Tadabbur-e-Quran - Al-Waaqia : 77
اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِیْمٌۙ
اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ : بیشک وہ البتہ ایک قرآن ہے كَرِيْمٌ : عزت والا
بیشک یہ ایک با عزت قرآن ہے۔
(انہ لقراٰن کریم فی کتب مکنون لا یمسہ الا المطھرون تنزیل من رب العلمین) (77، 80) (قرآن شیطانی چھوت سے بالکل پاک ہے)۔ قسم کے بعد یہ مقسم علیہ ہے اور یہ حقیقت اپنی جگہ پر اچھی طرح واضح کی جا چکی ہے کہ قرآن مجید میں قسمیں شہادت کے طور پر کھائی گئی ہیں۔ گویا شیاطین پر سنگ باری اور آتش باری کے مذکورہ بالا انتظام کا حوالہ دے کر مخاطبوں کو متنبہ فرمایا کہ اس قرآن کو کاہنوں کے قسم کا کوئی شیطانی القاء نہ گمان کرو بلکہ یہ ایک نہایت با عزت اور برتر کلام ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے پاس ایک محفوظ کتاب میں ہے جس تک اس کے پاک فرشتوں کے سوا کسی کی بھی رسائی نہیں یعنی اس کو صرف ملائکہ مقربین ہی ہاتھ لگا سکتے ہیں، جنات اور شیاطین وہاں نہیں پھٹک سکتے۔ (تنزیل من رب العلمین) پس یہ گمان نہ کرو کہ جس طرح کی شیطانی وحی کاہنوں پر آتی ہے اسی طرح کی وحی العیاذ باللہ یہ قرآن بھی ہے۔ یہ القائے شیطانی نہیں بلکہ اللہ رب العالمین کا اتارا ہوا کلا ہے۔ اس کا سر چشمہ لوح محفوظ ہے جس تک ملائکہ مقربین کے سوا کسی کی بھی رسائی نہیں۔ اس کے لانے والے حضرت جبریل امین ؑ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے سب سے مقرب فرشتے ہیں اور شیاطین ان پر کسی پہلو سے بھی اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ اس کا نزول محمد ﷺ پر ہوا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے ضلات و سنوائت کے ہر شائبہ سے بالکل پاک رکھا ہے۔ (فقہاء کے بعض استنباط)۔ (لا یمسہ الا المطھرون) کے ٹکڑے سے ہمارے فقہاء نے طہارت کے بعض آداب بھی استنباط کیے ہیں جن کا اہتمام ان کے نزدیک قرآن مجید کو چھونے یا تلاوت کرتے وقت ضروری ہے، لیکن یہ آیت جس سیاق وسباق میں ہے اس سے واضح ہے کہ ان مسائل سے ان کو براہ راست تعلق نہیں ہے اس وجہ سے فقہاء کے استنباطات کو ان کو اپنے دلائل کی روشنی میں جانچ کرا دیا قبول کیجئے۔ یہ موضوع ہمارے دائرہ بحث سے الگ ہے اس وجہ سے ہم اس سے تعرض نہیں کریں گے بس اتنا عرض کریں گے کہ جن فقہاء نے قرآن کی زبانی تلاوت یا اس کو ہاتھ لگانے تک کے لیے بھی طہارت کی وہ شرطیں عائد کی ہیں جو نماز کے لیے ضروری ہیں انکے اقوال غلو پر مبنی ہیں۔ قرآن اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اس وجہ سے وہ ہر پہلو سے لائق تکریم ہے لیکن وہ ہمارے لیے ہر قدم پر حق و باطل اور خیر و شر کے جاننے کا ذریعہ اخذ و استنباط کا حوالہ اور استدلال کا مرکز بھی ہے۔ اگر اس کو ہاتھ لگانے یا اس کی کسی سورة یا آیت کی تلاوت کرنے یا حوالہ دینے کے لیے بھی آدمی کا طاہرو مطہر اور باوضو ہونا ضروری قرارپا جائے تو یہ ایک ایسی تکلیف مالا یطاق ہوگی جو دین فطرت کے مزاج کیخلاف ہے۔ اس طرح کی غیر فطری پابندیاں عائد کرنے سے قرآن کی تعظیم کا وہی تصور پیدا ہوگا جس کی تعبیر سیدنا مسیح ؑ نے یوں فرمائی ہے کہ تمہیں چراغ دیا گیا کہ اسکو گھر میں بلند جگہ رکھو کہ سارے گھر میں روشنی پھیلے لیکن تم نے اسکو پیمانے کے نیچے ڈھانپ کر رکھا ہے۔)
Top