Jawahir-ul-Quran - Al-Israa : 57
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِیْلَةَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَهٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَهٗ١ؕ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا
اُولٰٓئِكَ : وہ لوگ الَّذِيْنَ : جنہیں يَدْعُوْنَ : وہ پکارتے ہیں يَبْتَغُوْنَ : ڈھونڈتے ہیں اِلٰى : طرف رَبِّهِمُ : اپنا رب الْوَسِيْلَةَ : وسیلہ اَيُّهُمْ : ان میں سے کون اَقْرَبُ : زیادہ قریب وَيَرْجُوْنَ : اور وہ امید رکھتے ہیں رَحْمَتَهٗ : اس کی رحمت وَيَخَافُوْنَ : اور ڈرتے ہیں عَذَابَهٗ : اس کا عذاب اِنَّ : بیشک عَذَابَ : عذاب رَبِّكَ : تیرا رب كَانَ : ہے مَحْذُوْرًا : ڈر کی بات
وہ لوگ جن کو یہ پکارتے ہیں54 وہ خود ڈھونڈھتے ہیں اپنے رب تک وسیلہ کہ کونسا بندہ بہت نزدیک ہے اور امید رکھتے ہیں اس کی مہربانی کی اور ڈرتے ہیں اس کے عذاب سے بیشک تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے
54:۔ یہ دلیل مذکورہ کا ثمرہ ہے جب سب کچھ جاننے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے تو اس کے سوا کسی کو حاجات و مشکلات میں مت پکارو۔ اگر اطمینان نہ آئے تو جن کو تم نے اللہ کے سوا حاجت روا اور کارساز سمجھ رکھا ہے ان میں سے کوئی بھی تمہاری موجودہ مصیبتیں دور کرنے اور آنے والی تکلیفوں کو روکنے کا ہرگز اختیار نہیں رکھتا۔ جن انبیاء و اولیاء اور ملائکہ (علیہم السلام) کو تم نے کارساز اور مختار و متصرف سمجھ رکھا ہے ان میں سے کوئی بھی تمہاری موجودہ مصیبتیں دور کرنے اور آنے والی تکلیفوں کو روکنے کا ہرگز اختیار نہیں رکھتا۔ جن انبیاء و اولیاء اور ملائکہ (علیہم السلام) کو تم نے کارساز اور مختار و متصرف سمجھ رکھا ہے ان کا تو اپنا حال یہ ہے کہ ان میں سے جو جس قدر اللہ تعالیٰ کے زیادہ مقرب ہیں اسی قدر اللہ تعالیٰ کی زیادہ سے زیادہ نزدیکی تلاش کرتے ہیں، وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے ترساں و لرزاں رہتے ہیں۔ ” ایھم “ میں ای موصولہ ہے اور ” یبتغون “ کی ضمیر فاعل سے بدل البعض ہے اور ” اولئک الذین الخ “ سے وہ انبیاء و ملائکہ (علیہم السلام) مراد ہیں جن کو مشرکین پکارتے تھے۔ ای اولئک الذین ای المعبودون یطلب من ھو اقرب منھم الوسیلۃ الی اللہ تعالیٰ بطاعتہ فکیف بالابعدالخ (روح ج 15 ص 92) ۔ یہ آیت حضرت عزیر، حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) اور ملائکہ کرام کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہود حضرت عزیر کو، عیسائی حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ کو اور مشرکین فرشتوں اور دیگر بزرگوں کو کارساز سمجھتے تھے ان کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی۔ وھم الملائکۃ او عیسیٰ وعزیر الخ (مدارک ج 2 ص 245) ای دعوا الذین تعبدون من دون اللہ و زعمتم انھم الھۃ و قال الحسن یعنی الملائکۃ و عیسیٰ عزیرا (قرطبی ج 10 ص 279) ۔ قال ابن عباس فی عزیر والمسیح وامہ۔ والمعنی دعوھم فلا یستطیعون ان یکشفوا عنکم الضر من مرض او فقر او عذاب ولا ان یحولوہ من واحد الی واحد اخر او یبدلوہ (بحر ج 6 ص 51) تحقیق لفظ وسیلہ :۔ ” وسیلۃ “ نروزم فعیلہ سے اعمال صالحہ اور اطاعت خداوندی مراد ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ امام آلوسی اور ابو السعود فرماتے ہیں (الوسیلۃ) القربۃ بالطاعۃ والعبادۃ (روح ج 15 ص 98) ، ابو السعود ج 5 ص 601) ۔ حضرت قتادہ (رح) سے بھی یہی منقول ہے۔ والوسیلۃ ھی القربۃ کما قال قتادۃ (ابن کثیر ج 3 ص 47) قال قتادۃ ای تقربوا الیہ بطاعتہ والعمل بما یرضیہ (ایضا ج 2 ص 52) ۔ علامہ آلوسی دوسری جگہ فرماتے ہیں۔ ھی فعیلۃ بمعنی ما یتوسل بہ و یتقرب الی اللہ عز و جل من فعل الطاعات و ترک المعاصی من وسل الی کذا ای تقرب الیہ بشیء (روح ج 6 ص 124) ۔ قرآن مجید کی نصوص سے بھی یہ حقیقت واضح ہے کہ ایمان باللہ، ایمان بالرسول اور اتباع رسول قرب خداوندی کا وسیلہ ہے۔ ارشاد ہے ” ربنا اننا سمعنا منادیا ینادی للایمان “ تا ” فاغفرلنا ذنوبنا و کفر عنا سیئاتنا الیۃ “ (آل عمران رکوع 20) ۔ دوسری جگہ ارشاد ہے ” انہ کان فریق من عبادی یقولون ربنا امنا فاغفرلنا وارحمنا و انت خیر الرٰحمین “ (مومنون رکوع 6) ۔ ان دونوں آیتوں میں ایمان والوں کی دعا کا ذکر ہے جس میں وہ ایمان باللہ کو وسیلہ قرار دے کر اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا مانگ رہے ہیں۔ ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے ” ربنا امنا بما انزلت و اتبعنا الرسول فاکتبنا مع الشھدین “ (ال عمران رکوع 15) ۔ اس آیت میں حواریان عیسیٰ (علیہ السلام) نے ایمان بالکتاب اور اتباع رسول کے وسیلہ سے دعا مانگی۔ حدیث میں آتا ہے گذشتہ زمانے میں تین آدمی سفر کر رہے تھے، بارش شروع ہوگئی تو بچاؤ کے لیے ایک غار میں داخل ہوگئے۔ ایک بھاری چتان نے لڑھک کر غار کا منہ بند کردیا تو تینوں نے اعمال صالحہ کے وسیلہ سے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے چٹان کو نیچے لڑھکا کر غار کا منہ کھول دیا۔ ومن ھذا الباب حدیث الثلثۃ الذین اصابتھم المطر فاو وا الی الغار وانطبقت علیہم الصخرۃ ثم دعو وا اللہ باعمالھم الصالحۃ ففرج عنہم۔ یہ حدیث کتب صحاح میں موجود ہے۔ اسی طرح اگر کسی زندہ بزرگ سے دعا کرائی جائے تو یہ بھی ایک قسم کا وسیلہ ہے اور جائز ہے۔ لیکن اگر بزرگ فوت ہوچکا ہو یا کہیں دور موجود ہو تو اس سے غائبانہ دعا کی درخواست کرنا اس خیال سے کہ وہ جانتا ہے یہ ہرگز جائز نہیں۔ الاستعانۃ بمخلوق وجعلوہ وسیلۃ بمعنی طلب الدعاء منہ لا شک فی جو ازہ ان کان المطلوب منہ حیا۔ واما اذا کان المطلوب منہ میتا او غائبا فلا یستریب عالم انہ غیر جائز وانہ من البدع التی لم یفعلھا احد من السلف۔ ولم یرو عن احد من الصحابۃ ؓ وھم احرص الناس علی کل خیر۔ انہ طلب من میت شیئا الخ (روح ج 6 ص 125) ۔ حدیثوں میں وارد ہے کہ لوگ حضرت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے دعا کی درخواست کیا کرتے تھے لیکنحضور ﷺ کی وفات کے بعد کسی ایک صحابی سے بھی صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں کہ اس نے آپ کی قبر مبارک پر جا کر دعا کی درخواست کی ہو۔ قرآن مجید کی آیت ” ولو انھم اذ طلموا انفسہم جاءوک فاستغفروا اللہ و استغفرلھم الرسول الایۃ “ سے زندگی میں دعا کرانا مقصود ہے۔ اہل بدعت نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ اور اولیاء کرم کی قبروں پر جا کر اور ان کو مخاطب کر کے ان کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے۔ اگر اس طرح قبر پر جا کر وسیلہ پکڑنا جائز ہوتا تو حضرت عمر ؓ حضرت عباس ؓ کی دعا سے وسیلہ نہ پکڑتے بلکہ سیدھےحضور ﷺ کی قبر مبارک پر جا کر آپ سے دعا کی درخواست کرتے۔ صحیح بخاری میں ہے جب بارش نہ ہوتی تو حضرت عمر ؓ حضرت عباس ؓ کو باہر لے جاتے دوسرے مسلمان بھی ہوتے تو حضرت عمر اللہ سے التجا کرتے۔ اللھم انا کنا نتوسل الیک بنبیک ﷺ فتسقینا وانا نتوسل الیک بعم نبیک فاسقنا فیسقون۔ اللہ پہلے ہم تیرے پیغمبر ﷺ کے توسل سے بارش مانگتے تھے تو تو بارش برساتا تھا اب ہم تیرے پیغمبر کے چچا کے توسل سے بارش کی دعا مانگتے ہیں۔ تو اس سے معلوم ہوا کہحضور ﷺ کی دعا سے توسل اگر وفات کے بعد بھی جائز ہوتا تو صحابہ کرام ؓ اس اعلی توسل کو چھوڑ کر حضرت عباس ؓ کی دعاء سے توسل نہ کرتے۔ لو کان التوسل بہ (علیہ الصلوۃ والسلام) بعد انتقالہ من ھذہ الدار لما عدلوا الی غیرہ الخ (روح ج 6 ص 426) ۔ حضرت عباس ؓ سے توسل کا مطلب یہ ہے کہ وہ دعا کرتے تھے اور دوسرے لوگ آمین کہتے تھے۔ ان العباس کان یدعو وھم یومنون لدعائہ حتی سقوا (روح ج 6 ص 127) اسی طرح بحق فلاں دعا مانگنا بھی مکروہ تحریمی ہے کیونکہ اللہ پر کسی کا کوئی حق نہیں۔ البتہ یوں کہنا جائز ہے۔ اللھم انی اسئلک بمحبتی لہ وباتباعی ایاہ۔ اسی طرح توسل بالذات بھی ثابت نہیں۔ و انت تعلم ان الادعیۃ الماثورۃ عن اھل البیت الطاھرین وغیرھم من الئمۃ لیس یھا التوسل بالذات المکرمۃ ﷺ (روح ج 6 ص 126) توسل بالاموات پر بعض حدیثوں سے استدلال کیا جاتا ہے ان کی حقیقت بھی ملاحظہ ہو۔ پہلی حدیث :۔ جاء اعرابی الی قبر النبی ﷺ فرمی بنفسہ علی قبر النبی ﷺ فقال جئب لتستغفر لی فنودی من القبر انہ قد غفر لک یہ روایت صحیح نہیں بلکہ موضوع ہے اس کا ایک راوی ہیثم بن عدی طائی ہے جسے محدثین نے کذاب و وضاع کہا ہے۔ کان کذابا یضع الحدیث علی الثقات (تہذیب التہذیب) یحییٰ بن معین نے اس کے بارے میں کوفی لیس بثقۃ کان یکذب امام ابو داود نے کذاب امام ابو حاتم رازی، نسائی، دولابی، ازدی نے متورک الحدیث اور حاکم ابو احمد نے ذاھب الحدیث کہا (الصارم المنکی ص 310) ۔ ابن عبدالہادی نے اپنی کتاب الصارم المنکی میں لکھا ہے کہ کذاب راویوں نے ایک موضوع حدیث بیان کی ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ کی قبر پر آ کر گناہوں کی بخشش کے لیے آپ کو مخاطب کر کے آپ کا وسیلہ پکڑا اس روایت میں ابو الجوازاء حضرت عائشہ ؓ سے راوی ہے لیکن ابو الجوزاء کا سماع، حضرت عائشہ ؓ سے ثابت نہیں۔ قال ابن عبد البر فی التمھید ابو الجوزاء لم یسمع من عائشۃ شیئا۔ دوسری حدیث :۔ طبرانی نے روایت کی ہے کہ عرہ بن زبیر حضرت صفیہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نےحضور ﷺ کی وفات کے بعد کہا تھا۔ الا یارسول اللہ کنت رجاءنا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عروہ کا سماع حضرت صفیہ سے ثابت نہیں کیونکہ اس کی پیدائش ہی حضرت صفیہ کی وفات کے بعد ہوئی۔ دوسری بات یہ ہے کہ خطاب بیا ہمیشہ حاضر و ناظر کو نہیں ہوتا جس کے نظائر بہت ہیں۔ مثلاً ہر نماز میں پڑھا جاتا ہے السلام علیک ایھا النبی۔ اسی طرح قبرستان میں جا کر کہا جاتا ہے السلام علیکم یا اھل الدیار من المومنین۔ جبحضور ﷺ کے صاحبزادہ ابراہیم کی وفات ہوئی تو آپ نے فرمایا انا بفراقک یا ابراہیم لمحزونون۔ حضرت عمر نے حجر اسود سے مخاطب ہو کر فرمایا انی لاعلم انک حجر الخ۔ ایک انصاری عورت نے حضرت عثمان بن مظعون کی وفت پر کہا تھا رحمۃ اللہ علیک یا ابا السائب۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی ہلاکت کے بعد فرمایا۔ ” یقوم لقد ابلغتکم رسلت ربی۔ “ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی تباہی کے بعد ان سے خطاب کر کے فرمایا۔ ” لقد ابلغت رسالۃ ربی الخ “ علی ہذا یہ خطابات ہیں۔ یا ظبیات القاع قلن لنا یایھا اللیل الطویل۔ یا قبر معن کیف و اریت جودہ۔ جس طرح ان کطابات سے خطاب مقصود نہیں اسی طرح حضرت صفیہ کا مقصود بھی آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے سنانا نہیں۔ تیسری حدیث :۔ مستدرک حاکم کتاب الدعاء ص 519 ج 1 میں حضرت عثمان بن حنیف سے روایت کی ہے۔ ان رجلا ضریر البصر اتی النبی ﷺ فقال ادع اللہ ان یعافینی۔ اللھم انی اسئلک و اتوجہ الیک بنبیک ﷺ نبی الرحمۃ۔ الحدیث ص 526 پر حاکم نے اس حدیث کی متابعات ذکر کی ہیں۔ یہ حدیث مسند احمد ج 4 ص 138 میں بھی ہے۔ حاکم نے اس حدیث کو علی شرط الشیخین کہا ہے۔ ان حدیثوں میںحضور ﷺ کی زندگی کا واقعہ مذکور ہے۔ لیکن بیہقی اور طبرانی نے معجم کبیر میں اس روایت کو اس طرح نقل کیا ہے کہ ایک شخص حضرت عچمان بن عفان کے پاس آیا کرتا تھا لیکن وہ توجہ نہیں فرماتے تھے آخر وہ شخص عثمان بن حنیف کو ملا اور اپنا حال بیان کیا تو انہوں نے اس کو وہی دعا سکھائی جوحضور ﷺ نے اندھے کو سکھائی تھی اس دعاء میں آنحضرت ﷺ کو خطاب کر کے وسیلہ بنایا گیا ہے حالانکہ یہ واقعہحضور ﷺ کی وفات کا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس روایت کے ہر طریق میں ابو جعفر مدائنی واقع ہے اسی لیے امام ترمذی نے لکھا ہے ھذا الحدیث لانعرفہ الا من ھذا الوجہ من حدیث ابی جعفر و ھو غیر الخطمی (ج 2 ص 202) ۔ اما مسلم بن حجاج ابو جعفر مدائنی کو حدیثیں گھڑنے والوں میں شمار کرتے ہیں۔ کعبد اللہ بن مسور ابی جعفر المدائنی وغیرہ ممن اتھم بوضع الاحادیث وتولید الاخبار (خطبۃ صحیح مسلم ص 5) اسی طرح ص 16 پر فرماتے ہیں ان ابا جعفر الھاشمی المدنی کان یضع احادیث کلام حق ولیست من احادیث النبی ﷺ وکان یرویھا عن النبی ﷺ ۔ امام نووی فرماتے ہیں ابو جعفر مدینی ان ضعیف راویوں سے ہے جو جھوٹی حدیثیں بناتے ہیں۔ اما ابو جعفر ھذا ھو عبداللہ بن مسور المدائنی ابو جعفر المدنی تقدم فی اول الکتابفی الضعفاء الواضعین (شرح صحیح مسلم ج 2 ص 17) ۔ امام ذہبی اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ روایت میں ثقہ نہیں، امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں اس کی حدیثیں موضوع ہیں میں نے اس سے روایت کرنا چھوڑ دیا ہے اور عبدالرحمن بن مہدی ہمیں عبداللہ بن مسور کی حدیث بیان نہیں کرتے تھے۔ امام نسائی اور دار قطنی نے کہا ہے کہ عبداللہ بن مسور متروک الحدیث ہے۔ امام رقبہ کہتے ہیں کہ اس نے آنحضرت ﷺ پر بہت سی حدیثیں وضع کی ہیں۔ عبداللہ بن المسور بن عون بن جعفر بن ابی طالب ابو جعفر الھاشمی المدائنی لیس بثقۃ، عن رقبۃ ان عبداللہ بن مسور المدائنی وضع احادیث علی رسول اللہ ﷺ ، قال احمد ترکت انا حدیثہ وکان ابن مھدی لا یحدثنا عنہ و قال النسائی والدارقطنی متروک (میزان الاعتدال ج 2 ص 504) ۔ امام نووی شرح مسلم ج 2 ص 17 پر لکھتے ہیں اما ابو جعفر ھذا فھو عبداللہ بن مسور المدائنی ابو جعفر المدنی تقدم فی اول الکتاب فی الضعفاء الواضعین۔ امام بخاری فرماتے ہیں ھو عبداللہ بن مسور بن جعفر بن ابی طالب ابو جعفر القرشی الھاشمی (تاریخ کبیر) ۔ ان حوالوں سے معلوم ہوگیا ائمہ جرح و تعدیل نے ابو جعفر کو کذاب و وضاع قرار دیا ہے۔ لہذا حاکم کا اس حدیث کو صحیح کہنا غلط اور اس کے تساہل مشہور سے ناشی ہے۔ امام ابن تیمیہ (رح) فرماتے ہیں آنحضرت ﷺ کی زندگی میں آپ سے استشفاع یعنی آپ سے دعا کرانے کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں۔ اور طبرانی کی جس روایت سے عموم استشفاع پر استدلال کرتے ہیں وہ ضعیف ہے کیونکہ اس کا ایک راوی روح ہے جو ضعیف ہے۔ نیز وہ عثمان بن حنیف کی رائے ہے حضور ﷺ کا حکم نہیں۔ اور عثمان بن حنیف نے بھیحضور ﷺ کے الفاظ سے تبرک کے طور پر اس دعاء کی تلقین کی تھی نہ کہ بطور استغاثہ۔ در صواعق الہیہ است از ابن تیمیہ۔ در جواز استشفاع ازان حضرت ﷺ در حالت حیات نزاع نیست و در روایت طبرانی کہ عموم حکم استعمال این دعا ازان بیان کنند ضعیف است از جہت ضعف روح (نام راوی) و مع ہذا آن رائے عثمان بن حنیف اس بدون امر نبی ﷺ وآن نیز بقصد تبرک از الفاظ نبی ﷺ نہ بقصد استغاثہ۔ علاوہ ازیں حرف نداء سے ہر جگہ خطاب اور منادی کو سنانا مقصود نہیں ہوتا بلکہ ایسا ہوتا ہے کہ منادی غائب کو نصب العین کے طور پر یعنی حاضر فرض کر کے حرف ندا استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ حدیث دوم کے جواب میں اس کی متعدد مثالیں ذکر کی جا چکی ہیں۔ بعض دفعہ بطور حکایت حرف نداء کو استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ التحیات میں کہا جاتا ہے السلام علیک ایھا النبی الخ حضرت عثمان بن حنیف نے بھی اندھے کو بطور حکایت یا بطور نصب العین اس دعا کی تلقین کی تھی۔ یہ ساری بحث اس صورت میں ہے جبکہ اس روایت کو صحیح مان لیا جائے۔ لیکن علامہ آلوسی صاف لکھتے ہیں کہ حضرت نبی ﷺ کی وفات کے بعد حضرت عثمان بن حنیف ؓ کے اندھے کو تلقین دعا کا واقعہ بالکل موضوع ہے۔ چوتھی حدیث :۔ توسل ادم بعلی و فاطمۃ والحسن والحسین ؓ (مجمع الزوائد) یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) نے حضرات علی، فاطمہ، حسن اور حسین ؓ کے وسیلہ سے دعا مانگی تھی۔ جواب :۔ اس روایت کی دار قطنی نے تخریج کی ہے اس میں عمرو بن ثابت بن ہرمز متفرد ہے جو غالی شیعہ اور کذاب و وضاع تھا۔ تفرد بھا عمرو بن ثابت بن ھرمز وھو من الشیعۃ الغلاۃ الکذابین الوضاعین۔ امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں لا تحدثوا عن عمرو ابن ثابت فانہ کان یسب السلف۔ یحییٰ بن معین کہتے ہیں ھو غیر ثقۃ۔ امام بخاری : لیس بالقوی۔ امام ابو داؤود : رافضی خبیث، کان من شرار الناس۔ امام نسائی : متروک لیس بثقۃ ولا مامون (تہذیب التہذیب) ۔ پانچویں حدیث :۔ اصابہم قحط فی زمن عمر فجاء رجل الی قبر النبی ﷺ فقال یا رسول اللہ استسق للامۃ فاتاہ رسول اللہ ﷺ فقال لہ ائت عمر فقل لہ ان الناس یسقون (بیھقی، ابن ابی شیبۃ) ۔ جواب :۔ اول تو یہی معلوم نہیں کہ قبر پر جانے والا کون ہے، وہ مجہول الحال والاسم ہے۔ معلوم نہیں ثقہ ہے غیر ثقہ ہے۔ دوم اگر یہ واقعہ صحیح ہوتا اورحضور ﷺ کی قبر مبارک پر اس طرح استشفاع جائز ہوتا تو حضرت عمر ؓحضور ﷺ کی وفات کے بعد حضرت عباس ؓ کو باہر لیجا کر بارش کے لیے ان سے دعا نہ کراتے اور نہ یہ کہتے کہ ابحضور ﷺ ہم میں موجود نہیں ہیں اس لیے ہم آپ کے چچا عباس کی دعا سے توسل کرتے ہیں۔ سوم اس روایت کی سند میں سیف بن عمرو ضبی ہے جو باتفاق محدثین ضعیف اور متہم بالزندقہ ہے۔ وہ جھوٹی حدیثیں بنایا کرتا تھا۔ امام ذہبی کہتے ہیں ھو کالواقدی۔ امام ابو داود نے کہا لیس بشیء۔ ابو حاتم رازی نے کہا۔ متروک۔ ابن حبان، اتھم الزندقۃ۔ ابن عدی : عامۃ حدیثہ منکر۔ امام ابن نمیر : کان سیف یضع الحدیث وقداتھم بالزندقۃ (میزان الاعتدال) حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں وفات کے بعد آنحضرت ﷺ کے مزار پر جا کر استشفاع جائز نہیں یہ کام سلف میں سے کسی ایک نے بھی نہیں کیا۔ اما دعاء الرسول وطلب الحوائج منہ ﷺ وطلب شفاعتہ عند قبرہ بعد موتہ فھو مالم یفعلہ احد من السلف (القاعدۃ الجلیلۃ ص 56) ۔ بعض صحابہ وتابعین سے جو یہ منقول ہے۔ اللھم انی اسئلک بنبیک محمد اس سے مراد ہے اسئلک بایمانی بنبیک محمد یعنی اس میں ایمان بالرسول کو وسیلہ بنایا گیا ہے۔ جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے۔ پانچویں حدیث۔ اذا اعیتکم الامور فعلیکم باھل القبور فاستعینوا باھل القبور جب تم مشکلات سے عاجز ہوجاؤ تو اہل قبور سے استمداد کرو۔ جواب :۔ یہ حدیث موضوع اور حضرت پیغمبر خدا ﷺ پر افتراء ہے۔ حدیث کی کسی معتبر کتاب میں اس کا نام و نشان نہیں۔ ھو حدیث مفتری علی رسول اللہ ﷺ باجماع العارفین بحدیثہ لم یروہ احد من العلماء ولا یوجد فی شیء من کتب الحدیث المعتمدۃ (روح ج 6 ص 128) البتہ بحرمت فلاں دعا مانگنے میں کوئی کلام نہیں یہ سب کے نزدیک جائز ہیں۔ مگر اس میں بھی تفصیل ہے جو حسب ذیل ہے :۔ اگر بحرمت فلاں کہنے والے کا عقیدہ یہ ہو کہ اولیاء کرام یا انبیاء (علیہم السلام) پکاریں سنتے ہیں اور حاجت روائی کرسکتے ہیں تو اس عقیدے والے کا یہ کہنا شرک ہے جائز نہیں۔ اور اگر اس کا عقیدہ شرکیہ نہ ہو اور اس کی تمام کتابیں تردید شرک و بدعت سے پر ہوں اور اس کی کسی کتاب میں یہ کلمات آگئے ہوں تو ان کی توجیہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق کرنی ضروری ہے۔ بعض لوگ یہ توجیہ کرتے ہیں اے اللہ میں گنہگار ہوں فلاں پیغمبر یا ولی تیرا پیارا ہے مجھے اس کی وجہ سے معاف کردے۔ یہ بالکل بےمعنی ہے کیونکہ فلاں پیغمبر یا ولی تو اللہ کے مقبول ہیں خدا مجرم کو کیوں معاف کردے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی قاتل سیشن جج سے کہہ دے میں مجرم ہوں اور یہ آپ کا پیارا بیٹا ہے مجھے آپ معاف کردیں۔ یہ توجیہ بالکل لغو ہے۔ اس کی توجیہ صحیح یہ ہے اے اللہ مجھے فلاں پیغمبر یا ولی سے محبت ہے اور میں اس کی اتباع کرتا ہوں یہ محبت فعل قلبی اور اتباع فعل جوارح ہے۔ گویا اپنے فعل قلب یا فعل اعضاء کو اللہ تعالیٰ کے آگے بطور وسیلہ پیش کرنا اپنے اعمالِ صالحہ کا وسیلہ ہونا قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے صاف ثابت ہے۔ سورة آل عمران میں وابتغاء الرسول فاکتبنا مع الشاھدین۔ اور سورة انعام میں پارہ ساتواں پہلے صفحہ میں ہے یقولون ربنا امنا فاکتبنا مع الشاھدین۔ ان دونوں آیتوں میں اتباع اور ایمان کو وسیلہ بنایا گیا ہے معلوم ہوا کہ اتباع پیغمبر وسیلہ ہے اور اس طرح غار والی حدیث صحیح سے اعمال صالحہ کا وسیلہ بنانا معلوم ہوتا ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ قائل اس کا توحید و سنت پر پختہ ہو شرک اور بدعت سے بیزار ہو جیسا کہ شاہ ولی اللہ اور مولانا اسماعیل شہید اور مجدد الف ثانی وغیرہم۔ پس ایسے بزرگانِ دین سے جو ایسے کلمات منقول ہیں ان کی توجیہ کردی گئی ہے لہذا ان بزرگوں پر جو طعن دیتے ہیں کہ انہوں نے یہ کیوں لکھا ہے بالکل غلط ہے جب ان کی عبارت کی توجیہ قرآن مجید اور سنت صحیحہ کے مطابق ہوسکتی ہے تو طعن کرنا بےمعنی ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ عوام الناس کو اس قسم کی عبارت کا سبق دینا بہتر نہیں ہے کہ یہ دور عام شرک اور بدعت کا ہے اس سے لوگ غلط فائدہ اٹھاتے ہیں نیز قرآن مجید کی تمام دائیں اور احادیث صحیحہ کی دعائیں ایسی عبادت سے خالی ہیں۔ ہذا تحقیق شیخی وسندی مولانا حسین علی مرحوم
Top