Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 81
وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ١ؕ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا
وَقُلْ : اور کہ دیں آپ جَآءَ : آیا الْحَقُّ : حق وَزَهَقَ : اور نابود ہوگیا الْبَاطِلُ : باطل اِنَّ : بیشک الْبَاطِلَ : باطل كَانَ : ہے ہی زَهُوْقًا : مٹنے والا
اور اعلان کردو (اے پیغمبر ! ) کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا، اور بلاشبہ باطل ہے ہی مٹنے کی چیز
147۔ اعلان حق کا حکم وارشاد :۔ سو ارشاد فرمایا گیا ” اور کہو اور اعلان کردو (اے پیغمبر ! ) کہ حق آگیا “ یعنی دین حق اسلام جو کہ سراسر حق وصدق ہے۔ اور جس کا نہ کوئی بدل ممکن ہوسکتا ہے نہ مقابل۔ پس اب تمہارے لئے اے مشرکو ! اور منکرو ایک ہی صورت ہے کہ تم صدق دل سے حق کو قبول کرکے اہل حق کے زمرے میں شامل ہوجاؤ اور اس طرح اپنے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی کا سامان کرلو۔ ورنہ ابدی ہلاکت اور دائمی تباہی و بربادی کیلئے تیار ہوجاؤ۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو دین حق وہی اور صرف وہی ہے جو قرآن حکیم کی صورت میں اللہ رب العالمین کی طرف سے دنیا کی ہدایت و راہنمائی کیلئے نازل فرمایا گیا ہے تاکہ دنیا کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لایا جائے اور یہ اس لئے آیا ہے تاکہ سب دینوں پر غالب ہو کر رہے۔ اگرچہ یہ بات مشرکوں کو ناگوار گزرے۔ لیظہرہ علی الدین کلہ ولوکرہ المشرکون، سوغلبہ حق ہی کا حق اور اسی کا مقدر ہے والحمد للہ جل وعلا۔ 148۔ باطل ہے ہی مٹ کر رہنے والی چیز :۔ سو ارشاد فرمایا گیا ” اور باطل مٹ گیا اور یقینا باطل ہے ہی مٹ کر رہنے والی چیز “ یعنی کفر و شرک جو کہ ہے ہی مٹنے والی چیز کہ اس کی نہ کوئی اساس ہے نہ بنیاد۔ صحیح روایات میں وارد ہے کہ آنحضرت ﷺ جب فتح مکہ کے موقعہ پر بیت اللہ شریف میں داخل ہوئے اور مشرکین نے اس کے اندر جو تین سو ساٹھ بت نصب کر رکھے تھے ان کو توڑا اور آپ ﷺ یہی آیت کریمہ پڑھتے ہوئے اپنی چھڑی سے ان کو ٹھوکر لگاتے جارہے تھے جس سے وہ اوندھے منہ گرتے جارہے تھے۔ پھر آپ ﷺ نے ان کو ٹکڑے کروا کر اللہ کے گھر کو ان کے وجود سے ہمیشہ کیلئے پاک کردیا سو باطل کی مثال پانی کے اوپر اٹھنے والی جھاگ کی سی ہے۔ جس طرح وہ عارضی ہوتی ہے اسی طرح باطل کا ابھار بھی عارضی اور وقتی ہوتا ہے یا اس کی مثال ان خود روجھاڑیوں کی سی ہے جن کا وجود اور پھیلاؤاسی وقت تک ہوتا ہے جب تک کہ ان کو صاف کرنے والے ہاتھ سامنے نہ آئیں۔ جب ایسے ہاتھ سامنے آجاتے ہیں تو وہ ان کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ کیونکہ باطل کی انسان فطرت میں کوئی اساس و بنیاد نہیں ہوتی۔ اس لئے اس کے ثبات وقرار کیلئے کوئی اساس و بنیاد نہیں ہوسکتی۔
Top