Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 106
اِتَّبِعْ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِیْنَ
اِتَّبِعْ : تم چلو مَآ اُوْحِيَ : جو وحی آئے اِلَيْكَ : تمہاری طرف مِنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب لَآ اِلٰهَ : نہیں کوئی معبود اِلَّا هُوَ : اس کے سوا وَاَعْرِضْ : اور منہ پھیر لو عَنِ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
تمہارے پروردگار کی طرف سے جو کچھ تم پر وحی کی گئی ہے تم اس کی پیروی کرو کہ کوئی معبود نہیں ہے مگر صرف اس کی ذات اور مشرکوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو
مشرکوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر آپ ﷺ اپنا کام کرتے جائیں : 159: مشرک کیوں مشرک ہیں ؟ اس لئے کہ کوئی ان کو سمجھانے والا نہیں ؟ آپ ﷺ کا تو کام ہی ان کو سمجھانا ہے اور آپ ﷺ نے سمجھانے کا حق بھی ادا کردیا اور آپ ﷺ سے زیادہ بہتر کوئی ان کو کیا سمجھائے گا ؟ اصل بات یہ ہے کہ مشرک محض اسلئے مشرک ہیں کہ وہ سنی کو ان سنی کر جاتے ہیں اور وہ کسی کی سننے کے لئے تیار نہیں۔ یہی لوگ ہیں جو بہرے ، گونگے اور اندھے ہیں اور حق کو سننے ، سمجھنے اور دیکھنے کے لئے تیار ہی نہیں۔ اس لئے آپ ﷺ ان کو ان کے حال پر چھوڑ کر اپنا کام کئے جائیں اور یقین جانیں کہ انہی بہروں ، گونگوں اور اندھوں میں وہ بھی ہیں جو باذن اللہ سننے والے ، سمجھنے والے ، بولنے والے اور دیکھنے والے ہیں۔ وہ خود بخود نکھر کر سامنے آجائیں گے اور صرف آپ ﷺ ہی نہیں ان کو ایک دنیا دیکھے گی۔ آپ ﷺ کا کام حق کے دلائل بیان کرنا ہے ، بس آپ ﷺ اپنا کام کرتے جائیں قبول کرنا نہ کرنا ان کا کام ہے۔ جو قبول کریں گے ان کا اپنا ہی فائدہ ہے اور جو ہٹ دھری اختیار کریں گے ان کا اپنا نقصان ہوگا۔ مشرکوں سے اعراض کرنا آپ ﷺ کے لئے کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو لیکن یہ لہو کے گھونٹ تو آپ ﷺ کو پینا ہی ہوں گے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ پر یہ معاملہ کتنا ہی شاق اور کتنا مشکل تھا کہ کافر اور مشرک لوگ ہدایت کی طرف کیوں نہیں آتے ؟ اور وہ دوزخ کا ایندھن کیوں بن رہے ہیں ؟ یقیناً اس سے مشکل اور دکھ دہ بات آپ ﷺ کے لئے اور کوئی نہ تھی لیکن قانون الٰہی اتنی اٹل اور ان مٹ چیز ہے کہ اس کے سامنے ہرچیز ہیچ ہے۔ قرآن کریم نے دوسری جگہ آپ ﷺ کے ان لہو کے گھونٹوں کو اس طرح بیان کیا ہے : فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا 006 (الکہف 18 : 6) ” اے پیغمبر اسلام ! تیری حالت تو ایسی ہو رہی ہے کہ جب لوگ یہ بات بھی نہ مانیں تو عجب نہیں ان کے پیچھے مارے افسوس کے تو اپنی جان ہلاکت میں ڈال دے۔ “ یہ اشارہ ہے اس حالت کی طرف جس میں اس وقت نبی اعظم و آخر ﷺ مبتلا تھے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کو رنج ان تکلیفوں کا نہ تھا جو آپ کو اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کو دی جارہی تھیں بلکہ جو چیز آپ ﷺ کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی وہ یہی تھی کہ آپ ﷺ اپنی قوم کو گمراہی اور اخلاقی پستی سے نکالنا چاہتے تھے اور وہ کسی طرح نکلنے پر آمادہ نہیں تھے۔ آپ ﷺ کو یقین تھا کہ اس گمراہی کا لازمی نتیجہ تباہی اور عذاب الٰہی ہے۔ آپ ﷺ ان کو اس سے بچانے کیلئے اپنے دن اور راتیں ایک کئے جا رہے تھے مگر انہیں اصرار تھا کہ وہ خدا کے عذاب میں مبتلا ہو کر ہی رہیں گے۔ اپنی اس کیفیت کو نبی کریم ﷺ خود ایک حدیث میں اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ : ” میری اور تم لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی روشنی کے لئے مگر پروانے ہیں کہ اس پر ٹوٹے پڑتے ہیں۔ جل جانے کے لئے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ یہ کسی طرح آگ سے بچیں مگر پروانے ہیں کہ اس کی ایک نہیں چلنے دیتے۔ ایسا ہی حال میرا ہے کہ میں تمہیں دامن پکڑ پکڑ کھینچ رہا ہوں اور تم ہو کہ آگ میں گرے پڑتے ہو۔ “ (بخاری و مسلم) اس مضمون کو تفصیل سے دیکھنا مطلوب ہو تو قرآن کریم کے ان مقامات کا مطالعہ کریں : (الشعراء 36 : 3) (یوسف 12 : 103) (النحل 16 : 37) (التوبہ 9 : 128)
Top