Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 57
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِیْلَةَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَهٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَهٗ١ؕ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا
اُولٰٓئِكَ : وہ لوگ الَّذِيْنَ : جنہیں يَدْعُوْنَ : وہ پکارتے ہیں يَبْتَغُوْنَ : ڈھونڈتے ہیں اِلٰى : طرف رَبِّهِمُ : اپنا رب الْوَسِيْلَةَ : وسیلہ اَيُّهُمْ : ان میں سے کون اَقْرَبُ : زیادہ قریب وَيَرْجُوْنَ : اور وہ امید رکھتے ہیں رَحْمَتَهٗ : اس کی رحمت وَيَخَافُوْنَ : اور ڈرتے ہیں عَذَابَهٗ : اس کا عذاب اِنَّ : بیشک عَذَابَ : عذاب رَبِّكَ : تیرا رب كَانَ : ہے مَحْذُوْرًا : ڈر کی بات
یہ لوگ جن کو یہ (مشرکین) پکار رہے ہیں (خودہی) اپنے پروردگار کا قرب ڈھونڈ رہے ہیں کہ (دیکھیں) ان میں کون زیادہ مرب بنتا ہے،81۔ اور اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں بیشک آپ کے پروردگار کا عذاب ہے بھی ڈرنے ہی کے قابل،82۔
81۔ یعنی خود ہی طاعت و عبادت کے ذریعہ سے اللہ کا قرب اور قرب مزید ڈھونڈر ہے ہیں۔ مراد یہاں ملائکہ وجنات اور بعض انبیاء لیے گئے ہیں جنہیں مشرکوں اور مبتلائے شرک اہل کتاب نے درجہ الوہیت دے رکھا ہے۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ یہ بندگان صالح تو اپنے کمال عبدیت و عبودیت کی بناء پر خود ہی ہر طرح تلاش قرب وقرب مزید میں لگے رہتے ہیں۔ (آیت) ” الوسیلۃ “۔ وسیلۃ کے معنی قرب کے ہیں اور یہی یہاں بھی صحابہ، تابعین اور اکابر مفسرین سے مروی ہیں۔ الوسیلۃ القربۃ (ابن جریر۔ عن ابن عباس ؓ القربۃ والزلفی (ابن جریر۔ عن قتادۃ) القربۃ والزلفۃ (ابن جریر) 82۔ مطلب یہ ہوا کہ یہ تمام گڑھے ہوئے خدا خود ہی ہر طرح محتاج ہیں اور معبودیت کی صلاحیت سے بالکل عاری۔ (آیت) ’ ویخافون عذابہ “۔ یعنی نافرمانی کی صورت میں اس کے عذاب سے بھی ڈرتے رہتے ہیں۔
Top