Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 106
اِتَّبِعْ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِیْنَ
اِتَّبِعْ : تم چلو مَآ اُوْحِيَ : جو وحی آئے اِلَيْكَ : تمہاری طرف مِنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب لَآ اِلٰهَ : نہیں کوئی معبود اِلَّا هُوَ : اس کے سوا وَاَعْرِضْ : اور منہ پھیر لو عَنِ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
تم بس اس چیز کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر وحی کی جا رہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور مشرکوں سے اعراض کرو
اِتَّبِعْ مَآ اُوْحِیَ اَلَیْکَ مِنْ رّبِّکَ ج لَآ اِلٰہَ اِلَّاھُوَ ج وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ ۔ وَلَوْ شَآئَ اللہ ُ مَآ اَشْرَکُوْا ط وَمَا جَعَلْنٰکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظًا ج وَمَآ اَنْتَ عَلَیْھِمْ بِوَکِیْلٍ ۔ (الانعام : 106۔ 107) (تم بس اس چیز کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر وحی کی جا رہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور مشرکوں سے اعراض کرو اور اگر اللہ چاہتا تو یہ شرک نہ کر پاتے اور ہم نے تم کو ان پر نگران نہیں مقرر کیا ہے اور نہ تم ان کے ضامن ہو) اللہ کا رسول اسی کی پیروی کرتا ہے جو اس پر نازل ہوتا ہے آنحضرت ﷺ سے فرمایا جا رہا ہے کہ مشرکین مکہ کا رویہ کچھ بھی ہو مخالفت کی صورت میں اور مطالبات کی شکل میں وہ چاہے کتنا بھی آپ کو الجھانے کی کوشش کریں ‘ ہراساں کر کے آپ کا راستہ بند کرنے کی کوشش کریں یا ایمان کے وعدوں سے مطالبات کے پورا ہونے کی شکل میں آپ کو امیدیں دلائیں ‘ آپ کسی بات پر بھی توجہ نہ دیجئے بلکہ آپ اس چیز کی پیروی کیجئے جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر وحی کی جا رہی ہے جو عقائد آپ پر نازل کیے جا رہے ہیں اور پھر جس طرح دلائل سے مرصع کر کے انھیں آپ کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے آپ انھیں اپنی قوم کے سامنے پیش کریں۔ اخلاقیات کی جو تعلیم دی جا رہی ہے آپ اپنے آپ کو اور اپنے اوپر ایمان لانے والوں کو اس سے مزین کریں۔ دعوت دین کو مقصود بنا کر اپنے سفر کو جاری رکھیں۔ پیش نظر صرف یہ بات رہنی چاہیے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں یہ جملہ اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے۔ مشکلات کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ آپ سے یہ کہا جا رہا ہے کہ بیشک آپ کی مخالفت روز بروز آپ کے کام کو سخت کر رہی ہے اور امیدیں روز بروز ٹوٹتی جا رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اسلامی تحریک کسی بند گلی میں داخل ہو رہی ہے لیکن آپ کو اس بات کا یقین رکھنا چاہیے کہ ہر کام کا سررشتہ اللہ کے ہاتھ میں ہے دلوں کا پھیرنے والا بھی وہی ہے تمام قدرتوں اور قوتوں کا مالک بھی وہی ہے اس لیے آپ حالات سے متاثر ہوئے بغیر اپنا کام کرتے رہئے اور انجام کو اللہ کے سپرد کیجئے۔ وہ آپ کو ہر طرح کے خطرے سے محفوظ رکھے گا اور ان لوگوں کو اپنی حدود سے نکلنے نہیں دے گا۔ ہرحال میں حاکم حقیقی صرف اللہ ہی ہے دوسری بات جو اس سے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں آپ کی دعوت کا اصل موضوع اور اصل ہدف جو ہمیشہ آپ کے سامنے رہنا چاہیے اور تمام تبلیغی مساعی جس کے گرد جاری رہنی چاہئیں وہ یہ عقیدہ ہے کہ اللہ ہی حاکم حقیقی ہے اس کائنات کا حقیقی مالک وہی ہے۔ ہم اس کے بندے ہیں اس لیے اس کے سوا کسی اور کی بندگی نہیں کرسکتے۔ وہ ہمارا آقا ہے ‘ آقائی اسی کو زیب دیتی ہے اور پھر یہ بندگی اور آقائی جزوقتی اور محدود نہیں بلکہ آدمی پیدا ہونے سے لے کر مرتے دم تک اللہ کا بندہ ہے اور اس کی زندگی کے تمام شعبے اللہ کی بندگی کے حامل ہیں۔ زندگی کا کوئی فیصلہ اور کوئی رویہ اللہ کی حاکمیت اور اس کی کبریائی سے باہر نہیں جس طرح ایک مسلمان اللہ کے گھر میں اس کی بندگی بجا لاتا ہے اسی طرح وہ اپنے گھر میں ‘ بازاروں اور منڈیوں میں کاروبار کرتا ہوا ‘ عدالتی کرسی پر جج ہو کر بھی ‘ حکومت کے ایوان میں حاکم وقت کی حیثیت سے داخل ہونے کے بعد بھی ‘ وہ اللہ ہی کا بندہ ہے۔ اللہ ہی کا قانون مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر غالب ہوتا ہے۔ اسی قانون سے وہ اصول معاشرت ‘ اصولِ معیشت ‘ اصول تہذیب ‘ اصول تعلیم ‘ اصول سیاست اور اصول حکومت لیتا ہے غرضیکہ اس کی زندگی کا کوئی حصہ بھی اللہ کی حاکمیت سے آزاد نہیں ہوتا۔ وہ اول و آخر اللہ کا بندہ ہے اور ہرحال میں اللہ اس کا آقا اور اس کا معبود ہے۔ یہ وہ بنیادی نقطہ ہے جس کے گرد پوری اسلامی تعلیمات گھومتی ہیں اور یہ وہ بنیاد ہے جس پر پوری اسلامی عمارت استوار ہوتی ہے۔ آج بھی دنیا کی اصلاح کا یہی مجرب نسخہ ہے۔ دنیا نے اپنی بھلائی کے لیے مختلف آئین اور قانون اور مختلف زندگی کے رویے اپنا رکھے ہیں۔ آمریت ہی آمر مطلق اور بادشاہت میں بادشاہ سرچشمہ قانون اور حاکمیت کی علامت ہے اور جمہوریت میں عوام کو سرچشمہ اقتدار کہا جاتا ہے اور اشتراکیت میں پارٹی اقتدار کا سرچشمہ ہوتی ہے اور یہی وہ بنائے فساد ہے جس نے پوری دنیا کو فساد سے بھر دیا ہے۔ اس لیے قرآن کریم اس بنیاد کو ڈھا کر ہمیں اسلامی تعلیم کی نئی بنیاد فراہم کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ کوئی حاکم حقیقی اور کوئی معبود مطلق نہیں۔ کوئی ایسا نہیں جس کی غیر مشروط اطاعت کی جائے اور تم اپنی بندگی اور اپنی اطاعت میں آزاد نہیں ہو۔ یہی وہ آستانہ ہے جس سے وابستگی تمہاری دنیا اور آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی آج زبوں حالی کا کوئی سبب اگر ہے تو وہ اسی بنیاد سے کٹ جانا ہے۔ کافر اپنے کفر کے ساتھ قائم ہے کفر اپنے مَالَہُ وَمَا عَلَیْہِ کے اعتبار سے کتنا بھی غلط ہو لیکن دنیا میں اس کے اور اس سے وابستگی کے بھی کچھ فوائد ہیں کیونکہ دنیا میں غلط سے غلط چیز بھی کوئی نہ کوئی فائدہ رکھتی ہے۔ مٹی بھی منفعت سے خالی نہیں ‘ زہر بھی بعض دفعہ تریاق ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح کفر بھی اگرچہ انسانیت کا دشمن اور اخلاقیات کے لیے مہلک ہے لیکن دنیوی اسباب کے ساتھ ساتھ اس کے بھی کچھ فوائد ہیں اور اسلام تو سراسر امن و فلاح کا دین اور دنیوی اور اخروی کامیابیوں کا پیغامبر ہے لیکن آج جو مسلمانوں نے رویہ اختیار کر رکھا ہے کہ وہ نام اسلام کا لیتے ہیں لیکن اسلام کے اجتماعی نظام سے انھیں کوئی سروکار نہیں۔ ان کے اپنے ملکوں کے آئین سراسر اسلام سے بغاوت پر مبنی ہیں۔ ان کی زندگی کا مجموعی رویہ وہی ہے جو کافر قوموں کا ہے ان کی زندگیوں کے کامیابیوں کے پیمانے کافروں ہی سے حاصل کردہ ہیں۔ ان کی تہذیب انہی کی تہذیب ہے ان کی ایک اقلیت مسجدوں میں جا کر سجدہ ریز ہوتی ہے۔ لیکن مسجدوں سے باہر پوری زندگی شیاطین اور طاغوت کے حوالے ہے۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو مسلمان بھی کہلانا چاہتے ہیں اور کفر پر لعنت بھی بھیجتے ہیں۔ لیکن زندگی کا رویہ اسلام سے وابستگی نہیں بلکہ اس سے بغاوت پر مشتمل ہے یہ وہ رویہ ہے جسے منافقت کہا جاتا ہے۔ منافقت دنیا میں کبھی عزت کی ضمانت نہیں دیتی۔ اس سے کبھی اجتماعی زندگی میں ہمواری پیدا نہیں ہوتی یہ کبھی بھی قومی توانائی کی باعث نہیں ہوتی۔ اس سے کبھی بھی اجتماعی سیرت و کردار کی تعمیر نہیں ہوتی نتیجتاً قوم ذلت و رسوائی میں مبتلا ہو کر وقت سے پہلے اپنے انجام سے دوچار ہوجاتی ہے۔ آج مسلمان اسی صورت حال سے دوچار ہیں۔ اس لیے یہاں فرمایا گیا ہے کہ آپ کے پیش نظر جو آپ کا اصل ہدف ہے وہی رہنا چاہیے۔ مشرکین سے اعراض کا حکم رہی یہ بات کہ یہ مشرک لوگ کیا کر رہے ہیں آپ ان سے اعراض فرمائیں ‘ آپ تبلیغ و دعوت کا حق ادا کرچکے اب بار بار ان کے پیچھے جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بےتابانہ ان کا پیچھا کرنے کی کوئی حاجت نہیں وہ فخر و غرور سے دل کے دروازے اگر بند کرچکے ہیں تو آپ مشتاقانہ ان کے دروازوں پر دستک نہ دیں۔ لوگوں کی ہدایت کے لیے دعا کرنا آپ کے رحمت للعالمین ہونے کا تقاضہ سہی ‘ لیکن ان کی روش کو دیکھتے ہوئے ان کے توہین آمیز رویے کو بڑھتے ہوئے اور آخرت سے مسلسل انکار کرتے ہوئے دیکھ کر بھی اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا کر اصرار سے ان کی ہدایت کی دعا مانگنا کسی طور ضروری نہیں اور اگر وہ جاو بےجا نئی نئی نشانیاں مانگیں اور نئے نئے مطالبات کریں تو ان پر کان دھرنے کی ہرگز کوئی گنجائش نہیں۔ ان کے کفر کی وجہ سے ان کے انجام کو دیکھتے ہوئے یقینا آپ کے دل کو دکھ ہوتا ہے آپ دل گرفتگی کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ آپ بہت دفعہ اس کے لیے آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔ ہدایت صرف اللہ دیتا ہے یہ سب کچھ اپنی جگہ بجا لیکن ہدایت پیغمبر کی خواہش سے نہیں بلکہ ہدایت حاصل کرنے والے کی طلب اور اخلاص سے نصیب ہوتی ہے اور اللہ کا قانون یہی ہے کہ جو آدمی جس راستے کی طرف بڑھتا ہے وہ اسی راستے کی آسانیاں اس کے لیے مہیا کرتا ہے۔ اس نے ہر انسان کو عقل و شعور اور اختیار کی دولت سے نوازا ہے پھر اس پر پیغمبر بھیج کر اور کتابیں اتار کر اس کی عقل و شعور کا سامان بھی مہیا کردیا ہے۔ اب ان دونوں کی مدد سے اس کے لیے صحیح اور غلط میں امتیاز کرنا یہ اس کا اصل امتحان ہے۔ یہ اللہ کا وہ قانون ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ جو آدمی رسول اللہ ﷺ کی دعوت کے ساتھ اس قانون کے مطابق جیسا سلوک کرے گا ویسے ہی نتیجے سے اسے سابقہ پیش آئے گا۔ اگر وہ اپنی عقل اور شعور سے کام لے کر آنحضرت کی دعوت کو قبول کرتا ہے تو کامیابیاں اسے خوش آمدید کہیں گی اور اگر وہ اسے قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے بلکہ مخالفت پر اتر آتا ہے تو پھر اللہ کے قانون کے مطابق وہ سزا سے نہیں بچ سکتا۔ اب اگر آنحضرت کی دعائوں سے وہ لوگ جو کسی طرح بھی ہدایت کا راستہ اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ‘ ہدایت سے نواز دیئے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ نے اپنا قانون توڑ ڈالا اور اس نے ان لوگوں کو ہدایت دے دی جو ہدایت کے طالب نہیں تھے۔ یہ تو ایک طرح کا جبر ہوگا کہ ایک آدمی دوسرے راستے پر چلنا چاہتا ہے لیکن پروردگار اس کی خواہش کے برعکس اسے دوسرے راستے پر چلا دیتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ بار بار اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ ہم کسی پر زبردستی نہیں کرتے اور بالجبر کسی کو صحیح راستہ اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرتے۔ اس لیے اگلی آیت کریمہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ اگر اللہ چاہتا یعنی وہ زبردستی چاہتا کہ لوگوں کو اپنے راستے پر زبردستی ڈال دے تو کوئی بھی دنیا میں شرک کرنے کی جرأت نہ کرنا جس طرح جن و انس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات اللہ کے تکوینی احکام کے تحت زندگی گزارنے کی پابند ہیں۔ زمین کی نباتات اور حیوانات ‘ آسمان کے ثوابت ‘ سیارے اور شمس و قمر حتیٰ کہ فرشوں جیسی مقدس مخلوق بھی اللہ کے تکوینی احکام میں بندھی ہوئی ہے۔ انھیں جس کام اور ڈیوٹی پر لگا دیا گیا ہے وہ اس سے کبھی انحراف نہیں کرسکتے یہ صرف انسان اور جن ہیں جنھیں اطاعت و معصیت کا اختیار دیا گیا ہے اور یہی اختیار ان کا امتحان ہے۔ انسان کو اطاعت و معصیت کا اختیار دیا گیا ہے اب اگر کسی تکوینی حکم کے ذریعے انھیں اللہ کی اطاعت کا پابند کردیا جائے تو پھر ان کا امتحان کہاں رہا وہ تو باقی مخلوقات کی طرح بےاختیار ہو کر اللہ کے احکام کی اطاعت کریں گے اور یہ سراسر انسانوں کے مقصد تخلیق کے خلاف ہے۔ اسے تو پیدا ہی اس لیے کیا گیا ہے اور پھر خلافت کا تاج اس کے سر پر رکھا گیا ہے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ یہ زمین پر رہ کر اپنی مرضی اور اپنے ارادے سے اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور زمین کو امن و آشتی کا مرکز بنا دیتا ہے یا نافرمانی کرتا ہے اور زمین کو فتنہ و فساد سے بھر دیتا ہے۔ یہی بات ہے جو قرآن پاک نے بعض اور مواقع پر بھی فرمائی ہے۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا : لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنَ ” دین میں کوئی جبر نہیں “ یعنی اللہ کی اطاعت اختیار کرنے اس کا دین اختیار کرنے اور اس کے احکام بجا لانے میں اللہ نے جبر کا طریقہ اختیار نہیں فرمایا۔ آگے فرمایا کہ ہم نے ہدایت کو گمراہی سے الگ کر کے اور کھول کے بیان کردیا ہے تاکہ سمجھنے والوں کو راستہ اختیار کرنے میں دشواری پیش نہ آئے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمنان دین نے تو مختلف مواقع پر لوگوں کو زبردستی اسلام قبول کرانے کا الزام لگایا لیکن غیر جانبدار ‘ غیر مسلموں نے بھی ہمیشہ اعتراف کیا کہ قرن اول سے لے کر آج تک کبھی کسی کو مسلمانوں نے زبردستی مسلمان نہیں کیا۔ مسلمانوں کے انتہائی عروج میں بھی جب وہ دنیا کے ایک بڑے حصے پر ایک غالب قوت کی حیثیت سے حکومت کر رہے تھے اس وقت بھی ان کی ریاستوں میں غیر مسلم اپنی مذہبی آزادیوں سمیت خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے ان کی عبادت گاہیں کھلی تھیں اور ان کے مذہبی اداروں کو مذہبی تعلیم دینے کی آزادی تھی البتہ یہاں ضروری ہے کہ ایک غلط فہمی کا ازالہ کردیا جائے لوگوں نے مذکورہ آیت یعنی لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنَسے غلط مطلب نکالنے کی کوشش کی ہے اس کا صاف اور سیدھا مطلب تو وہی ہے جو ابھی ذکر ہوا کہ دین قبول کرنے میں کوئی اکراہ اور جبر نہیں۔ ہر شخص کو آزادی ہے کہ وہ چاہے دین اسلام قبول کرے اور چاہے نہ کرے اور یہی آزادی اس کا اصل امتحان ہے جس کا نتیجہ قیامت کے دن سامنے آئے گا۔ لیکن لوگوں نے اس کا یہ مطلب لینے کی کوشش کی کہ دین میں کوئی زبردستی نہیں یعنی دین پر عمل کرنے میں یا عمل کرانے میں کوئی پابندی نہیں۔ اس لیے اگر اسلامی حکومت قائم ہوتی ہے تو لوگوں کو اس بات کی آزادی ہوگی کہ وہ نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں ‘ زکوۃ دیں یا نہ دیں ‘ احکام شریعت کی پابندی کریں یا نہ کریں ‘ شرم و حیا کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھیں یا نہ رکھیں ‘ اسلامی قانون نافذ کریں یا نہ کریں ‘ غرضیکہ پورے دین اسلام کے بارے میں مسلمان صرف اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اسلام کا نام لیں قرآن پڑھیں اور اپنی مرضی سے جس بات پر چاہیں عمل کریں۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس آیت کا یہی مفہوم ہے کہ یہ ایک خود اختیاری کام ہے جس پر کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن کریم کتاب آئین اور کتاب ہدایت نہیں بلکہ صرف ایک کتاب نصیحت ہے۔ حضور دنیا میں ادیان باطلہ کو ختم کر کے دین حق کو غالب کرنے کے لیے نہیں آئے تھے بلکہ چند باتوں کی نصیحت کرنے کے لیے تشریف لائے تھے اور آپ نے مسلسل 23 سال تک باطل قوتوں سے جو چومکھی لڑائی لڑی وہ سب بلا وجہ تھی۔ آپ نے ناحق اس کے لیے جنگیں لڑیں ‘ آپ نے خواہ مخواہ اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے عدالتیں قائم کیں۔ آپ نے نہ جانے کیوں حدود اللہ کا نظام قائم فرمایا ؟ آپ نے ‘ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کیوں شرعی احکام کی بجاآوری اور لوگوں سے اس پر عمل کروانا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ٹھہرایا ؟ آنحضرت کے یہ کیے ہوئے سارے کام اگر صحیح تھے تو پھر مان لینا چاہیے کہ اس آیت سے جو مطلب نکالنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے وہ سراسر اس آیت پر الزام ہے۔ ایک معمولی عقل بھی اس بات کو سمجھتی ہے کہ جس ریاست میں آئین اور قانون کی بالا دستی ہو اس میں اس کی مخالفت کو کبھی برداشت نہیں کیا جاتا۔ قانون شکنی ایک جرم سمجھی جاتی ہے ‘ احتسابی ادارے ہمیشہ قانون کی پابندی کرواتے اور قانون شکنوں کو گرفتار کرتے اور عدالتیں ان کو سزائیں سناتی ہیں۔ رسول کی ذمہ داری دعوت و تبلیغ ہے ‘ لوگوں کو ایمان پر لانا رسول کی ذمہ داری نہیں اگر اسلام بھی اللہ کا نازل کردہ ایک آئین اور قانون ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس پر عمل کرنے کی پابندی نہ ہو اور ریاست اس میں اپنا کردار ادا نہ کرے۔ بہرحال یہ ایک ضمنی بات تھی اصل بحث یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جبراً ان لوگوں کو مسلمان نہیں بنائے گا بلکہ یہ اپنے اختیار سے اگر چاہیں تو اسلام قبول کریں گے۔ آنحضرت سے کہا جا رہا ہے کہ آپ کو ان پر کو توال بنا کر نہیں بھیجا گیا کہ آپ زبردستی اسلام ان کے دلوں میں اتاریں بلکہ آپ کی حیثیت ایک داعی اور مبلغ کی ہے آپ کا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے اس روشنی کو پیش کریں اور اظہار حق کا حق ادا کرنے میں اپنی حد تک کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں۔ اب اگر کوئی اس حق کو قبول نہیں کرتا تو نہ کرے۔ آپ کو نہ اس کام پر مامور کیا گیا ہے کہ لوگوں کو حق پرست بنا کر ہی رہیں اور نہ آپ کی ذمہ داری اور جوابدہی میں یہ بات شامل ہے کہ آپ کے حلقہ نبوت میں کوئی شخص باطل پرست نہ رہ جائے۔ لہٰذا اس فکر میں خواہ مخواہ اپنے ذہن کو پریشان نہ کریں کہ اندھوں کو کس طرح بینا بنایا جائے اور جو آنکھیں کھول کر نہیں دیکھنا چاہتے انھیں کیسے دکھایا جائے۔ پس آپ کے لیے صحیح طرز عمل یہ ہے کہ جو روشنی آپ کو دکھا دی گئی ہے اس کے اجالے میں سیدھی راہ پر خود چلتے رہیں اور دوسروں کو اس کی دعوت دیتے رہیں۔ جو لوگ اس دعوت کو قبول کرلیں انھیں سینے سے لگائیں اور ان کا ساتھ نہ چھوڑیں خواہ وہ دنیا کی نگاہ میں کیسے ہی حقیر ہوں اور جو اسے قبول نہ کریں ان کے پیچھے نہ پڑیں۔ جس انجام بد کی طرف وہ خود جانا چاہتے ہیں اور جانے پر مصر ہیں اس کی طرف جانے کے لیے انھیں چھوڑ دیں۔
Top