Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 84
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَآءَكُمْ وَ لَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَ اَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے پختہ عہد لَا تَسْفِكُوْنَ : نہ تم بہاؤگے دِمَآءَكُمْ : اپنوں کے خون وَلَا تُخْرِجُوْنَ : اور نہ تم نکالوگے اَنفُسَكُم : اپنوں مِّن دِيَارِكُمْ : اپنی بستیوں سے ثُمَّ : پھر اَقْرَرْتُمْ : تم نے اقرار کیا وَاَنتُمْ : اور تم تَشْهَدُوْنَ : گواہ ہو
اور یاد کرو جب کہ ہم نے تم سے اقرار لیا کہ اپنوں کا خون نہ بہاؤ گے اور اپنوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالو گے۔ پھر تم نے ان باتوں کا اقرار کیا اور تم اس کے گواہ ہو
یہ ایک اور عہد کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے جو بنی اسرائیل سے لیا گیا۔ یہ عہد اس بات کے لئے تھا کہ یہ آپس میں نہ تو ایک دوسرے کا خون بہائیں گے اور نہ اپنے بھائیوں کو ان کے گھروں سے جلاوطن کرنے کی کوشش کریں گے لیکن انہوں نے، جیسا کہ آگے تفصیل آ رہی ہے، اس عہد کو بھی نہایت بےدردی سے پامال کیا۔ اس عہد کی اہمیت کو واضح کرنے کے لئے فرمایا ہے ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَاَنْتُمْ تَشْهَدُوۡنَ۔ جس کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں اور دونوں سے اس کی اہمیت اور اس کے نقض کی شناعت واضح ہوتی ہے۔ ایک مفہوم تو، جیسا کہ عام مفسرین نے لیا ہے، یہ ہے کہ تم کو اس عہد کا اقرار ہے اور تم آج بھی اس کے گواہ ہو اس لئے کہ اس کا ذکر تورات میں موجود ہے اور اس کا دوسرا مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ تم نے اس عہد کا اقرار کیا اور تم اس اقرار کے وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ موجود تھے۔ یہاں یہ حقیقت ملحوظ رہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کے احکام سے ہمیشہ پوری جماعت کے سامنے آگاہ کرتے اور پھر پوری جماعت سے ان احکام کی اطاعت اور پابندی کا اقرار لیتے تاکہ اس جماعتی اقرار سے لوگوں کے اندر اس کی پابندی کا احساس پوری اہمیت حاصل کر لے اور نسلاً بعد نسلٍ ان کے اندر یہ روایت زندہ رہے کہ اس عہد کا اقرار ہم نے فلاں جگہ من حیث الجماعت کیا ہے۔ یہاں قرآن نے اپنے زمانۂ نزول کے بنی اسرائیل کو یاد دلایا ہے کہ تم اپنے جن آباؤاجداد کی روایات پر فخر کرتے ہو۔ جب ان کی پوری جماعت کا یہ اقرار تمہاری کتاب میں موجود ہے تو تم اس کی ذمہ داری سے کس طرح انکار کر سکتے ہو۔
Top