Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 84
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَآءَكُمْ وَ لَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَ اَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے پختہ عہد لَا تَسْفِكُوْنَ : نہ تم بہاؤگے دِمَآءَكُمْ : اپنوں کے خون وَلَا تُخْرِجُوْنَ : اور نہ تم نکالوگے اَنفُسَكُم : اپنوں مِّن دِيَارِكُمْ : اپنی بستیوں سے ثُمَّ : پھر اَقْرَرْتُمْ : تم نے اقرار کیا وَاَنتُمْ : اور تم تَشْهَدُوْنَ : گواہ ہو
اور یاد کرو جب ہم نے تم سے یہ عہد بھی لیا کہ تم آپس میں کشت و خون نہ کرنا اور نہ تم آپس میں ایک دوسرے کو اپنے وطن سے جلا وطن کرنا۔ پھر تم نے اس بات پر اقرار کیا اور تم بھی اس کی گواہی دیتے ہو یعنی تم کو بھی یہ اقرار تسلیم ہے ۔5
5 اور وہ زمانہ یاد کرو جب کہ ہم نے تم سے اس امر پر عہد لیا کہ تم آپس میں خون ریزی اور خانہ جنگی نہ کرنا اور تم ایک دوسرے کو جلا وطن نہ کرنا اور نہ ان کو ان کے گھروں سے نکالنے پر مجبور کرنا۔ پھر تم نے اس کا اقرار کیا اور تم بھی اپنے بڑوں کے اس اقرار کو مانتے ہو۔ (تیسیر) اوپر کی آیت میں باہمی حسن سلوک اور صلہ رحمی کا حکم تھا۔ یہاں خانہ جنگی، خون ریزی اور ایک دوسرے کو ستانے اور گھروں سے نکالنے کی ممانعت ہے۔ کیونکہ باہمی احسان اور صلہ رحمی کی تکمیل اسی صورت میں ہو سکتیھی کہ اپنوں کو دکھ نہ پہنچائو اور ستائو نہیں بلکہ اچھا سلوک کرو۔ وانتم تشھدون کا ایک مطلب تو وہ ہے جو ہم نے ترجمہ میں عرض کیا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانے کے یہودی بھی یہ مانتے تھے کہ ہمارے اسلاف نے توریت کے اس حکم کو تسلیم کیا تھا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وانتم تشھدون اسی اقرار کی تاکید ہو۔ اب معنی یہ ہونگے کہ اقرار بھی کوئی چلتا ہوا اقرار نہیں بلکہ اقرار بھی ایسا کہ تم اس کی شہادت بھی دیتے ہو۔ یعنی بہت پختہ اقرار اس آیت میں بھی عہد اور قول وقرار سے وہی توریت کا حکم مراد ہے جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا تھا کہ ہر ہر حکم پر اقرار نامہ نہیں لکھا جاتا۔ بلکہ جو کتاب منزل من اللہ کو تسلیم کرلیتا ہے تو وہ اس کے تمام احکام کا پابند ہوجاتا ہے اور کسی کتاب کو آسمانی کتاب تسلیم کرلینا ہی اس کے سب احکام پر عمل کرنے کا عہد اور قول وقرار ہوجاتا ہے اور جس طرح توریت کا یہ حکم عام طور سے پہلے اور پچھلے سب یہودیوں کو تسلیم تھا اس طرح سوئے اتفاق سے توریت کے اس حکم کی مخالفت بھی عام تھی حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں جو یہودی تھے وہ بھی سب کے سب باہمی خوں ریزی اور اپنوں کو ان کے گھروں سے نکالنے کے مرتکب ہوتے تھے۔ چناچہ آگے ارشاد فرماتے ہیں۔ (تسہیل)
Top