Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 57
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِیْلَةَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَهٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَهٗ١ؕ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا
اُولٰٓئِكَ : وہ لوگ الَّذِيْنَ : جنہیں يَدْعُوْنَ : وہ پکارتے ہیں يَبْتَغُوْنَ : ڈھونڈتے ہیں اِلٰى : طرف رَبِّهِمُ : اپنا رب الْوَسِيْلَةَ : وسیلہ اَيُّهُمْ : ان میں سے کون اَقْرَبُ : زیادہ قریب وَيَرْجُوْنَ : اور وہ امید رکھتے ہیں رَحْمَتَهٗ : اس کی رحمت وَيَخَافُوْنَ : اور ڈرتے ہیں عَذَابَهٗ : اس کا عذاب اِنَّ : بیشک عَذَابَ : عذاب رَبِّكَ : تیرا رب كَانَ : ہے مَحْذُوْرًا : ڈر کی بات
یہ لوگ جن ہستیوں کو پکارتے ہیں وہ خود اپنے پروردگار کے حضور وسیلہ ڈھونڈتے ہیں کہ کون اس راہ میں زیادہ قریب ہوتا ہے ، نیز اس کی رحمت کے متوقع رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے ترساں تمہارے پروردگار کا عذاب بڑی ہی ڈرنے کی چیز ہے
جن کی تم پر پرستش کرتے ہو وہ تو خود رب کریم کی بارگاہ میں قرب حاصل کرنے میں کوشاں ہیں : 71۔ گزشتہ آیت کی مزید وضاحت فرما دی گئی اس لئے کہ اس میں جن معبودوں اور فریاد رسوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ لکڑی ‘ پتھر اور کسی دھات کے بت تو مراد نہیں ہوسکتے بلکہ اس سے مراد فرشتے ‘ جن اور اللہ کے برگزیدہ نبی ورسول ہی ہو سکتے ہیں ۔ بات واضح ہوگئی کہ انبیاء ورسل ہوں یا فرشتے اور جن ان میں سے کسی کو بھی یہ طاقت نہیں ہے کہ تمہاری دعائین سنیں اور تمہاری مدد کر پہنچیں ، تم حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے ان کو وسیلہ بنا رہے ہو اور ان کا یہ حال ہے کہ وہ خود اللہ کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے ہر وقت خائف ہیں اور اس کا زیادہ سے زیادہ قرب حاصل کرنے میں کوشاں ہیں۔ خیال رہے کہ شرک کا اصل ضرر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے انسان کو جس درجہ کا تعلق ‘ جس قسم کا عجز ونیاز ‘ جس مرتبہ کی محبت ‘ جس درجہ کی التجا درکار ہے اس کا رخ دوسری جانب بدل جاتا ہے ، ہزاروں لاکھوں آدمی ہیں جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ دیوتا ‘ داتا یا کوئی جن اور فرشتہ یا نبی ورسول کائنات اور زمین و آسمان کے خالق نہیں تاہم وہ ہر قسم کی حاجتیں اور مرادیں انہی دیوتاؤں ‘ داتاؤں ‘ جنوں اور فرشتے یا نبیوں اور رسولوں اور دوسرے معبودوں سے مانگتے ہیں ۔ ان ہی کو حاجت روا جانتے ہیں ۔ اٹھتے بیٹھتے ان ہی کا نام لیتے ہیں ، انہی پر نذر ونیاز چڑھاتے ہیں۔ غرض براہ راست ان کا جو تعلق ہوتا ہے انہیں معبودوں سے ہوتا ہے خود مسلمانوں میں ہزاروں ‘ لاکھوں آدمیوں کا طرز عمل انبیاء وصلحا بلکہ ان کے مزارات کی نسبت اسی کے قریب قریب ہے ، اسی بناء پر مقدم ترین امر یہ ہے کہ معبودوں کی نسبت اس قسم کا خیال نہ پیدا ہونے پائے بلکہ صاف صاف بتا دیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کسی کی کچھ نہیں چل سکتی اور اس کی مرضی میں نہ پیدا ہونے پائے بلکہ صاف صاف بتا دیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کسی کی کچھ نہیں چل سکتی اور اس کی مرضی میں کوئی دست اندازی نہیں کرسکتا اور یہ بات تفہیم کرانے کی ہر ممکن کوشش کی کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں کہ اس کو پکارنے کے لئے اس سے محبت کرنے کے لئے ، اس سے کچھ طلب کرنے کے لئے واسطوں اور وسیلوں کی ضرورت ہو۔ نہیں ! یہ تصور بالکل غلط ہے وہ بغیر واسطوں اور وسیلوں کے اپنے بندوں کی عرض معروض سنتا ہے اور قبول کرتا ہے ، جن کو تم واسطہ اور وسیلہ کے طور پر استعمال کرتے ہو یا کرنا چاہتے ہو وہ تو خود اس کے حضور زیادہ تقریب کے لئے وسائل تلاش کرتے ہیں جو نیک اعمال کی صورت میں ہیں اور اطاعت وفرمانبرداری کے ذریعہ سے ، وسیلہ کے معنی رغبت کے ساتھ کسی چیز تک پہنچنے کے ہیں ، وسیلہ الی اللہ سے مراد ہے علم وعمل کے لحاظ سے اللہ کی قائم کی ہوئی راہ کی نگہداشت اور مکارم شریعت کے حصول کا ارادہ اور کوشش اور اس کو قرب خداوندی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ (وسل الی اللہ توسلا) ” ایسا عمل کیا جسے اللہ کے قرب میں پہنچ گیا ۔ “ (ایھم اقرب) یعنی ان میں سے جو سب سے زیادہ قربت رکھنے والے ہیں وہ خود بھی وسیلہ کے طلبگار ہیں پھر قربت نہ رکھنے والوں کا تو ذکر ہی کیا ۔ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے وہی ہیں جو اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں بلاشبہ تیرے رب کا عذاب حقیقت میں ہے ہی ڈرنے کی چیز ، علامہ بیضاوی (رح) نے کہا کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جن کو تم معبود خیال کرتے ہو جیسے فرشتے ‘ مسیح (علیہ السلام) اور عزیر (علیہ السلام) ان میں سے کوئی بھی تمہارا دکھ دور نہیں کرسکتا یہ تو خود اللہ کے مقرب ترین بندے بننے کے لئے وسیلہ کے خواستگار ہیں ۔ تعجب ہے کہ پیر کرم شاہ صاحب اس اپنی تفسیر ضیاء القرآن میں رقم طراز ہیں کہ ” مطلب یہ ہے کہ مشرکین جن کو خدائے بنائے ہوئے ہیں اور جن کو اپنی تکالیف اور مصائب میں پکارتے ہیں یہ خدا نہیں بلکہ وہ تو خود ہر لمحہ ‘ ہر لحظہ اپنے رب کریم کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے مصروف عمل رہتے ہیں اگر واقعی وہ خدا ہوتے جیسے مشرکین کا خیال ہے تو پھر انہیں کسی کی عبادت اور رضا جوئی کی کیا ضرورت تھی ۔ “ پھر اس عبارت سے استنباط کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ ” مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ مقرب بندوں کو بارگاہ الہی میں وسیلہ بنانا جائز ہے اور اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے ۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی غیر کی عبادت کرنا ممنوع ہے لیکن مقبولان بارگاہ ایزدی کا وسیلہ پکڑنا اور ان سے التماس دعا کرنا جائز ہے ، “ قرآن کریم جس بات کی نفی کر رہا ہے پیر صاحب نے جماعتی ہمدردی میں اس کا اثبات آیت سے نکال دیا ہے تاکہ جماعت کو خوش کرکے اس سے عزت افزائی حاصل کریں اور یہ بیماری ہمارے ہاں عام ہے جو سارے مکاتب فکر کو لاحق ہے ۔
Top