Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 84
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَآءَكُمْ وَ لَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَ اَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے پختہ عہد لَا تَسْفِكُوْنَ : نہ تم بہاؤگے دِمَآءَكُمْ : اپنوں کے خون وَلَا تُخْرِجُوْنَ : اور نہ تم نکالوگے اَنفُسَكُم : اپنوں مِّن دِيَارِكُمْ : اپنی بستیوں سے ثُمَّ : پھر اَقْرَرْتُمْ : تم نے اقرار کیا وَاَنتُمْ : اور تم تَشْهَدُوْنَ : گواہ ہو
اور جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ آپس میں کشت و خون نہ کرنا اور اپنے کو ان کے وطن سے نہ نکالنا تو تم نے اقرار کرلیا اور تم (اس بات کے) گواہ ہو
قول باری ہے : فراذا خذنا میثاقکم لاتسفکون دمآء کو ولا تخجون انفسکم من دیارکم (یاد کرو۔ ہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا اور نہ ایک دور سے کو گھر سے بےگھر کرنا) اس آیت میں دو معنوں کا احتمال ہے پہلا یہ کہ تم آپس میں ایک دوسرے کی جان نہ لو، نیز ایک دوسرے کو گھر سے بےگھر نہ کرو جس طرح یہ قول باری ہے : ولا تقتلوا انفسکم (اور اپنی جانیں نہ لو) نیز : وقاتلوا و قتلوا ( اور انہوں نے قتل کیا اور قتل ہوئے) دو سرا معنی یہ ہے کہ ہر شخص اپنی جان خود اپنے ہاتھوں سے نہ لے، یعنی خود کشی نہ کرے جس طرح ہنود کرتے تھے یا جس طرح وہ لوگ کرتے ہیں جو زندگی کی سختیوں کا مقابلہ کرنے کی تاب نہیں رکھتے۔ مایوس ہو کر زندگی سے چھٹکارا حاصل کر لیت ییہں۔ یا یہ کہ وہ کسی اور کی جان نہ لے کر پھر بدلے کے طور پر اپنی جان گنوا بیٹھے اور اس طرح خود اپنے آپ کو قتل کرنے والا بن جائے۔ چونکہ آیت کے الفاظ کے الفاظ میں دونوں معنوں کا احتمال ہے اس لئے اسے دونوں معنوں پر محمول کیا جانا واجب ہوگا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تورات کی شریعت کے اس حکم کی خبر دی ہے جسے یہود چھپاتے تھے کیونکہ اس حکم کی وجہ سے انہیں نقصان کا سامنا کرنا پڑتا اور وہ قابل مذمت گردانے جاتے چناچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو اس حکم کی خبر دے دی اور اسے یہود یک طرف سے آپ ﷺ کی نبوت کے انکار کے معاملے میں ان پر حجت اور دلالت بنادیا۔ اس لئے کہ حضور ﷺ نے نہ تو آسمانی کتابیں پڑھی تھیں اور نہ ہی ان میں موجود مضامین کے متعلق آپ کو کوئی علم تھا۔ اس لئے آپ ﷺ کی بتائی ہوئی مذکورہ بالا خبر صرف اس بات پر مبنی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کو اس کی اطلاع دی گئی تھی، یہی کیفیت ان تمام خبروں کی ہے جن کی اطلاع زیر بحث آیات کی بعد والی آیات میں دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں ارشاد ہے : وکانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا (باوجودیکہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دعائیں ماگنا کرتے تھے۔ ) اللہ تعالیٰ نے ہی حضور ﷺ کو بنی اسرائیل کی ان تمام باتوں کی خبر دی تھی جن کی بنا پر ان کی مذمت کی گئی تھی اور جنہیں یہ لوگوں سے چھپائے رکھتے تھے۔ ان خبروں کے ذریعے بنی اسرائیل کے کفر اور ظلم کا پول کھول دیا تھا اور ان کے تمام قبائح ظاہر کردیئے تھے۔ حضور ﷺ کی دی ہوئی یہ تمام خبریں آپ کی نبوت پر دلالت کرتی تھیں۔
Top