Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 258
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰهٖمَ فِیْ رَبِّهٖۤ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ١ۘ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ١ۙ قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُ١ؕ قَالَ اِبْرٰهٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِیْ كَفَرَ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۚ
اَلَمْ تَرَ : کیا نہیں دیکھا آپ نے اِلَى : طرف الَّذِيْ : وہ شخص جو حَآجَّ : جھگڑا کیا اِبْرٰھٖمَ : ابراہیم فِيْ : بارہ (میں) رَبِّهٖٓ : اس کا رب اَنْ : کہ اٰتٰىهُ : اسے دی اللّٰهُ : اللہ الْمُلْكَ : بادشاہت اِذْ : جب قَالَ : کہا اِبْرٰھٖمُ : ابراہیم رَبِّيَ : میرا رب الَّذِيْ : جو کہ يُحْيٖ : زندہ کرتا ہے وَيُمِيْتُ : اور مارتا ہے قَالَ : اس نے کہا اَنَا : میں اُحْيٖ : زندہ کرتا ہوں وَاُمِيْتُ : اور میں مارتا ہوں قَالَ : کہا اِبْرٰھٖمُ :ابراہیم فَاِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْتِيْ : لاتا ہے بِالشَّمْسِ : سورج کو مِنَ : سے الْمَشْرِقِ : مشرق فَاْتِ بِهَا : پس تو اسے لے آ مِنَ : سے الْمَغْرِبِ : مغرب فَبُهِتَ : تو وہ حیران رہ گیا الَّذِيْ كَفَرَ : جس نے کفر کیا (کافر) وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : نہیں ہدایت دیتا الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ : ناانصاف لوگ
(اے مخاطب ! ) کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم (علیہ السلام) سے ان کے پروردگار کے بارے میں مباحثہ کیا کہ اللہ نے اس کو سلطنت بخشی تھی جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ میرا پروردگار وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔ اس نے کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا یقینا اللہ تو سورج کو مشرق سے لاتا ہے پس تو اس کو مغرب سے لے آ تو اس پر کافر متحیر رہ گیا اور اللہ غلط کاروں کی راہنمائی نہیں فرماتے
آیات 258- 260 اسرارو معارف الم ترالی الذی حآج ابراھیم…………واللہ لا یھدی القوم الظلمین۔ ایمان مسلط اس لئے نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جو اللہ کی طرف سے دل پر وارد ہوتی ہے اور جس کا درود کا سبب وہ خواہش ہے جسے کتاب اللہ نے انابت کا نام دیا ہے اگر کسی دل میں انابت ہی نہ ہو تو لاکھ کوشش اور ہزار حجت کے بعد بھی اسے ایمان نصیب نہیں ہوتا۔ پھر یہاں زبردستی کیسی ؟ اس ضمن میں بطور مثال ارشاد ہے کہ……ذرا اسی شخص کے حالات دیکھئے جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے جھگڑا کیا اور وہ بھی ربوبیت باری میں۔ حالانکہ اللہ نے ہی اسے ملک عطا کیا تھا یعنی خود اس کی ذات اور اس کی بہت بڑی سلطنت ربوبیت باری ہی کے تو مظہر ہیں اور حق یہ تھا کہ وہ شکر ادا کرتا مگر اس نے سرکشی اختیار کی خود خدا ہونے کا دعویٰ کیا اور لوگوں سے کہا ” تمہارا رب میں ہوں مجھے سجدہ کرو ! “ جب سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے بت توڑے اور اعلان نبوت فرمایا تو اس نے دربار میں طلب کرکے پوچھا ، آپ کس رب کی طرف دعوت دے رہے ہیں ؟ سب کا رب تو میں ہوں اور تمام لوگوں کی ضروریات تو میری حکومت پوری کر ہی ہے۔ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا ، میرا رب وہ ہے یا میں اس رب کی طرف دعوت دیتا ہوں جو زندگی بخشتا ہے ، جو خالق ہے اور جو موت دیتا ہے کہ وقت مقرر پر ہر کوئی موت کے منہ میں چلا جاتا ہے حتیٰ کہ ربوبیت کے جھوٹے مدعی بھی پیدا ہوتے ہیں اور مرجاتے ہیں ، کائنات کے نظام کو نہ ان کی پیدائش متاثر کرسکتی ہے نہ موت۔ اگر تو اور تیرے جیسے بندے رب ہوتے تو یقینا ان کے سوا یہ عالم قائم نہ رہ سکتا۔ حالانکہ واقعہ اس کے برعکس ہے حقیقی رب وہی ہے جو زندگی اور موت کا بھی دینے والا ہے “۔ اس کے جواب میں نمرود نے دو قیدی منگوائے ایک کو بری کردیا اور دوسرے کو قتل کرادیا۔ اور کہنے لگا ، میں بھی تو زندگی اور موت کا دینے والا ہوں۔ کسی قدر احمقانہ جواب تھا مگر یہ بات نمرود بھی جانتا تھا کہ مناظرے کے جج عوام ہوا کرتے ہیں جن کی اکثریت علم سے عاری اور محض باتوں پر فدا ہوتی ہے سو کٹ حجتی کر گیا ، مگر اللہ کے رسولوں کے پاس دلائل بھی تو اللہ ہی کی طرف سے ہوتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ اللہ ساری کائنات کا خالق ہے اس کے سارے نظام کا بنانے والا اور چلانے والا ہے اس نے سورج کو مشرق سے نکل کر مغرب کی طرف غروب ہونے پر مقرر فرمایا ہے۔ اگر تو رب ہے اور اس کائنات کو تو چلارہا ہے تو ذرا اس نظام کو بدل دے اور سورج کو الٹے چکر پر لگا ، مشرق سے طلوع ہونے کی بجائے مغرب سے نکل آئے۔ تو بوکھلا اٹھا وہ جان گیا کہ اگر یہ سوال حضرت پہ لوٹا دوں تو یقینا جو رب مشرق سے طلوع کرتا ہے وہ مغرب سے طلوع کرنے پر قادر ہے اگر ان کی دعا سے ایسا ہوگیا تو غضب ہوجائے گا لوگ ان کی بات قبول کرلیں گے۔ اس کے علاوہ کوئی جواب نہ تھا ، بھڑک اٹھا اور آگ میں پھینکنے کا حکم دیا۔ روایت میں ہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب نمرود نے حضرت کو آگ میں ڈالنے کے لئے جیل سے طلب کیا اور پھر آگ میں ڈال کر آگ کو گلزار بنتے دیکھ لیا مگر کافر ہی رہا کہ اللہ ظالموں کو کبھی ہدایت اور ایمان نصیب نہیں فرماتا۔ دل جو صرف طلب الٰہی کے لئے ہے اس میں دنیا یا جاہ و حشمت کی طلب بھر دینا ، کیا یہ بہت بڑا ظلم نہیں ہے ؟ ایسے ظالم کبھی ہدایت نہیں پاتے۔ اوکا الذی ھر علی قریۃ……………ان اللہ علی کل شیء قدیر۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) کا واقعہ : یا پھر ایسا ہی عجیب قصہ اس شخص کا ہے جس کا گزر ایک اجڑے ہوئے شہر سے ہوا۔ یہ شخص حضرت عزیر (علیہ السلام) تھے اور تباہ شدہ بستی بیت المقدس۔ جسے بخت نصر نامی بادشاہ نے بری طرح برباد کردیا تھا۔ جب بنی اسرائیل کی بدکاریاں حد سے بڑھیں تو اللہ نے بخت نصر کو ان پر مسلط کردیا جو بہت ظالم تھا اس نے شہر کو تاراج کردیا۔ تو رات کے تمام نسخے جلا ڈالے اور بیشمار لوگوں کو قتل کیا جو بچ رہے ، انہیں قیدی بنا کرلے گیا۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) جو تباہی کے وقت جنگل کو نکل گئے تھے جیسا کہ قاعدہ ہے کہ جب قوموں پر عذاب نازل ہوا تو اللہ کے بندوں کو ان سے جدا کردیا جاتا ہے۔ بخت نصر کی واپسی کے بعد جب شہر کو لوٹے تو سخت بربادی نظر آئی نہ سبزہ تھا نہ درخت باقی ، نہ مکان تھے نہ مکینوں کا پتہ۔ کھنڈر انسانی وجودوں کے کٹے پھٹے متعفن ٹکڑوں سے بھرے پڑے تھے اور گلی سڑی لاشیں بربادی پہ نوحہ خواں تھیں تو بےساختہ پکاراٹھے کہ ان لوگوں کو اللہ کیسے زندہ فرمائیں گے یعنی ان کی دوبارہ زندگی کی کیا صورت ہوگی ؟ جن کے اجزائے جسم درندے لے اڑے ، پرندوں نے نوچے ، آگ میں جلے اور مکان کی راکھ میں مل گئے یا ہوا لے اڑی۔ غرض بہت بری طرح تباہ ہوئے اب یہ کیونکر زندہ ہوں گے ، یہ ایک اظہار حیرت تھا۔ اللہ کی قدرت پر ، ورنہ وہ خوب جانتے تھے کہ ایسا ضرور ہوگا۔ مگر اس ہونے کی کیفیت کیا ہوگی ، یہ اللہ ہی جانے۔ اسی سوچ میں آرام کرنے کو لیٹ گئے ، سواری کا گدھا باندھا اور کچھ انگوروں کا رس اور انجیر وغیرہ کا توشہ جو جنگل سے لائے تھے رکھ دیا۔ سو اللہ نے ان پر ایسی نیند مسلط فرمادی جو موت کی طرح تھی۔ واقعتاً فوت نہ ہوئے تھے کہ برزخ سے لوٹ کر آدمی مکلف نہیں ہوتا حالانکہ آپ نے دوبارہ دنیا کو اللہ کی طرف دعوت دینے کا فریضہ ادا فرمایا۔ نہ تو روح قبض ہو کر برزخ میں پہنچی اور نہ زندوں کے ساتھ کوئی تعلق رہا۔ بلکہ ان کی کیفیت اس کے درمیان رہی۔ اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے نہ صرف ان کے باوجود کی حفاظت فرمائی بلکہ ان کے کھانے اور شربت کو بھی محفوظ رکھا کہ ایک صدی کا طویل فاصلہ بھی اسے خراب نہ کرسکا اور چشم عالم سے پوشیدہ بھی رکھا کہ کسی نے سو سال میں ان کا وجود یا کھانا پینا دیکھا نہ اس پر مٹی یا دھول جمی بلکہ ایسے ہی محفوظ رہے۔ جب اللہ نے اٹھایا تو خود ان کو اپنے وجود یا لباس میں کوئی ذرہ بھر تغیر نظر نہ آیا۔ گویا ایک صدی بیت گئی اور دوسری طرف ایک لمحہ بھی نہ گزرا۔ بالکل ایسے ہی جیسے حضور اکرم ﷺ شب معراج تشریف لے گئے۔ بیت المقدس اور پھر آسمانوں پر اور پھر آگے اور پھر جنت دوزخ کا مشاہدہ فرما کر واپس لوٹے تو وہی وقت تھا۔ کنڈی بل رہی تھی اور بستر گرم ، یعنی ایں جانب لمحہ بھی نہ گزرا تھا خواہ ادھر سالوں بیت گئے ہوں۔ ایک صدی کے بعد اللہ نے اٹھایا۔ دریں اثناء تقریباً ستر سال بعد بنی اسرائیل قیدوبند سے چھوٹے۔ بخت نصر کو ہلاک کیا اور انہیں دوبارہ آباد ہونے کی توفیق بخشی تیس سالوں میں شہر خوب آباد ہوا۔ ادھر حضرت عزیر (علیہ السلام) اٹھے تو اللہ نے استفسار فرمایا کہ آپ یہاں کتنی دیر ٹھہرے ؟ عرض کیا ، دن بھر ، یا اس سے بھی کچھ کم دیر رکا ہوں۔ تو ارشاد ہوا کہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے بلکہ آپ سو سال یہاں ٹھہرے ہیں اور ہماری قدرت کا تماشا دیکھیں کہ آپ اس طویل مدت کو محسوس تک نہیں کر پائے۔ اسی طرح آپ کا توشہ بھی محفوظ ہے نہ کسی ذی روح نے چھیڑا ہے نہ ہی بادل یا بارش اور نہ ہی تیز ہوائیں اس کا کچھ بگاڑ سکیں اور نہ سو سال تک تمازت آفتاب نے اسے متاثر کیا ہے اس کے ساتھ آپ کا گدھا تھا۔ جو حوادثات کی نظر ہوا۔ اس کی حفاظت نہیں کی گئی کہ آپ خوددیکھ سکیں کہ مردے کس طرح سے جی اٹھیں گے۔ اور کیا کیفیت ہوگی۔ اسکی ہڈیوں کو دیکھیں کس طرح یکجا ہوتی ہیں اور پھر کس طرح سے اس کے جسم کے ذرات جو ہوائیں لے اڑی تھیں یا جانوروں اور پرندوں کی غذائیں بن گئے تھے یا آبی طوفانوں کی نظر ہوئے۔ واپس لوٹ کر پھر سے گوشت اور چمڑا بن کر اپنی اصلی جگہ پر آتے ہیں اور یہ سب عجائبات کا مشاہدہ اس لئے کرایا گیا کہ آپ اپنے سوال کا جواب بھی پالیں۔ یعنی دوبارہ جی اٹھنے کی کیفیت بھی دیکھ لیں اور خودآپ کا وجود لوگوں کے لئے قدرت باری کی دلیل بن جائے۔ سماع موتیٰ : آج کل سماع موتیٰ اور عدم سماع کی بحث چل نکلی ہے اور عدم سماع کے قائل حضرات یہاں سے بھی دلیل پکڑتے ہیں کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو کوئی پتہ نہ چل سکا۔ اس لئے برزخ والے کچھ سن نہیں سکتے یہاں سے استدلال بےجا ہے کہ نہ حضرت عزیر (علیہ السلام) پر طبعی موت وارد ہوئی اور نہ آپ برزخ میں پہنچے ، اور نہ اخذ ثواب کی نوبت آئی ، قطع نظر اس کے کہ مرنے والے کچھ سن سکتے ہیں یا نہیں ؟ یہاں سے دلیل نہیں دی جاسکتی بلکہ حیات بعد الموت کا انکار ۔ یہی کفار کے کفر پہ قائم رہنے کا سبب تھا اور ہے۔ اور یہ اس لئے ہے کہ عقل انسانی سے یہ سب کچھ بالاتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کئی طرح سے اپنی قدرت کا اظہار فرمادیا کہ کھانا پانی اپنی اصلی حالت میں محفوظ رکھا اور چشم عالم سے پنہاں بھی اپنے نبی کی وجود ، لباس غرضیکہ ہر شے کو محفوظ بھی رکھا ، چشم عالم سے پوشیدہ بھی اور خود نبی کو بھی پورے سو سال کے گزرنے کی خبر تک نہ ہونے دی۔ ساتھ میں گدھے پر موت آئی جسم گلا ، سڑا ، منتشر ہوا اور ایک صدی کا طویل عرصہ بیت گیا۔ پھر اسے اپنے نبی کے روبرو بنایا۔ زندگی بخشی اور فرمایا اب خود تیری ذات میری قدرت کاملہ کی دلیل ہے اور وہ بستی جس کی بربادی پر آپ حیران ہوئے تھے دوبارہ آباد ہوچکی ہے اب اسے بھی دلکھ لو ! چنانچہ آپ تشریف لے گئے اور لوگوں سے فرمایا میں عزیز نبی ہوں۔ طویل روایات ملتی ہیں کہ لوگوں نے نشانیاں طلب کیں اور سب سے بڑی نشانی کی بنی اسرائیل کے پاس سو سال سے تورات کا کوئی نسخہ نہ تھا سب بخت نصر نے جلا دیئے تھے۔ اللہ نے عزیز (علیہ السلام) کے قلب میں ڈال دی اور آپ نے دوبارہ لکھوا دی۔ یہ سب سامان ہدایت تھا اور بہت بڑا معجزہ تھا۔ مگر ہوا کیا کہ یہود نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا بنادیا۔ ان کے دل میں انابت نہ تھی کہ ہدایت پاتے ، اللہ نے انہیں اپنے قرب سے اپنی معرفت سے محروم فرمادیا اور ادھر حضرت عزیر (علیہ السلام) نے یہ سب دیکھ کر فرمایا کہ میں تو یہ بات سب سے زیادہ جانتا ہوں کہ اللہ ہر شے پر قادر ہے جو چاہے کرسکتا ہے۔ ایسے ہی جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا ، اذ قال ابرھم…………ان اللہ عزیز حکیم۔ اور اس موضوع پر بہت بڑی دلیل وہ واقعہ بھی ہے جب حضرت ابراھیم (علیہ السلام) نے عرض کیا تھا کہ اے پروردگار ! مجھے یہ چیز دکھادے کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا ؟ فرمایا : ” کیا تجھے اس بات پر یقین نہیں ؟ “ عرض کیا ، ” یا اللہ ! یقین کیوں نہیں ، ضرور یقین ہے مگر میں چاہتا ہوں کہ اس کیفیت کو آنکھوں سے دیکھوں تاکہ دلی اطمینان کا بہت اعلیٰ درجہ حاصل ہو “۔ دنیا دار عمل ہے اور یہاں اسباب کو بہت دخل ہے حتیٰ کہ خود رب کریم اسباب پیدا فرما کر نتائج کو ان کے ثمر کے طور پر پیدا فرماتا ہے۔ اسی طرح دیکھنا سکون قلبی اور کیفیات قلبی کے لئے بہ نسبت سننے کے زیادہ موثر ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی قوم کی گو سالہ پرستی کی خبر تو ہوگئی مگر الواح نہ پھینکیں۔ اگرچہ بہت دکھ بھی لگا۔ غصے بھی ضرور ہوئے ہوں گے۔ لیکن جیسے ہی آنکھوں سے قوم کو اس برائی میں ملوث دیکھا تو الواح پھینک دیں ، حضرت ہارون (علیہ السلام) کی داڑھی کھینچ لی۔ اسی طرح سیدنا ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ یا اللہ ! بذریعہ وحی معلوم ہے ، یقین ہے ، جانتا ہوں لیکن اے پروردگار ! اے اسباب کے پیدا کرنے والے ! جو تاثیر تو نے مشاہدہ میں رکھی ہے ، اس کا طلب گار ہوں ، اپنے کرم سے مجھے مردوں کے زندہ ہونے کی کیفیات کا مشاہدہ کرادے۔ دعا کا سلیقہ : اللہ کی بارگاہ بہت عالی ہے اور طالب کو بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے دیکھیں حضرت عزیر (علیہ السلام) کی طلب بھی اسی کیفیت کے بارے تھے مگر الفاظ جو عرض کئے وہ اور تھے۔ ان میں حیرت تھی ، کہ نامعلوم اللہ کیسے زندہ فرمائے گا ، تو اللہ نے سو سال انہیں ایک ایسی کیفیت میں رکھا کہ نہ زندہ تھے اور نہ مردوں میں اور تب اس کیفیت کا مشاہدہ ہوا۔ یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دوسرے انداز میں عرض کیا کہ اللہ ! جس طرح تو مردوں کو زندہ فرمائے گا مجھے دکھادے۔ تو فوراً مشاہدہ کرایا گیا۔ لہٰذا عرض حال کے لئے بہت زیادہ احتیاط وادب کی ضرورت ہے۔ فرمایا ، چار پرندے لے لیں اور انہیں اپنے ساتھ خوب ہلالیں کہ ایک تو ان کی پہچان اچھی طرح سے ہوجائے دوسرے آپ سے مانوس ہو کر آپ کی آواز پر لبیک کہیں۔ یہاں بھی اسباب کو درمیان میں رکھا کہ مانوس ہوں تب ہی جاکر آواز پر حاضر ہوں اسی طرح نبی کی ذات سے انس پیدا نہ ہو تو ایمان نصیب نہیں ہوتا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی ذاتی طور پر نبی کا دشمن ہو اور پھر مسلمان بھی رہے حتیٰ کہ ذات نبی سے دشمنی خواہ آپ ﷺ کے قرابت داروں سے دشمنی کی صورت میں ہو یا آپ ﷺ کے تابعداروں سے دشمنی کی صورت میں ہو اس کا حامل کافر ہوجاتا ہے۔ یہی حال اخذ فیض کے لئے شیخ کی ذات کا ہے جب تک ذات سے انس نہ ہوگا فیض حاصل نہ ہوگا۔ اولیاء اللہ سے دشمنی کفر نہیں ہے کہ ان کا ماننا نہ تو فرض ہے اور نہ کسی ولی کی بالیقین ولی کہا جاسکتا ہے ۔ مگر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ تعالیٰ کا ارشاد بڑا درست ہے کہ اولیاء اللہ سے دشمنی کفر تو نہیں مگر ایسے لوگ مرتے عموماً کفر پر ہی ہیں۔ جب پرندے آپ کے ساتھ ہل جائیں تو انہیں ذبح کریں اور سب کو ملا کر کوٹ لیں۔ پھر ان اجزائے ابدان کو مختلف پہاڑوں پر پھینک دیں ، اور اس کے بعد ان کو اپنی طرف بلائیں اور دیکھیں کہ دوڑے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہوں گے حضرت نے ایسا ہی کیا اور روایت ہے کہ سر اپنے پاس رکھتے ہوئے تھے جس پرندے کو آواز دیتے اس کے قطرہ ہائے خون خواہ پتھروں پہ گرے تھے یا زمین میں جذب تھے یا دوسرے پرندوں کے خون میں مل گئے تھے جدا ہو ہو کر آنے لگے۔ ایسے ہی گوشت پوست ، ہڈیوں اور پروں کے ٹکڑے آ آ کر اپنے اپنے اجزاء کے ساتھ مل کروجود بن گئے اور پھر سروں کے ساتھ جڑ کر زندہ پرندے ، اور ارشاد ہوا کہ اچھی طرح جان لیں کہ اللہ زبردست ہے ، جیسے چاہے کرسکتا ہے مگر بہت بڑا حکیم ہے اور اپنی حکمت سے ہر کام کا وقت مقرر فرمادیا ہے۔ ویسے انسان اپنے پیدا ہونے سے قبل اپنے وجود کے اجزاء کو دیکھے تو دنیا میں اس قدر منتشرنظر آتے ہیں کہ بعد مرگ اتنا پھیلنا محال دکھائی دیتا ہے ، یہ اغذیہ ، یہ ادویہ جو کچھ بھی ہم کھاتے ہیں سب مٹی ہے ، پانی ہے ، آگ اور ہوا ہے اسی کے مختلف روپ ہیں۔ کہیں غلہ ، کہیں چاول ، کہیں گنا اور کھانڈ ، کہیں مرچ اور مصالحہ ، کسی جگہ سبز چارے کی شکل میں ہے تو کہیں بھوسہ بن رہی ہے جسے جانور کھاتے ہیں۔ پھر دودھ یا مکھن کی صورت میں انسان کو نصیب ہوتی ہے۔ اس تمام عمل میں اتفاقات کا دخل نہیں بلکہ عنداللہ جو ذرہ خاک جس جسم کے لئے مقدر ہے اسی کی طرف مائل بہ پرواز ہے۔ حتیٰ کہ انسان اپنے حصے کے اجزا اپنے وجود پر چڑھا لیتا ہے مگر اولاد کے حصہ کے اجزا اس کے صلب میں محفوظ ہوجاتے ہیں جو اس کے بدن کی تعمیر پر صرف ہوتے ہیں جس کا وہ حصہ ہوتے ہیں اسی طر ح ماں غذا کھاتی ہے گر وجود کے اندر حل ہونے کے بعد بھی تقسیم ہوجاتی ہے اور بچے کا حصہ اس کا جزوبدن نہیں بنتا بلکہ اس بدن تک پہنچتا ہے جس کا حصہ اسے اللہ نے مقرر فرمادیا ہے۔ آخرت کی تعمیر اللہ کے لئے کوئی مشکل نہیں ، اور وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ کسی بدن کے اجزاء کہیں پہنچ جائیں تو انہیں ثواب یا عذاب پہنچتا رہے خواہ کسی دوسرے بدن کا حصہ ہی کیوں نہ بن چکے ہوں۔ اس عالم میں مکلف بالذات بدن ہے لیکن ہر لذت وہر الم اپنا اثرروح پر بھی چھوڑتا ہے اسی طرح برزخ میں مکلف بالذات روح ہے مگر اسے پہنچنے والی لذت یا دکھ کا اثر ہر اس ذرے پر بھی وارد ہوتا ہے جو اس کے اجزائے بدن سے ہو اور میدان حشر میں ، اور اس کے بعد دونوں برابر برابر شریک ہوں گے۔ کفار کا اللہ کی اطاعت سے منحرف ہونااسی سبب سے ہے کہ وہ حیات بعد الموت کا ناممکن سمجھتے ہیں جس کا اثبات ان تین واقعات میں ارشاد فرما کر اب ان لوگوں کی تمثیل ارشاد ہوتی ہے جو اپنا مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں جو ایماندار ہیں حیات بعدالموت پہ یقین رکھتے ہیں اور اپنی بہترین کوششوں کو اس کے لئے وقف کردیتے ہیں۔
Top