Tafseer-e-Saadi - Al-Baqara : 84
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَآءَكُمْ وَ لَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَ اَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے پختہ عہد لَا تَسْفِكُوْنَ : نہ تم بہاؤگے دِمَآءَكُمْ : اپنوں کے خون وَلَا تُخْرِجُوْنَ : اور نہ تم نکالوگے اَنفُسَكُم : اپنوں مِّن دِيَارِكُمْ : اپنی بستیوں سے ثُمَّ : پھر اَقْرَرْتُمْ : تم نے اقرار کیا وَاَنتُمْ : اور تم تَشْهَدُوْنَ : گواہ ہو
اور جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ آپس میں کشت و خون نہ کرنا اور اپنے کو ان کے وطن سے نہ نکالنا تو تم نے اقرار کرلیا اور تم (اس بات کے) گواہ ہو
آیت کریمہ میں مذکور فعل ان لوگوں کا تھا جو نزول وحی کے زمانے میں مدینہ میں موجود تھے اور یہ اس طرح کہ اوس اور خزرج، جو انصار کے نام سے مشہور ہیں، رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے قبل مشرک تھے اور جاہلیت کی عادت کے مطابق باہم دست و گریباں رہتے تھے، اسی اثناء میں یہود کے تین قبیلوں، بنو قریظہ بنو نضیر اور بنو قینقاع نے مدینہ میں آ کر وہاں رہنا شروع کردیا۔ ان میں سے ہر قبیلے نے مدینہ کے کسی قبیلے کے ساتھ (دفاعی) معاہدہ کرلیا۔ جب کبھی اوس اور خزرج کی آپس میں لڑائی ہوتی تو یہودی قبیلہ اس کے مخالفین کے خلاف مدد کرتا جن کی مدد دوسرا یہودی قبیلہ کر رہا ہوتا۔ یوں یہودی ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے۔ بسا اوقات یہ بھی ہوتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کو جلا وطن کردیتے اور ایک دوسرے کا مال لوٹ لیتے پھر جب جنگ ختم ہوجاتی تو جنگ کے فریقین نے ایک دوسرے کو جو افراد جنگی قیدی بنائے ہوتے، وہ ان کو فدیہ دے کر آزاد کرواتے۔ یہ تینوں امور، جن کی یہ خلاف ورزی کر رہے تھے، ان پر فرض کئے گئے تھے : (1) ایک دوسرے کا خون نہ بہائیں (2) ایک دوسرے کو گھروں سے نہ نکالیں۔ (3) جب وہ اپنے میں سے کسی کو قیدی پائیں تو اس کا فدیہ دے کر اسے چھڑانا ان کے لئے ضروری ہے۔ پس ان لوگوں نے آخری بات پر تو عمل کیا اور پہلی دو باتوں کو نظر انداز کردیا۔ چناچہ ان کے رویئے پر اللہ تعالیٰ نے نکیر کرتے ہوئے فرمایا : (افتومنون ببعض الکتب) ” کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو “ اس سے مراد ہے قیدیوں کی رہائی کے لئے فدیہ دینا (وتکفرون ببعض) ” اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو “ اس سے مراد ہے ایک دوسرے کو قتل کرنا اور ایک دوسرے کو گھروں سے نکالنا۔ آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اوامر پر عمل کیا جائے اور اس کی نواہی سے اجتناب کیا جائے۔ نیز یہ کہ تمام مامورات ایمان میں شمار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فما جزآء من یفعل ذلک منکم الا خزی فی الحیوۃ الدنیا ” تم میں سے جو بھی ایسا کرے گا، اس کو اس کی سزا دنیا میں رسوائی کے سوا کوئی اور نہیں ملے گی۔ “ اور اس رسوائی کا انہیں سامنا کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں رسوا کیا اور ان پر اپنے رسول کو غلبہ عطا کیا۔ ان میں سے کسی کو قتل کردیا گیا اور کسی کو غلام بنا لیا گیا اور کسی کو جلا وطن کردیا گیا۔ (ویوم القیمۃ یردون الی اشد العذاب) ” اور قیامت کے روز سخت عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ “ یعنی قیامت کے روز کا عذاب دنیا کے عذاب سے بھی بڑھ کر ہوگا۔ (وما اللہ فغافل عما تعلمون) ” اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بیخبر نہیں۔ “ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ کیا سبب تھا جو اس بات کا موجب بنا کر وہ کتاب اللہ کے کچھ حصے پر ایمان لائیں اور کچھ حصے کا انکار کردیں ؟ چناچہ فرمایا : (اولئک الذین اشتروا الحیوۃ الدنیا بالاخرۃ) ” یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے خرید لیا ‘ یعنی انہیں وہم لاحق تھا کہ اگر انہوں نے اپنے حلیفوں کی مدد نہ کی تو یہ عار کی بات ہے پس انہوں نے عار کے بدلے میں آگ کو چن لیا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فلا یحفف عنھم العذاب) ” پس ان سے عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا “ یعنی عذاب کی شدت ہمیشہ رہے گی اور کسی وقت بھی انہیں راحت نصیب نہ ہوگی (ولا ھم ینصرون) ” اور ان کی مدد کی جائے گی “ یعنی ان سے عذاب کو نہیں ہٹایا جائے گا۔
Top