Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 106
اِتَّبِعْ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِیْنَ
اِتَّبِعْ : تم چلو مَآ اُوْحِيَ : جو وحی آئے اِلَيْكَ : تمہاری طرف مِنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب لَآ اِلٰهَ : نہیں کوئی معبود اِلَّا هُوَ : اس کے سوا وَاَعْرِضْ : اور منہ پھیر لو عَنِ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
تم بس اس چیز کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر وحی کی جا رہی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اور مشرکوں سے اعراض کرو
106 تا 167: یہ پیغمبر کی طرف التفات ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم وحی الٰہی پر جمے اور اپنے موقف حق پر ڈٹے رہو۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور ان مشرکین کی مخالفت کی کوئی پروا نہ کرو۔ ان سے اعراض کرو اور یہ بات یاد رکھو کہ اگر اللہ اپنے دین کے معاملہ میں جبر کو پسند کرتا ہوتا تو ان میں سے کوئی بھی شرک پر قائم نہ رہ سکتا۔ وہ سب کو توحید و اسلام کی صراط مستقیم پر چلا دیتا لیکن اس کی حکمت کا تقاضا یہی ہوا کہ وہ لوگوں کو اس معاملے میں اختیار دے کر آزمائے کہ کون توحید کی راہ اختیار کرتا ہے، کون شرک کی ؟ تو جب حکمت الٰہی نے یہ چاہا ہے تو تم ان کے معاملے میں کیوں پریشان ہو ؟ تمہاری ذمہ داری حق کو واضح طور پر پہنچا دینے کی ہے اور یہ فرض تم انجام دے رہے ہو۔ تم ان کے ایمان کے ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجے گئے ہو کہ یہ ایمان نہ لائے تو اس کی پرسش تم سے ہو اور نہ تم ان کے ایمان کے ضامن بنے ہو کہ کل کو ان کے باب میں خدا کے ہاں جواب دہی کرنی ہے۔ تم اپنا فرض انجام دو ، جو ان کی ذمہ داری ہے وہ ان پر چھوڑو۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری ادا نہ کریں گے تو اس کا خمیازہ خود بھگتیں گے۔ لفظ ‘ وکیل ’ کے مختلف معانی پر ہم دوسرے مقام پر گفتگو کرچکے ہیں۔ یہاں یہ ضامن کے مفہوم ہے۔ یعنی نہ خدا نے تم کو ان پر داروغہ مقرر کیا، نہ تم ان کے ضامن بنے تو تم کیوں پریشان ہو ؟
Top