Urwatul-Wusqaa - Al-Waaqia : 71
اَفَرَءَیْتُمُ النَّارَ الَّتِیْ تُوْرُوْنَؕ
اَفَرَءَيْتُمُ : کیا پھر دیکھا تم نے النَّارَ : آگ کو الَّتِيْ تُوْرُوْنَ : وہ جو تم سلگاتے ہو
جس آگ کو تم سلگاتے ہو (کبھی اس پر بھی) غور کیا ہے ؟
جس آگ کو تم سلگاتے ہو کیا تم نے کبھی اس پر بھی غوروفکر کیا ؟ 17۔ جس طرح پانی ضروریات زندگی میں سے ہے اسی طرح آگ بھی ضروریات زندگی ہی میں سے ہے اور رلاریب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے اور انسانی زنددگی کے لیے جتنی وہ ضروری ہے وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ روشنی کا کام ہم کو دیتی ہے اور اس سے کھانے پکانے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ صنعت و حرفت میں اس سے کام لیا جاتا ہے مختصراً یہ کہ اگر آگ کا وجود نہ ہوتا تو انسانی زندگی کا نقشہ یقینا نہ ہوتا جیسا کہ اس وقت نظر آرہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توجہ اس طرح مبذول کر ارہا ہے کہ کیا تم نے اس آگ کی طرف بھی کبھی توجہ کی جس کو تم اپنی اپنی ضرورتوں کے لیے سلگاتے ہو۔ { تورون } تم سلگاتے ہو ‘ توم روشنی کرتے ہو ایراء س جس کے معنی چقماق سے آگ نکلالنے کے ہیں مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ دراصل عرب میں دو ایسے درخت ہیں کہ اگر ان دونوں کو ملا کر ایک دوسرے سے رغرا جائے تو ان میں سے آگ کا ساشعلہ نکلتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے ہرے درخت جب آپس میں رگڑ کھاتے ہیں تو آگ کی مانند شعلہ ان سے بلند ہوتا ہے لیکن وہ اس سے جل نہیں جاتے تاہم اس سے مراد سارے درخت بھی لیے جاسکتے ہیں کیونکہ سارے درخت ہی آگ جلانے کے کام آتے ہیں اور پرانے ایندھنوں میں سے زیادہ تر ایندھن اس لکڑی سے حاصل کیا جاتا تھا اور آج جب بیشمار چیزیں ایندھن کے لیے استعمال ہوتی ہیں تو یہ ضرورت بدستور اپنی جگہ اسی طرح قائم ہے اور لکڑی جلانے کے کام آتی ہے۔ ان میں ایک کو ” مرخ “ اور دوسرے کو ” عفار “ کہتے ہیں جن کی رگڑ سے آگ پیدا ہوتی ہے۔
Top