Urwatul-Wusqaa - Al-Waaqia : 77
اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِیْمٌۙ
اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ : بیشک وہ البتہ ایک قرآن ہے كَرِيْمٌ : عزت والا
بلاشبہ یہ قرآن کریم ہے
بلاشبہ یہ قرآن کریم ہے 77 ۔ کلام جو محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل کیا جا رہا ہے اس کا نام قرآن ہے { قران } ن مصدر ہے یعنی پڑھنا اور کسی دوسری آسمانی کتاب کا نام قرآن نہیں ہے۔ جس طرح جزء بول کر کل مراد لے لیا جاتا ہے جیسے گردن سے ذات انسانی اور اس طرح رکوع ‘ سجود ‘ قیام اور قرآن بول کر پوری نماز بھی مراد لے لی جاتی ہے قرآن کی وجہ تسمہ کیا ہے ؟ اس کے متعلق اختلافات ہیں اور اس میں متعدد اقوال ہیں کسی نے کہا کہ قرء کے معنی جمع کرنا ہے۔ قرآن کتب سابقہ الٰہیہ کے حاصل اور مجموعہ کا نام ہے ۔ امام راغب (رح) نے فرمایا کہ قرآن تمام علوم کا مجوعہ ہے اور بعض نے کہا کہ یہ سورتوں کا مجموعہ ہے اسی لیے قرآن ہے۔ بہر حال اکثر لوگوں نے اس کا مفہوم بیان کرتے وقت جمع کا مفہوم پیش نظر رکھا ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں یہ وجہ تسمیہ صحیح نہیں ہے اس لیے کہ قرآن کریم کا نام سب سے پہلے سورة مزمل میں آیا ہے جو ترتیب نزول کیا عتبار سے تیسری سورت ہے یا زیادہ سے زیادہ پانچویں۔ آپ کہہ سکتے ہیں اور اس وقت تک نہ تو یہ سورتوں کا مجموعہ تھا اور نہ ہی کتب سابقہ کا نچوڑ اور ملخص۔ ہمارے خیال میں قرآن کہنے کی وجہ قرأت اور تلاوت ہے۔ اللہ کی کتاب عموماً جہر کے ساتھ پڑھی جانے والی ہے۔ اگر آپ غور کریں گے تو معلوم ہوجائے گا کہ آیت { ان علما جمعہ و قرانہ } سے ویسے بھی صاف ظاہر ہے کہ جمع قرآن سے قرأت قرآن الگ چیز ہے۔ (معجم القرآن) قرآن کریم کا کچھ حصہ مکی ہے کچھ مدنی یعنی 19/30 مکی ہے اور 11/30 مدنی ہے جو آپ ﷺ کی آخر عمر تک نازل ہوتا رہا اس لیے ہمارے خیال میں وہ وضاحت صحیح نہیں ہے۔ قرآن کریم کا ذکر آگیا ہے تو اس ناطہ سے یہ بیان کرنا بھی درست ہوگا کہ قرآن کریم چونکہ مکمل درس حیات ہے اس لیے تمام ضروریات زندگی کو واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ انسانی زندگی کی چند درچند شاخوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم کو قرآنی مضامین کے تنوع کے آٹ مظاہر نظرآتے ہیں جو کتابیں انسانی دماغ کی زائیدہ ہیں خصوصاً وسطی دور کی کتابیں ان کی طرح فصل بندی اور تبیب قرآن کی نہیں ہے۔ قرآن کریم کا رنگ خطابی بھی ہے ‘ برہانی بھی ‘ جدلی بھی ہے آئینی بھی اور تشریعی بھی ہے اور واعظانہ بھی لیکن ہر رنگ دوسرے رنگ سے اور ہر بیان دوسرے بیان سے مخلوط ہے جس طرح انسان کی ضروریات مخلوط ہیں اور بغیر تجربہ و تحلیل کے ان کی باہم وابستگی کو جدا جدا نہیں کیا جاسکتا اس طرح قرآن کریم کا تنوع بیان بھی محتاج تفصیل و تحلیل ہے ہم تحلیل کے بعد آٹھ قسم کے مضامین قرآن کریم میں پاتے ہیں (1) عقائد یعنی توحید ذات وصفات ایمان بالرسالت و ملائیکہ والبعث بعد الموت وغیرہ۔ (2) دینی فرائض نماز ‘ روزہ ‘ جج ‘ زکوٰۃ وغیرہ (3) اخلاقی احکام صدق ‘ عدل ‘ اھسان ‘ جود ‘ عدمایذا وغیرہ۔ (4) دینی اور اخروی وعدوعید (5) قرآن کریم پیش کر کے دعوت مقابلہ و مناظر۔ (6) گزشتہ قصص و حکایات عبرت آفرین کے لیے۔ (7) وعظ و ارشاد ‘ دانش آفرین حکمت اور اقوام عروج زوال کے ضوابط۔ (8) آئینی و تشریعی اور تشریعات کے چار حصے ہیں : (1) سیاسی و نظمی جیسے حکام کی اطاعت ‘ عہد و میشاق کی پابندی وغیرہ۔ (2) ضوابط فوجداری ‘ حدود و قصاص وغیرہ۔ (3) تمدنی قوانین ‘ سود ‘ میراث ‘ دصیت قرض وغرتہ کی دستاویز۔ (4) جنگی ضوابط ‘ جنگ کی تیاری ‘ آلاتِ جنگ کی فراہمی ‘ فوجی اسرار کی رازداری ‘ صلح اور صلح کی پابندی ‘ قیدیوں کا معاملہ ’ جاسوسوں سے اختیاط ‘ دشمنوں سے موالات کی ممانعت۔ یاد رہے کہ قرآن کریم جس طرح ایک مجموع کا نام ہے اسی طرح اجزائے قرآن کو بھی اسی وقت قرآن کہہ سکتے ہیں اور نزول کے زمانہ میں تو جتنا حصہ نازل ہو چکتا تھا اس کو قرآن ہی کہا جاتا تھا پورے قرآن کے نزول کا انتظار بھی رکھا تھا۔ اب چونکہ پورا قرآن ہمارے ہاتھوں میں ہے اس لیے پوری کتاب کا نام قرآن ہے لیکن کل کا اطلاق جزء پر مجاز اً کیا جاسکتا ہے۔ مختصر یہ کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔ قرآن کاہنوں کے قسم کا کوئی شیطانی القاء نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح کا گمان کرنا جائز اور درست ہے۔
Top