Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 84
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَآءَكُمْ وَ لَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَ اَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے پختہ عہد لَا تَسْفِكُوْنَ : نہ تم بہاؤگے دِمَآءَكُمْ : اپنوں کے خون وَلَا تُخْرِجُوْنَ : اور نہ تم نکالوگے اَنفُسَكُم : اپنوں مِّن دِيَارِكُمْ : اپنی بستیوں سے ثُمَّ : پھر اَقْرَرْتُمْ : تم نے اقرار کیا وَاَنتُمْ : اور تم تَشْهَدُوْنَ : گواہ ہو
اور جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ آپس میں کشت و خون نہ کرنا اور اپنے کو ان کے وطن سے نہ نکالنا تو تم نے اقرار کرلیا اور تم (اس بات کے) گواہ ہو
شناعت دواز دہم (12) قال تعالیٰ ۔ واذ اخذنا میثاقکم لا تسفکون دماء کم۔۔۔ الی۔۔۔ ولاھم ینصرون (ربط): علاوہ ازیں تمہاری دوسری عہد شکنیوں کا بھی مقتضی یہی ہے کہ تم کو چند روز عذاب نہیں بلکہ دائمی عذاب دیا جائے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور یاد کرو اس وقت کو جب کہ ہم نے تم سے اس امر کا پختہ عہد لیا کہ آپس میں خونریزی نہ کرو گے اور نہ ایک دوسرے کو گھروں سے نکالو گے۔ اپنے ہم مذہبوں کو قتل کرنا اور ان کو جلاوطن کرنا درحقیقت اپنے ہی کو قتل کرنا اور جلا وطن کرنا ہے۔ اسی وجہ سے بجائے اقاربکم واھل ملتکم کے انفسکم۔ کا لفظ استعمال فرمایا اور پھر تم نے اس کا اقرار بھی کرلیا کہ یہ عہد اور پیمان ہم کو منظور اقبول ہے اور فقط اقرار پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ تم اس پر شہادت اور گواہی بھی دیتے ہو کہ بیشک ہمارے بزرگوں نے یہ عہد کیا تھا اور پھر اس صریح اقرار اور صریح شہادت کے بعد تم ہی وہ لوگ ہو کہ باہم ایک دوسرے کو قتل بھی کرتے ہو اور اپنی قوم کے ایک فریق کو جلا وطن بھی کرتے ہو۔ اس طرح کہ تم ان کے مقابلہ میں اللہ کے گناہ اور معصیت اور بندوں پر ظلم اور تعدی کے ساتھ قتل کرنے اور جلا وطن کرنے میں ان کے مخالفین کی امداد کرتے ہو۔ توریت کے ان دو حکموں کو تم نے پس پشت ڈالا اور تیسرا حکم جو آسان تھا اس پر عمل کرنے کے لیے تیار رہتے ہو اور وہ یہ کہ اگر تمہارے ہم مذہب لوگ اسیر اور گرفتار ہو کر آتے ہیں تو ان کا فدیہ دے کر ان کو قید سے چھڑاتے ہو اور حالانکہ تم پر ان کا نکالنا اور جلا وطن کرنا بھی تو قطعاً حرام تھا اور قتل کرنا تو اس سے بھی بڑھ کر جرم تھا۔ مگر تعجب ہے کہ جو جرم شدید تھا اس کا تو ارتکاب کرتے رہے اور جو جرم ذرا خفیف تھا اس سے اجتناب کیا اور وہ اجتناب بھی اتباع شریعت کی بناء پر نہ تھا بلکہ اس بناء پر تھا کہ وہ حکم غرض اور طبیعت کے موافق تھا لہذا ایسے شخص کے لیے چند روزہ عذاب کافی نہیں دائمی عذاب چاہئے۔ مدینہ منورہ میں یہودیوں کے دو فریق تھے۔ ایک بنی قریظہ اور دوسرے بنی نضیر۔ اسی طرح مدینہ میں مشرکین کے بھی دو فریق تھے ایک اوس اور دوسرے خزرج اور ہر فریق دوسرے فریق کا دشمن تھا آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ بنی قریظہ تو قبیلۂ اوس کے حلیف اور دوست تھے اور بنی نضیر قبیلۂ خزرج کے حلیف اور دوست تھے۔ جب کبھی اوس اور خزرج میں لڑائی ہوتی تو حلف اور دوستی کی وجہ سے بنو قریظہ تو اوس کی حمایت اور مدد کرتا اور بنی نضیر قبیلۂ خزرج کی حمایت اور امداد کرتا اور ہر قبیلہ اپنے حلفاء کے ساتھ مل کر اپنے دشمن کو مارتا اور جلا وطن کرتا۔ اور اگر کوئی یہودی جنگ میں اسیر ہوجاتا تو سب مل کر روپیہ جمع کرتے اور زر فدیہ دیکر اس کو قید سے چھڑا کر لاتے اور اگر کوئی ان سے پوچھتا کہ تم آپس میں جنگ وجدال اور قتل و قتال کرتے ہو اور ایک دوسرے کو گھروں سے نکالتے ہو تو پھر انہی قیدیوں کو جن کو گھروں سے نکالا تھا زر فدیہ دیکر کیوں چھڑاتے ہو تو جواب میں یہ کہتے ہیں کہ توریت میں حق تعالیٰ نے ہم کو یہی حکم دیا ہے کہ جس وقت تمہارے ہم مذہب بھائی کسی کے ہاتھ میں قید ہوجائیں تو ان کو قید سے چھڑانا ہم پر واجب ہے۔ اور رہی آپس کی جنگ تو وہ دنیوی مصالح کی بناء پر ہے اس میں اگر اپنے حلفاء کا ساتھ نہ دیں تو موجب عار وننگ ہے۔ حق جل شانہ نے اس آیت میں یہود کی اس شناعت کو ذکر فرمایا جس کا حاصل یہ ہے کہ تم کو توریت میں قتل کرنے اور جلا وطن کرنے کی اور ظلم اور تعدی میں مدد کرنے کی ممانعت کی گئی تھی۔ اور قیدیوں کو فدیہ دیکر چھڑانے کا حکم دیا گیا تھا۔ ان تمام احکام میں سے تم نے فقط فداء اسیران کے حکم پر عمل کیا اس لیے کہ وہ تمہاری نفسانی خواہش کے موافق اور مطابق تھا یہ درحقیقت خدا کی اطاعت نہیں بلکہ اپنے نفس کی اطاعت ہے بلکہ اعلی درجہ کی حماقت ہے کہ اپنے بھائیوں کے قتل کو اور گھروں سے نکالنے کو تو جائز سمجھتے ہیں اور اگر کسی غیر کے ہاتھ میں اسیر ہوجائیں تو فدیہ دیکر ان کے چھڑانے کو واجب سمجھتے ہیں۔ خلاصۂ کلام یہ کہ تم شریعت کے بعض عہدوں اور بعض حکموں کو بےدھڑک توڑتے ہو اور شریعت کا وہ حکم جو تمہاری خواہش نفس اور طبیعت کے موافق ہو اس پر عمل کرتے ہو پس کیا تم کتاب خداوندی یعنی توریت کے بعض حکموں پر اتو ایمان لاتے ہو اور بعض احکام کا انکار کرتے ہو۔ حالانکہ ایمان میں تجزی اور تقسیم جاری نہیں ہوتی۔ سارے ہی حکموں کے ماننے کا نام ایمان ہے جو شخص ایک حکم کا بھی انکار کردے وہ کافر ہے اور کافر کی سزا دائمی ہے نہ کہ ایام معدودہ پس کیا جزاء ہے اس شخص کی جو ایسا شنیع کلام کرے کہ اللہ کے بعض حکموں کو مانے اور بعض کو نہ مانے۔ خصوصاً تم میں سے جو اپنے کو اہل کتاب اور اہل علم بتلاتے ہیں مگر خواری اور رسوائی دنیاوی زندگانی میں جیسے قتل و غارت اور کمال ذلت و اہانت کے ساتھ ان سے جزیہ اور خراج وصول کرنا اور ان کے جرم کے لحاظ سے یہ سزا کوئی بڑی سزا نہیں۔ البتہ قیامت کے دن سخت ترین عذاب کی طرف پہنچائے جائیں گے اور خوب سمجھ لو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ تو اس سے غافل اور بیخبر نہیں۔ ہاں تم ہی غفلت اور بیخبر ی میں ہو۔ دیکھ لو بےعقل لوگوں کا گروہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ جنہوں نے اس دنیائے دنی اور فانی کی حقیر زندگی کو آخرت کے عوض میں بصدر غبت خرید لیا ہے پس یہ نادان آخرت کے منافع سے تو کیا منتفع ہوتے۔ ان سے تو عذاب اخروی ہلکا بھی نہیں کیا جائیگا اور نہ ان کی کسی قسم کی مدد کی جائے گی کہ کوئی زور آور بزور اللہ کے عذاب کو ان سے دفع کردے پس معلوم ہوا کہ یہ لوگ دائمی عذاب کے مستحق ہیں اس لیے کہ کفر نے ان کا ہر طرف سے احاطہ کیا ہے لہذا یہ لوگ اپنے قول لن تمسنا النار الا ایاما معدودۃ میں جھوٹے ہیں۔ فائدہ : معلوم ہوا کہ جو شخص شریعت کے اس حکم کو تو مانے جو اس کی طبعیت اور مزاج کے موافق ہو اور جو حکم مخالف طبیعت ہو اس کو قبول نہ کرے وہ کافر ہے مسلمان نہیں دنیاوی حکومتوں میں بھی ایک قانون کا انکار بغاوت ہے جو شخص حکومت کے کسی حکم کے ماننے سے انکار کردے اس پر بغاوت کی دفعہ لگ جاتی ہے اور کفر اللہ کی بغاوت ہے۔
Top