Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 258
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰهٖمَ فِیْ رَبِّهٖۤ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ١ۘ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ١ۙ قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُ١ؕ قَالَ اِبْرٰهٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِیْ كَفَرَ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۚ
اَلَمْ تَرَ
: کیا نہیں دیکھا آپ نے
اِلَى
: طرف
الَّذِيْ
: وہ شخص جو
حَآجَّ
: جھگڑا کیا
اِبْرٰھٖمَ
: ابراہیم
فِيْ
: بارہ (میں)
رَبِّهٖٓ
: اس کا رب
اَنْ
: کہ
اٰتٰىهُ
: اسے دی
اللّٰهُ
: اللہ
الْمُلْكَ
: بادشاہت
اِذْ
: جب
قَالَ
: کہا
اِبْرٰھٖمُ
: ابراہیم
رَبِّيَ
: میرا رب
الَّذِيْ
: جو کہ
يُحْيٖ
: زندہ کرتا ہے
وَيُمِيْتُ
: اور مارتا ہے
قَالَ
: اس نے کہا
اَنَا
: میں
اُحْيٖ
: زندہ کرتا ہوں
وَاُمِيْتُ
: اور میں مارتا ہوں
قَالَ
: کہا
اِبْرٰھٖمُ
:ابراہیم
فَاِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
يَاْتِيْ
: لاتا ہے
بِالشَّمْسِ
: سورج کو
مِنَ
: سے
الْمَشْرِقِ
: مشرق
فَاْتِ بِهَا
: پس تو اسے لے آ
مِنَ
: سے
الْمَغْرِبِ
: مغرب
فَبُهِتَ
: تو وہ حیران رہ گیا
الَّذِيْ كَفَرَ
: جس نے کفر کیا (کافر)
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
لَا يَهْدِي
: نہیں ہدایت دیتا
الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ
: ناانصاف لوگ
(اے مخاطب ! ) کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم (علیہ السلام) سے ان کے پروردگار کے بارے میں مباحثہ کیا کہ اللہ نے اس کو سلطنت بخشی تھی جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ میرا پروردگار وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔ اس نے کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا یقینا اللہ تو سورج کو مشرق سے لاتا ہے پس تو اس کو مغرب سے لے آ تو اس پر کافر متحیر رہ گیا اور اللہ غلط کاروں کی راہنمائی نہیں فرماتے
آیات 258- 260 اسرارو معارف الم ترالی الذی حآج ابراھیم…………واللہ لا یھدی القوم الظلمین۔ ایمان مسلط اس لئے نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جو اللہ کی طرف سے دل پر وارد ہوتی ہے اور جس کا درود کا سبب وہ خواہش ہے جسے کتاب اللہ نے انابت کا نام دیا ہے اگر کسی دل میں انابت ہی نہ ہو تو لاکھ کوشش اور ہزار حجت کے بعد بھی اسے ایمان نصیب نہیں ہوتا۔ پھر یہاں زبردستی کیسی ؟ اس ضمن میں بطور مثال ارشاد ہے کہ……ذرا اسی شخص کے حالات دیکھئے جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے جھگڑا کیا اور وہ بھی ربوبیت باری میں۔ حالانکہ اللہ نے ہی اسے ملک عطا کیا تھا یعنی خود اس کی ذات اور اس کی بہت بڑی سلطنت ربوبیت باری ہی کے تو مظہر ہیں اور حق یہ تھا کہ وہ شکر ادا کرتا مگر اس نے سرکشی اختیار کی خود خدا ہونے کا دعویٰ کیا اور لوگوں سے کہا ” تمہارا رب میں ہوں مجھے سجدہ کرو ! “ جب سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے بت توڑے اور اعلان نبوت فرمایا تو اس نے دربار میں طلب کرکے پوچھا ، آپ کس رب کی طرف دعوت دے رہے ہیں ؟ سب کا رب تو میں ہوں اور تمام لوگوں کی ضروریات تو میری حکومت پوری کر ہی ہے۔ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا ، میرا رب وہ ہے یا میں اس رب کی طرف دعوت دیتا ہوں جو زندگی بخشتا ہے ، جو خالق ہے اور جو موت دیتا ہے کہ وقت مقرر پر ہر کوئی موت کے منہ میں چلا جاتا ہے حتیٰ کہ ربوبیت کے جھوٹے مدعی بھی پیدا ہوتے ہیں اور مرجاتے ہیں ، کائنات کے نظام کو نہ ان کی پیدائش متاثر کرسکتی ہے نہ موت۔ اگر تو اور تیرے جیسے بندے رب ہوتے تو یقینا ان کے سوا یہ عالم قائم نہ رہ سکتا۔ حالانکہ واقعہ اس کے برعکس ہے حقیقی رب وہی ہے جو زندگی اور موت کا بھی دینے والا ہے “۔ اس کے جواب میں نمرود نے دو قیدی منگوائے ایک کو بری کردیا اور دوسرے کو قتل کرادیا۔ اور کہنے لگا ، میں بھی تو زندگی اور موت کا دینے والا ہوں۔ کسی قدر احمقانہ جواب تھا مگر یہ بات نمرود بھی جانتا تھا کہ مناظرے کے جج عوام ہوا کرتے ہیں جن کی اکثریت علم سے عاری اور محض باتوں پر فدا ہوتی ہے سو کٹ حجتی کر گیا ، مگر اللہ کے رسولوں کے پاس دلائل بھی تو اللہ ہی کی طرف سے ہوتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ اللہ ساری کائنات کا خالق ہے اس کے سارے نظام کا بنانے والا اور چلانے والا ہے اس نے سورج کو مشرق سے نکل کر مغرب کی طرف غروب ہونے پر مقرر فرمایا ہے۔ اگر تو رب ہے اور اس کائنات کو تو چلارہا ہے تو ذرا اس نظام کو بدل دے اور سورج کو الٹے چکر پر لگا ، مشرق سے طلوع ہونے کی بجائے مغرب سے نکل آئے۔ تو بوکھلا اٹھا وہ جان گیا کہ اگر یہ سوال حضرت پہ لوٹا دوں تو یقینا جو رب مشرق سے طلوع کرتا ہے وہ مغرب سے طلوع کرنے پر قادر ہے اگر ان کی دعا سے ایسا ہوگیا تو غضب ہوجائے گا لوگ ان کی بات قبول کرلیں گے۔ اس کے علاوہ کوئی جواب نہ تھا ، بھڑک اٹھا اور آگ میں پھینکنے کا حکم دیا۔ روایت میں ہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب نمرود نے حضرت کو آگ میں ڈالنے کے لئے جیل سے طلب کیا اور پھر آگ میں ڈال کر آگ کو گلزار بنتے دیکھ لیا مگر کافر ہی رہا کہ اللہ ظالموں کو کبھی ہدایت اور ایمان نصیب نہیں فرماتا۔ دل جو صرف طلب الٰہی کے لئے ہے اس میں دنیا یا جاہ و حشمت کی طلب بھر دینا ، کیا یہ بہت بڑا ظلم نہیں ہے ؟ ایسے ظالم کبھی ہدایت نہیں پاتے۔ اوکا الذی ھر علی قریۃ……………ان اللہ علی کل شیء قدیر۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) کا واقعہ : یا پھر ایسا ہی عجیب قصہ اس شخص کا ہے جس کا گزر ایک اجڑے ہوئے شہر سے ہوا۔ یہ شخص حضرت عزیر (علیہ السلام) تھے اور تباہ شدہ بستی بیت المقدس۔ جسے بخت نصر نامی بادشاہ نے بری طرح برباد کردیا تھا۔ جب بنی اسرائیل کی بدکاریاں حد سے بڑھیں تو اللہ نے بخت نصر کو ان پر مسلط کردیا جو بہت ظالم تھا اس نے شہر کو تاراج کردیا۔ تو رات کے تمام نسخے جلا ڈالے اور بیشمار لوگوں کو قتل کیا جو بچ رہے ، انہیں قیدی بنا کرلے گیا۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) جو تباہی کے وقت جنگل کو نکل گئے تھے جیسا کہ قاعدہ ہے کہ جب قوموں پر عذاب نازل ہوا تو اللہ کے بندوں کو ان سے جدا کردیا جاتا ہے۔ بخت نصر کی واپسی کے بعد جب شہر کو لوٹے تو سخت بربادی نظر آئی نہ سبزہ تھا نہ درخت باقی ، نہ مکان تھے نہ مکینوں کا پتہ۔ کھنڈر انسانی وجودوں کے کٹے پھٹے متعفن ٹکڑوں سے بھرے پڑے تھے اور گلی سڑی لاشیں بربادی پہ نوحہ خواں تھیں تو بےساختہ پکاراٹھے کہ ان لوگوں کو اللہ کیسے زندہ فرمائیں گے یعنی ان کی دوبارہ زندگی کی کیا صورت ہوگی ؟ جن کے اجزائے جسم درندے لے اڑے ، پرندوں نے نوچے ، آگ میں جلے اور مکان کی راکھ میں مل گئے یا ہوا لے اڑی۔ غرض بہت بری طرح تباہ ہوئے اب یہ کیونکر زندہ ہوں گے ، یہ ایک اظہار حیرت تھا۔ اللہ کی قدرت پر ، ورنہ وہ خوب جانتے تھے کہ ایسا ضرور ہوگا۔ مگر اس ہونے کی کیفیت کیا ہوگی ، یہ اللہ ہی جانے۔ اسی سوچ میں آرام کرنے کو لیٹ گئے ، سواری کا گدھا باندھا اور کچھ انگوروں کا رس اور انجیر وغیرہ کا توشہ جو جنگل سے لائے تھے رکھ دیا۔ سو اللہ نے ان پر ایسی نیند مسلط فرمادی جو موت کی طرح تھی۔ واقعتاً فوت نہ ہوئے تھے کہ برزخ سے لوٹ کر آدمی مکلف نہیں ہوتا حالانکہ آپ نے دوبارہ دنیا کو اللہ کی طرف دعوت دینے کا فریضہ ادا فرمایا۔ نہ تو روح قبض ہو کر برزخ میں پہنچی اور نہ زندوں کے ساتھ کوئی تعلق رہا۔ بلکہ ان کی کیفیت اس کے درمیان رہی۔ اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے نہ صرف ان کے باوجود کی حفاظت فرمائی بلکہ ان کے کھانے اور شربت کو بھی محفوظ رکھا کہ ایک صدی کا طویل فاصلہ بھی اسے خراب نہ کرسکا اور چشم عالم سے پوشیدہ بھی رکھا کہ کسی نے سو سال میں ان کا وجود یا کھانا پینا دیکھا نہ اس پر مٹی یا دھول جمی بلکہ ایسے ہی محفوظ رہے۔ جب اللہ نے اٹھایا تو خود ان کو اپنے وجود یا لباس میں کوئی ذرہ بھر تغیر نظر نہ آیا۔ گویا ایک صدی بیت گئی اور دوسری طرف ایک لمحہ بھی نہ گزرا۔ بالکل ایسے ہی جیسے حضور اکرم ﷺ شب معراج تشریف لے گئے۔ بیت المقدس اور پھر آسمانوں پر اور پھر آگے اور پھر جنت دوزخ کا مشاہدہ فرما کر واپس لوٹے تو وہی وقت تھا۔ کنڈی بل رہی تھی اور بستر گرم ، یعنی ایں جانب لمحہ بھی نہ گزرا تھا خواہ ادھر سالوں بیت گئے ہوں۔ ایک صدی کے بعد اللہ نے اٹھایا۔ دریں اثناء تقریباً ستر سال بعد بنی اسرائیل قیدوبند سے چھوٹے۔ بخت نصر کو ہلاک کیا اور انہیں دوبارہ آباد ہونے کی توفیق بخشی تیس سالوں میں شہر خوب آباد ہوا۔ ادھر حضرت عزیر (علیہ السلام) اٹھے تو اللہ نے استفسار فرمایا کہ آپ یہاں کتنی دیر ٹھہرے ؟ عرض کیا ، دن بھر ، یا اس سے بھی کچھ کم دیر رکا ہوں۔ تو ارشاد ہوا کہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے بلکہ آپ سو سال یہاں ٹھہرے ہیں اور ہماری قدرت کا تماشا دیکھیں کہ آپ اس طویل مدت کو محسوس تک نہیں کر پائے۔ اسی طرح آپ کا توشہ بھی محفوظ ہے نہ کسی ذی روح نے چھیڑا ہے نہ ہی بادل یا بارش اور نہ ہی تیز ہوائیں اس کا کچھ بگاڑ سکیں اور نہ سو سال تک تمازت آفتاب نے اسے متاثر کیا ہے اس کے ساتھ آپ کا گدھا تھا۔ جو حوادثات کی نظر ہوا۔ اس کی حفاظت نہیں کی گئی کہ آپ خوددیکھ سکیں کہ مردے کس طرح سے جی اٹھیں گے۔ اور کیا کیفیت ہوگی۔ اسکی ہڈیوں کو دیکھیں کس طرح یکجا ہوتی ہیں اور پھر کس طرح سے اس کے جسم کے ذرات جو ہوائیں لے اڑی تھیں یا جانوروں اور پرندوں کی غذائیں بن گئے تھے یا آبی طوفانوں کی نظر ہوئے۔ واپس لوٹ کر پھر سے گوشت اور چمڑا بن کر اپنی اصلی جگہ پر آتے ہیں اور یہ سب عجائبات کا مشاہدہ اس لئے کرایا گیا کہ آپ اپنے سوال کا جواب بھی پالیں۔ یعنی دوبارہ جی اٹھنے کی کیفیت بھی دیکھ لیں اور خودآپ کا وجود لوگوں کے لئے قدرت باری کی دلیل بن جائے۔ سماع موتیٰ : آج کل سماع موتیٰ اور عدم سماع کی بحث چل نکلی ہے اور عدم سماع کے قائل حضرات یہاں سے بھی دلیل پکڑتے ہیں کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو کوئی پتہ نہ چل سکا۔ اس لئے برزخ والے کچھ سن نہیں سکتے یہاں سے استدلال بےجا ہے کہ نہ حضرت عزیر (علیہ السلام) پر طبعی موت وارد ہوئی اور نہ آپ برزخ میں پہنچے ، اور نہ اخذ ثواب کی نوبت آئی ، قطع نظر اس کے کہ مرنے والے کچھ سن سکتے ہیں یا نہیں ؟ یہاں سے دلیل نہیں دی جاسکتی بلکہ حیات بعد الموت کا انکار ۔ یہی کفار کے کفر پہ قائم رہنے کا سبب تھا اور ہے۔ اور یہ اس لئے ہے کہ عقل انسانی سے یہ سب کچھ بالاتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کئی طرح سے اپنی قدرت کا اظہار فرمادیا کہ کھانا پانی اپنی اصلی حالت میں محفوظ رکھا اور چشم عالم سے پنہاں بھی اپنے نبی کی وجود ، لباس غرضیکہ ہر شے کو محفوظ بھی رکھا ، چشم عالم سے پوشیدہ بھی اور خود نبی کو بھی پورے سو سال کے گزرنے کی خبر تک نہ ہونے دی۔ ساتھ میں گدھے پر موت آئی جسم گلا ، سڑا ، منتشر ہوا اور ایک صدی کا طویل عرصہ بیت گیا۔ پھر اسے اپنے نبی کے روبرو بنایا۔ زندگی بخشی اور فرمایا اب خود تیری ذات میری قدرت کاملہ کی دلیل ہے اور وہ بستی جس کی بربادی پر آپ حیران ہوئے تھے دوبارہ آباد ہوچکی ہے اب اسے بھی دلکھ لو ! چنانچہ آپ تشریف لے گئے اور لوگوں سے فرمایا میں عزیز نبی ہوں۔ طویل روایات ملتی ہیں کہ لوگوں نے نشانیاں طلب کیں اور سب سے بڑی نشانی کی بنی اسرائیل کے پاس سو سال سے تورات کا کوئی نسخہ نہ تھا سب بخت نصر نے جلا دیئے تھے۔ اللہ نے عزیز (علیہ السلام) کے قلب میں ڈال دی اور آپ نے دوبارہ لکھوا دی۔ یہ سب سامان ہدایت تھا اور بہت بڑا معجزہ تھا۔ مگر ہوا کیا کہ یہود نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا بنادیا۔ ان کے دل میں انابت نہ تھی کہ ہدایت پاتے ، اللہ نے انہیں اپنے قرب سے اپنی معرفت سے محروم فرمادیا اور ادھر حضرت عزیر (علیہ السلام) نے یہ سب دیکھ کر فرمایا کہ میں تو یہ بات سب سے زیادہ جانتا ہوں کہ اللہ ہر شے پر قادر ہے جو چاہے کرسکتا ہے۔ ایسے ہی جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا ، اذ قال ابرھم…………ان اللہ عزیز حکیم۔ اور اس موضوع پر بہت بڑی دلیل وہ واقعہ بھی ہے جب حضرت ابراھیم (علیہ السلام) نے عرض کیا تھا کہ اے پروردگار ! مجھے یہ چیز دکھادے کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا ؟ فرمایا : ” کیا تجھے اس بات پر یقین نہیں ؟ “ عرض کیا ، ” یا اللہ ! یقین کیوں نہیں ، ضرور یقین ہے مگر میں چاہتا ہوں کہ اس کیفیت کو آنکھوں سے دیکھوں تاکہ دلی اطمینان کا بہت اعلیٰ درجہ حاصل ہو “۔ دنیا دار عمل ہے اور یہاں اسباب کو بہت دخل ہے حتیٰ کہ خود رب کریم اسباب پیدا فرما کر نتائج کو ان کے ثمر کے طور پر پیدا فرماتا ہے۔ اسی طرح دیکھنا سکون قلبی اور کیفیات قلبی کے لئے بہ نسبت سننے کے زیادہ موثر ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی قوم کی گو سالہ پرستی کی خبر تو ہوگئی مگر الواح نہ پھینکیں۔ اگرچہ بہت دکھ بھی لگا۔ غصے بھی ضرور ہوئے ہوں گے۔ لیکن جیسے ہی آنکھوں سے قوم کو اس برائی میں ملوث دیکھا تو الواح پھینک دیں ، حضرت ہارون (علیہ السلام) کی داڑھی کھینچ لی۔ اسی طرح سیدنا ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ یا اللہ ! بذریعہ وحی معلوم ہے ، یقین ہے ، جانتا ہوں لیکن اے پروردگار ! اے اسباب کے پیدا کرنے والے ! جو تاثیر تو نے مشاہدہ میں رکھی ہے ، اس کا طلب گار ہوں ، اپنے کرم سے مجھے مردوں کے زندہ ہونے کی کیفیات کا مشاہدہ کرادے۔ دعا کا سلیقہ : اللہ کی بارگاہ بہت عالی ہے اور طالب کو بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے دیکھیں حضرت عزیر (علیہ السلام) کی طلب بھی اسی کیفیت کے بارے تھے مگر الفاظ جو عرض کئے وہ اور تھے۔ ان میں حیرت تھی ، کہ نامعلوم اللہ کیسے زندہ فرمائے گا ، تو اللہ نے سو سال انہیں ایک ایسی کیفیت میں رکھا کہ نہ زندہ تھے اور نہ مردوں میں اور تب اس کیفیت کا مشاہدہ ہوا۔ یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دوسرے انداز میں عرض کیا کہ اللہ ! جس طرح تو مردوں کو زندہ فرمائے گا مجھے دکھادے۔ تو فوراً مشاہدہ کرایا گیا۔ لہٰذا عرض حال کے لئے بہت زیادہ احتیاط وادب کی ضرورت ہے۔ فرمایا ، چار پرندے لے لیں اور انہیں اپنے ساتھ خوب ہلالیں کہ ایک تو ان کی پہچان اچھی طرح سے ہوجائے دوسرے آپ سے مانوس ہو کر آپ کی آواز پر لبیک کہیں۔ یہاں بھی اسباب کو درمیان میں رکھا کہ مانوس ہوں تب ہی جاکر آواز پر حاضر ہوں اسی طرح نبی کی ذات سے انس پیدا نہ ہو تو ایمان نصیب نہیں ہوتا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی ذاتی طور پر نبی کا دشمن ہو اور پھر مسلمان بھی رہے حتیٰ کہ ذات نبی سے دشمنی خواہ آپ ﷺ کے قرابت داروں سے دشمنی کی صورت میں ہو یا آپ ﷺ کے تابعداروں سے دشمنی کی صورت میں ہو اس کا حامل کافر ہوجاتا ہے۔ یہی حال اخذ فیض کے لئے شیخ کی ذات کا ہے جب تک ذات سے انس نہ ہوگا فیض حاصل نہ ہوگا۔ اولیاء اللہ سے دشمنی کفر نہیں ہے کہ ان کا ماننا نہ تو فرض ہے اور نہ کسی ولی کی بالیقین ولی کہا جاسکتا ہے ۔ مگر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ تعالیٰ کا ارشاد بڑا درست ہے کہ اولیاء اللہ سے دشمنی کفر تو نہیں مگر ایسے لوگ مرتے عموماً کفر پر ہی ہیں۔ جب پرندے آپ کے ساتھ ہل جائیں تو انہیں ذبح کریں اور سب کو ملا کر کوٹ لیں۔ پھر ان اجزائے ابدان کو مختلف پہاڑوں پر پھینک دیں ، اور اس کے بعد ان کو اپنی طرف بلائیں اور دیکھیں کہ دوڑے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہوں گے حضرت نے ایسا ہی کیا اور روایت ہے کہ سر اپنے پاس رکھتے ہوئے تھے جس پرندے کو آواز دیتے اس کے قطرہ ہائے خون خواہ پتھروں پہ گرے تھے یا زمین میں جذب تھے یا دوسرے پرندوں کے خون میں مل گئے تھے جدا ہو ہو کر آنے لگے۔ ایسے ہی گوشت پوست ، ہڈیوں اور پروں کے ٹکڑے آ آ کر اپنے اپنے اجزاء کے ساتھ مل کروجود بن گئے اور پھر سروں کے ساتھ جڑ کر زندہ پرندے ، اور ارشاد ہوا کہ اچھی طرح جان لیں کہ اللہ زبردست ہے ، جیسے چاہے کرسکتا ہے مگر بہت بڑا حکیم ہے اور اپنی حکمت سے ہر کام کا وقت مقرر فرمادیا ہے۔ ویسے انسان اپنے پیدا ہونے سے قبل اپنے وجود کے اجزاء کو دیکھے تو دنیا میں اس قدر منتشرنظر آتے ہیں کہ بعد مرگ اتنا پھیلنا محال دکھائی دیتا ہے ، یہ اغذیہ ، یہ ادویہ جو کچھ بھی ہم کھاتے ہیں سب مٹی ہے ، پانی ہے ، آگ اور ہوا ہے اسی کے مختلف روپ ہیں۔ کہیں غلہ ، کہیں چاول ، کہیں گنا اور کھانڈ ، کہیں مرچ اور مصالحہ ، کسی جگہ سبز چارے کی شکل میں ہے تو کہیں بھوسہ بن رہی ہے جسے جانور کھاتے ہیں۔ پھر دودھ یا مکھن کی صورت میں انسان کو نصیب ہوتی ہے۔ اس تمام عمل میں اتفاقات کا دخل نہیں بلکہ عنداللہ جو ذرہ خاک جس جسم کے لئے مقدر ہے اسی کی طرف مائل بہ پرواز ہے۔ حتیٰ کہ انسان اپنے حصے کے اجزا اپنے وجود پر چڑھا لیتا ہے مگر اولاد کے حصہ کے اجزا اس کے صلب میں محفوظ ہوجاتے ہیں جو اس کے بدن کی تعمیر پر صرف ہوتے ہیں جس کا وہ حصہ ہوتے ہیں اسی طر ح ماں غذا کھاتی ہے گر وجود کے اندر حل ہونے کے بعد بھی تقسیم ہوجاتی ہے اور بچے کا حصہ اس کا جزوبدن نہیں بنتا بلکہ اس بدن تک پہنچتا ہے جس کا حصہ اسے اللہ نے مقرر فرمادیا ہے۔ آخرت کی تعمیر اللہ کے لئے کوئی مشکل نہیں ، اور وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ کسی بدن کے اجزاء کہیں پہنچ جائیں تو انہیں ثواب یا عذاب پہنچتا رہے خواہ کسی دوسرے بدن کا حصہ ہی کیوں نہ بن چکے ہوں۔ اس عالم میں مکلف بالذات بدن ہے لیکن ہر لذت وہر الم اپنا اثرروح پر بھی چھوڑتا ہے اسی طرح برزخ میں مکلف بالذات روح ہے مگر اسے پہنچنے والی لذت یا دکھ کا اثر ہر اس ذرے پر بھی وارد ہوتا ہے جو اس کے اجزائے بدن سے ہو اور میدان حشر میں ، اور اس کے بعد دونوں برابر برابر شریک ہوں گے۔ کفار کا اللہ کی اطاعت سے منحرف ہونااسی سبب سے ہے کہ وہ حیات بعد الموت کا ناممکن سمجھتے ہیں جس کا اثبات ان تین واقعات میں ارشاد فرما کر اب ان لوگوں کی تمثیل ارشاد ہوتی ہے جو اپنا مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں جو ایماندار ہیں حیات بعدالموت پہ یقین رکھتے ہیں اور اپنی بہترین کوششوں کو اس کے لئے وقف کردیتے ہیں۔
Top