Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 251
فَهَزَمُوْهُمْ بِاِذْنِ اللّٰهِ١ۙ۫ وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَهٗ مِمَّا یَشَآءُ١ؕ وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ١ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
فَهَزَمُوْھُمْ
: پھر انہوں نے شکست دی انہیں
بِاِذْنِ اللّٰهِ
: اللہ کے حکم سے
وَقَتَلَ
: اور قتل کیا
دَاوٗدُ
: داود
جَالُوْتَ
: جالوت
وَاٰتٰىهُ
: اور اسے دیا
اللّٰهُ
: اللہ
الْمُلْكَ
: ملک
وَالْحِكْمَةَ
: اور حکمت
وَعَلَّمَهٗ
: اور اسے سکھایا
مِمَّا
: جو
يَشَآءُ
: چاہا
وَلَوْ
: اور اگر
لَا
: نہ
دَفْعُ
: ہٹاتا
اللّٰهِ
: اللہ
النَّاسَ
: لوگ
بَعْضَهُمْ
: بعض لوگ
بِبَعْضٍ
: بعض کے ذریعہ
لَّفَسَدَتِ
: ضرور تباہ ہوجاتی
الْاَرْضُ
: زمین
وَلٰكِنَّ
: اور لیکن
اللّٰهَ
: اللہ
ذُوْ فَضْلٍ
: فضل والا
عَلَي
: پر
الْعٰلَمِيْنَ
: تمام جہان
تو بنی اسرائیل نے انھیں اللہ کے حکم سے شکست دی اور دائود نے جالوت کو قتل کردیا اور اللہ نے اسے بادشاہی اور حکمت عطا کی۔ اور اسے اس علم میں سے سکھایا جس میں سے وہ چاہتا ہے اور اگر اللہ ایک کو دوسرے کے ذریعہ سے دفع نہ کرتا رہتا تو زمین فساد سے بھر جاتی۔ لیکن اللہ دنیا والوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے
فَھَزَمُوْہُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ قف لا وَقَتَلَ دَاؤُدُ جَالُوْتَ وَاٰ تٰـہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآئُ ط وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لا لَّـفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ ذُوْفَضْلٍ عَلَی الْعٰـلَمِیْنَ ۔ (تو بنی اسرائیل نے انھیں اللہ کے حکم سے شکست دی اور دائود نے جالوت کو قتل کردیا اور اللہ نے اسے بادشاہی اور حکمت عطا کی۔ اور اسے اس علم میں سے سکھایا جس میں سے وہ چاہتا ہے اور اگر اللہ ایک کو دوسرے کے ذریعہ سے دفع نہ کرتا رہتا تو زمین فساد سے بھر جاتی۔ لیکن اللہ دنیا والوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے) (251) اس آیت کریمہ میں مختلف باتیں ارشاد فرمائی گئیں ہیں۔ لیکن وہ تمام کی تمام سیاق کلام سے مربوط اور موضوع سے مطابق ہیں۔ اصل قوت اللہ پر بھروسہ ہے فَھَزَمُوْہُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِپہلی بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ معروضی حقائق پر نگاہ رکھنے والے اپنی فوج کی قلت اور دشمن کی فوج کی کثرت کو دیکھ کر سوچ رہے تھے کہ اس بےجوڑ مقابلے کا انجام کیا ہوگا۔ لیکن جن لوگوں کو اللہ کی ذات اور اس کی قدرتوں پر بےپناہ توکل تھا وہ پکار اٹھے کہ فتح و شکست کا تعلق قلت و کثرت سے نہیں بلکہ اللہ کی تائید و نصرت اور عدم نصرت پر ہے۔ ہم چونکہ اس کے راستے میں اس کے سپاہی بن کر اسی کے دین کی سربلندی کے لیے پوری آمادگی اور وفاداری کے ساتھ نکلے ہیں تو ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم نے دشمن کے مقابلے میں صبر کے تقاضوں کو پورا کیا تو وہ ضرور ہمیں فتح عطا فرمائے گا۔ چناچہ اس آیت کریمہ کے آغاز ہی میں فرمایا کہ جنھیں دنیا قلیل اور کمزور سمجھ رہی تھی انھوں نے طاقتوروں کو شکست دے دی۔ یعنی طالوت کی فوج نے جالوت اور اس کے عظیم لشکر کو ایسی شکست فاش دی کہ وہ لوگ سر پر پائوں رکھ کر بھاگے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یقین و ایمان سے سرشار لوگوں نے جو بات کہی تھی وہ سچ ثابت ہوئی۔ اور عمل کی دنیا میں یہ بات تاریخ کا حصہ بن گئی کہ یہ محض مفروضے نہیں ہیں کہ اصل قوت اللہ پر توکل اور مشکلاتِ راہ پر صبر کرنا ہے ‘ یعنی حوصلہ ‘ سیرت و کردار اور یقین و ایمان وہ اسلحہ جنگ ہے جس کے مقابلہ میں بڑی سے بڑی فوج اور جدید ترین اسلحہ بھی شکست کھا جاتا ہے۔ حضرت دائود (علیہ السلام) کا حیرت انگیز کارنامہ اور آپ کی پُرافتخار زندگی کا آغاز وَقَتَلَ دَاؤُدُ جَالُوْتَ دوسری بات اس آیت کریمہ میں یہ کہی گئی کہ اس معرکہ حق و باطل میں صرف یہی ایک حیران کن حقیقت معرض وجود میں نہیں آئی کہ قلت نے کثرت کو شکست دے دی ‘ بلکہ اس سے بھی حیران کن بات یہ ہوئی کہ دائود نے جالوت کو قتل کر ڈالا۔ جالوت ایک گرانڈیل جوان ‘ تجر بہ کار جنگجو ‘ اپنے وقت کا ناقابل تسخیر جرنیل اور جنگی حکمتوں سے بہ تمام و کمال آشنا اور اس کے مقابلے میں دائود ایک نو خیز ‘ الھڑ اور ناتجربہ کار نوجوان جسے صرف بھیڑیں چرانے کا تجربہ ہے۔ اس نے اس سے پہلے شاید کسی جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اس جنگ کے وقت بھی وہ کسی چراگاہ میں اپنے مویشی چرا رہا تھا اور اس کی کم عمری کے باعث اسے جنگ میں بھیجا نہیں گیا تھا بلکہ اس کے باپ نے اس کو حکم دیا کہ تم اپنے بڑے بھائیوں کو جو طالوت کی فوج میں شریک ہیں کھانے کی کوئی چیزیں دے آئو۔ دائود وہ کھانے کی چیزیں لے کر میدانِ جنگ میں پہنچا تو جالوت مبارزت طلب کر رہا تھا اور بار بار طالوت اور اس کی فوج کو اپنے مقابلے کی دعوت دے رہا تھا۔ لیکن اس کی بہادری اور اس کے تن و توش کو دیکھ کر کوئی اس کے مقابلے میں جانے کی جرأت نہیں کر رہا تھا۔ جب دائود نے یہ منظر دیکھا تو اس کی غیرت جوش میں آئی۔ بےساختہ طالوت کے پاس پہنچا اور کہا اس نامختون فلسطینی کی یہ مجال کہ وہ زندہ خدا کی فوجوں کو رسوا کرے۔ آپ مجھے اجازت دیجئے میں اس کا مقابلہ کرنے کو تیار ہوں۔ طالوت نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا کہ وہ ایک نوخیز ‘ خوش رو اور خوش قامت نوجوان ہے۔ اس کی کم عمری اور نا تجربہ کاری کے باعث اسے کس طرح ایک ایسے جنگجو کے مقابلے میں بھیجا جاسکتا ہے جو سر سے پائوں تک لوہے میں ڈوبا ہوا ہے۔ لیکن حضرت دائود کے جوش و جذبہ کو دیکھتے ہوئے انھوں نے اجازت دے دی۔ دائود اپنے اسی چرواہے کے لباس میں فلاخن اٹھائے اس کے مقابلے میں جاپہنچے۔ اس نے دیکھا کہ ایک نوعمر چرواہا میرے سامنے آکھڑا ہوا ہے تو اس نے اس کا مذاق اڑایا۔ حضرت دائود نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ باتوں میں زچ ہو کر جالوت نے غضب ناک ہو کر کہا کہ دیکھ ابھی میں تیرا گوشت چیلوں اور کو وں کو کھلاتا ہوں۔ غصے میں لال بگوکا ہو کر دیوانوں کی طرح آگے بڑھا۔ لیکن حضرت دائود نے اپنے فلاخن میں پتھر رکھ کر اس زور سے نشانہ باندھ کے مارا کہ وہ پتھر اس کے سر سے چپک کر رہ گیا۔ پتھر کی چوٹ اور اس کی تیزی کی قوت نے اس کے پائوں اکھاڑ دیے اور وہ دھڑام سے زمین پر آرہا۔ اس غیر معمولی اور حیرت انگیز طریقے سے ایک مشہور و معروف جنگی پہلوان اور جرنیل کا مارا جانا ایسا واقعہ نہیں تھا کہ فوج اس سے اثر قبول نہ کرتی۔ فوج نے جیسے ہی دیکھا کہ ایک نوخیز لڑکے نے ہمارے جرنیل کو قتل کردیا ہے تو وہ سراسیمہ ہو کر بھاگے اور میدان خالی ہوگیا۔ بنی اسرائیل کا جالوت اور اس کی فوجوں کو شکست دینے کا اصل سبب حضرت دائود کی معجزانہ جسارت اور شجاعت تھی۔ دائود اور بنی اسرائیل کی فتح کے نتیجے میں جہاں بنی اسرائیل کی تاریخ نے ایک نئی کروٹ لی اور جغرافیہ تبدیل ہونا شروع ہوا وہیں حضرت دائود کی زندگی میں بھی ایک حیرت انگیز انقلاب آیا۔ اب تک آپ عام چرواہوں کی طرح ایک چرواہا تھے۔ لیکن اس واقعے نے ان کی شہرت اور ان کی عظمت میں چار چاند لگا دیے۔ تورات کی روایت کے مطابق عورتوں نے یہ گیت گایا کہ (سائول نے ہزاروں کو مارا پر دائود نے لاکھوں کو مارا) یہی واقعہ ان کی حقیقی شناخت کا سبب بنا۔ اسی حیرت انگیز کارنامے نے انھیں طالوت کی نظروں کا تارا بنادیا۔ پہلے طالوت نے انھیں اپنا مقرب بنایا اور فوج میں اہم ذمہ داریاں تفویض کیں ‘ اس کے بعد انھیں اپنا داماد بنایا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی صلاحیتیں نکھرتی گئیں۔ حضرت طالوت کے انتقال کے بعد اللہ نے انھیں ملک کی حکومت دے دی۔ یہ دنیا کے حیرت انگیز واقعات میں سے ایک واقعہ ہے کہ ایک چرواہا چند ہی سالوں میں ملک کے تخت و تاج کا مالک بن گیا۔ خود حضرت دائود کا اپنے بارے میں یہ قول مشہور ہے کہ ” خداوند نے مجھے بھیڑ سالے سے نکالا اور اسرائیل کے تخت پر لا بٹھایا۔ “ حکمت و دانش وَعَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآئُ اسی پر بس نہیں بلکہ اس کے بعد اللہ نے اس سے بڑھ کر انعام و اکرام سے نوازا کہ آپ کو نبوت عطا فرمائی ‘ آپ کو حکمت کا خزانہ بخشاجس کا مظہر زبور ہے۔ اور پھر آپ کو وہ کچھ سکھایا جو ہمیشہ وہ اپنے بندوں کو سکھاتا ہے۔ یہ زندگی کی وہ حقیقتیں ہیں ‘ سیرت و کردار کی وہ عظمتیں ہیں ‘ علم و دانش کے وہ بلند آفاق ہیں جن کے پیچھے صرف پیغمبر جھانک سکتا ہے۔ دنیا سے بےنیازیاں اور آخرت سے آشنائیاں ہیں جس کے نتیجے میں تخت پر فائز حکمران ساری عظمتوں کے باوجود اپنے آپ کو ایک فقیر سے زیادہ نہیں سمجھتے اور دل دماغ اور سیرت و کردار کی یہ وہ عظمت ہے جس کے حامل دنیا میں انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ اللہ نے پیغمبر بھیجے اور اس سے دنیا کی اصلاح فرمائی ‘ بادشاہ پیدا کیے جس سے دنیا کا انتظام و انصرام کیا ‘ لیکن وہ علم و دانش جو پیغمبر لیکر آتے ہیں اور وہ اقتدار جو بادشاہوں سے وابستہ ہوتا ہے ان دونوں کی یکجائی کی صورت کم کم رہی ہے۔ دوسری قومیں چونکہ اس سے بہت کم آشنا ہوئی ہیں اس لیے انھوں نے دنیاکو مذہب سے بیگانہ کردیا۔ ان میں اگر اس یکجائی کی مثالیں ہیں تو وہ حضرت طالوت ‘ دائود اور حضرت سلیمان (علیہم السلام) ہیں۔ لیکن وہ صحرا نشین پیغمبر جو دنیا کے سب سے پسماندہ علاقے سے اٹھا اس نے حیرت انگیز طریقے سے اللہ کی راہنمائی میں ان دونوں قوتوں کو اس طرح یکجا کیا کہ جس نے تاریخ کے مختلف ادوار میں ہمیں ابوبکر و عمر ‘ عثمان و علی ؓ اور عمر بن عبدالعزیز کے راستے پر چلنے والے بہت سے حکمران دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے فقر و سلطنت کو اس طرح جمع کیا کہ وہ اللہ کی رحمت کا ذریعہ بن گئے۔ اقبال نے آنحضرت ﷺ کے اسی کارنامے کو دوسروں پر تعریض کرتے ہوئے بڑی حقیقت بیانی سے واضح کیا ہے۔ کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی سماتی کہاں اس فقیری میں میری سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑایا چلی کچھ نہ پیر کلیسا کی پیری یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشیں کا فقیری ہے آئینہ دار نذیری فلسفہ جہاد اور اس کی ضرورت وَلَوْلاَ دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لا لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ ذُوْفَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ آیت کریمہ کے اس حصے میں جہاد کی ضرورت اور اس کا فلسفہ بیان ہوا ہے۔ انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ دوسروں پر غلبہ ‘ بڑائی اور حکومت قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ افراد بھی آپس میں اپنی بڑائی اور عظمت منوانے کی کوشش کرتے ہیں اور انسانوں کے گروہ بھی اپنے علاقوں میں دوسرے گروہوں پر غلبہ حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں اور مختلف حکومتیں دوسری حکومتوں سے اپنی عظمت کو منوانے یا ان پر قبضہ کرنے کی تدابیر بروئے کار لاتی رہتی ہیں۔ اس کشمکش میں یقینا کوئی نہ کوئی گروہ دوسرے گروہوں پر غالب آجاتا ہے۔ اگر تو غالب آنے والا گروہ مصلح ‘ حق پسند ‘ عادل اور اللہ سے ڈرنے والا ہے تو دنیا خیر اور بھلائی کا گہوارا بن جاتی ہے اور اس میں رہنے والے آرام کی زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن اگر کسی خطے میں حکومت پر براجمان لوگ مفسد ‘ خواہش نفس کے پجاری ‘ ہوس زر اور ہوس اقتدار کے پرستار ہوتے ہیں تو وہ ملک بدی اور برائی کا مرکز بن جاتا ہے۔ اس کے رہنے والے آئے دن نئے نئے مظالم کا شکار ہوتے ہیں۔ دنیا دکھوں سے بھر جاتی ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں اللہ سے ڈرنے والے اور دوسروں کا بھلا چاہنے والے کم ہوتے ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری تو ایسی خطرناک ذمہ داری ہے کہ اس پر فائز ہونے والے لوگ اقتدار سے پہلے اگر نیک ہوتے ہیں تو اقتدار میں آ کر یکسر بدل جاتے ہیں۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں عموماً ایسی حکومتیں یا ایسے لوگ برسر اقتدار رہتے ہیں جو دنیا میں اصلاح کے عمل کو بروئے کار لانے کے بجائے فساد کو پھیلانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ دولت و حکومت کی کسی حد پر بھی ان کو اطمینان نہیں ہوتا۔ ان کی ہوس ہمیشہ انھیں آگے بڑھنے پر اکساتی ہے۔ وہ اپنی خود غرض طبیعت کے باعث ایثار و قربانی سے یکسر بےنیاز ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ خیر سے آگاہی ‘ انسانیت سے محبت اور اللہ کا خوف پیدا کرنے کے لیے دنیا میں عموماً پیغمبر بھیجتا رہتا ہے۔ پیغمبروں پر ایمان لانے والے دعوت و نصیحت سے خیر کو پھیلانے اور شر کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اگر شر کی قوتیں اتنی توانا ہوجاتی ہیں کہ خیر کا کوئی داعی اور بھلائی کا کوئی مرکز ان کی دسترس سے محفوظ نہیں رہتا اور ان کی سرکشی تمام حدود سے گزر جاتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی دوسری سنت حرکت میں آتی ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کی کمزوریوں کے باوجود ان کو جہاد و قتال کا حکم دیتا ہے اور شر کی قوتوں کو سرنگوں کرنے کے لیے ان کی تائید و نصرت فرماتا ہے۔ کسی بھی خطہ زمین پر اگر کوئی بھی حق کا گروہ صبر و استقامت کی تصویر بن کر اللہ پر توکل کرتے ہوئے شر کی قوتوں کی سرکوبی کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ضرور مدد کرتے ہیں اور اسے فتح و نصرت سے نوازتے ہیں۔ وہ تھوڑے بھی ہوتے ہیں تو بڑے بڑے گروہوں پر غالب آجاتے ہیں۔ لیکن اگر حق کی کوئی قوت بھی سر اٹھانے کی جرأت نہیں کرتی اور وہ شر سے دب کر خاموش رہتی یا اس سے سمجھوتا کرلیتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کا عذاب آتا ہے اور سب کو تباہ و برباد کردیا جاتا ہے۔ حضرت سموئیل پر ایمان لانے والے طالوت کی قیادت میں چونکہ خیر کی قوت بن کر شر کی سرکوبی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے تو اللہ نے ان کی مدد فرمائی۔ اور ان کو فتح سے ہمکنار کیا اور پھر اپنی سنت کو واضح فرمایا کہ طالوت اور اس کی فوج کو کامیابی عطا کرنا کوئی خصوصی واقعہ نہیں بلکہ یہ ہماری ایک مستقل سنت اور قانون ہے۔ جب بھی ہمارے راستے میں کوئی بھی خیر کی قوت ہم سے مدد مانگے گی تو ہم کبھی اسے مایوس نہیں کریں گے۔ کیونکہ اگر ہم خیر کی قوتوں کی مدد نہ کریں اور شر کی قوتوں کو منہ زور ہونے دیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہماری زمین فساد سے بھر جائے گی۔ ہم مفسد قوتوں کو ایک خاص حد تک ہی بڑھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ جب وہ تمام حدود سے تجاوز کرنے لگتے ہیں تو پھر ہم پسے ہوئے اور کمز ور لوگوں کو اٹھاتے ہیں اور یا ہم عذاب نازل کردیتے ہیں۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو قرآن کریم میں ارشاد کے مطابق ” کوئی عبادت خانہ اور کوئی خیر کا مرکز مسمار ہونے سے محفوظ نہ رہے اور کہیں بھی اللہ کا ذکر نہ کیا جاسکے “ لیکن یہ چیز چونکہ ہماری سنت کے خلاف ہے اس لیے ہم اس کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرتے اور اس صورت حال کو بدلنے کے لیے ہم جہاد و قتال کا حکم دیتے ہیں۔ بظاہر جہاد میں گردنیں اترتی ہیں ‘ بازو کٹتے ہیں ‘ خون بہتا ہے ‘ لیکن حقیقت میں یہ اللہ کا فضل و احسان ہے کہ جو اس راستے میں کام آتے ہیں وہ شہادت کے خلعت فاخرہ سے نوازے جاتے ہیں۔ لیکن ان کی قربانیوں کے نتیجے میں دنیا تباہی سے بچ جاتی ہے۔ اللہ کا یہ قانون ایک تشریعی قانون ہے۔ لیکن درحقیقت اس کے تکوینی قانون کا عکس ہے۔ کیونکہ جس سرزمین میں جھاڑ جھنگاڑ بڑھ جاتا ہے اسے اکھاڑ دیا جاتا ہے۔ پھول کے ساتھ بھی کانٹا ہوتا ہے لیکن کانٹوں کا بڑھ جانا فطرت کبھی گوارا نہیں کرتی۔ یہی انسانی زندگی میں بھی ہوتا ہے۔ سچ کہا سالک نے ؎ چھٹیں جو چند ڈالیاں نمو ہو نخل تاک کی کٹیں جو چند گردنیں تو قوم کی ہو زندگی شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
Top