Tafseer-e-Haqqani - Al-Israa : 88
قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰۤى اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَ لَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیْرًا
قُلْ : کہ دیں لَّئِنِ : اگر اجْتَمَعَتِ : جمع ہوجائیں الْاِنْسُ : تمام انسان وَالْجِنُّ : اور جن عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ يَّاْتُوْا : وہ بلائیں بِمِثْلِ : مانند هٰذَا الْقُرْاٰنِ : اس قرآن لَا يَاْتُوْنَ : نہ لاسکیں گے بِمِثْلِهٖ : اس کے مانند وَلَوْ كَانَ : اور اگرچہ ہوجائیں بَعْضُهُمْ : ان کے بعض لِبَعْضٍ : بعض کے لیے ظَهِيْرًا : مددگار
(اے نبی ! ) کہہ دو اگر سب آدمی اور سب جن مل کر بھی ایسا قرآن بنا لانا چاہیں (تو ایسا قرآن) نہ لاسکیں گے اگرچہ ان میں سے ایک دوسرے کی پشتی ہی پر کیوں نہ ہوں
ترکیب : لایاتون جواب لئن ای جواب قسم محذوف دل علیہ اللام الموطّیۃُ ولولاھی لکان جواب الشرط بلاجزم لکون الشرط ماضیا۔ بیضاوی۔ تفسیر : منجملہ ان باتوں کے کہ جن سے قرآن مجید پر اعتراض کیا کرتے تھے ان کی ایک یہ بات بھی تھی کہ وہ کہتے تھے کہ اس قرآن میں کون سی خوبی ہے ؟ اگر چاہیں تو ہم بھی کہہ سکتے ہیں اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی اور یہ بھی ہے کہ قرآن کی بابت فرمایا تھا کہ وہ ہماری طرف سے ہے اگر ہم چاہیں تو اس کو واپس لے جائیں پھر تمام مخلوق مل کر بھی زور لگائے تو ایسا قرآن نہ بنا سکے۔ کماقال قل لئن اجتمعت الخ کہ تم کیا اگر تمہارے ساتھ تمہارے وہ جن بھی شریک ہوں کہ جن سے تم مانگا کرتے ہو اور جن کے ذریعہ سے تمہارے کاہن غیب کی باتیں بتلا کر بڑے بڑے دعویٰ کیا کرتے ہیں وہ بھی شریک ہوں تو اس کا مثل نہ بنا سکیں گے۔ بلاغت و فصاحت کے معجزہ کے علاوہ اس میں روح کو زندہ کرنے والی انسان کے دل پر چوٹ مارنے والی اور سب علوم الہامیہ کے متعلق وہ وہ باتیں ہیں کہ جن کو کوئی نہیں بتا سکتا۔ مقدمہ تفسیر میں اس مسئلہ کی خوب شرح ہوچکی ہے۔ ابن اسحاق و ابن جریر نے سعیدیاعکرمہ کے طریق سے ابن عباس ؓ سے آیت کے بارے میں یوں بھی نقل کیا ہے کہ سلام بن مشکم چند یہود کو ساتھ لے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ آپ نے ہمارا قبلہ ترک کردیا اور یہ قرآن توریت کے برابر نہیں ایسا ہم بھی کرسکتے ہیں۔ پھر آپ کا اتباع کیونکر کریں۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ شیبہ وعتبہ ربیعہ کے بیٹے اور ابوسفیان اور ولید بن المغیرہ و ابوجہل وغیرہ ہم کفار قریش نے آنحضرت ﷺ سے کہا کہ اگر تو خدا کا سچا رسول ہے تو مکہ خشک جگہ ہے یہاں کوئی پانی کا چشمہ جاری کر دے یا کوئی ایسا تروتازہ باغ انگوروں اور کھجوروں کا لگا دے کہ جس میں سے بڑی نہریں چلا کریں جیسا کہ عراق و شام ہے یا تو جیسا کہتا ہے کہ قیامت کو آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گرے گا تو اس کا کوئی ٹکڑا ہم پر بھی گرا دے یا ہمارے سامنے اللہ اور فرشتوں کو لا کہ ہم ان کو آنکھوں سے دیکھیں اور ان سے پوچھیں کہ محمد ﷺ کو تم نے رسول بنا کر بھیجا ہے یا کوئی سونے چاندی کا بنا ہوا مکان موجود کر کے دکھا دے یا تو تمہارے سامنے آسمان پر چڑھ جا اور وہاں سے کوئی لکھی ہوئی کتاب لا کہ جس کو ہم پڑھ لیں تب تو ہم تجھے مانیں گے ورنہ ہم تجھے نہیں مانتے اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ وقالولن نومن الخ اس میں تعلیم کردی کہ ان سے کہہ دو سبحان اللہ یہ کیا لغو باتیں ہیں، تم نے کیا مجھ کو قادرمطلق سمجھ لیا ہے یا مجھے اس بات کا دعوٰی ہے تاکہ پھر تمہارے کہنے سے یہ باتیں کر دوں۔ میں تو آدمی ہوں خدا تعالیٰ کے حکم کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا ہاں رسول ہوں ‘ احکام پہنچانے والا ہوں ‘ قرآن کو رقیہ یعنی منتر بتلایا ان پہلی باتوں کو اگر یہ سب کچھ بھی ہوجائے تو یہ تمہارے جادو منتر کا اثر سمجھا جائے گا بلکہ آسمان سے ہمارے اوپر بھی کوئی کتاب اتروا کہ ہم خود اس کو پڑھ لیں۔
Top