Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 106
اِتَّبِعْ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِیْنَ
اِتَّبِعْ
: تم چلو
مَآ اُوْحِيَ
: جو وحی آئے
اِلَيْكَ
: تمہاری طرف
مِنْ
: سے
رَّبِّكَ
: تمہارا رب
لَآ اِلٰهَ
: نہیں کوئی معبود
اِلَّا هُوَ
: اس کے سوا
وَاَعْرِضْ
: اور منہ پھیر لو
عَنِ
: سے
الْمُشْرِكِيْنَ
: مشرکین
تم بس اس چیز کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر وحی کی جا رہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور مشرکوں سے اعراض کرو
اِتَّبِعْ مَآ اُوْحِیَ اَلَیْکَ مِنْ رّبِّکَ ج لَآ اِلٰہَ اِلَّاھُوَ ج وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ ۔ وَلَوْ شَآئَ اللہ ُ مَآ اَشْرَکُوْا ط وَمَا جَعَلْنٰکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظًا ج وَمَآ اَنْتَ عَلَیْھِمْ بِوَکِیْلٍ ۔ (الانعام : 106۔ 107) (تم بس اس چیز کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر وحی کی جا رہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور مشرکوں سے اعراض کرو اور اگر اللہ چاہتا تو یہ شرک نہ کر پاتے اور ہم نے تم کو ان پر نگران نہیں مقرر کیا ہے اور نہ تم ان کے ضامن ہو) اللہ کا رسول اسی کی پیروی کرتا ہے جو اس پر نازل ہوتا ہے آنحضرت ﷺ سے فرمایا جا رہا ہے کہ مشرکین مکہ کا رویہ کچھ بھی ہو مخالفت کی صورت میں اور مطالبات کی شکل میں وہ چاہے کتنا بھی آپ کو الجھانے کی کوشش کریں ‘ ہراساں کر کے آپ کا راستہ بند کرنے کی کوشش کریں یا ایمان کے وعدوں سے مطالبات کے پورا ہونے کی شکل میں آپ کو امیدیں دلائیں ‘ آپ کسی بات پر بھی توجہ نہ دیجئے بلکہ آپ اس چیز کی پیروی کیجئے جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر وحی کی جا رہی ہے جو عقائد آپ پر نازل کیے جا رہے ہیں اور پھر جس طرح دلائل سے مرصع کر کے انھیں آپ کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے آپ انھیں اپنی قوم کے سامنے پیش کریں۔ اخلاقیات کی جو تعلیم دی جا رہی ہے آپ اپنے آپ کو اور اپنے اوپر ایمان لانے والوں کو اس سے مزین کریں۔ دعوت دین کو مقصود بنا کر اپنے سفر کو جاری رکھیں۔ پیش نظر صرف یہ بات رہنی چاہیے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں یہ جملہ اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے۔ مشکلات کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ آپ سے یہ کہا جا رہا ہے کہ بیشک آپ کی مخالفت روز بروز آپ کے کام کو سخت کر رہی ہے اور امیدیں روز بروز ٹوٹتی جا رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اسلامی تحریک کسی بند گلی میں داخل ہو رہی ہے لیکن آپ کو اس بات کا یقین رکھنا چاہیے کہ ہر کام کا سررشتہ اللہ کے ہاتھ میں ہے دلوں کا پھیرنے والا بھی وہی ہے تمام قدرتوں اور قوتوں کا مالک بھی وہی ہے اس لیے آپ حالات سے متاثر ہوئے بغیر اپنا کام کرتے رہئے اور انجام کو اللہ کے سپرد کیجئے۔ وہ آپ کو ہر طرح کے خطرے سے محفوظ رکھے گا اور ان لوگوں کو اپنی حدود سے نکلنے نہیں دے گا۔ ہرحال میں حاکم حقیقی صرف اللہ ہی ہے دوسری بات جو اس سے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں آپ کی دعوت کا اصل موضوع اور اصل ہدف جو ہمیشہ آپ کے سامنے رہنا چاہیے اور تمام تبلیغی مساعی جس کے گرد جاری رہنی چاہئیں وہ یہ عقیدہ ہے کہ اللہ ہی حاکم حقیقی ہے اس کائنات کا حقیقی مالک وہی ہے۔ ہم اس کے بندے ہیں اس لیے اس کے سوا کسی اور کی بندگی نہیں کرسکتے۔ وہ ہمارا آقا ہے ‘ آقائی اسی کو زیب دیتی ہے اور پھر یہ بندگی اور آقائی جزوقتی اور محدود نہیں بلکہ آدمی پیدا ہونے سے لے کر مرتے دم تک اللہ کا بندہ ہے اور اس کی زندگی کے تمام شعبے اللہ کی بندگی کے حامل ہیں۔ زندگی کا کوئی فیصلہ اور کوئی رویہ اللہ کی حاکمیت اور اس کی کبریائی سے باہر نہیں جس طرح ایک مسلمان اللہ کے گھر میں اس کی بندگی بجا لاتا ہے اسی طرح وہ اپنے گھر میں ‘ بازاروں اور منڈیوں میں کاروبار کرتا ہوا ‘ عدالتی کرسی پر جج ہو کر بھی ‘ حکومت کے ایوان میں حاکم وقت کی حیثیت سے داخل ہونے کے بعد بھی ‘ وہ اللہ ہی کا بندہ ہے۔ اللہ ہی کا قانون مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر غالب ہوتا ہے۔ اسی قانون سے وہ اصول معاشرت ‘ اصولِ معیشت ‘ اصول تہذیب ‘ اصول تعلیم ‘ اصول سیاست اور اصول حکومت لیتا ہے غرضیکہ اس کی زندگی کا کوئی حصہ بھی اللہ کی حاکمیت سے آزاد نہیں ہوتا۔ وہ اول و آخر اللہ کا بندہ ہے اور ہرحال میں اللہ اس کا آقا اور اس کا معبود ہے۔ یہ وہ بنیادی نقطہ ہے جس کے گرد پوری اسلامی تعلیمات گھومتی ہیں اور یہ وہ بنیاد ہے جس پر پوری اسلامی عمارت استوار ہوتی ہے۔ آج بھی دنیا کی اصلاح کا یہی مجرب نسخہ ہے۔ دنیا نے اپنی بھلائی کے لیے مختلف آئین اور قانون اور مختلف زندگی کے رویے اپنا رکھے ہیں۔ آمریت ہی آمر مطلق اور بادشاہت میں بادشاہ سرچشمہ قانون اور حاکمیت کی علامت ہے اور جمہوریت میں عوام کو سرچشمہ اقتدار کہا جاتا ہے اور اشتراکیت میں پارٹی اقتدار کا سرچشمہ ہوتی ہے اور یہی وہ بنائے فساد ہے جس نے پوری دنیا کو فساد سے بھر دیا ہے۔ اس لیے قرآن کریم اس بنیاد کو ڈھا کر ہمیں اسلامی تعلیم کی نئی بنیاد فراہم کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ کوئی حاکم حقیقی اور کوئی معبود مطلق نہیں۔ کوئی ایسا نہیں جس کی غیر مشروط اطاعت کی جائے اور تم اپنی بندگی اور اپنی اطاعت میں آزاد نہیں ہو۔ یہی وہ آستانہ ہے جس سے وابستگی تمہاری دنیا اور آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی آج زبوں حالی کا کوئی سبب اگر ہے تو وہ اسی بنیاد سے کٹ جانا ہے۔ کافر اپنے کفر کے ساتھ قائم ہے کفر اپنے مَالَہُ وَمَا عَلَیْہِ کے اعتبار سے کتنا بھی غلط ہو لیکن دنیا میں اس کے اور اس سے وابستگی کے بھی کچھ فوائد ہیں کیونکہ دنیا میں غلط سے غلط چیز بھی کوئی نہ کوئی فائدہ رکھتی ہے۔ مٹی بھی منفعت سے خالی نہیں ‘ زہر بھی بعض دفعہ تریاق ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح کفر بھی اگرچہ انسانیت کا دشمن اور اخلاقیات کے لیے مہلک ہے لیکن دنیوی اسباب کے ساتھ ساتھ اس کے بھی کچھ فوائد ہیں اور اسلام تو سراسر امن و فلاح کا دین اور دنیوی اور اخروی کامیابیوں کا پیغامبر ہے لیکن آج جو مسلمانوں نے رویہ اختیار کر رکھا ہے کہ وہ نام اسلام کا لیتے ہیں لیکن اسلام کے اجتماعی نظام سے انھیں کوئی سروکار نہیں۔ ان کے اپنے ملکوں کے آئین سراسر اسلام سے بغاوت پر مبنی ہیں۔ ان کی زندگی کا مجموعی رویہ وہی ہے جو کافر قوموں کا ہے ان کی زندگیوں کے کامیابیوں کے پیمانے کافروں ہی سے حاصل کردہ ہیں۔ ان کی تہذیب انہی کی تہذیب ہے ان کی ایک اقلیت مسجدوں میں جا کر سجدہ ریز ہوتی ہے۔ لیکن مسجدوں سے باہر پوری زندگی شیاطین اور طاغوت کے حوالے ہے۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو مسلمان بھی کہلانا چاہتے ہیں اور کفر پر لعنت بھی بھیجتے ہیں۔ لیکن زندگی کا رویہ اسلام سے وابستگی نہیں بلکہ اس سے بغاوت پر مشتمل ہے یہ وہ رویہ ہے جسے منافقت کہا جاتا ہے۔ منافقت دنیا میں کبھی عزت کی ضمانت نہیں دیتی۔ اس سے کبھی اجتماعی زندگی میں ہمواری پیدا نہیں ہوتی یہ کبھی بھی قومی توانائی کی باعث نہیں ہوتی۔ اس سے کبھی بھی اجتماعی سیرت و کردار کی تعمیر نہیں ہوتی نتیجتاً قوم ذلت و رسوائی میں مبتلا ہو کر وقت سے پہلے اپنے انجام سے دوچار ہوجاتی ہے۔ آج مسلمان اسی صورت حال سے دوچار ہیں۔ اس لیے یہاں فرمایا گیا ہے کہ آپ کے پیش نظر جو آپ کا اصل ہدف ہے وہی رہنا چاہیے۔ مشرکین سے اعراض کا حکم رہی یہ بات کہ یہ مشرک لوگ کیا کر رہے ہیں آپ ان سے اعراض فرمائیں ‘ آپ تبلیغ و دعوت کا حق ادا کرچکے اب بار بار ان کے پیچھے جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بےتابانہ ان کا پیچھا کرنے کی کوئی حاجت نہیں وہ فخر و غرور سے دل کے دروازے اگر بند کرچکے ہیں تو آپ مشتاقانہ ان کے دروازوں پر دستک نہ دیں۔ لوگوں کی ہدایت کے لیے دعا کرنا آپ کے رحمت للعالمین ہونے کا تقاضہ سہی ‘ لیکن ان کی روش کو دیکھتے ہوئے ان کے توہین آمیز رویے کو بڑھتے ہوئے اور آخرت سے مسلسل انکار کرتے ہوئے دیکھ کر بھی اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا کر اصرار سے ان کی ہدایت کی دعا مانگنا کسی طور ضروری نہیں اور اگر وہ جاو بےجا نئی نئی نشانیاں مانگیں اور نئے نئے مطالبات کریں تو ان پر کان دھرنے کی ہرگز کوئی گنجائش نہیں۔ ان کے کفر کی وجہ سے ان کے انجام کو دیکھتے ہوئے یقینا آپ کے دل کو دکھ ہوتا ہے آپ دل گرفتگی کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ آپ بہت دفعہ اس کے لیے آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔ ہدایت صرف اللہ دیتا ہے یہ سب کچھ اپنی جگہ بجا لیکن ہدایت پیغمبر کی خواہش سے نہیں بلکہ ہدایت حاصل کرنے والے کی طلب اور اخلاص سے نصیب ہوتی ہے اور اللہ کا قانون یہی ہے کہ جو آدمی جس راستے کی طرف بڑھتا ہے وہ اسی راستے کی آسانیاں اس کے لیے مہیا کرتا ہے۔ اس نے ہر انسان کو عقل و شعور اور اختیار کی دولت سے نوازا ہے پھر اس پر پیغمبر بھیج کر اور کتابیں اتار کر اس کی عقل و شعور کا سامان بھی مہیا کردیا ہے۔ اب ان دونوں کی مدد سے اس کے لیے صحیح اور غلط میں امتیاز کرنا یہ اس کا اصل امتحان ہے۔ یہ اللہ کا وہ قانون ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ جو آدمی رسول اللہ ﷺ کی دعوت کے ساتھ اس قانون کے مطابق جیسا سلوک کرے گا ویسے ہی نتیجے سے اسے سابقہ پیش آئے گا۔ اگر وہ اپنی عقل اور شعور سے کام لے کر آنحضرت کی دعوت کو قبول کرتا ہے تو کامیابیاں اسے خوش آمدید کہیں گی اور اگر وہ اسے قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے بلکہ مخالفت پر اتر آتا ہے تو پھر اللہ کے قانون کے مطابق وہ سزا سے نہیں بچ سکتا۔ اب اگر آنحضرت کی دعائوں سے وہ لوگ جو کسی طرح بھی ہدایت کا راستہ اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ‘ ہدایت سے نواز دیئے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ نے اپنا قانون توڑ ڈالا اور اس نے ان لوگوں کو ہدایت دے دی جو ہدایت کے طالب نہیں تھے۔ یہ تو ایک طرح کا جبر ہوگا کہ ایک آدمی دوسرے راستے پر چلنا چاہتا ہے لیکن پروردگار اس کی خواہش کے برعکس اسے دوسرے راستے پر چلا دیتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ بار بار اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ ہم کسی پر زبردستی نہیں کرتے اور بالجبر کسی کو صحیح راستہ اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرتے۔ اس لیے اگلی آیت کریمہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ اگر اللہ چاہتا یعنی وہ زبردستی چاہتا کہ لوگوں کو اپنے راستے پر زبردستی ڈال دے تو کوئی بھی دنیا میں شرک کرنے کی جرأت نہ کرنا جس طرح جن و انس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات اللہ کے تکوینی احکام کے تحت زندگی گزارنے کی پابند ہیں۔ زمین کی نباتات اور حیوانات ‘ آسمان کے ثوابت ‘ سیارے اور شمس و قمر حتیٰ کہ فرشوں جیسی مقدس مخلوق بھی اللہ کے تکوینی احکام میں بندھی ہوئی ہے۔ انھیں جس کام اور ڈیوٹی پر لگا دیا گیا ہے وہ اس سے کبھی انحراف نہیں کرسکتے یہ صرف انسان اور جن ہیں جنھیں اطاعت و معصیت کا اختیار دیا گیا ہے اور یہی اختیار ان کا امتحان ہے۔ انسان کو اطاعت و معصیت کا اختیار دیا گیا ہے اب اگر کسی تکوینی حکم کے ذریعے انھیں اللہ کی اطاعت کا پابند کردیا جائے تو پھر ان کا امتحان کہاں رہا وہ تو باقی مخلوقات کی طرح بےاختیار ہو کر اللہ کے احکام کی اطاعت کریں گے اور یہ سراسر انسانوں کے مقصد تخلیق کے خلاف ہے۔ اسے تو پیدا ہی اس لیے کیا گیا ہے اور پھر خلافت کا تاج اس کے سر پر رکھا گیا ہے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ یہ زمین پر رہ کر اپنی مرضی اور اپنے ارادے سے اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور زمین کو امن و آشتی کا مرکز بنا دیتا ہے یا نافرمانی کرتا ہے اور زمین کو فتنہ و فساد سے بھر دیتا ہے۔ یہی بات ہے جو قرآن پاک نے بعض اور مواقع پر بھی فرمائی ہے۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا : لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنَ ” دین میں کوئی جبر نہیں “ یعنی اللہ کی اطاعت اختیار کرنے اس کا دین اختیار کرنے اور اس کے احکام بجا لانے میں اللہ نے جبر کا طریقہ اختیار نہیں فرمایا۔ آگے فرمایا کہ ہم نے ہدایت کو گمراہی سے الگ کر کے اور کھول کے بیان کردیا ہے تاکہ سمجھنے والوں کو راستہ اختیار کرنے میں دشواری پیش نہ آئے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمنان دین نے تو مختلف مواقع پر لوگوں کو زبردستی اسلام قبول کرانے کا الزام لگایا لیکن غیر جانبدار ‘ غیر مسلموں نے بھی ہمیشہ اعتراف کیا کہ قرن اول سے لے کر آج تک کبھی کسی کو مسلمانوں نے زبردستی مسلمان نہیں کیا۔ مسلمانوں کے انتہائی عروج میں بھی جب وہ دنیا کے ایک بڑے حصے پر ایک غالب قوت کی حیثیت سے حکومت کر رہے تھے اس وقت بھی ان کی ریاستوں میں غیر مسلم اپنی مذہبی آزادیوں سمیت خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے ان کی عبادت گاہیں کھلی تھیں اور ان کے مذہبی اداروں کو مذہبی تعلیم دینے کی آزادی تھی البتہ یہاں ضروری ہے کہ ایک غلط فہمی کا ازالہ کردیا جائے لوگوں نے مذکورہ آیت یعنی لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنَسے غلط مطلب نکالنے کی کوشش کی ہے اس کا صاف اور سیدھا مطلب تو وہی ہے جو ابھی ذکر ہوا کہ دین قبول کرنے میں کوئی اکراہ اور جبر نہیں۔ ہر شخص کو آزادی ہے کہ وہ چاہے دین اسلام قبول کرے اور چاہے نہ کرے اور یہی آزادی اس کا اصل امتحان ہے جس کا نتیجہ قیامت کے دن سامنے آئے گا۔ لیکن لوگوں نے اس کا یہ مطلب لینے کی کوشش کی کہ دین میں کوئی زبردستی نہیں یعنی دین پر عمل کرنے میں یا عمل کرانے میں کوئی پابندی نہیں۔ اس لیے اگر اسلامی حکومت قائم ہوتی ہے تو لوگوں کو اس بات کی آزادی ہوگی کہ وہ نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں ‘ زکوۃ دیں یا نہ دیں ‘ احکام شریعت کی پابندی کریں یا نہ کریں ‘ شرم و حیا کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھیں یا نہ رکھیں ‘ اسلامی قانون نافذ کریں یا نہ کریں ‘ غرضیکہ پورے دین اسلام کے بارے میں مسلمان صرف اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اسلام کا نام لیں قرآن پڑھیں اور اپنی مرضی سے جس بات پر چاہیں عمل کریں۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس آیت کا یہی مفہوم ہے کہ یہ ایک خود اختیاری کام ہے جس پر کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن کریم کتاب آئین اور کتاب ہدایت نہیں بلکہ صرف ایک کتاب نصیحت ہے۔ حضور دنیا میں ادیان باطلہ کو ختم کر کے دین حق کو غالب کرنے کے لیے نہیں آئے تھے بلکہ چند باتوں کی نصیحت کرنے کے لیے تشریف لائے تھے اور آپ نے مسلسل 23 سال تک باطل قوتوں سے جو چومکھی لڑائی لڑی وہ سب بلا وجہ تھی۔ آپ نے ناحق اس کے لیے جنگیں لڑیں ‘ آپ نے خواہ مخواہ اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے عدالتیں قائم کیں۔ آپ نے نہ جانے کیوں حدود اللہ کا نظام قائم فرمایا ؟ آپ نے ‘ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کیوں شرعی احکام کی بجاآوری اور لوگوں سے اس پر عمل کروانا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ٹھہرایا ؟ آنحضرت کے یہ کیے ہوئے سارے کام اگر صحیح تھے تو پھر مان لینا چاہیے کہ اس آیت سے جو مطلب نکالنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے وہ سراسر اس آیت پر الزام ہے۔ ایک معمولی عقل بھی اس بات کو سمجھتی ہے کہ جس ریاست میں آئین اور قانون کی بالا دستی ہو اس میں اس کی مخالفت کو کبھی برداشت نہیں کیا جاتا۔ قانون شکنی ایک جرم سمجھی جاتی ہے ‘ احتسابی ادارے ہمیشہ قانون کی پابندی کرواتے اور قانون شکنوں کو گرفتار کرتے اور عدالتیں ان کو سزائیں سناتی ہیں۔ رسول کی ذمہ داری دعوت و تبلیغ ہے ‘ لوگوں کو ایمان پر لانا رسول کی ذمہ داری نہیں اگر اسلام بھی اللہ کا نازل کردہ ایک آئین اور قانون ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس پر عمل کرنے کی پابندی نہ ہو اور ریاست اس میں اپنا کردار ادا نہ کرے۔ بہرحال یہ ایک ضمنی بات تھی اصل بحث یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جبراً ان لوگوں کو مسلمان نہیں بنائے گا بلکہ یہ اپنے اختیار سے اگر چاہیں تو اسلام قبول کریں گے۔ آنحضرت سے کہا جا رہا ہے کہ آپ کو ان پر کو توال بنا کر نہیں بھیجا گیا کہ آپ زبردستی اسلام ان کے دلوں میں اتاریں بلکہ آپ کی حیثیت ایک داعی اور مبلغ کی ہے آپ کا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے اس روشنی کو پیش کریں اور اظہار حق کا حق ادا کرنے میں اپنی حد تک کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں۔ اب اگر کوئی اس حق کو قبول نہیں کرتا تو نہ کرے۔ آپ کو نہ اس کام پر مامور کیا گیا ہے کہ لوگوں کو حق پرست بنا کر ہی رہیں اور نہ آپ کی ذمہ داری اور جوابدہی میں یہ بات شامل ہے کہ آپ کے حلقہ نبوت میں کوئی شخص باطل پرست نہ رہ جائے۔ لہٰذا اس فکر میں خواہ مخواہ اپنے ذہن کو پریشان نہ کریں کہ اندھوں کو کس طرح بینا بنایا جائے اور جو آنکھیں کھول کر نہیں دیکھنا چاہتے انھیں کیسے دکھایا جائے۔ پس آپ کے لیے صحیح طرز عمل یہ ہے کہ جو روشنی آپ کو دکھا دی گئی ہے اس کے اجالے میں سیدھی راہ پر خود چلتے رہیں اور دوسروں کو اس کی دعوت دیتے رہیں۔ جو لوگ اس دعوت کو قبول کرلیں انھیں سینے سے لگائیں اور ان کا ساتھ نہ چھوڑیں خواہ وہ دنیا کی نگاہ میں کیسے ہی حقیر ہوں اور جو اسے قبول نہ کریں ان کے پیچھے نہ پڑیں۔ جس انجام بد کی طرف وہ خود جانا چاہتے ہیں اور جانے پر مصر ہیں اس کی طرف جانے کے لیے انھیں چھوڑ دیں۔
Top