Tafseer-e-Saadi - Al-Furqaan : 9
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا
وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنٰكَ : بھیجا ہم نے آپ کو اِلَّا مُبَشِّرًا : مگر خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈرانے والا
اور (اے محمد) ہم نے آپ کو صرف خوشی اور عذاب کی خبر سنانے کو بھیجا ہے
آیت 56 سے 60 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے رسول محمد ﷺ کو لوگوں پر داروغہ بنا کر بھیجا ہے نہ انہیں فرشتہ بنایا ہے اور نہ ان کے پاس چیزوں کے خزانے ہیں اس نے تو آپ کو صرف (مبشرا) ” خوشخبری سنانے والا “ بنا کر بھیجا ہے آپ اس شخص کو دنیاوی اور اخروی ثواب کو خوشخبری سناتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے (ونذیرا) ” اور ڈرانے والا۔ “ جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے اس کو دنیاوی اور اخروی سزا سے ڈراتے ہیں اور یہ اوامرونواہی میں سے ان امور کو تبیین کو مستلزم ہے جن کی بشارت دی گئی ہے اور جن سے انداز حاصل ہوتا ہے۔ اے محمد ! ﷺ آپ قرآن اور ہدایت پہنچانے پر ان سے کسی اجر کا مطالبہ نہیں کرتے کہ یہ چیز ان کو آپ کی اتباع کرنے سے روکتی ہو اور انہیں اس مالی بوجھ کی تکلیف اٹھانی پڑتی ہو۔ (الا من شاء ان یتخذ الی ربہ سبیلا) ” مگر جو چاہیے یہ کہ وہ اپنے رب کی طرف کوئی راستہ پکڑے۔ “ یعنی سوائے اس شخص کے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس کی رضا کی خاطر کچھ خرچ کرنا چاہتا ہے، تو اس بارے میں بھی میں تمہیں ترغیب دیتا ہوں لیکن تمہیں اس پر مجبور نہیں کرتا اور تمہارے ذمے میرا کوئی اجر نہیں، یہ تو تمہاری اپنی مصلحت اور تمہارے رب کے پاس پہنچانے والے راستے پر تمہارا گامزن ہونا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپن رب پر بھروسہ کرنے اور اسی سے مدد مانگنے کا حکم دیا، فرمایا : (و توکل علی الحی) ” اور اس زندہ پر بھروسہ کیجئے۔ “ یعنی اس ہستی پر بھروسہ کیجئے جس کے لئے کامل اور مطلق زندگی ہے (الذی لا یموت وسبحع بحمدہ) ” جو کبھی نہیں مرے گا اور اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہیے۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کیجئے اور اپنی ذات اور مخلوق سے متعلق عام امور کے بارے میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجئے۔ (وکفی بہ بذنوب عبادہ خبیرا) ” اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے خبر رکھنے کے لئے کافی ہے۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے گناہوں سے خبردار ہے وہ انہیں ان گناہوں کی سزا دے گا۔ ان کی ہدایت کی ذمہ داری آپ پر ہے نہ ان کے اعمال کی حفاظت آپ کا فرض ہے۔ یہ تمام امور صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں (الذی خلق السموات والارض وما بینھما فی ستۃ ایام ثم استوی) ” جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے چھ دن میں پیدا کیا پھر وہ مستوی ہوا۔ “ یعنی ان امور کے بعد (علی العرش) ” عرش پر “ وہ جو تمام مخلوقات کے لئے چھت ہے اور تمام مخلوقات سے بلند، سب سے وسیع اور سب سے خوبصورت ہے۔ (الرحمن) ” وہ رحم کرنے والا ہے “ جس کی بےپایاں رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اپنی سب سے زیادہ وسیع صفت کے ساتھ مخلوقات میں سے سب سے زیادہ وسیع مخلوق پر مستوی ہوا۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا، اوہ ان کے تمام ظاہر و باطن کی اطلاع رکھتا ہے، وہ عرش کے اوپر مستوی اور تمام مخلوق سے جدا ہے۔ (فسئل بہ خبیرا) ” تو اس کا حال کسی باخبر سے دریافت کر۔ “ اس سے اللہ تعالیٰ نے اپنی ہی ذات کریمہ مراد لی ہے۔ وہی ہے جو اپنے تمام اوصاف اور اپنی عظمت و جلال کا علم رکھتا ہے اور اس نے تمہیں اپنے بارے میں آگاہ فرمادیا ہے اور اس نے تمہارے سامنے اپنی عظمت بیان کردی ہے۔ جس کے ذریعے سے تم اس کی معرفت حاصل کرسکتے ہو۔ عارف اس کی معرفت حاصل کرکے اس کے سامنے سرافگندہ ہوگئے اور کفار نے اس کی عبادت سے تکبر کیا اور اس کو عار گردانتے ہوئے اس سے اعراض کیا۔ بنا بریں فرمایا : (واذا قیل لھم اسجدوا للرحمن) ” جب ان (کفار) سے کہا جاتا ہے کہ رحمان کر سجدہ کرو۔ “ یعنی صرف رحمن کے سامنے سجدہ ریز ہوجاؤ جس نے تمہیں تمام نعمتوں سے نواز رکھا ہے اور تم سے تمام سختیوں کو دور کیا ہے (قالوا) ” تو انہوں نے (انکار کرتے ہوئے) کہا :“ (وما الرحمن) ” اور رحمان کیا ہے ؟ “ یعنی وہ اپنے زعم فاسد کے مطابق کہتے ہیں کہ وہ ” رحمن “ کو نہیں پہنچانتے۔ رسول ﷺ کے بارے میں ان کی جملہ جرح وقدح یہ بھی ہے کہ وہ انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی عبادت سے روکتا ہے اور خود اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک اور معبود کو پکارتا ہے اور کہتا ہے (یارحمن) جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (قل ادعوا اللہ او ادعوا الرحمن ایاما تدعوا فلہ الاسماء الحسنی) (بنی اسرائیل : 18/110) ” کہہ دیجیے کہ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمان کہہ کر پکارو۔ اسے جس نام سے بھی پکارو اس کے سب نام بہت اچھے ہیں۔ “ اللہ تعالیٰ کے کثرت اوصاف اور تعدد کمال کی بنا پر اس کے نام بی بکثرت ہیں، چناچہ اللہ تعالیٰ کا ہر نام اس کی ایک صفت کمال پر دلالت کرتا ہے۔ (انسجد لما تامرنا) ” کیا جس کے لئے تم ہمیں کہتے ہو کہ ہم اس کے آگے سجدہ کریں ؟ “ یعنی مجرد تیرے حکم دینے سے اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں۔ ان کا یہ قول رسول ﷺ کی تکذیب اور اللہ کی اطاعت کے بارے میں ان کے تکبر پر مبنی ہے۔ (وزادھم) ” اور زیادہ کیا ان کو “ یعنی رحمن کو سجدہ کرنے کی دعوت نے (نفوزا) ” بدکنے میں “ یعنی ان کے حق سے باطل کی طرف بھاگنے نے ان کے کفر اور ان کی بدبختی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
Top