Taiseer-ul-Quran - Al-Baqara : 270
وَ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَةٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُهٗ١ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ
وَمَآ : اور جو اَنْفَقْتُمْ : تم خرچ کرو گے مِّنْ : سے نَّفَقَةٍ : کوئی خیرات اَوْ : یا نَذَرْتُمْ : تم نذر مانو مِّنْ نَّذْرٍ : کوئی نذر فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ يَعْلَمُهٗ : اسے جانتا ہے وَمَا : اور نہیں لِلظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کے لیے مِنْ اَنْصَارٍ : کوئی مددگار
جو کچھ بھی تم (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو یا کوئی نذر مانو تو اللہ 386 اسے خوب جانتا ہے اور ظالموں (اللہ کے حکم کے خلاف خرچ کرنے والوں) کا کوئی مددگار نہیں
386 نذر یہ ہے کہ آدمی اپنی کسی مراد کے بر آنے پر کوئی ایسا نیک کام یا صدقہ کرنے کا اللہ سے عہد کرے جو اس کے ذمے فرض نہ ہو۔ اگر یہ مراد کسی حلال اور جائز کام کے لیے ہو اور اللہ سے ہی مانگی گئی ہو اور اس کے بر آنے پر جو عمل کرنے کا عہد آدمی نے کیا ہے وہ اللہ ہی کے لیے ہو تو ایسی نذر کا پورا کرنا درست اور باعث اجر وثواب ہے اگر یہ نذر کسی ناجائز کام یا غیر اللہ کے لیے ہو تو ایسی نذر کا ماننا بھی کار معصیت اور اس کا پورا کرنا بھی موجب عذاب ہے۔ ایسی نذر اگر کوئی مان چکا ہو تو اس کے عوض استغفار کرنا چاہیے اور وہ کام نہ کرنا چاہیے، علاوہ ازیں نذر ماننا شرعی نکتہ نگاہ سے کوئی اچھا کام نہیں۔ چناچہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نذر ماننے سے منع کیا اور فرمایا کہ نذر اللہ کی تقدیر کو کچھ بدل نہیں سکتی۔ البتہ اس طرح بخیل سے کچھ مال نکال لیا جاتا ہے۔ (بخاری، کتاب الایمان والنذور۔ باب الوفاء بالنذر و قولہ یوفون بالنذر)
Top