Al-Qurtubi - Al-Furqaan : 9
اُنْظُرْ كَیْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلًا۠   ۧ
اُنْظُرْ : دیکھو كَيْفَ : کیسی ضَرَبُوْا : انہوں نے بیان کیں لَكَ : تمہارے لیے الْاَمْثَالَ : مثالیں (باتیں) فَضَلُّوْا : سو وہ بہک گئے فَلَا : لہٰذا نہ يَسْتَطِيْعُوْنَ : پاسکتے ہیں سَبِيْلًا : کوئی راستہ
(اے پیغمبر ﷺ دیکھو تو یہ تمہارے بارے میں کس کس طرح باتیں کرتے ہیں سو گمراہ ہوگئے اور راستہ نہیں پاسکتے
انظر کیف ضربوا۔۔۔۔۔۔ ) انظر کیف ضربوا لک الا مثال انہوں نے آپ ﷺ کے لیے یہ امثال بیان کیں تاکہ وہ آپ کو جھٹلانے تک پہنچ سکیں۔ فضلوا وہ حق کے راستہ اور جس کا انہوں نے ارادہ کیا اس تک پہنچنے سے گمراہ ہوگئے۔۔ فلا یستطیعون سبیلا انہوں نے جو کچھ آپ کے متعلق کہا اس کی صحت تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں پاتے۔ تبرک الذی ان شاء جعل لک خیرا من ذلک جنت یہ کلام شرط و جزا ہے۔ جعل لک میں ادغام نہیں کیا کیونکہ دونوں کلمے منفصل ہیں دو ہم مثل حروف کے اجتماع سے ادغام جائز ہوتا ہے۔ ویجعل لک محل جزم میں ہے اس کا عطف جعل کے محل پر ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ محل رفع میں ہو جب کہ ما قبل سے اس کو قطع کردیا گیا ہو، اہل شام نے اسی طرح قرات کی ہے، عام سے بھی اسی طرح مروی ہے ویجعل لک مرفوع ہے یعنی وسیجعل لک فی الاخرۃ قصورا وہ تیرے لیے آخرت میں محلات بنا دے۔ مجاہد نے کہا : قریش پتھر کے بنے گھر کو قصر کہتے خواہ وہ کیسا ہوتا۔ لغت میں قصر کا معنی روکنا ہے، محل کو قصر اس لیے کہتے ہیں کیونکہ اس میں جو ہوتا ہے اس تک پہنچنے سے روک دیا جاتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : عرب مٹی کے گھروں کو قصر کہتے ہیں اور اون اور جانوروں کے بالوں سے بنے گھر کو بیت کہتے، قشیری نے اس کا ذکر کیا ہے۔ سفیان نے حبیب بن ابی ثابت انہوں نے خیثمہ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم ﷺ سے کہا گیا : اگر آپ ﷺ چاہیں تو ہم آپ کو دنیا کے خزانے اور ان کی چابیاں دے دیں جو آپ ﷺ سے پہلے کسی کو نہیں دیئے گئے اور نہ آپ کے بعد کسی کو دیئے جائیں گے اور یہ آخرت میں آپ کے اجر میں کوئی کمی کرنے والے نہ ہوں گے اور اگر آپ چاہیں تو ہم اسے آخرت میں آپ کے لیے جمع کردیں۔ نبی کریم ﷺ نے عرض کی : ” یہ آخرت میں میرے لیے جمع کردیئے جائیں “ تو اللہ تعالیٰ نے اسے نازل فرمایا : تبرک الذی ان شاء جعل لک خیرا من ذلک جنت تجری من تحتھا الانھر ویجعل لک قصورا۔ (1) یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ یہ آیت جننتوں کے خازن نبی کریم ﷺ تک لائے۔ حدیث میں ہے : رضوان جب نازل ہوئے تو نبی کریم ﷺ کو سلام پیش کیا پھر کہا : اے محمد ! ﷺ رب العزت تجھے سلام فرماتا ہے یہ ڈبیہ ہے۔ وہ نور کی ایک ڈبیہ تھی جو چمک رہی تھی۔ آپ کا رب آپ کو فرماتا ہے : یہ دنیا کے خزانوں کی چابیاں ہیں جب کہ آخرت میں مچھر کے پر کے برابر بھی آپ ﷺ کے اجر میں کمی نہیں کی جائے گی۔ نبی کریم ﷺ نے مشورہ کے ارادہ سے حضر جبریل امین کی طرف دیکھا، حضرت جبرئیل امین نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا مقصد تواضع اختیار کرنے کا مشورہ دینا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” اے رضوان ! مجھے اس کی ضرورت نہیں فقر مجھے زیادہ محبوب ہے اور مجھے یہ زیادہ محبوب ہے کہ میں صابر و شکر گزار بندہ بنوں “۔ رضوان نے عرض کی : آپ نے صحیح فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ آپ کا ہے۔
Top