Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 84
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَآءَكُمْ وَ لَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَ اَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے پختہ عہد لَا تَسْفِكُوْنَ : نہ تم بہاؤگے دِمَآءَكُمْ : اپنوں کے خون وَلَا تُخْرِجُوْنَ : اور نہ تم نکالوگے اَنفُسَكُم : اپنوں مِّن دِيَارِكُمْ : اپنی بستیوں سے ثُمَّ : پھر اَقْرَرْتُمْ : تم نے اقرار کیا وَاَنتُمْ : اور تم تَشْهَدُوْنَ : گواہ ہو
اور وہ وقت یاد کرو ! جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ تم اپنوں کا خون نہ بہائو گے اور اپنوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالوگے۔ پھر تم نے اس کا اقرار کیا اور تم اس کے گواہ ہو
وَاِذْاَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ لاَتَسْفِکُوْنَ دِمَآئَ کُمْ وَلَاتُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَاَنْتُمْ تَشْھَدُوْنَ ۔ ثُمَّ اَنْتُمْ ھٰٓؤُلَآئِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَتُخْرِجُوْنَ فَرِیْقًا مِّنْکُمْ مِّنْ دِیَارِھِمْز تَظٰھَرُوْنَ عَلَیْھِمْ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِط وَاِنْ یَّاْتُوْکُمْ اُسٰرٰی تُفٰدُوْھُمْ وَھُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیْکُمْ اِخْرَاجُھُمْط اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍج فَمَاجَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّاخِزْیٌ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِط وَمَااللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ۔ (البقرۃ : 84 تا 85) (اور وہ وقت یاد کرو ! جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ تم اپنوں کا خون نہ بہائو گے اور اپنوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالوگے۔ پھر تم نے اس کا اقرار کیا اور تم اس کے گواہ ہو۔ پھر تم ہی وہ لوگ ہو کہ اپنوں کو قتل بھی کرتے ہو اور اپنے ہی ایک گروہ کو ان کی بستیوں سے نکالتے بھی ہو، پہلے ان کے خلاف حق تلفی اور زیادتی کرکے ان کے دشمنوں کی مدد کرتے ہو پھر اگر وہ تمہارے پاس اسیر بن کر پہنچ جاتے ہیں تو تم انھیں فدیہ دے کر چھڑالیتے ہو۔ حالانکہ ان کا وطن سے نکالنا ہی تم پر حرام تھا، کیا تم کتاب کے ایک حصہ کو مانتے ہو اور ایک حصہ سے انکار کرتے ہو ؟ پس جو لوگ تم میں سے ایسا کرتے ہیں اس کی سزا کیا ہے ؟ بجز دنیوی زندگی میں رسوائی کے اور آخرت میں یہ شدید ترین عذاب کی طرف بھیجے جائیں گے اور جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے بیخبر نہیں) ایک اور عہد کا حوالہ ان آیات کریمہ میں ایک اور عہد کا ذکر کیا جارہا ہے، جو بنی اسرائیل سے لیا گیا تھا اور پھر جس طرح بنی اسرائیل نے اس عہد کی مٹی پلید کی اور اسے ایک مذاق بناکررکھ دیا، اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ عہد کو یاد دلاتے ہوئے بنی اسرائیل سے فرمایا جارہا ہے کہ اللہ کے دین نے تمہارے اندر ایک دینی اخوت پیدا کردی ہے۔ تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے ہو، دیکھنا اس اخوت کو آپس میں لڑکر اور خون بہا کر نقصان نہ پہنچاناکیون کہ اگر تم آپس میں لڑوگے تو تمہارا شیرازہ بکھر جائے گا اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور دشمن تم پر دلیر ہوجائے گا۔ اسی طرح آپس میں ایک دوسرے کو وطن سے نکالنے کی کوشش نہ کرنا، یعنی تمارے لیے آپس کی لڑائی بھی حرام ہے اور ایک دوسرے کو گھروں سے نکال کر بےوطن کرنا بھی حرام ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے : جب تم سے اس بات کا عہد لیا گیا تھا تو تم نے اس کا اقرار بھی کیا تھا اور اس کے گواہ بھی بنے تھے۔ یعنی تم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم ہمیشہ اس کی پابندی کریں گے اور چونکہ تورات میں اس عہد کا آج تک ذکر ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اس کے گواہ بھی ہو اور یا اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے اس عہد کا اقرار کیا تھا اور تم اس اقرار کے وقت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ موجود بھی تھے کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنی قوم کو خیمہ عبادت کے سامنے بلاکرانھیں اللہ کا حکم سناتے اور ان سے عہد لیتے تھے۔ یہاں اسی کی طرف اشارہ ہے کہ تم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ موجود رہ کر اس عہد کا اقرار کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نہایت تاکید کے ساتھ تم سے یہ عہد لیا گیا تھا۔ مزیدیہ کہ اسی پر تمہاری قومی شیرازہ بندی اور وحدت واخوت کا دارومدار ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود تم ہی وہ لوگ ہو جنھوں نے اس عہد کو توڑا۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں بنی اسرائیل نے ایک دوسرے کا خون بہایا، ایک دوسرے کی بستیاں اجاڑیں، گھر مسمار کیئے اور ایک دوسرے کو وطن سے نکالا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا زمانہ بنی اسرائیل کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ زمانہ ہے۔ اس دور میں بنی اسرائیل قومی اور دینی لحاظ سے عروج پر تھے۔ وہ دنیا کی سب سے مضبوط ریاست اور طاقتور فوج کے مالک تھے۔ کوئی قابل ذکر قوت ان کے سامنے سر اٹھانے کے قابل نہ تھی۔ لیکن حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے انتقال کے بعد ان کا بیٹا نالائق ثابت ہوا ان کے غلام نے حکومت پر قبضہ کرلیا۔ رفتہ رفتہ یہ ریاست دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ایک کا نام یہودیہ قرار پایا اور دوسری کا نام اسرائیل۔ اس کے بعد صدیوں تک یہ لوگ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں لگے رہے۔ دونوں نے ایک دوسرے کے افراد کو قتل کیا۔ ایک دوسرے سے بستیاں اور شہر چھینے پھر اسی پر بس نہیں ایک دوسرے کے خلاف ہر طرح کے ظلم اور سرکشی حق شکنی اور حق تلفی کو وتیرہ بنایا۔ اور ایک دوسرے کے خلاف دشمنوں سے بھی مددلینے سے دریغ نہ کیا اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہاجب تک کہ وقت کی جابر قوتوں نے انھیں ادھیڑ کدھیڑ کر نہیں رکھ دیا۔ ان کی اس خانہ جنگی کے باعث کبھی صوروصیدا کے حکمران ان پر لشکر کشی کرتے رہے اور کبھی بابل والوں کے ہاتھوں سے قدرت نے ان کو پٹوایا اور کبھی رومیوں نے ان کو پامال کیا۔ لیکن انھیں جب بھی موقعہ ملا اپنی اصلاح کرنے کی بجائے انھوں نے یہی رویہ اختیار کیا۔ عہد کے حوالے سے بنی اسرائیل کا مضحکہ خیز رویہ عجیب بات یہ ہے کہ یہ آپس میں خون ریزی کرنے اور ایک دوسرے کو وطن سے نکالنے سے تو باز نہیں آئے جس کا ان سے عہد لیا گیا تھا۔ البتہ انھوں نے یہ مضحکہ خیز رویہ ضرور اختیار کیا کہ مخالف طاقتوں کے ساتھ مل کر جب بھی انھوں نے ایک دوسرے پر حملہ کیا اور اس قتل ونہب کے نتیجے میں جب بنی اسرائیل ایک دوسرے کے ہاتھوں قیدی بنے تو یہ انھیں فدیہ دے کر چھڑانے کے لیے پہنچ گئے اور دلیل یہ دی کہ تورات میں اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ اگر تمہارے بھائی بندوں میں سے کوئی قیدی بن جائے تو انھیں فدیہ دے کر آزاد کرانا بہت بڑی نیکی ہے تو ہم اللہ کے حکم کی تعمیل میں اپنے دینی اور قومی بھائیوں کو چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نزول قرآن کے وقت بھی آنحضرت ﷺ کے معاصر یہود کا یہی رویہ تھا۔ مدینہ منورہ میں ان کے تین قبائل آباد تھے، بنوقینقاع، بنونضیر اور بنو قریظہ اور قحطانی عربوں کے دو قبیلے آباد تھے، اوس اور خزرج۔ یہود کے تینوں قبیلے ان دونوں عرب قبیلوں کے ساتھ حلیفانہ تعلقات رکھتے تھے۔ بنونضیر اور بنوقینقاع خزرج کے حلیف تھے اور بنو قریظہ اوس کے حلیف تھے۔ اوس و خزرج کی لڑائیوں میں یہ تینوں قبیلے اپنے اپنے حلیف کی مدد کرتے تھے۔ جنگ بعاث جو سب سے طویل اور ہولناک لڑائی تھی اور کہا جاتا ہے کہ وہ چالیس سال تک جاری رہی۔ اس میں بھی یہود نے اپنے اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر جنگ میں شرکت کی اور خوب ایک دوسرے کا خون بہایا۔ لیکن جب بنی اسرائیل میں سے کچھ لوگ قیدی بن کر آئے تو پھر یہ فدیہ کی رقم لے کر اپنے حلیف کے پاس یہ کہہ کر ان کو چھڑانے کے لیے پہنچ گئے کہ فدیہ دے کر اپنے ہم مذہب بھائیوں کو آزادی دلانا یہ اللہ کا حکم ہے۔ اس لیے ہم اس حکم کے تحت اپنے بھائیوں کو چھڑانا چاہتے ہیں۔ قرآن کریم ان سے کہتا ہے کہ تم سے تو اس بات کا عہد لیا گیا تھا کہ تم ایک دوسرے سے لڑ کر نہ ایک دوسرے کا خون بہائو گے اور نہ کسی کو گھروں سے نکالو گے۔ لیکن تم نے دشمنوں کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کا خون بہایا اور پھر ان کو گھروں سے نکال کر قیدی بنایا لیکن تمہیں اللہ کی اس کھلی خلاف ورزی پر نہ کبھی اللہ کا خوف آیا اور نہ احکامِ خداوندی کی تعمیل کا خیال آیا۔ لیکن جب وہ قیدی بن کر خود ان لوگوں کے پاس آئے جن کی تم نے اپنے بھائیوں کے خلاف مدد کی تھی، تو تم دینی اور قومی جذبے کے حوالے سے ان کے لیے فدیہ لے کر آگئے ہو تاکہ انھیں قید سے آزاد کراسکیں۔ آخر یہ کیا مذاق ہے کہ جو تم سے عہد لیا گیا تھا اس کو تو تم نے بری طرح پامال کیا، لیکن جب اسی پامالی کے نتیجے میں اسیری تک نوبت پہنچی تو تمہیں فدیہ دے کر چھڑانے کے لیے اللہ کا حکم یاد آگیا تاکہ تم قومی ہمدردی اور بہی خواہی کی دھونس بھی جما سکو اور تمہارا اللہ کے احکام کی اطاعت کا بھرم بھی قائم رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے اللہ کی کتاب کو بھی خواہشاتِ نفس کے تابع کررکھا ہے اس کے جس حصے کو چاہتے ہو مان لیتے ہو اور جس سے چاہتے ہو انکار کردیتے ہو۔ لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس طرح سے تم دوہرے جرم کا ارتکاب کررہے ہو۔ ایک تو یہ کہ تم اللہ کے احکام کو توڑتے اور اس کی نافرمانی کرتے ہو اور دوسرا یہ کہ اپنے من پسند حکم پر عمل کرکے اس کا تمسخر اڑاتے ہو کہ عمل تو تم خواہشِ نفس پر کرتے ہو لیکن نام تورات کا لیتے ہو۔ تمہیں معلوم ہے کہ اس کا انجام کیا ہوگا ؟ اس کا انجام یہ ہے کہ تمہیں دنیا میں ذلت ونکبت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ تم دنیا کی ذلیل ترین قوم بن جاؤ گے اور آخرت میں تمہیں شدید ترین عذاب دیا جائے گا۔ امت مسلمہ کے لیے لمحہ فکریہ جب یہ آیات نازل ہورہی تھیں تو بنی اسرائیل عذاب کے پہلے حصے کا شکار ہوچکے تھے۔ یعنی ان کی دنیا میں کہیں حکومت باقی نہیں رہی تھی اور دنیا کے کسی خطے میں انھیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ وہ تمام قوموں کی نگاہوں میں عبرت کا سامان بن کر رہ گئے تھے۔ رہا آخرت میں شدید ترین عذاب کا ذکر، ظاہر ہے وہ اس سے بھی بچ نہیں پائیں گے۔ لیکن ان کی قومی زندگی کا یہ ایک ورق امت مسلمہ کے لیے اپنے اندر ہزار اسباق رکھتا ہے اور اسی لیے قرآن کریم نے اسے قیامت تک کے لیے امت مسلمہ میں باقی رکھا تاکہ یہ امت اس سے سبق سیکھے اور اس انجام سے دوچار نہ ہو جس سے بنی اسرائیل دوچار ہوئے۔ لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہود کا یہ رویہ کہ کتاب خداوندی کے جس حکم کو چاہا مان لیا اور جس کا چاہا انکار کردیا اور اس طرح اللہ کی کتاب کو اپنی خواہشات نفس کے تابع رکھا۔ امت مسلمہ نے بھی پوری طرح اختیار کرلیا ہے۔ ان کے پاس تو محرف کتابیں تھیں اور ان کے نبیوں کی سنت بالکل مٹ چکی تھی۔ لیکن ہمارے پاس تو اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول کی سنت ایک روزنامچہ کی طرح بالکل محفوظ ہے۔ لیکن ہماری بدنصیبی کی انتہا یہ ہے کہ پورے عالم اسلام میں ایک ملک بھی ایسا نہیں جس میں پوری طرح اللہ کی شریعت نافذ ہو۔ امت مسلمہ کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ کے دین کو مانتے ہیں، اس کی کتاب کو مقدس جان کر چومتے اور سر پر رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے ہر حکم پر عمل کرنا اپنے لیے ضروری نہیں سمجھتے ایسے لوگ بھی بالخصوص ہمارے بالائی طبقات میں موجود ہیں جنھیں اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت سے کوئی سروکار نہیں۔ لیکن اکثریت اس کو مانتی ہے لیکن عمل کرنے سے گریز کرتی ہے اور ہمارا عمل اگر کہیں ہے بھی تو اس کا تعلق زیادہ سے زیادہ عبادات تک ہے۔ ہماری زندگی ایک لطیفہ بن کر رہ گئی ہے ہم عبادات کا پورا نظام تو قرآن وسنت سے لیتے ہیں لیکن زندگی کے باقی تمام شعبوں میں ہمیں کتاب وسنت سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ قانون کی بات ہوتی ہے تو ہم سوئیٹزرلینڈ، یورپ، امریکہ یا 1937 کے ایکٹ کی طرف دیکھتے ہیں۔ معاشرت کی بات ہوتی ہے تو کبھی ہندو معاشرت ہمارے سامنے ہوتی ہے اور کبھی مغربی معاشرت۔ معیشت کی نوبت آتی ہے، تو کبھی سوشلزم ہمیں یاد آتا ہے اور کبھی سرمایہ داری، اور حکومت کی بات ہوتی ہے تو ہم مغربی ڈیمو کریسی سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ اور ہماری تعلیم کی تمام تر بنیادیں مغربی نظام تعلیم سے مستعار لی گئی ہیں۔ ہماری تہذیب اور ہمار اتمدن سراسر مغربی تہذیب و تمدن کی جگالی ہے۔ غرضیکہ عبادات کے سوا زندگی کے کسی شعبے میں بھی ہم قرآن وسنت سے رہنمائی لینے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے باوجود ہمارا دعویٰ ہے کہ ہماری کتاب، کتاب زندہ ہے اور ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارے رسول ﷺ دانائے سبل بھی ہیں، ختم الرسل بھی اور مولائے کل بھی۔ یہ دو عملی جو ہماری پوری زندگی کی علامت بن گئی ہے یہ بنی اسرائیل کی زندگی کی ہوبہو تصویر ہے۔ اس کے نتیجے میں جو انجام ان کا ہوا ہمارا انجام بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا۔ لیکن انتہائی دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارا انجام نوشتہ دیوار معلوم ہوتا ہے۔ لیکن ہم اسے پڑھنے کے لیے تیار نہیں۔ نجانے ہم اتنی سی معمولی بات کیوں نہیں سمجھتے ؟ کہ جس طرح کوئی مشین دوسری مشینوں کے پرزے لگانے سے نہیں چلتی وہ جب بھی کام دے گی اپنے ہی پرزوں سے دے گی۔ آپ اپنی کلائی کی گھڑی میں اگر سلائی مشین یا گرامو فون کے پرزے لگادیں اور پھر یہ توقع رکھیں کہ وہ وقت بھی دے گی تو یہ سادگی کے سوا کچھ نہیں۔ وہ نہ صرف کہ وقت نہیں دے گی بلکہ نہ وہ کپڑے سئے گی نہ اس سے کوئی سُر نکل سکے گا۔ تو انسانی زندگی جو اپنے اندر نہایت نزاکتیں رکھتی ہے وہ کس طرح سپھل ہوسکتی ہے، کس طرح برگ وبارپیدا کرسکتی ہے اور کس طرح وہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنا فرض انجام دے سکتی ہے۔ اگر اسے ایک نظام اور ایک قانون کے تحت نہ لایا جائے۔ اس کا نتیجہ تو لازماً وہی ہوگا جو قرآن کریم کہتا ہے کہ دنیا میں رسوائی ہوگی اور آخرت میں عذاب سے دوچارہونا پڑے گا۔ آج امت مسلمہ اپنے پاس ایک عظیم افرادی قوت اور بےپناہ وسائل رکھتے ہوئے جس طرح ذلت میں ڈوبتی جارہی ہے۔ کیا ہمیں یہ بتانے کے لیے کافی نہیں کہ اس پر وہی عذاب مسلط کردیا گیا ہے جس کا شکار بنی اسرائیل ہوئے تھے۔ اگر ہم اس عذاب سے نکلنا چاہتے ہیں اور آخرت میں سرخرو ہونا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں کھلے دل و دماغ کے ساتھ اپنے آپ کو قرآن وسنت کے حوالے کرنا ہوگا۔
Top