Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 258
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰهٖمَ فِیْ رَبِّهٖۤ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ١ۘ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ١ۙ قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُ١ؕ قَالَ اِبْرٰهٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِیْ كَفَرَ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۚ
اَلَمْ تَرَ : کیا نہیں دیکھا آپ نے اِلَى : طرف الَّذِيْ : وہ شخص جو حَآجَّ : جھگڑا کیا اِبْرٰھٖمَ : ابراہیم فِيْ : بارہ (میں) رَبِّهٖٓ : اس کا رب اَنْ : کہ اٰتٰىهُ : اسے دی اللّٰهُ : اللہ الْمُلْكَ : بادشاہت اِذْ : جب قَالَ : کہا اِبْرٰھٖمُ : ابراہیم رَبِّيَ : میرا رب الَّذِيْ : جو کہ يُحْيٖ : زندہ کرتا ہے وَيُمِيْتُ : اور مارتا ہے قَالَ : اس نے کہا اَنَا : میں اُحْيٖ : زندہ کرتا ہوں وَاُمِيْتُ : اور میں مارتا ہوں قَالَ : کہا اِبْرٰھٖمُ :ابراہیم فَاِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْتِيْ : لاتا ہے بِالشَّمْسِ : سورج کو مِنَ : سے الْمَشْرِقِ : مشرق فَاْتِ بِهَا : پس تو اسے لے آ مِنَ : سے الْمَغْرِبِ : مغرب فَبُهِتَ : تو وہ حیران رہ گیا الَّذِيْ كَفَرَ : جس نے کفر کیا (کافر) وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : نہیں ہدایت دیتا الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ : ناانصاف لوگ
بھلا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اس (غرور کے) سبب سے کہ خدا اس کو سلطنت بخشی تھی ابراہیم سے پروردگار کے بارے میں جھگڑنے لگا جب ابراہیم نے کہا میرا پروردگار تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے وہ بولا کہ جلا اور مار تو میں بھی سکتا ہوں ابراہیم نے کہا کہ خدا تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے آپ اسے مغرب سے نکال دیجئے۔ یہ سن کر کافر حیران رہ گیا۔ اور خدا بےانصافوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
آیت نمبر 258 تا 260 ترجمہ : کیا تم نے اس شخص کے حال پر نظر نہیں کی جس نے ابراہیم (علیہ السلام) سے ان کے رب کے بارے میں مباحثہ کیا تھا ؟ اس سبب سے کہ اللہ نے اس کو بادشاہت دے رکھی تھی، اللہ کی نعمتوں پر اترانے نے اس کو اس سرکشی (مباحثہ) پر آمادہ کیا تھا اور وہ نمروذ تھا، اس وقت جبکہ ابراہیم نے اس کے اس قول کے جواب میں کہ تیرا رب کون ہے ؟ جس کی طرف دعوت دیتا ہے ؟ کہا تھا میرا رب تو وہی ہے جو زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے یعنی موت وحیات کو جسموں میں پیدا کرتا ہے، وہ بولا زندگی اور موت تو قتل اور معافی کے ذریعہ میں (بھی) دیتا ہوں اور اس نے دو آدمیوں کو بلایا ان میں سے ایک کو قتل کردیا اور دوسرے کو چھوڑ دیا۔ جب (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے) اس کو بیوقوف پایا تو اس سے بھی زیادہ واضح حجت کی طرف انتقال کرتے ہوئے ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ (اچھا) اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو مغرب سے نکال کر دکھا۔ اس پر وہ کافر دنگ رہ گیا (یعنی) حیران و ششدر رہ گیا، اللہ تعالیٰ کفر کے ذریعہ ظلم کرنے والوں کو راہ استدلال نہیں دکھاتا، یا (پھر) کیا اس شخص (کے حال) پر نظر کی ؟ کاف زائد ہے۔ جو ایک بستی پر کہ بستی وہ بیت المقدس تھی گدھے پر سوار ہو کر گزرا اور اس کے ساتھ انجیر کی ایک ٹوکری تھی اور انگور کے شیرے کا ایک پیالہ تھا، اور وہ عزیز (علیہ السلام) تھے اور وہ بستی اپنی چھتوں کے بل گری ہوئی تھی، اس لئے کہ اس کو بخت نصر نے برباد کردیا تھا۔ تو اس نے کہا اس بستی (والوں) کو ان کے مرنے کے بعد اللہ کس طرح زندہ کرے گا ؟ (حضرت عزیز نے) یہ بات اللہ کی قدرت کو عظیم سمجھتے ہوئے (تعجب کے طور پر) کہی تو اللہ نے اس کو موت دیدی اور سو سال تک پڑا رکھا پھر اس کو زندہ کیا تاکہ اس کو احیاء کی کیفیت دکھائے، اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا تو (اس حالت میں) کتنی مدت پڑا رہا تو اس نے کہا ایک دن یا اس کا کچھ حصہ رہا ہوں گا اسلئے کہ وہ بوقت صبح سویا تھا تو اس کی روح قبض کرلی گئی اور غروب کے وقت زندگہ کیا گیا تو اس نے سمجھا کہ یہ غروب سونے کے دن ہی کا ہے۔ فرمایا (نہیں) بلکہ تو سو سال تک رہا اب تو اپنے انجیر کو اور مشروب انگور کے رس کو دیکھ کر وہ بول زمان کے باوجود خراب نہیں ہوا، کہا گیا ہے کہ (یَتَسَنّہ) میں (ھا) اصلی ہے، سَانَھْتُ سے مشتق ہے اور کہا گیا ہے کہ وقف کی ہے سانَیْت سے ماخوذ ہے، اور ایک قراءت میں حذف ھا۔ کے ساتھ ہے اور اپنے گدھے کو بھی دیکھ کہ اس کی کیا حالت ہے تو اس کو مردہ دیکھا، اور اس کی ہڈیاں سفید چمکدار ہیں، ہم نے یہ اس وجہ سے کیا تاکہ تم کو (مشاہدہ) کے طور پر معلوم ہوجائے اور تاکہ ہم تجھ کو لوگوں کے لئے بعثت پر نشانی بنادیں اور تو اپنے گدھے کی ہڈیوں کو دیکھ کہ ہم ان کو کس طرح زندہ کرکے اٹھاتے ہیں (نُنشِزُھَا) نون کے ضمہ اور نون کے فتحہ کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے، اَنْشَزَ اور نَشَزَ سے دو لغت ہیں اور ایک قراءت میں ضمہ نون اوزاء کے ساتھ ہے یعنی اس کو حرکت دیتے ہیں اور اٹھاتے ہیں، پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں تو (حضرت عزیز (علیہ السلام) نے) ان ہڈیوں کو دیکھا دراں حالیکہ وہ جڑ گئیں اور ان پر گوشت چڑھا دیا گیا اور ان میں روح پھونک دی گئی، اور وہ بولنے لگا، پھر جب یہ سب کچھ مشاہدہ کے طور پر ظاہر ہوگیا تو (حضرت عزیر (علیہ السلام) کہہ اٹھے کہ مجھے (مشاہدہ سے) علم یقینی حاصل ہوگیا، کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر شئ پر قادر ہے اور ایک قراءت میں اِعْلَمْ بصیغہ امر ہے (یعنی) اللہ کی جانب سے ان کو دیکھ کر علم مشاہدہ حاصل کرنے کا حکم ہوا، اور اس واقعہ کو یاد کرو کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا ؟ ان سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تم کو میری قدرت علی الاحیاء پر یقین نہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) سے سوال کیا باوجود یکہ اللہ تعالیٰ کو ابراہیم (علیہ السلام) کے ایمان کا علم تھا، تاکہ ابراہیم (علیہ السلام) اس کے سوال کا جواب دیں اور سامعین کو ابراہیم (علیہ السلام) کے سوال کا مقصد معلوم ہوجائے، ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا ایمان تو ہے مگر میں نے آپ سے سوال کیا تاکہ مشاہدہ مع استدلال سے میرے قلب کو سکون ہوجائے، فرمایا چار پرند لو ان کے ٹکڑے کر ڈالو پھر ان کو اپنی طرف ہلاؤ صاد کے کسرہ اور ضمہ کے ساتھ یعنی ان کو اپنی طرف مائل کرو اور ان کے ٹکڑے کرکے ان کے گوشت اور پروں کو خَلَطْ مَلَطْ کردو پھر اپنے علاقہ کے ہر پہاڑ پر ان میں سے تھوڑا تھوڑا رکھ دو پھر ان کو اپنی طرف آواز دو وہ تیری طرف تیزی سے آئیں گے اور سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ غالب ہے، اس کو کوئی چیز عاجز نہیں کرسکتی اور اپنی صنعت میں حکمتوں والا ہے چناچہ (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے) ایک مور ایک کرگس ایک کوا ایک مرغا لیا اور ان کے ساتھ مذکورہ معاملہ کیا اور ان کے سروں کو اپنے پاس رکھ لیا، پھر ان کو آواز دی تو بعض اجزاء بعض کی طرف اڑے حتیٰ کہ مکمل پرند ہوگئے پھر وہ اپنے سروں کی طرف متوجہ ہوئے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : جَادَلَ ، حاجّ کی تفسیر جادَلَ سے کرکے بتادیا کہ حاجَّ بمعنی غَلَبَ فی الحجۃ نہیں ہے جیسا کہ حدیث میں وارد ہے فَحَجّ آدمُ موسیٰ ، آدم (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) پر غالب آگئے۔ اس لئے کہ نمرود حجت میں ابراہیم پر غالب نہیں آیا تھا۔ قولہ : اَیْ حَمَلَہٗ الخ، اس میں اشارہ ہے کہ نمروذ کی حجت بازی کا سبب اعطاء ملک تھا، أنْ اٰتٰہُ اللہُ ، الملکَ حذف لام کے ساتھ مفعول لِاَجَلہ ہے ای لَاَن آتاہ اللہ الملک۔ قولہ : نُمرُوذُ ، نمرُوذُ بن کنعان، نُمرُوذ۔ نون اور ذال معجمہ کے ضمہ کے ساتھ، (ترویح الارواح) ، یہ ولد الزنا تھا سب سے پہلے تاج مکلل اپنے سر پر اسی نے رکھا تھا اور روئے زمین کا مالک ہوا نیز اس نے ربوبیت کا دعویٰ کیا، دنیا میں چار بادشاہ ایسے گزرے ہیں جو روئے زمین کا مالک ہوئے ہیں ان میں سے دو مسلمان سلیمان و ذوالقرنین (علیہم السلام) ہیں، اور دو کافر ہیں نمروذوبخت نصر۔ قولہ : بَطَرہ، بَطَر کے معنی اترانے اور حد سے زیادہ بےجا فخر کرنے کے ہیں۔ قولہ : اِذ، بدل من حَاجّ ۔ یہ ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : اِذ ظرفیہ کا فعل سے بدل واقع ہونا درست نہیں ہے ؟ جواب : حذف فعل مثل جاَدلَ یا خَاصَمَ سے بدل کل ہے اِذ ظرفیہ کی طرف بدلیت کی نسبت فعل کے قائم مقام ہونے کی وجہ ہے۔ قولہ : ای یخلق الحیاۃَ والموتَ اس عبارت میں نمروذ کے اعتراض کے فاسد ہونے کی طرف اشارہ ہے اس لئے کہ یحی وَیُمیت سے مطلب اجسام میں موت وحیات کو پیدا کرنا ہے جو کہ نمروذ سے ممکن نہیں تھا۔ قولہ : تَحَیَّرَ ودَھِشَ ، بُھِتَ ، ان افعال میں سے ہے کہ جو مبنی للمفعول استعمال ہوتے ہیں مگر معنی میں مبنی للفاعل کے ہوتے ہیں، بُھِتَ ، کی تفسیر تحَیَرَ اور دَھِشَ ، سے کرکے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ قولہ : المحجۃ، میم کے فتحہ کے ساتھ، کشادہ راستہ۔ قولہ : منتقلاً اِلیٰ حجۃٍ اوضع منھا، اس اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : یہ ہے کہ ایک دلیل سے دوسری دلیل کی طرف انتقال دو وجہ سے ہوا کرتا ہے اول دلیل میں فساد و نقص ہو حالانکہ نبی سے یہ ممکن نہیں ہے، دوسرے یہ کہ اگر دلیل میں کوئی ابہام ہو تو اس کو واضح نہ کرسکے اور یہ بھی درست نہیں۔ جواب : یہ انتقال، مِنْ دَلیلٍ اِلیٰ دَلیلٍ آخر، نہیں ہے بلکہ دلیل خفی سے دلیل جلی کی طرف انتقال ہے۔ قولہ : اَوْ راَیتَ کالّذی، راَیتَ کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : اَوْ کاَلّذی کا عطف کالّذِیْ حَاجَّ پر درست نہیں ہے اس لئے کہ جو عامل معطوف علیہ کا ہوتا ہے وہی معطوف کا بھی ہوتا ہے معطوف علیہ کا عامل اِلیٰ ، ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ کالّذِی کا عامل بھی، الیٰ ہو، حالانکہ کاف پر الیٰ کا دخول جائز نہیں ہے کاف خواہ اسمیہ ہو یا حرفیہ۔ جواب : یہ عطف مفرد علی المفرد نہیں ہے بلکہ عطف جملہ علی الجملہ ہے اور کالذی سے پہلے اَراَیتَ محذوف ہے جیسا کہ مفسر علام نے ظاہر کردیا ہے۔ قولہ : بُخت نصر، بخت بمعنی ابن اور نصر ایک بت کا نام ہے بخت نصر، کے معنی ہیں ابن الصنم اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جب یہ پیدا ہوا تھا تو اس کی والدہ نے اس کو نصر بت کے پاس ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے اس کا نام بخت نصر یعنی ابن الصنم مشہور ہوگیا۔ (صاوی) قولہ : لَمْ یَتَسنَّہ، ای لم یَتَغَیرّ (تَفَعُّل) سے مضارع واحد مذکر غائب، سالہا سال گزرنے کے باوجود خراب نہ ہوا، حمزہ اور کسائی نے ھاء کو ھاء سکتہ قرار دیتے ہوئے حالت وصل میں حذف ضروری قرار دیا ہے ان کے نزدیک اصل لفظ یَتَسَنَّ ہے جس کی اصل یَتَسَنّٰی تھی حالت جزم میں الف ساقط ہو کر یَتَسَنَّ ہوگیا، اس قول کے مطابق یہ سَنَۃٌ سے ماخوذ ہوگا، کس کی اصل سَنْوَۃ تھی۔ ابو عمر و نے کہا تَسَنّی (تفعل) کی اصل تَسَنُّنٌ تھی اور تَسَنُّنٌ کے معنی ہیں تغیر۔ اسی مادہ سے حَمَا مَّسْنُون ہے۔ بعض دیگر حضرات، ھاء کے اصل ہونے کے قائل ہیں جو کہ وقف اور وصل دونوں حالتوں میں باقی رہتی ہے اس قول پر بھی سَنَۃٔ سے ماخوذ ہوگا مگر سَنَۃ کی اصل سَنْھَۃٌ تھی اس لئے کہ اس کی تصغیر سُنِیْھَۃ آتی ہے۔ سوال : لم یَتَسَنَّہٗ ، کو مفرد لایا گیا ہے حالانکہ اس سے مراد ظعام و شراب ہیں لہٰذا تثنیہ لانا چاہیے تھا۔ جواب : طع ام و شراب، بمنزلہ غذا، حکم میں مفرد کے ہیں اس لئے یَتَسَنَّہٗ ، کو مفرد لایا گیا ہے۔ قولہ : فَعَلْنا ذٰلکَ لتَعْلَمَ ۔ سوال : وَلِنَجْعَلَکَ ، میں واؤ کیسا ہے ؟ اگر عاطفہ ہے تو اس کا معطوف علیہ کیا ہے ؟ حالانکہ ماقبل میں کوئی معطوف علیہ ایسا نہیں کہ اس کا اس پر عطف درست ہو۔ جواب : بعض حضرات نے واؤ کو استینافیہ کہا ہے اور لام محذوف کے متعلق ہے، تقدیر عبارت یہ ہے فَعَلْنَا ذٰلک لِنَجْعَلَکَ اٰیۃً للنَاس، لِنَجْعَلَکَ اصل میں لِاَنْ نَجْعَلَکَ ہے جار اپنے مصدر تاویلی مجرور سے مل کر فعل محذوف کے متعلق ہے۔ دوسرا جواب : جن حضرات نے واؤ عاطفہ مانا ہے تو انہوں نے فعل محذوف پر عطف کیا ہے جیسا کہ مفسر علام نے لِتَعْلَمَ معطوف علیہ مقدر مانا ہے اور وہ معطوف علیہ ایک دوسرے فعل مقدر سے جو کہ ماسبق سے مفہوم ہے، متعلق ہے اور وہ فَعَلْنَا ہے، تقدیر عبارت یہ ہے فَعَلْنَا ذلِکَ لِتَعْلَمَ قدرتنا علیٰ اِحیاءِ الموتیٰ ۔ قولہ : نُنشِرُھا، نون کے ضمہ اور راء مہملہ کے ساتھ انشار (افعال) سے جمع متکلم، ہم کس طرح زندہ کرکے اٹھاتے ہیں اور راء مہملہ کی صورت میں نون کے فتحہ کے ساتھ (ن) سے بھی پڑھا گیا ہے۔ اور ایک قراءت میں نون کے ضمہ اور زائے معجمہ کے ساتھ ہے ای نُحَرِّکُھَا ونرفَعُھا، یعنی کسی طرح حرکت دیتے ہیں اور اٹھاتے ہیں، مجازی معنی ہم کس طرح زندہ کرتے ہیں۔ حضرت عزیز (علیہ السلام) کو مشاہدہ احیاء سے قبل علم استدلالی حاصل تھا اور مشاہدہ کے بعد علم المشاہدہ حاصل ہوا، لہٰذا دونوں باتیں صحیح ہیں۔ قولہ : فَیَعْلَمُ السَّمِعون، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے سوال کی وجہ عدم یقین اور عدم ایمان نہیں تھا بلکہ مقصد یہ تھا کہ سامعین کو معلوم ہوجائے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے سوال کا مقصد اطمینان قلبی حاصل کرنا تھا نہ کہ نفس علم، تاکہ علم الوحی کے ساتھ علم المشاھدہ بلکہ مزید اطمینان کا سبب بنے، لہٰذا یہ وہم ختم ہوگیا کہ باوجود اس کے کہ اللہ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ایمان کا علم تھا تو پھر، اَوَلَمْ تُؤْمِنْ ، کہہ کر اللہ تعالیٰ نے کیوں سوال کیا ؟ اللغۃ والبلاغۃ اَلَمْ تَرَاِلَی الَّذِیْ حَاجَّ ، یہ استفہام تعجبی ہے، ای اِعجَبْ یا محمد مِنْ ھذہ القصۃ اور اَنّٰی یُحییْ ھذہ اللہ بَعْدَ مَوْتِھَا، میں استفہام اظہار عظمت کے لئے ہے۔ فَصُرْھُنّ ، بضم الصاد و کسرھا، صَارَ یَصورُ یا صَارَ یَصیْرُ سے فعل امر ہے بمعنی ضَمِّ او بمعنی مال ملا، مائل کر، مانوس کر، اس کے معنی ٹکڑے ٹکڑے کرنا بھی ہیں اور بعض نے کہا ہے ضمہ کے ساتھ تو دونوں معنی میں مشترک ہے اور کسرہ کے ساتھ بمعنی قطع کرنا۔ تفسیر و تشریح اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرَاھِیْمَ فِیْ رَبِّہٖ ، اَلَمْ تَرَ ، عربی ادب میں یہ اسلوب حیرت اور استعجاب کے موقع پر استعمال ہوتا ہے، اور اس میں پہلوئے ذم نمایاں ہے جب کبھی کسی کے کسی حیرت انگیز نقص یا عیب کی طرف توجہ دلانی ہوتی ہے تو اس کو اسی طریقہ پر شروع کرتے ہیں جیسے اردو میں کہتے ہیں : تم نے فلاں کی حرکت دیکھی ؟ (تفسیر کبیر ملخصاً ) رہی یہ بحث کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے بحث و مباحثہ کرنے والا کون تھا ؟ ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا کوئی معاصر بادشاہ تھا، مفسرین نے اس کا نام نمرود بتایا ہے، جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وطن عراق کا بادشاہ تھا، جس واقعہ کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے اس کا ذکر بائبل میں نہیں ہے اس لئے اہل کتاب اس واقعہ کو ماننے ہی میں تامل کرتے ہیں، البتہ تلمود میں یہ پورا واقعہ موجود ہے اور بڑی حد تک قرآن کے مطابق ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ نمروذ کے یہاں سب سے بڑا عہدیدار تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب برملا شرک کی مخالفت اور توحید کی تبلیغ شروع کی اور بت خانہ میں گس کر بتوں کو توڑ ڈالا تو ان کے باپ نے خود ان کا مقدمہ بادشاہ کے دربار میں پیش کیا اور پھر وہ گفتگو ہوئی جو یہاں بیان کی گئی ہے۔ مابہ النزاع کیا تھا ؟: مابہ النزاع یہ بات تھی کہ ابراہیم (علیہ السلام) اپنا رب کس کو مانتے ہیں اور یہ نزاع اس وجہ سے پیدا ہوا کہ جھگڑنے والے شخص کو خدا نے حکومت عطا کی تھی اس وجہ نزاع کی طرف، اِنْ اٰتٰہُ اللہُ الْمَلْکَ ، سے اشارہ کیا ہے اس کو سمجھنے کے لئے مندرجہ ذیل حقیقتوں پر نظر رہنی ضروری ہے۔ (1) قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام مشرک سوسائٹیوں کی مشترکہ خصوصیت رہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو رب الاعباب خدائے خداوند گان کی حیثیت سے تو مانتے ہیں، مگر صرف اسی کو رب اور تنہا اسی کو خدا اور معبود نہیں مانتے۔ (2) خدائی کو مشرکین نے ہمیشہ دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک فوق الفطری خدائی جو سلسلہ اسباب پر حکمراں ہے اور جس کی طرف انسان اپنی حاجت اور مشکلات میں دستگیری کے لئے رجوع کرت ا ہے، اس خدائی میں وہ اللہ کے ساتھ ارواح، فرشتوں اور جنوں اور سیاروں اور دوسری بہت سی ہستیوں کو شریک ٹھہراتے ہیں ان سے دعائیں مانگتے ہیں ان کے سامنے مراسم پرستش بجا لاتے ہیں اور ان کے آستانوں پر نذر و نیاز پیش کرتے ہیں۔ دوسری تمدنی اور سیاسی معاملات کی خدائی (یعنی حاکمیت) ہے اس دوسری قسم کی خدائی کو دنیا کے تمام مشرکوں نے قریب قریب ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ سے سلب کرکے شاہی خاندانوں اور مذہبی پروہتوں اور سوسائٹی کے اگلے پچھلے بڑوں میں تقسیم کردیا ہے۔ اکثر شاہی خاندان اسی دوسرے معنی میں خدائی کے مدعی ہوئے ہیں اور اسے مستحکم کرنے کے لئے انہوں نے بالعموم پہلے معنی والے خداؤں کی اولاد ہونیکا دعوی کیا ہے اور مذہبی طبقے اس معاملہ میں ان کے ساتھ شریک سازش رہے ہیں مثلاً جاپان کا شاہی خاندان اسی معنی کے اعتبار سے خود کو خدا کا اوتار کہتا ہے اور جاپانی ان کو خدا کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔ (3) نمروذ کا دعوائے خدائی بھی اسی دوسری قسم کا تھا وہ خدا کے وجود کا منکر نہ تھا اس کا دعویٰ یہ نہ تھا کہ زمین و آسمان کا خالق اور پوری کائنات کا مدبر میں ہوں، بلکہ اس کا دعویٰ یہ تھا کہ اس ملک عراق کا اور اس کے باشندوں کا حاکم مطلق میں ہوں میری زبان قانون ہے میرے اوپر کوئی بالاتر اقتدار نہیں ہے جس کے سامنے میں جواب دہ ہوں، اور عراق کا ہر وہ باشندہ باغی اور غدار ہے جو اس حیثیت سے مجھے اپنا رب نہ مانے یا میرے سوا کسی اور کو رب تسلیم کرے، نمزوذ کو اس خداداد سلطنت کی وسعت ہی نے اتنا دلیر، سرکش اور برخود غلط بنا رکھا تھا کہ دعوائے خدائی کر بیٹھا روایات یہود میں یہاں تک تصریح ملتی ہے کہ اس نے اپنے لئے ایک عرش الٰہی بنا رکھا تھا جس پر بیٹھ کر اجلاس کرتا تھا (ملاحظہ ہوگینزہوگ کی حکایات یہود) ۔ (4) ابراہیم (علیہ السلام) نے جب کہا کہ میں صرف ایک رب العالمین کو خدا، معبود، اور رب مانتا ہوں اور اس کے سوا سب کی خدائی اور ربوبیت کا منکر ہوں تو سوال صرف یہی نہیں پیدا ہوا کہ قومی مذہب اور مذہبی معبودوں کے بارے میں ان کا یہ نیا عقیدہ کہاں تک قابل برداشت ہے بلکہ یہ سوال بھی اٹھ کھڑا ہوا کہ قومی ریاست اور اس کے مرکزی اقتدار پر اس عقیدے کی جو زد پڑی ہے اسے کیونکر نظر انداز کیا جاسکتا ہے یہی وجہ تھی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جرم بغاوت کے الزام میں نمروذ کے سامنے پیش کئے گئے۔ نمروذ نے داعی توحید (ابراہیم (علیہ السلام) کو چیلنج دے کر پوچھا کہ وہ کونسا خدا ہے کہ جس کی طرف تم دعوت دے رہے ہو ذرا میں بھی تو اس کے اوصاف سنوں، تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا ” رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیِیٖ وَیُمِیْتُ “ یعنی حیات و موت کی ساری قوتیں اسی کے ہاتھ میں ہیں، وہ سارے نظام و ربوبیت کا سرچشمہ ہے کائنات حیاتی کی فنا اور بقا کے سارے قانون اور ضابطے آخر میں اسی پر جا کر ٹھیرتے ہیں۔ کسی بندے میں یہ طاقت نہیں کہ اس نظام حیاتی کو بدل سکے اس میں کوئی ادنی تصرف کر دکھائے، اگرچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے جواب کے اس پہلے ہی فقرے سے یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ اب، اللہ کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا، تاہم نمروذ اس کا جواب ڈھٹائی سے دے گیا اور دو واجب القتل مجرموں کو بلایا اور ایک کو معاف کردیا اور دوسرے کو قتل کرا دیا اور کہہ دیا ” اَنَا اُحْیٖ وَاُمِیْتُ “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے استدلال وہی قائم رکھا صرف مخاطب کی ذہنی سطح کا لحاظ رکھتے ہوئے دوسری مثال پیش کردی اور فرمایا اچھا کائنات حیاتی نہ سہی کائنات طبعی ہی کے خدائی نظام میں ایک ادنی تصرف کرکے دکھا دو نمروذ سورج دیوتا کا خود کو اوتار کہتا تھا اور سورج کے خدائے اعظم ہونے کا قائل تھا اس کے عقیدہ کے ابطال و تردید میں سورج ہی کی مثال پیش کی، ” قَالَ اِبْرَاھِیْمُ فَاِنَّ اللہَ یَاْتِیْ بالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِھَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَر “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کس قدر بہترین گرفت فرمائی ! ! اس استدلال کا نمروذ ڈھٹائی سے بھی جواب نہ دے سکا، اس لیے کہ وہ خود ہی جانتا تھا کہ آفتاب و ماہتاب اسی خدا کے زیر فرمان ہیں جس کو ابراہیم (علیہ السلام) رب مانتا ہے، مگر اس طرح جو حقیقت اس کے سامنے بےنقاب ہو رہی تھی اس کو تسلیم کرلینے کے معنی اپنی مطلق العنان فرمانروائی سے دست بردار ہوجانے کے تھے، جس کے لیے اس کے نفس کا طاغوت تیار نہ تھا لہٰذا وہ ششدر ہی ہو کر رہ گیا، خود پرستی کی تاریکی سے ھق پرستی کی روشنی میں نہ آیا۔ تلمود کا بیان ہے کہ اس کے بعد نمروذ کے حکم سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) قید کر دئیے گئے دس روز تک وہ جیل میں رہے، پھر بادشاہ کی کونسل نے ان کو زندہ جلانے کا فیصلہ کیا اور ان کو آگ میں پھینکے جانے کا واقعہ پیش آیا جو سورة انبیاء، عنکبوت اور سورة الصافات میں بیان ہوا ہے۔
Top