Al-Quran-al-Kareem - Al-Waaqia : 77
اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِیْمٌۙ
اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ : بیشک وہ البتہ ایک قرآن ہے كَرِيْمٌ : عزت والا
کہ بلاشبہ یہ یقینا ایک باعزت پڑھی جانے والی چیز ہے۔
1۔ اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ۔۔۔۔۔۔۔۔:”کریم“ ہر چیز میں سے اپنی قسم میں سب سے اعلیٰ اور عمدہ چیز کو ”کریم“ کہتے ہیں۔ ”القرآن“ مصدر بمعنی اسم مفعول ہے ، یعنی پڑھا جانے والا۔ یہ نام اس لیے ہے کہ یہ کتاب اتنی پڑھی گئی اور قیامت تک پڑھی جائے گی کہ پڑھنے جانے میں کسی اور کتاب کو اس کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں۔ یعنی یہ کتاب جو رسول اللہ ﷺ لے کر آئے ہیں ، تمام پڑھی جانے والی چیزوں میں سب سے اعلیٰ ہے اور ہر قسم کی کمی بیشی سے پوری طرح محفوظ ہے۔ کسی شیطان کی مجال نہیں کہ رسول اللہ ﷺ پر نازل ہونے سے پہلے یا نازل ہونے کے دوران اس پر مطلع ہی ہو سکے ، کیونکہ یہ اس کتاب یعنی لوح ِ محفوظ میں درج ہے جو چھپا کر رکھی ہوئی ہے ، جن و انس میں سے کسی کی اس تک رسائی ہی نہیں۔ اسے پڑھنا تو درکنار ، کوئی اسے ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا ، سوائے اللہ تعالیٰ کے ان فرشتوں کے جنہیں ہر قسم کی خیانت اور معصیت سے ہر طرح پاک پیدا کیا گیا ہے۔ ان پاک باز فرشتوں نے رب العالمین کی طرف سے اسے رسول اللہ ﷺ کے دل پر نازل فرمایا ہے۔ یہ نہ رسول اللہ ﷺ کی اپنی تصنیف ہے ، نہ کسی انسان یا دوسری مخلوق کا کلام ہے اور نہ شیاطین کا اس میں کوئی دخل ہوسکتا ہے ، بلکہ یہ ہر طرح کی حفاظت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والا کلام ہے۔”کتب مکنون“ سے مراد لوح محفوظ ہونے کی دلیل یہ آیت ہے ، فرمایا (بَلْ ھُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ) (الروج : 21، 22) ”بلکہ وہ ایک بڑی شان والا قرآن ہے۔ اس تختی میں (لکھا ہوا) ہے جس کی حفاظت کی گئی ہے۔“۔ مزید دیکھئے سورة ٔ عبس (11 تا 16) اور سورة ٔ شعرائ (192 تا 194) اور (210 تا 212) 2۔ یہ چاروں آیات ”فلا اقسم بمواقع النجوم“ کا جواب قسم ہیں۔ اس قسم اور جواب قسم کی مناسبت کے لیے سورة ٔ نجم کی ابتدائی آیات کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ 3۔ جیسا کہ آیت کی تفسیر ہوئی ، تو ”لا یمسہٗ الا المطھرون“ میں حدیث اصغر یا حدث اکبر کی صورت میں قرآن مجید کو ہاتھ لگانے یا نہ لگانے کا کوئی حکم بیان نہیں کیا گیا ، بلکہ یہ بات بیان فرمائی گئی ہے کہ قرآن مجید جس کتاب مکنون میں ہے اسے فرشتوں کے سوا کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ اس لیے جو اہل علم اس آیت سے یہ مسئلہ نکالتے ہیں کہ جنبی یا حائضہ یا بےوضو شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ قرآن مجید کو ہاتھ لگائے ، ان کی بات درست نہیں ، کیونکہ انسان جتنی بھی طہارت کرلے اس کے لیے فرشتوں جیسا مطہر بننا مشکل ہے۔ (الا ما شاء اللہ) 4۔ بہت سے اہل علم نے فرمایا کہ یہ مسئلہ قرآن مجید کی اس آیت سے نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ موطا امام مالک میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمرو بن حزم ؓ کو جو خط لکھ کردیا اس میں یہ بھی لکھا کہ ”لا یمس القرآن الا طاھر“ ”قرآن کو طاہر کے سوا کوئی ہاتھ نہ لگائے“۔ شیخ ناصر الدین البانی ؒ تعالیٰ نے ”ارواء الغلیل“ کی حدیث (22) میں اس حدیث کی تمام سندوں پر مفصل کلام کے بعد لکھا ہے :”خلاصہ یہ ہے کہ حدیث کے جتنے طرق ہیں کوئی بھی ضعیف سے خالی نہیں ، لیکن یہ معمولی ضعیف ہے ، کیونکہ ان میں سے کسی میں بھی ایسا راوی نہیں جس پر جھوٹ کی تہمت ہو ، علت صرف ارسال ہے یا سوئے حفظ اور اصول حدیث میں طے ہے کہ کئی سندیں ہوں تو وہ ایک دوسری کو قوت دیتی ہے ، جب ان میں کوئی مہتم شخص نہ ہو ، جیسا کہ نووی نے اپنی تقریب میں ، پھر سیوطی نے اس کی شرح میں قرار دیا ہے۔ اس کے مطابق دل کو اس حدیث کی صحت پر اطمینان ہوتا ہے۔۔۔۔“ (ارواء الغلیل) مگر یہ حدیث صحیح بھی ہو تو اس سے یہ مسئلہ ثابت نہیں ہوتا ، ہمارے استاذ محمد عبدہ لکھتے ہیں :”مگر یہ اپنے مفہوم میں صریح نہیں ہے ، کیونکہ اس کے معنی ”کفر و شرک“ سے پاک ہونے کے بھی سکتے ہیں ، کیونکہ مسلمان تو جنابت کی حالت میں بھی پاک ہی رہتا ہے۔”سبحان اللہ ان المومن لا ینجنس“ (اشرف الحواشی) استاذ مرحوم نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں : ”مجھے رسول اللہ ﷺ مدینہ کے کسی راستے میں ملے ، جب کہ میں جنابت کی حالت میں تھا۔ آپ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا ، میں آپ کے ساتھ چلتا رہا ، یہاں تک کہ آپ ﷺ بیٹھ گئے تو میں کھسک گیا ، گھر آیا ، غسل کیا ، پھر آیا تو آپ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے : فرمایا (ابن کنت یا ابھرا ؟) ”ابوہریرہ ! تم کہاں تھے ؟“ میں نے آپ کو بات بتائی تو آپ ﷺ نے فرمایا :(سبحان اللہ اباایا ھر ! ان المومن لایجنس) (بخاری ، الغسل ، باب الجنت یخرج۔۔۔۔۔ 285)”سبحان اللہ ! ابوہریرہ ! مومن تو نجس نہیں ہوتا“۔ حائضہ کے لیے نماز اور روزہ کی اجازت نہیں ، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا ہاتھ نجس ہے جسے وہ قرآن کو نہیں لگا سکتی ، چناچہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(ناولینی الخمرۃ من المسجد) ”مجھے مسجد سے چنائی پکڑاؤ“۔ میں نے کہا :”میں تو حائضہ ہوں“۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا :(ان حیضتک لیست فی یدیک) (مسلم الحیض ، باب جواز غسل الحائض راس اوجھا۔۔۔ 298)”تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں تو نہیں ہے“۔ ابوہریرہ ؓ نے بیان فرمایا :”ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تھے ، آپ نے فرمایا :(یا عائشہ ! ناولینی الثوب)”اے عائشہ ! مجھے کپڑا پکڑاؤ“۔ انہوں نے کہا : ”میں حائضہ ہوں“۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا :(ان حیضتک لیست فی یدک) ”تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں تو نہیں“۔ تو انہوں نے آپ کو وہ کپڑا پکڑا دیا“۔ (مسلم ، الحیض ، باب جواز غسل الحائض راس روجھا۔۔۔۔: 299) شیخ ناصر الدین البانی نے ”تمام المنۃ“ کے ”باب ما یجب بہ الوضوئ“ میں فرمایا :’ تو زیاہ قریب بات (واللہ اعلم) یہ ہے کہ اس حدیث میں ”طاہر“ سے مراد مومن ہی ہے ، خواہ وہ حدث ِ اکبر (جنابت) کی حالت میں ہو یا حدث ِ اصغر (بےوضو ہونے) کی حالت میں ، یا حائضہ ہو یا اس کے جسم پر کوئی نجاست لگی ہو، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(ان المومن لا یجنس) ”مومن نجس نہیں ہوتا“۔ اس حدیث کی صحت پر اتفاق ہے اور ”لا یمس القرآن الا طاہر“ کا مطلب یہ ہے کہ مشرک کو اسے ہاتھ لگانے کی اجازت نہ دی جائے۔ چناچہ یہ اس حدیث ہی کی طرح ہے جس میں ہے : (لھی ان یسافر بالقرآن الی الارض العدو)”آپ ﷺ نے دشمن کی سر زمین کی طرف قرآن لے کر سفر کرنے سے منع فرمایا“۔ یہ حدیث بھی متفق علیہ ہے۔ اور شوکانی نے ”نیل الاوطار“ (با ب الجاب الوضوء للصلاۃ والطواف ومس المصحف) میں اس مسئلے پر تفصیل سے کلام کیا ہے ، اگر زیادہ تحقیق چاہو تو اس کی طرف مراجعت کرو“۔ اور ”تمام المنۃ“ کے ”باب ما یحرم علی الجنب“ میں لکھتے ہیں :”والبراء ۃ الا صلیۃ مع الذین قالوا بجواز مس القرآن من المسلم الجنب ولیس فی الباب نقل صحیح یجیزا لخروج عننھا“ یعنی ”یہ قاعدہ کہ جس کام کی ممانعت نہ ہو اس میں اصل یہی ہے کہ وہ جائز ہے ، ان لوگوں کی تائید میں ہے جو کہتے ہیں کہ مسلمان جنبی بھی ہو تو قرآن کو ہاتھ لگا سکتا ہے اور اس مسئلہ میں کوئی صحیح حدیث نہیں جس کی وجہ سے اسے اس سے خارج کیا جاسکے“۔
Top