Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 88
قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰۤى اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَ لَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیْرًا
قُلْ : کہ دیں لَّئِنِ : اگر اجْتَمَعَتِ : جمع ہوجائیں الْاِنْسُ : تمام انسان وَالْجِنُّ : اور جن عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ يَّاْتُوْا : وہ بلائیں بِمِثْلِ : مانند هٰذَا الْقُرْاٰنِ : اس قرآن لَا يَاْتُوْنَ : نہ لاسکیں گے بِمِثْلِهٖ : اس کے مانند وَلَوْ كَانَ : اور اگرچہ ہوجائیں بَعْضُهُمْ : ان کے بعض لِبَعْضٍ : بعض کے لیے ظَهِيْرًا : مددگار
اس بات کا اعلان کر دے کہ اگر تمام انسان اور جن اکٹھے ہو کر چاہیں کہ اس قرآن کریم کی مانند کوئی کلام پیش کردیں تو کبھی پیش نہ کرسکیں گے اگرچہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا مددگار ہی کیوں نہ ہو
جن وانس مل کر بھی قرآن کریم کے مقابلہ میں کلام پیش نہیں کرسکتے : 106۔ قرآن کریم کے کلام الہی ہونے اور دوسرے سارے کلاموں سے ممیز ہونے کے لئے جو استدلال کیا گیا ہے وہ دراصل تین دلیلوں پر مشتمل ہے : 1۔ قرآن کریم اپنی زبان ‘ اسلوب بیان ‘ طرز استدلال ‘ ضرب الامثال ‘ محاورات ‘ تعلیمات ‘ استعارات اور اخبار غیب کے لحاظ سے ایک معجزہ ہے جس کی نظیر لانا انسانی قدرت سے باہر ہے ۔ تم کہتے ہو کہ اس کو ایک انسان نے گھڑا ہے اور ہم کہتے ہیں کہ دنیا کے سارے انسان اور سارے جن مل کر بھی اس جیسا کلام نہیں گھڑ سکتے ، دعوی میں زمین و آسمان سے بھی زیادہ بعد اور دوری ہے اگر تم سچے ہو تو اٹھو اور اس کی نظیر لے آؤ ۔ 2۔ محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی تمہارے سامنے ہے ، آپ ﷺ نے نبوت سے پہلے چالیس سال تم میں گزرے ہیں ۔ تمہارے شہر میں پیدا ہوئے ، تمہاری آنکھوں کے سامنے بچپن گزرا ‘ جوان ہوئے ‘ ادھیڑ عمر کو پہنچے ‘ رہنا سہنا ‘ ملنا جلنا لین دین ‘ شادی بیاہ غرض ہر طرح کے معاشرتی حالات تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں کیا دعوی نبوت سے پہلے ایک دن بھی تم نے اس کی زبان سے اس طرز کا کلام اور ان مسائل اور مضامین پر مشتمل کلام سنا تھا اگر نہیں اور یقینا نہیں تو کیا یہ بات تمہاری سمجھ میں آتی ہے کہ کسی شخص کی زبان ‘ خیالات ‘ معلومات اور طرز فکر وبیان میں یکایک ایسا تغیر واقع ہو سکتا ہے ؟ 3۔ اب اس وقت جب کہ تم اے مکہ والو ! محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مل کر رہ رہے ہو اور ہمارا نبی قرآن سنا کر کہیں غائب تو نہیں ہوجاتا تمہارے پاس رہتا ہے تم قرآن کریم بھی اس کی زبان سے سنتے ہو اور اس سے دوسرا کلام بھی اور گفتگو بھی کرتے اور سنتے ہو تم ہی بتاؤ کہ قرآن کریم کی زبان اور طرز کلام سے اس کے کلام کا طرز بالکل الگ تھلگ نہیں ‘ اگر فی الواقعہ الگ الگ طرز ہے تو تم بتاؤ کہ ایک فرد کے کبھی دو مختلف سٹائل بھی ہو سکتے ہیں جبکہ زبان بھی ایک ہو ‘ لب و لہجہ بھی ایک ہو ‘ کیا اس کی کوئی مثال بیان کرسکتے ہو ؟ آج بھی قرآن کریم تمہارے ہاتھوں میں سے اور احایدث کی کتب بھی تم پڑھتے ہو کیا دونوں میں واضح فرق موجود نہیں ؟ اگر ہے تو آخر وہ کس طرح ہوگیا ۔ بات سمجھنے کے لئے اشارات کافی ہیں اور تفصیل کے لئے ” عروۃ الوثقی “ جلد اول تفسیر سورة البقرہ کی آیات 23 ‘ 24 ‘ جلد چہارم تفسیر عروۃ الوثقی “۔ سورة یونس آیت 16 ‘ 38 ‘ سورة ہود آیت 13 میں گزر چکی ہے وہاں سے ملاحظہ فرمائیں اور اس سورة بنی اسرائیل کے بعد انشاء اللہ العزیز سورة طور آیت 33 ‘ 34 میں بھی یہی مضمون آئے گا ۔ انشاء اللہ العزیز ، ہمیں افسوس ہے کہ نبی اعظم وآخر ﷺ کے معجزات میں سے سب سے زیادہ واضھ اور روشن معجزہ کو ہمارے مفسرین نے وہ مقام بھی نہ دیا جو ان قصے کہانیوں کو دیا جن کا کوئی سر اور پیر اسلام میں نہیں اور جو معجزات کے شوقین حضرات نے اپنی ہی طرف سے گھڑ گھڑ کر الف لیلی کی کہانی کی طرح بیان کئے اور وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں نے ان وہمی مفروضوں کو اپنی کتابوں میں جگہ دے دی اور آج گرمی محفل کے لئے واعظین اسلام انہیں چیزوں کو اپنی پند ونصائح میں بیان کرنے کے عادی ہیں اور ان کو چٹ پٹا بنانے کے لئے اپنی طرف سے بھی نمک ‘ مرچ چھڑکتے رہتے ہیں اور کوئی مکتب فکر بھی ان کی زد سے نہیں بچا ، اہلحدیث اپنے آپ کو محققین اور تحقیقی لوگ خیال کرتے اور بیان کرتے ہیں ان میں قلیل لوگ ایسے بھی ہیں لیکن ان کی اکثریت اپنی ساری چھان بین رفع الیدین ‘ فاتحہ خلف الامام ‘ آمین بالجہر اور آٹھ رکعت تراویح کے لئے خاص کرچکی ہے ، ان کے ہاں اتنی فرصت ہی نہیں کہ کسی اور بات کی تحقیق کرسکیں اور اپنے مخصوص مسائل سے باہر نکل کر کچھ دیکھنے کے لئے تیار ہی ہوں ، ہم انشاء اللہ العزیز کسی مناسب جگہ پر مزید گفتگو کریں گے کیونکہ آگے موضوع اسی طرح پھرنے والا ہے ‘ نہیں ! بلکہ پھر چکا ہے ۔
Top