Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 56
قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ فَلَا یَمْلِكُوْنَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَ لَا تَحْوِیْلًا
قُلِ : کہ دیں ادْعُوا : پکارو تم الَّذِيْنَ : وہ جن کو زَعَمْتُمْ : تم گمان کرتے ہو مِّنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا فَلَا يَمْلِكُوْنَ : پس وہ اختیار نہیں رکھتے كَشْفَ : دور کرنا الضُّرِّ : تکلیف عَنْكُمْ : تم سے وَ : اور لَا : نہ تَحْوِيْلًا : بدلنا
ان لوگوں سے کہہ دو تم نے اپنے خیال میں اللہ کے سوا جن ہستیوں کو معبود سمجھ رکھا ہے انہیں پکار دیکھو ، نہ تو وہ اس کی طاقت رکھتے ہیں کہ تمہارا کوئی دکھ دور کردیں اور نہ تمہاری حالت بدل سکتے ہیں
جن جن کے معبود ہونے کا تم کو گمان ہے انکو پکار دیکھو بھلا وہ تمہارے کام آتے ہیں ؟ 70۔ اس آیت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جن کو پکارا جا رہا ہے اور جن جن کے نام کی لوگ دہائی دیتے ہیں وہ قطعا ان کی بات کا جواب نہیں دیتے کیونکہ (وانہ غافل عن داعیہ) ان کو معلوم نہیں ہے کہ کوئی انکو پکار رہا ہے وہ اپنے داعی سے بالکل غافل ہیں ۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا ہی شرک نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسری ہستی سے دعا مانگنا یا اس کو مدد کے لئے پکارنا بھی شرک ہے خصوصا جب کہ وہ ہستی پاس موجود بھی نہ ہو اور اس دارفانی سے منتقل بھی ہوچکی ہو اور یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ دعاء استبداد اور استعانت اپی حقیقت کے اعتبار سے عبادت ہی ہیں اور غیر اللہ سے مناجات کرنے والا ویسا ہی مشرک ہے جیسا کہ ایک بت پرست مشرک ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو بھی کچھ اختیارات حاصل نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی دوسرا مصیبت کو ٹال سکتا ہے اور نہ کوئی بری حالت کو اچھی حالت سے بدل سکتا ہے ، اس طرح کا اعتقاد سوائے اللہ تعالیٰ کے جس ہستی کے متعلق بھی رکھا جائے گا وہ مشرکانہ اعتقاد ہوگا ۔ زیر نظر آیت کی رو سے تمام پکارنے والے اور تمام معبود من دون اللہ میں شامل ہیں یہی وجہ ہے کہ علامہ ابن جریر رقم طراز ہیں کہ ” جب لوگ قیامت کے دن اپنے حساب کی جگہ پر اکٹھے کئے جائیں گے تو جن لوگوں کو یہ دنیا میں پکارتے تھے وہ ان سے اپنی برات کا اظہار کریں گے اور اب بات کا انکار کردیں گے کہ وہ کبھی انکی عبادت کرتے تھے ۔ “ یعنی دنیا میں جن جن کی عبادت کی جا رہی ہے یہ لوگ اپنی عبادت کی جانے سے انکاری ہوجائیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے ان کو یہ نہیں کہا تھا کہ ہماری عبادت کرو اور نہ ہی ہمیں ان کی عبادت کا علم ہے اور ہمیں معلوم بھی نہیں کہ یہ لوگ ہمیں پکارتے رہے ہیں اے اللہ کریم ہم ان کی عبادت سے تیری بارگاہ میں اظہار بیزاری کرتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم کی دوسری جگہ خود اس کی وضاحت فرما دی کہ : (آیت) ” وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّہِ فَیَقُولُ أَأَنتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ ہَؤُلَاء أَمْ ہُمْ ضَلُّوا السَّبِیْلَ (17) قَالُوا سُبْحَانَکَ مَا کَانَ یَنبَغِیْ لَنَا أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِکَ مِنْ أَوْلِیَاء وَلَکِن مَّتَّعْتَہُمْ وَآبَاء ہُمْ حَتَّی نَسُوا الذِّکْرَ وَکَانُوا قَوْماً بُوراً (18) (الفرقان 25 : 17 ‘ 18) ” اور وہی دن ہوگا جب کہ تمہارا رب ان لوگوں کو بھی گھیر لائے گا اور ان کے معبودوں کو بھی بلا لے گا جنہیں آج یہ لوگ اللہ کے سوا پوج رہے ہیں پھر وہ ان سے پوچھے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا ؟ یا یہ خود ہی راہ راست سے بھٹک گئے تھے ؟ وہ عرض کریں گے کہ پاک ہے آپ کی ذات ہماری تو یہ مجال نہ تھی کہ آپ کے سوا کسی کو اپنا کار ساز بنائیں لیکن آپ نے ان لوگوں کو ان کے باپ دادوں کو خوب سامان زندگی دیا حتی کہ یہ حقیقت کو بھول گئے اور شامت زدہ ہو کر رہ گئے ۔ “ علامہ ابن جریر (رح) لکھتے ہیں کہ (آیت) ” من دون اللہ “ سے انسان ‘ فرشتے اور جن مراد ہیں اور وہ سب جن جن کی یہ لوگ پوجا کرتے رہے جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ‘ عزیر (علیہ السلام) اور فرشتے جن کو یہ لوگ اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے اس کی مزید تفصیل دیکھنا ہو تو سورة الانعام کی آیت 63 عروۃ الوثقی جلد سوم سے ملاحظہ کریں ۔ جلد چہارم میں سورة یونس کی آیت 21 کی تفسیر دیکھیں ۔
Top