ملنے والی نعمتیں دکھائی جاتی ہیں تو اس وقت وہ کہتا ہے کہ مجھے جلد اللہ کے حضور لے چلو، جبکہ برے آدمی کو وہاں کے عذاب وغیرہ کے مناظر دکھائے جاتے ہیں تو وہ خوف کے مارے کہتا ہے مجھے کہاں لے جا رہے ہو ؟ تو اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں اللہ بھی اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔
Top