Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 258
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰهٖمَ فِیْ رَبِّهٖۤ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ١ۘ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ١ۙ قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُ١ؕ قَالَ اِبْرٰهٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِیْ كَفَرَ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۚ
اَلَمْ تَرَ : کیا نہیں دیکھا آپ نے اِلَى : طرف الَّذِيْ : وہ شخص جو حَآجَّ : جھگڑا کیا اِبْرٰھٖمَ : ابراہیم فِيْ : بارہ (میں) رَبِّهٖٓ : اس کا رب اَنْ : کہ اٰتٰىهُ : اسے دی اللّٰهُ : اللہ الْمُلْكَ : بادشاہت اِذْ : جب قَالَ : کہا اِبْرٰھٖمُ : ابراہیم رَبِّيَ : میرا رب الَّذِيْ : جو کہ يُحْيٖ : زندہ کرتا ہے وَيُمِيْتُ : اور مارتا ہے قَالَ : اس نے کہا اَنَا : میں اُحْيٖ : زندہ کرتا ہوں وَاُمِيْتُ : اور میں مارتا ہوں قَالَ : کہا اِبْرٰھٖمُ :ابراہیم فَاِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْتِيْ : لاتا ہے بِالشَّمْسِ : سورج کو مِنَ : سے الْمَشْرِقِ : مشرق فَاْتِ بِهَا : پس تو اسے لے آ مِنَ : سے الْمَغْرِبِ : مغرب فَبُهِتَ : تو وہ حیران رہ گیا الَّذِيْ كَفَرَ : جس نے کفر کیا (کافر) وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : نہیں ہدایت دیتا الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ : ناانصاف لوگ
اے پیغمبر کیا آپ نے اس شخص کا قصہ ملاحظہ نہیں کیا جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ان کے رب کے بارے میں اس وجہ سے جھگڑا کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو حکومت دے رکھی تھی جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا میرا رب وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے اس شخص نے کہا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اچھا اللہ تعالیٰ تو آفتاب کو مشرق سے نکالا کرتا ہے پھر تو اس کو مغرب سے نکال لایہ سن کر وہ کافر حیران رہ گیا اور اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کی راہبری نہیں فرماتا1
1 اے نبی کیا آپ کو اس نا سپاس شخص کا واقعہ معلوم نہیں ہوا اور آپ نے اس کا قصہ ملاحظہ نہیں فرمایا جس نے اس بناء پر کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حکومت اور سلطنت عطا فرمائی تھی ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ان کے رب کے بارے میں جھگڑا اور مجادلہ کیا تھا یہ جھگڑا اس وقت پیش آیا جبکہ وجود باری کے سلسلے میں اس کا سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرا پروردگار ایسا ہے جو جلاتا اور مارتا ہے اس پر نہ ناسپاس شخص بولا بھی جلاتا اور مارتا ہو۔ یہ سن کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس بیوقوف اور موٹی عقل کے انسان سے فرمایا اچھا اللہ تعالیٰ آفتاب کو روزہ مشرق سے نکالا کرتا ہے تو کسی دن مغرب سے نکال کرلے آ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ بات سن کر وہ کافر وناسپاس مبہوت و متحیر رہ گیا اور اللہ تعالیٰ کا یہ دستور ہے کہ وہ ایسے ناانصاف اور بےجا روش اختیار کرنے والوں کی کسی طرح رہنمائی نہیں فرماتا۔ ( تیسیر) کہا جاتا ہے کہ یہ بادشاہ نمرود بن کنعان بن سام بن نوح تھا جس کی سلطنت بابل اور اطراف بابل میں پھیلی ہوئی تھی یہ بادشاہ بڑا متکبر تھا اور اپنی خدائی کا مدعی تھا اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اسی بادشاہ کے عہد میں مبعوث فرمایا تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بت شکنی کے بعد یا کسی اور موقعہ پر اس بادشاہ سے م کاملہ ہوگیا کہتے ہیں انہوں نے اس کو سجدہ نہ کیا جب اس نے اعتراض کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں تو صرف اپنے رب ہی کو سجدہ کرتا ہوں ۔ اس پر گفتگو بڑھ گئی اس نالائق نے اس بناء پر کہ اللہ تعالیٰ نے اسکو سلطنت عطا کی تھی بجائے شکر اور احسان ماننے کے معاندانہ روش اختیار کی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے حق تعالیٰ کے وجود کی دلیل طلب کی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرا رب جلاتا اور مارتا ہے یعنی استدلال کا وہ طریقہ اختیار کیا جس کو خواص الشی علی وجو وہ کہتے ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ اجسام و اجساد کو زندگی عطا کرنا اور ان کی حیات کو سلب کرنا میرے پروردگار کی صفات کے خواص میں سے ہے اور جب تابع ثابت ہے تو متبوع بھی ثابت ہے ، ورنہ لازم آئے گا کہ شی موجود نہ ہو اور اس کی صفت کے خواص موجود ہوجائیں نمرود نے اس استدلال پر ایک احمقانہ نقص وارد کردیا اور کہا میں بھی جلاتا اور مارتاہوں ، یعنی ان خواص کو اپنے لئے ثابت کیا اس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا کہ یہ بیوقوف جلانے اور مارنے کے معنی ہی نہیں سمجھاجلانے کے یہ معنی نہیں کہ کسی زندہ کو زندہ چھوڑ دے اور کسی زندہ کو قتل کر دے اور اس کی جان نکل جائے جیسا کہ اس احمق نے یہ فعل کر کے بھی دکھایا کہ دو شخصوں کو بلایا ایک واجب القتل کو معاف کردیا اور ایک بےگناہ کو قتل کردیا ، حالانکہ زندگی عطا کرنے اور مارنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی بےجان کو جان عطا فرمائے اور کسی جاندار کی جان اپنے اختیار سے نکالے یہ نہیں کہ ا س کی گردن جدا کر دے اور وہ مرجائے اور گردن جدا کرنے کے بعد اس کو زندہ بھی رکھناچا ہے تو زندہ نہ رکھ سکے۔ غرض حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دیکھ کر جلانے اور مارنے کی حقیقت کو تو یہ سمجھ نہیں سکتا ایک اور جواب دیا کہ اچھا اللہ تعالیٰ آفتاب کو مشرق سے طلوع کرتا ہے تو اس کو مغرب سے نکال کر دکھا اس پر وہ کافر پھونچکا ہو کر رہ گیا ۔ آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس قسم کے ظالموں اور نا انصافوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا ، ہم نے اس موقع پر مختصر خلاصہ کردیا ہے ورنہ اس موقع پر مفسرین نے جو مباحث کئے ہیں وہ بہت طویل اور عجیب و غریب ہیں اگر کسی صاحب کو ان تمام مباحث کے ملاحظہ کرنے کا شوق ہو تو وہ تفسیر کبیر اور روح المعانی کا مطالعہ کریں۔ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے دلائل سیدھے سادھے اور عام موشگافیوں سے بالا تر ہوتے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ ربی الذی یحییٰ ویمیت دلیل ہو جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ مثال ہو جیسا کہ بیضاوی نے اختیار کیا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ نمرود اس امر کا مدعی ہو کہ میں وہ سب کچھ کرسکتا ہوں جو خدا کرسکتا ہے ۔ اس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نقض کے طورپر یہ واجب دیا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نمرود خدا کا منکر نہ ہو بلکہ مشرک اور کواکب پرست ہو ، اگر یہ صورت ہو تو اب ساری بحث کا رخ دوسرا ہوگا ۔ اور یہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ وہ فلک الافلاک کی حرکت کو فاعل مختار سمجھتا ہو اور اس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کے سامنے آفتاب کا ذکر ہو ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا استدلال سے منشا یہ ہو کہ کارخانہ حیات و ممات کا تمام نظم میرے پروردگار کے اختیار میں ہے ۔ احیا اور امانت صرف اسی کے قبضہ میں ہے اس بیوقوف نے استدلال کے صغری پر نقض پیش کردیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس نقض پر منع وارد کیا کہ اگر تو ایسا کرسکتا ہے تو اچھا ۔ آفتاب روز شام کو مرتا اور صبح کو زندہ ہوتا ہے ۔ آفتاب کے غروب کو مرنا اور طلوع کو زندہ ہونا محاور ہے۔ حدیث میں الشمس حیۃ آتا ہے لہٰذا دلیل سے عدول نہ ہوا بلکہ زندہ کرنے کا ایک اور مطالبہ پیش کردیا کہ اچھا اگر تیرا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ تو بھی احیا اور امانت کا مالک ہے تو آفتاب کو مرتے ہی زندہ کر دے جس وقت آفتاب مر رہاہو اور مغرب کے افق میں دفن ہو رہا ہو تو اسی وقت اس کو زندہ کر کے واپس لے آ اس پر وہ مبہوت ہوگیا میں نے شاید اپنی دوسری تقریر سیرت میں اس پر مفصل تبرہ کیا ہے۔ بہر حال اوپر کی آیت میں مومنوں کا ولی اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو فرمایا تھا اور کافروں کا ولی مجازاً طاعوت کو فرما دیا تھا۔ دونوں کا نتیجہ ظاہرہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کی سرپرسی اور اعانت چوں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حاصل تھی ۔ وہ کامیاب ہوئے اور طاغوت کے ہمدرد اور پیرو رسوا اور ذلیل ہوئے اور نمرود ایسا مبہوت ہوا کہ اس کے منہ سے یہ بھی نہ نکلا کہ ابراہیم تم پہ کام اللہ تعالیٰ سے کرا دو کہ وہ آفتاب کو مغرب سے طلوع کر دے اس کے دل میں غالباً یہ ڈر بیٹھ گیا کہ اگر میں نے ایسا کہا تو یہ پیغمبر ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بات ہوجائے اور اگر کہیں آفتاب مغرب سے نکل آیا تو ابھی تو صرف سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگوں میں بےعزتی ہوئی ہے ۔ پھر عوام میں بھی میری ہوا کر کر ہوجائے گی۔ شاید واللہ لا یھدی القوم الظلمین میں اسی جانب اشارہ ہو کہ اس قسم کے لوگوں کو ہدایت نصیب نہیں ہوا کرتی ۔ یہ ہدایت خواہ استدلال کی ہو یا یہ ہدایت اسلام کی ہو یا یہ ہدایت نجات کے طریقہ کی ہو یا قیامت میں جنت کی راہ مراد ہو تمام احتمالات ہیں۔ اس لئے ہم نے تیسیر میں عرض کیا ہے کہ کسی طرح رہنمائی نہیں فرماتا کیونکہ یہ وہ بدقسمت ہیں جو حجت قائم ہوجانے اور دلیل ظاہر ہوجانے بلکہ لا جواب ہوجانے کے بعد بھی قبول حق کا ارادہ نہیں کرتے اور حضر ت حق کا دستور یہ ہے کہ جب کوئی بندہ قبول حق کا ارادہ کرتا ہے تو ہو ہدایت کو پیدا کردیتے ہیں۔ بعض حضرات نے ربہ کی ضمیر نمرود کی طرف لوٹائی ہے لیکن اکثر مفسرین نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی کو ضمیر کا مرجع قرار دیا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ، ایک بادشاہ تھا وہ اپنے تئیں سجدہ کرواتا تھا۔ سلطنت کے غرور سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کو سجدہ نہ کیا ۔ اس نے پوچھا، انہوں نے کہا کہ میں اپنے رب ہی کو سجدہ کرتا ہوں ۔ اس نے کہا رب تو میں ہوں ۔ انہوں نے کہا میں رب حاکم کو نہیں کہتا رب وہ ہے جو جلادے اور مارے اس نے دو قیدی منگائے جس کو جلانا پہنچتا تھا قتل کر ڈالا اور جس کو مارنا پہنچنا تھا چھوڑ دیا ۔ تب انہوں نے آفتاب کی دلیل سے لا جواب کیا ۔ ( موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) کا رجحات بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات دلیل کے طور پر فرمائی تھی لیکن جب وہ نہ سمجھا اور یہ معلوم ہوگیا کہ یہ بہت موٹی عقل کا انسان ہے تو انہوں نے دوسرا جواب دے کر اس کو لا جواب کردیا اور حضرت حق تعالیٰ کے وجود یا ا س کی وحدانیت کو ثابت کردیا گیا جو اصل مدعا اور مطلوب تھا۔ یہ جو حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے قریب آفتاب مغر ب سے طلوع ہوگا اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ خلیل (علیہ السلام) کے محاجہ میں اس کا تذکرہ آیا تھا اور حضرت خلیل نے نمرود سے فرمایا تھا کہ تو آفتاب کو مغرب سے نکال کردکھا۔ ( واللہ اعلم) اب آگے ایک اور شخص کا ذکر فرماتے ہیں جس کے ذکر سے قیامت کے دن قبروں سے مردوں کا زندہ ہونا اور بعث بعد الموت کا مسئلہ واضح ہوتا ہے اور توحید و رسالت کے ساتھ اس مسئلے کو خصوصی تعلق ہے اور اعتقادی مسائل میں نہایت اہم مسئلہ ہے۔ جس میں تمام دنیا کے کافر ایک طرف ہیں اور انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام اور ان کے متبعین ایک طرف ہیں۔ ( تسہیل)
Top