Ahkam-ul-Quran - Al-Waaqia : 77
اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِیْمٌۙ
اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ : بیشک وہ البتہ ایک قرآن ہے كَرِيْمٌ : عزت والا
کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے
قرآن کو پاکبازوں کے علاوہ کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا قول باری ہے (انہ لقراٰن کریم فی کتاب مکنون لا یمسہ الا المطھرون یہ ایک بلند پایہ قرآن ہے ایک محفوظ کتاب میں ثبت جسے کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا بجز پاک لوگوں کے) حضرت سلیمان ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا۔ قرآن کو پاک لوگوں کے سوا کوئی ہاتھ نہ لگائے۔ “ پھر انہوں نے قرآن کی تلاوت کی لیکن مصحف کو ہاتھ نہیں لگایا کیونکہ وہ باوضو نہیں تھے۔ حضرت انس ؓ بن مالک نے حضرت عمر ؓ کے اسلام لانے کے واقعہ کے سلسلے میں روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اپنی بہن سے کہا کہ ” مجھے وہ کتاب دو جسے تم لوگ پڑھتے ہو۔ “ بہن نے جواب دیا : ” عمر ! تم ناپاک ہو اور اس کتاب کو پاک لوگوں کے سوا کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا، اٹھو ! پہلے غسل یا وضوکر لو۔ “ حضرت عمر ؓ نے اٹھ کر وضو کیا اور بہن سے قرآن لے کر اسے پڑھا۔ حضرت انس ؓ نے اس کا باقی ماندہ حصہ بھی بیان کیا۔ حضرت سعد ؓ کے متعلق مروی ہے کہ انہوں نے قرآن مجید کو ہاتھ لگانے کے لئے اپنے بیٹے کو پہلے وضو کرلینے کا حکم دیا تھا۔ حضرت ابن عمر ؓ سے بھی اس قسم کی روایت ہے جس بصری اور ابراہیم نخعی نے وضو کے بغیر قرآن مجیدکو ہاتھ لگانے کو مکروہ سمجھا ہے۔ حماد سے مروی ہے کہ آیت میں مذکورہ قرآن سے وہ قرآن مراد ہے جو لوح محفوظ کے اندر ہے اور قول باری (لا یمسہ الا المطھرون) سے فرشتے مراد ہیں ۔ ابوالعالیہ نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ ” قرآن ایک محفوظ کتاب ہے اور تم گنہگار لوگ یہاں مراد نہیں ہو۔ “ سعید بن جبیر اور حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ (المطھرون) سے فرشتے مراد ہیں۔ قتادہ کا قول ہے کہ اللہ کے نزدیک پاکوں کے سوا اسے کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔ البتہ دنیا میں اسے مجوسی، ناپاک اور منافق بھی ہاتھ لگا لیتا ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اگر اس فقرے کو جملہ خبریہ کے معنوں پر محمول کیا جائے تو پھر اس صورت میں بہتر یہ ہوگا کہ قرآن سے وہ قرآن مراد لیا جائے جو اللہ کے نزدیک ہے اور مطہرون سے فرشتے مراد لئے جائیں۔ لیکن اگر اس فقرے کو نہی پر محمول کیا جائے اگرچہ یہ خبر کی صورت ہے تو اس میں ہمارے لئے عموم ہوگا۔ یہ دوسری بات اولیٰ ہے کیونکہ حضور ﷺ سے ایک جیسی روایات میں منقول ہے کہ آپ نے عمرو بن حزم کی جو تحریر دی تھی اس میں یہ درج تھا کہ ” قرآن کو پاک آدمی کے سوا کوئی ہاتھ نہ لگائے۔ اس سے یہ بات ضروری ہوگئی کہ آپ نے آیت زیر بحث کی بنا پر نہی کا یہ حکم دیا تھا کیونکہ آیت میں اس نہی کا احتمال موجود تھا۔
Top