Tadabbur-e-Quran - Al-Israa : 81
وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ١ؕ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا
وَقُلْ : اور کہ دیں آپ جَآءَ : آیا الْحَقُّ : حق وَزَهَقَ : اور نابود ہوگیا الْبَاطِلُ : باطل اِنَّ : بیشک الْبَاطِلَ : باطل كَانَ : ہے ہی زَهُوْقًا : مٹنے والا
اور اعلان کرو کہ حق آگیا اور باطل نابود ہوگیا اور باطل نابود ہونے والی چیز ہے
وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا۔ " حق " سے مراد قرآن اور وہ دین حق ہے جس کو لے کر قرآن آیا تھا اور باطل سے مراد وہ دین باطل ہے جس کو مٹانے کے لیے قرآن نازل ہوا تھا۔ حق کی فتح اور باطل کی شکست کا اعلان : اوپر آپ کو ہجرت کی دعا سکھائی گئی تھی اب یہ انہیں نازک حالات کے اندر حق کی فتح اور باطل کی شکست کے اعلان کا آپ کو حکم ہوا۔ اس کی وجہ وہی ہے جس کی طرف ہم اس کے محل میں اشارہ کرچکے ہیں کہ ہجرت در حقیقت رسول کی فتح کا دیباچہ ہوتی ہے۔ اس کے بعد رسول کے مخالفین لازماً مٹ جاتے ہیں اور دین حق کا بول بالا ہو کے رہتا ہے۔ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ انسانی فطرت کے اندر باطل کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ یہ خود رو جھاڑیوں کی طرح اس وقت پھیلتا ہے جب اس کو صاف کرتے رہنے والے موجود نہیں ہوتے ہیں۔ جب اس کو صاف کرنے والے آموجود ہوتے ہیں تو حالات کے اعتبار سے گو انہیں مشقت اٹھانی پڑتی ہے لیکن بالآخر یہ نابود ہو کے رہتا ہے اور اس کی جگہ وہ کشت حق لہلہا اٹھتی ہے جس کا تخم اہل حق ڈالتے ہیں ا سلیے کہ انسانی فطرت کی زمین درحقیقت فاطر فطرت نے اسی کشت حق کی پرورش کے لیے بنائی ہے نہ کہ اس خار و خس کی پرورش کے لیے جو محض غفلت کی پیدا وار ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر یہ پیشین گوئی عملاً پوری ہوگئی۔ اس وقت آنحضرت ﷺ نیزے کی انی سے خانہ کعبہ کے بتوں کو توڑتے جاتے اور یہ آیت پڑھتے جاتے گویا اس آیت کا مصداق منصہ شہود پر آگیا۔
Top