Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 251
فَهَزَمُوْهُمْ بِاِذْنِ اللّٰهِ١ۙ۫ وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَهٗ مِمَّا یَشَآءُ١ؕ وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ١ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
فَهَزَمُوْھُمْ
: پھر انہوں نے شکست دی انہیں
بِاِذْنِ اللّٰهِ
: اللہ کے حکم سے
وَقَتَلَ
: اور قتل کیا
دَاوٗدُ
: داود
جَالُوْتَ
: جالوت
وَاٰتٰىهُ
: اور اسے دیا
اللّٰهُ
: اللہ
الْمُلْكَ
: ملک
وَالْحِكْمَةَ
: اور حکمت
وَعَلَّمَهٗ
: اور اسے سکھایا
مِمَّا
: جو
يَشَآءُ
: چاہا
وَلَوْ
: اور اگر
لَا
: نہ
دَفْعُ
: ہٹاتا
اللّٰهِ
: اللہ
النَّاسَ
: لوگ
بَعْضَهُمْ
: بعض لوگ
بِبَعْضٍ
: بعض کے ذریعہ
لَّفَسَدَتِ
: ضرور تباہ ہوجاتی
الْاَرْضُ
: زمین
وَلٰكِنَّ
: اور لیکن
اللّٰهَ
: اللہ
ذُوْ فَضْلٍ
: فضل والا
عَلَي
: پر
الْعٰلَمِيْنَ
: تمام جہان
تو طالوت کی فوج نے خدا کے حکم سے ان کو ہزیمت دی اور داؤد نے جالوت کو قتل کر ڈالا اور خدا نے ان کو بادشاہی اور دانائی بخشی اور جو کچھ چاہا سکھایا اور خدا لوگوں کو ایک دوسرے (پر چڑھائی اور حملہ کرنے) سے نہ ہٹاتا رہتا تو ملک تباہ ہوجاتا لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہربان ہے
(تفسیر) 251۔: (آیت)” فھزموھم باذن اللہ “۔ اللہ تعالیٰ کے علم کے ساتھ (آیت)” وقتل داؤد جالوت “۔ جالوت کے قتل کا بیان اس طرح ہے ، اہل تفسیر فرماتے ہیں طالوت کے ساتھ جن لوگوں نے نہر (دریا) کو عبور کیا تھا حضرت داؤد (علیہ السلام) کے والد ایشا بھی تھے جو اپنے تیرہ بیٹوں سمیت شریک تھے حضرت داؤد (علیہ السلام) ان تیرہ میں سے چھوٹے بیٹے تھے اور پتھر پھینکنے کا کام کیا کرتے تھے ۔ ایک دن انہوں نے باپ کو کہا اباجان ! میں جس کسی کو پتھر مارتا ہوں اسے گرا دیتا ہوں تو حضرت داؤد (علیہ السلام) کے والد نے کہا بیٹے خوش ہوجاؤ ، اللہ تعالیٰ نے تمہارا رزق اسی میں کیا ہے پھر ایک اور دفعہ اپنے والد کے پاس آئے اور کہا اباجان میں پہاڑوں میں داخل ہوا ، وہاں میں نے شیر کو گھٹنے کے بل بیٹھے دیکھا ، میں اس پر سوار ہوگیا اس کے دونوں کانوں کو میں نے پکڑا ، پس اس نے مجھے مضطرب نہ کیا ، والد نے کہا اباجان اس حال میں کہ میں پہاڑوں میں چل کر تسبیح کر رہا تھا تو ہر پہاڑ میرے ساتھ تسبیح کر رہا تھا ، باپ نے کہا خوش ہوجا میرے بیٹے یہ خیر ہے جو اللہ تعالیٰ نے تجھے عطا کی ہے پس جالوت نے طالوت کی طرف پیغام بھیجا کہ میرے سامنے اسے لاؤ جو مجھ سے لڑے ، پس اگر اس نے مجھے قتل کردیا تو میرا ملک تمہارے لیے اور اگر میں نے اسے قتل کردیا تو تمہارا ملک میرے لیے ، تو یہ شرط طالوت پر گراں گزری تو طالوت نے لشکر میں منادی کرا دی کہ جو جالوت کو قتل کرے گا میں اس کے نکاح میں اپنی بیٹی دوں گا اور اپنا آدھا ملک بھی ، پس لوگ جالوت سے ڈر گئے اور کسی نے اس آواز پر لبیک نہ کہا ۔ پس طالوت نے بنی اسرائیل کے نبی سے عرض کی کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں ، چناچہ اللہ تعالیٰ کے نبی نے اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی ، پس اس نبی کے پاس ایک سینگ لایا گیا جس میں تیل تھا اور ایک لوہے کا تنور اور کہا گیا کہ تمہارا وہ ساتھی جو جالوت کو قتل کرے گا وہ ہوگا جس کے سر پر یہ تیل والا سینگ رکھا جائے گا تو وہ تیل جوش مارے گا حتی کہ اس کا سر تیل والا ہوجائے گا اور اس کے چہرے پر وہ تیل نہیں بہے گا بلکہ اس کے سر پر تاج کی مانند رہے گا اور وہ شخص اس تنور میں داخل ہوگا تو اس تنور کو پورا فٹ ہو کر پر کر دے گا کھلا ہونے کی وجہ سے اس میں ہلے گا نہیں ، تو طالوت نے بنواسرائیل کے لوگوں کو بلا کر تجربہ کیا تو کوئی بھی اس میعار پر پورا نہ اترا تو اللہ تعالیٰ نے انکے نبی کی طرف وحی فرمائی کہ ایشا کی اولاد میں ایک ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ جالوت کو قتل فرمائیں گے تو طالوت نے ایشا کو بلایا ، پس کہا کہ میرے اوپر اپنی اولاد کو پیش کرو تو ایشا نے بارہ آدمی پیش کیے جو ستونوں کی طرح لمبے تڑنگے تھے ، طالوت ان میں سے ایک ایک کو سینگ پر پیش کرتا رہا تو ان میں سے کسی کے اندر مذکورہ علامت نہ دیکھی ۔ پس طالوت نے ایشا کو کہا کہ ان کے علاوہ بھی کوئی تیرا بیٹا باقی ہے ؟ اس نے کہا نہیں پس اللہ کے نبی نے بارگاہ خداوندی میں عرض کی کہ یا رب ! ایشا کا دعوی ہے کہ ان بارہ کے علاوہ اس کا کوئی بیٹا نہیں ہے ، پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایشا نے جھوٹ بولا ، پس نبی نے فرمایا بیشک میرے رب نے تجھے جھٹلایا ہے پس ایشا نے کہا یا نبی اللہ ، اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا میرا ایک چھوٹا بیٹا ہے جسے داؤد کہا جاتا ہے ۔ میں نے اس بات سے شرم کی کہ لوگ اس کو دیکھیں کیونکہ وہ پست قد اور حقیر سا ہے ، پس کو بکریوں میں چھوڑ آیا ہوں جنہیں وہ چرا رہا ہے اور وہ فلاں فلاں گھاٹی میں ہے اور داؤد پست قد ، بہت بیمار ، زرد رنگ ، ٹیڑھی آنکھ والا فقیر آدمی تھا۔ اہم ملاحظہ : (حضرت داؤد (علیہ السلام) سے متعلق یہ عبارت قرآن وحدیث سے ماخوذ نہیں بلکہ اسرائیلی روایات پر مبنی ہے اور یہود (جو کہ مغضوب علیہم ہیں) نے انبیاء ومرسلین سے متعلق گستاخانہ اور غیر محقق باتیں درج کرکے ان کی شخصیت و کردار کو مجروح کیا ، لہذا حضرت داؤد (علیہ السلام) کی شکل ایسی نہ تھی جیسا کہ یہاں درج ہے بلکہ حضرت داؤد (علیہ السلام) انتہائی خوبصورت اور روشن چہرہ تھے اور اس کا ذکر حدیث شریف میں کچھ اس طرح ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) پر ان کی اولاد پیش کی گئی تو حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بارے میں ہے ” فاذا فیھم رجل اضواھم “۔ پس ان میں ایک آدمی تھا جو کہ ان میں زیادہ روشن تھا ۔ (منجانب مترجم) طالوت نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو بلایا کہا جاتا ہے بلکہ طالوت اس کی طرف نکلا ، حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اس وادی کو پانی سے بہتے پایا جو اس کے اور اس کے باڑے کے درمیان حائل تھی جہاں شام کو بکریاں لے جاتا تھا ، طالوت نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو اس حال میں پایا کہ وہ دو بکریان اٹھائے وادی کے سیلابی ریلے کو عبور کر رہا ہے اور اس میں ڈوب نہیں رہا جب طالوت نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو دیکھا تو (جی میں) کہا کہ یقینا یہ وہی ہے جب یہ جانوروں پر مہربان ہے تو انسانوں پر زیادہ مہربان ہوگا ، طالوت نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو بلایا ، سینگ اس کے سر پر رکھا ، پس وہ بہہ پڑا ، پس طالوت نے کہا کہ کیا تجھے جالوت کے قتل کرنے میں دلچسپی ہے اس شرط پر کہ میں اپنی بیٹی تیرے نکاح میں دوں اور اپنے ملک میں تیری مہر جاری کر دوں (یعنی تیرا حکم چلے) حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا ، ہاں ۔ طالوت نے کہا کہ کیا تو اپنے اندر کوئی ایسی شی محسوس کرتا ہے جس کی وجہ سے جالوت کے قتل کرنے میں تجھے جرات ہو ؟ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا ہاں وہ یہ کہ میں بکریاں چراتا ہوں پس شیر آتا ہے یا چیتا یا بھیڑیا وہ بکری لے جاتا ہے پس میں کھڑا ہوتا ہوں اور اس درندے کے جبڑے پھاڑ کر بکری نکال لیتاہوں چھڑا لیتا ہوں تو طالوت داؤد (علیہ السلام) کو لے کر اپنے لشکر میں گیا پس دؤد راستے میں ایک پتھر کے پاس سے گزرا تو اسے ایک پتھر نے آواز دی داؤد مجھے اٹھا لے میں ہارون (علیہ السلام) کا وہ پتھر ہوں جس سے ہارون فلاں فلاں بادشاہ کو قتل کیا تھا تو داؤد نے اس پتھر کو اپنے تھیلے میں رکھ لیا، پھر ایک پتھر کے اس سے گزرے تو اس نے آواز دی مجھے اٹھا لے ، میں وہ پتھر ہوں جس سے موسیٰ (علیہ السلام) نے فلاں فلاں بادشاہ کو قتل کیا ، پس داؤد (علیہ السلام) نے اسے اٹھا کر تھیلے میں رکھ لیا ، پھر ایک اور پتھر کے پاس سے گزرے تو اس نے آواز دی مجھے اٹھا لے میرے ذریعہ تو جالوت کو قتل کر دے گا تو حضرت داؤد (علیہ السلام) نے وہ پتھر اٹھا لیا اور اسے اپنے تھیلے میں رکھ لیا ، جب قتال کے لیے صف بندی ہوئی اور جالوت نمودار ہوا ۔ اور مقابلے کی دعوت دی ، حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اس کے چیلنج کو قبول کیا ، طالوت نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو گھوڑا ، زرہ اور ہتھار دیئے حضرت داؤد (علیہ السلام) ہتھیار بند ہو کر گھوڑے پر سوار ہوئے تھوڑا کچھ چلے پھر بادشاہ کی طرف لوٹے ، بادشاہ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو آتے دیکھا تو اپنے اردگرد کے لوگوں کو کہالڑکا بزدل ہوگیا، حضرت داؤد (علیہ السلام) آئے اور بادشاہ کے پاس آکر ٹھہر گئے طالوت نے پوچھا کیا ؟ حضرت داؤد (علیہ السلام) بولے اگر اللہ تعالیٰ نے میری نصرت نہ کی تو یہ ہتھیار مجھے کچھ فائدہ نہیں دے سکتے ، آپ مجھے چھوڑ دیں میں جالوت سے جس طرح چاہوں گا لڑوں گا ، طالوت نے کہا جو تمہارے جی میں آئے کیجئے ، حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا ٹھیک ہے پس داؤد نے اپنے تھیلے کو لیا اسے اپنے گلے میں ڈالا اور گوپیا (پتھر پھینکنے کا ایک قدیم آلہ) ہاتھ میں لیا اور جالوت کی طرف چل پڑے اور جالوت سخت ترین اور قوی ترین انسان تھا اور اکیلے لشکروں کو شکست دیتا تھا اس کے خود مین تین سو رطل لوہا لگا ہوا تھا ۔ (قریبا 200 پونڈ) جب جالوت نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو دیکھا تو اللہ تعالیٰ جالوت کے دل میں رعب ڈال دیا اور جالوت نے کہا کہ آپ میرے مقابلہ میں آئے ہیں، حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا ہاں جالوت ابلق (دورنگا) گھوڑے پر تھا اور اس پر مکمل ہتھیار تھے جالوت بولا تو میرے مقابلہ میں گوپیا اور پتھر لایا ہے جیسے کہ تو کتے کو (مارنے) آیا ہے، حضرت داؤد (علیہ السلام) بولے ہاں تو کتے سے بھی بدتر ہے ، جالوت نے کہا لازما میں تیرا گوشت زمین کے درندوں اور آسمانوں کے پرندوں میں تقسیم کروں گا ، حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا بلکہ اللہ تعالیٰ تیرا گوشت تقسیم کرے گا ، پس حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا ” باسم الہ ابراھیم “۔ ابراہیم کے معبود (برحق) کے نام کے ساتھ میں پتھر مارتا ہوں اور پتھر نکالا ، پھر دوسرا پتھر نکالا اور کہا ” باسم الہ اسحاق “۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے معبود کے نام کے ساتھ اور اسے اپنے گوپیا میں رکھا پھر تیسرا پتھر نکالا اور کہا ” باسم الہ یعقوب “ اور اس کو اپنے گوپیا ” فلاخن “ میں رکھا ، پھر یہ سب ایک پتھر بن گئے اور داؤد (علیہ السلام) نے اس ” فلاخن “ کو گھمایا اور اس پتھر کو مارا اللہ تعالیٰ نے ہوا کو حضرت داؤد (علیہ السلام) کے تابع کردیا حتی کہ وہ پتھر خود کے ناک والے حصہ پر لگا اور دماغ کو پار کرتا ہوا گدی کی طرف سے نکل گیا اور جالوت کے پیچھے تیس (30) آدمیوں کو قتل کردیا ، اللہ تعالیٰ نے جالوت کے لشکر کو شکست دی ، جالوت مقتول ہو کر گرا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے جالوت کو گھسیٹ کر طالوت کے سامنے لا پھینکا ، اس پر مسلمان بہت خوش ہوئے اور اپنے شہر کی طرف سلامتی کے ساتھ ملا غنیمت لے کر واپس لوٹ گئے ، حضرت داؤد (علیہ السلام) کی لوگوں میں شہرت ہوگئی ، حضرت داؤد (علیہ السلام) طالوت کے پاس تشریف لائے اور فرمایا اپنا وعدہ پورا کر، طالوت بولا تو بادشاہ کی بیٹی بغیر مہر کے لینا چاہتا ہے ، حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا تو نے مجھ پر مہر کی شرط تو نہیں لگائی تھی اور میرے پاس کچھ ہے بھی نہیں ، طالوت نے کہا میں تجھے حسب طاقت تکلیف دوں گا تو دلیر آدمی ہے اور ہمارے بالمقابل ہمارے غیر مختون (جن کا ختنہ نہ ہوا ہو) دشمن ہیں جب تو نے ان میں سے دو سو آدمیوں قتل کردیئے اور ان کا قلفہ (ختنہ کرنے سے کٹا ہوا چمڑا) میرے پاس لے آیا میں تجھ سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دوں گا پس حضرت داؤد (علیہ السلام) ان کے پاس آئے جب بھی ان میں سے کسی ایک کو قتل کرتے اس کے قلفہ کو تاگے میں پرو دیتے حتی کہ دو سو قلفہ پرو کر طالوت کے پاس لا کر پھینک دیئے اور فرمایا مجھے میری بیوی دو تو طالوت نے اپنی بیٹی کا نکاح کردیا اور اپنے ملک میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کی مہر جاری کردی ، لوگوں کا میلان حضرت داؤد (علیہ السلام) کی طرف ہوگیا اور ان سے محبت کرنے لگے اور حضرت داؤد (علیہ السلام) کا ذکر زیادہ کرنے لگے ۔ طالوت کا حسد اور اس کی توبہ کا واقعہ : طالوت نے حضرت داؤد (علیہ السلام) پر حسد کیا اور قتل کا ارادہ کرلیا ، اس کی خبر طالوت کی بیٹی کو ایک آدمی نے دی جس کا نام ذوالعینین تھا تو طالوت کی بیٹی نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو کہا تو آج رات قتل کردیا جائے گا ، حضرت داؤد (علیہ السلام) بولے مجھے کون قتل کرے گا ؟ بیوی بولی میرا باپ ، حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا کیا میں نے کوئی جرم کیا ہے ؟ طالوت کی بیٹی بولی مجھے ایسے شخص نے خبر دی ہے جو جھوٹ نہیں بولتا اور اس میں تو کچھ حرج نہیں ہے کہ آج رات تو چھپ جائے تاکہ اس کا مصداق دیکھے ، حضرت داؤد (علیہ السلام) بولے اگر طالوت یہ ارادہ کرچکا ہے تو میں نکلنے کی طاقت نہیں رکھتا ، لیکن میرے پاس شراب کا مشکیزہ لے آ ان کی بیوی لے آئی ، حضرت داؤد (علیہ السلام) نے وہ مشکیزہ اپنی چارپائی سونے کی جگہ پر رکھا اور خود چارپائی کے نیچے سو گئے ، طالوت آدمی رات کو داخل ہوا بیٹی سے کہا تیرا خاوند کہاں ہے ؟ بیٹی بولی وہ چارپائی پر سو رہا ہے ، تو طالوت نے تلوار کا ایک ہی وار کیا جس سے شراب بہہ پڑی ، جب شراب کی بو سونگھی تو طولات کہنے لگا اللہ تعالیٰ حضرت داؤد (علیہ السلام) پر رحم فرمائے وہ کس قدر شراب پیتا تھا اور نکل گیا جب صبح کو اسے معلوم ہوا کہ اس نے کچھ نہیں کیا پس کہا کہ آدمی (داؤد) سے میں نے طلب کیا (یعنی اس کو قتل کرنا) جو کچھ طلب کیا اب وہ اس بات کا حق دار ہے کہ مجھے اپنا بدلہ لیے بغیر نہ چھوڑے ، چناچہ طالوت نے اپنے حفاظتی انتظام سخت کردیئے ، دروازے بند کردیئے ، پھر بیشک داؤد طالوت کے پاس اس حال میں آیا کہ آنکھیں سکون پذیر ہوچکی تھی (سوچکی تھیں) پس اللہ تعالیٰ نے دربانوں کو اندھا کردیا حضرت داؤد (علیہ السلام) نے دروازے کھولے اور طالوت پر داخل ہوئے وہ اپنے بستر پر سویا ہوا تھا ، پس حضرت داؤد (علیہ السلام) نے ایک تیر اس کے سر کے پاس رکھا اور ایک تیر پاؤں کی طرف اور ایک تیر بائیں طرف رکھا پھر نکل گئے ، جب طالوت جاگا تیروں کو دیکھا پہچان گیا ، پس کہا اللہ تعالیٰ داؤد پر رحم فرمائے وہ مجھ سے بہتر ہے ، میں اس پر کامیاب ہوا تو میں نے اس کے قتل کا ارادہ کیا ، وہ مجھ پر کامیاب ہوا تو مجھ سے رک گیا (مجھے کچھ نہ کہا) اگر وہ چاہتا تو یہ تیر میرے حلق میں چبھو سکتا تھا ، اب میں اس سے حالت امن میں نہیں ، جب آیندہ رات آئی حضرت داؤد (علیہ السلام) دوبارہ تشریف لائے، اللہ تعالیٰ نے دربانوں کو اندھا کردیا ، پس حضرت داؤد (علیہ السلام) داخل ہوئے طالوت سویا ہوا تھا ، حضرت داؤد (علیہ السلام) نے طالوت کا وہ لوٹا لیا جس سے وہ وضو کرتا تھا اور وہ ڈنڈی دار پیالہ لیا جس میں وہ پیتا تھا اور اس کی داڑھی کے چند بال کترے اور کچھ حصہ اس کے کپڑوں کا کاٹا پھر نکل گئے ۔ اور بھاگ گئے اور چھپ گئے ، جب طالوت نے صبح یہ صورت حال دیکھی تو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر جاسوس مقرر کیے اور تلاش وطلب کو سخت تر کردیا مگر اس پر وہ قادر نہ ہوسکا، پھر بیشک ایک دن طالوت سوار ہوا داؤد کو پایا کہ وہ جنگل میں چل رہے ہیں پس (دل میں) کہا آج کے دن میں اس کو ضرور قتل کروں گا ، پس حضرت داؤد (علیہ السلام) کے پیچھے گھوڑا دوڑایا ، حضرت داؤد (علیہ السلام) بھی دوڑے ، حضرت داؤد (علیہ السلام) جب خوف زدہ ہوتے (تو اس قدر دوڑتے کہ) انکو پکڑا نہ جاسکتا تھا ، پس غار میں داخل ہوگئے، اللہ تعالیٰ نے مکڑے کو حکم دیا اس نے غار پر جالا تن دیا جب طالوت اس غار تک پہنچا مکڑے کا جالا دیکھا ، کہا اگر داؤد یہاں داخل ہوتا تو مکڑے کی یہ بنا ٹوٹ جاتی ، پس اسے چھوڑا اور چلا گیا ، حضرت داؤد (علیہ السلام) چلے اور عبادت گزاروں کے ہمراہ پہاڑ کو آئے ۔ وہاں مصروف عبادت ہوگئے ، علماء اور عابدوں نے طالوت پر حضرت داؤد (علیہ السلام) کے معاملے میں طعن کیا ، پس طالوت کا یہ حال ہوگیا کہ جو کوئی اسے داؤد کے قتل سے منع کرتا وہ اس منع کرنے والے کو قتل کردیتا اور علماء کے قتل پر لوگوں کو ابھارا۔ چناچہ بنی اسرائیل کے جس عالم پر اس کا بس چلتا اسے قتل کردیتا ۔ حتی کہ اس کے پاس ایک عورت لائی گئی جو اسم اعظم جانتی تھی ، طالوت نے اپنے روٹی پکانے والے کو حکم دیا کہ اس عورت کو قتل کر دے ، روٹی پکانے والے کو اس پر رحم آگیا اور کہا شاید ہمیں کبھی کسی وقت عالم کی ضرورت پڑے ، چناچہ اس عورت کو قتل نہ کیا ، طالوت کے دل میں توبہ کے جذبات ابھرے اپنے کیے پر نادم ہوا اور رونا شروع کردیا حتی کہ لوگوں کو اس پر ترس آگیا ، ہر رات قبرستان نکل جاتا روتا اور آوازیں دیتا میں اس شخص کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں جو میری توبہ کے بارے میں جانتا ہو کہ وہ مجھے ضرور توبہ کے بارے میں خبر دے، جب مرنے والوں پر اس نے چیخ و پکار زیادہ کی تو قبر والوں سے ایک آواز ادینے والے نے آواز دی کیا تو ہمیں قتل کرنے پر راضی نہیں ہوا کہ مرنے کے بعد ہمیں ایذاء دینے آگیا ، اس پر طالوت کا رونا اور حزن وملال اور زیادہ ہوگیا ۔ روٹی پکانے والے (جس کو طالوت نے عالمہ عورت کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا اور اس نے قتل نہیں کیا تھا) کو طالوت پر رحم آگیا اس نے کہا بادشاہ سلامت آپ کو کیا ہوا ؟ طالوت نے کہا روئے زمین پر تو کوئی ایسا بادشاہ جانتا ہے جو مجھے یہ بتائے کہ کیا میری توبہ قبول ہونے کی کوئی صورت ہے ؟ پس روٹی پکانے والے نے کہا کہ اے بادشاہ ! تیری مثال تو اس بادشاہ کی سی ہے جو بوقت عشاء ایک قصبہ میں اترا تو ایک مرغے نے آواز کی ، بادشاہ نے اس سے بری فال لی اور حکم دیا کہ اس قصبہ میں جتنے مرغے ہیں سب کو ذبح کردیا جائے، پھر جب سونے کا ارادہ کیا تو کہنے لگا کہ جب صبح سویرے مرغا اذان دے تو مجھے جگا دینا تاکہ ہم سویرے سویرے نکل چلیں تو لوگوں نے کہا تو نے کوئی مرغا چھوڑا ہے جس کی آواز (اذان) ہم سنیں ؟ اسی طرح تو نے بھی کوئی عالم زمین پر چھوڑا ہے ؟ (جس سے ہم توبہ کے بارے میں پوچھیں) اس پر طالوت کا غم اور رونا اور بڑھ گیا ، جب روٹی پکانے والے نے طالوت کی یہ حالت دیکھی تو کہا مجھے خبر دے اگر میں تجھے کسی عالم پر دلالت کروں شاید تو اس کو قتل کر ڈالے ، طالوت نے کہا نہٰں تو خباز نے اس پر اعتماد کیا اور اسے خبر دی کہ عالم عورت اس پاس ہے ۔ طالوت نے کہا مجھے اس کے پاس لے چل ، میں اس سے پوچھوں کہ میرے لیے کوئی توبہ کی صورت ہے اور وہ عورت اس خاندان سے تھی جس کے مرد اسم اعظم جانتے تھے جب اس خاندان کے مرد مرگئے تو عورتوں نے اسم اعظم سیکھ لیا جب طالوت دروازہ پر پہنچا ۔ خباز (روٹی پکانے والے) نے کہا بیشک اگر اس عورت نے تجھے دیکھ لیا تو گھبرا جائے گی بلکہ تو میرے پیچھے پیچھے آ ، پھر وہ دونوں عورت کے پاس آئے، پس خباز (روٹی پکانے والے) نے کہا کہ کیا میں تمام لوگوں سے بڑھ کر تجھ پر احسان کرنے والا نہیں ، میں نے تجھے قتل سے بچایا اور تجھے پناہ دی ؟ عورت نے کہا بیشک ایسے ہی ہے خباز نے کہا میرے لیے تیری طرف ایک حاجت ہے یہ طالوت حاضر ہے ، پوچھتا ہے کہ کیا میری توبہ کی کوئی صورت ہے ؟ اس عورت پر خوف کی وجہ سے غشی طاری ہوگئی ، خباز نے کہا طالوت تیرے قتل کا ارادہ نہیں رکھتا بلکہ صرف یہ پوچھتا ہے کہ اس کی توبہ کی کوئی صورت ہے ؟ عورت نے کہا نہیں ، اللہ کی قسم ! میں طالوت کے لیے توبہ قبول ہونے کی کوئی صورت نہیں جانتی ، البتہ میں نبی کی قبر کی جگہ جانتی ہوں تو وہ عورت ان دونوں کو لے کر حضرت اشمویل (علیہ السلام) کی قبر پر لے گئی ۔ پس وہاں نماز پڑھی اور دعا کی ، پھر آواز کی یا صاحب القبر اے قبر والے ! پس حضرت شمویل (علیہ السلام) مٹی سے اپنے سر کو جھاڑتے ہوئے قبر سے نکلے ، پس ان تینوں کو دیکھتے ہی بولے تمہیں کیا ہوا ؟ کیا قیامت قائم ہوگئی ؟ عورت نے کہا نہیں بلکہ طالوت پوچھتا ہے کیا اس کی توبہ کی کوئی صورت ہے ؟ شمویل (علیہ السلام) نے کہا طالوت تو نے میرے بعد کیا کیا ؟ طالوت بولا میں نے کوئی بری چیز نہیں چھوڑی جس کو میں نے نہ کیا ہو ، اب میں توبہ کا طلبگار ہو کر آیا ہوں ، شمویل (علیہ السلام) نے کہا تیرے عیال کتنے ہیں یعنی تیری اولاد کتنی ہے ؟ اس نے کہا دس مرد ہیں ، حضرت شمویل (علیہ السلام) نے فرمایا تیری توبہ کی صرف ایک صورت ہے کہ تو ملک یعنی سلطنت چھوڑ دے اور تو خود بمع اولاد کے نکل جا اور فی سبیل قتال کر ، پھر تو اولاد کو اپنے آگے بھیجے وہ تیرے سامنے شہید ہوجاویں ، پھر تو اکیلا لڑے حتی کہ آخر میں تو قتل ہوجائے ، پھر حضرت شمویل (علیہ السلام) قبر کی طرف واپس لوٹے اور فوت ہوگئے ، طالوت پہلے سے زیادہ غمناک ہو کر واپس ہوا ، اس ڈر کی وجہ سے کہ اس کی اولاد شاید اس کی پیروی نہ کرے ، رویا حتی کہ پلکیں گرگئیں ، جسم کمزور ہوگیا، اولاد اس کے پاس آئی ، پوچھا تو طالوت نے اولاد سے کہا مجھے یہ بتاؤ اگر میں آگ میں دھکیلا جاؤں تو کیا تم میری جگہ قربانی دو گے ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ، ہم حتی المقدور قربانی دیں گے، طالوت بولا پس تحقیق وہ صورت حال آگ ہی ہے اگر تم وہ کچھ نہیں کرو گے جو کچھ میں تمہیں کہوں ، اولاد نے کہا ارشاد فرمائیں تو طالوت نے پورا واقعہ کہہ سنایا اولاد بولی تو کیا واقعی آپ قتل ہونے والے ہیں ؟ طالوت بولا ہاں ، اولاد نے کہا پھر آپ کے بعد ہماری زندگی میں بھی کوئی خیر نہیں ہے ، بیشک آپ جو کچھ ہم سے مطالبہ فرماتے اسے خوش دلی سے ہم قبول کرتے ہیں، پس طالوت نے مال اولاد سمیت تیاری کی ، چناچہ اس کے دس بیٹے اس راہ میں ختم ہوگئے اس کے سامنے لڑے حتی کہ قتل ہوگئے ، ان کے بعد طالوت نے قتال کے لیے حملہ کیا حتی کہ شہید ہوگیا ، پس طالوت کا قاتل حضرت داؤد (علیہ السلام) کے پاس آیا تاکہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو خوشخبری دے اور کہا اے داؤد میں نے تیرے دشمن کو قتل کردیا حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا تو بھی پھر زندہ رہنے کے لائق نہیں ، حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اس کی گردن ماری ، طالوت کا ملک اس کے قتل ہونے تک چالیس سال تک رہا ، بنی اسرائیل حضرت داؤد (علیہ السلام) کے پاس آئے اور انہیں طالوت کے خزانے دئیے اور اپنا بادشاہ مقرر کیا ، کلبی (رح) اور ضحاک (رح) کہتے ہیں کہ طالوت کے قتل ہونے کے بعد حضرت داؤد (علیہ السلام) سات سال بادشاہ رہے اور سوئے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بنی اسرائیل کبھی بھی ایک بادشاہ پر جمع نہیں ہوئے، پس یہ ہے ” واتاہ اللہ الملک والحکمۃ “ یعنی نبوت ، اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے لیے بادشاہت اور نبوت جمع فرما دی حالانکہ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا، بادشاہت ایک خاندان میں ہوتی تھی اور نبوت ایک خاندان میں بعض حضرات نے کہا کہ ملک اور حکمت سے مراد علم مع العمل ہے ” وعلمہ مما یشائ “ کلبی (رح) وغیرہ کہتے ہیں کہ اس علم سے مراد زرہ سازی کی صنعت ہے، زرہیں بناتے اور بیچتے اور صرف اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے اور کہا گیا ہے کہ اس علم سے مراد پرندوں کی بولی، بڑی اور چھوٹی چیونٹی کی کلام کا علم دیا تھا اور اسی طرح ہر وہ جانور جس کی آواز بھی نہیں ۔ بعض نے کہا کہ اس سے مراد زبور ہے اور بعض نے کہا کہ اس سے مراد اچھی آواز اور خوش الحانی ہے ، اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بعد کسی کو ایسی خوش الحانی عطا نہیں کی ، حضرت داؤد (علیہ السلام) جب زبور کی تلاوت فرماتے تو پرندے قریب ہوجاتے حتی کہ ان کی گردنوں کو پکڑا جاتا ، پرندے سایہ کرتے ، بہتا پانی رک جاتا ، ہوا ٹھہر جاتی ، ضحاک (رح) نے حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کی کہ (آیت)” علمہ مما یشائ “ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو ایک زنجیر دی تھی ، جو ثریا سے ملی ہوئی تھی اور اس کا سرا آپ کے صومعہ (عبادت خانہ) کے ساتھ ملا ہوا تھا ، اس میں لوہے کی سی طاقت ، آگ کی رنگت تھی ، گول کڑیاں جواہر جڑی اور تازہ لؤلؤ کی لڑیوں سے میخ زدہ تھیں ، ہو اس میں جو کوئی حادثہ رونما ہوا اور زنجیر بجتی اور حضرت داؤد (علیہ السلام) کو علم ہوجاتا جو کوئی آفت زدہ انسان اس کو چھوتا تو صحت مند ہوجاتا اور حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بعد بنی اسرائیل والے اپنا فیصلہ اس زنجیر کے پاس لے جاتے ، یہاں تک کہ وہ زنجیر اٹھالی گئی ۔ پس جو کوئی کسی پر زیادتی کرتا یا کسی کے حق دینے کا انکار کرتا تو اس زنجیر کے پاس آتا ۔ اگر سچا ہوتا تو اس کا ہاتھ زنجیر کو لگ جاتا اور جو کوئی جھوٹا ہوتا اس کو نہ چھو سکتا ، یہ صورت حال اسی طرح رہی یہاں تک کہ بنی اسرائیل میں مکر اور دھوکہ بازی شروع ہوگئی ، پس ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ ایک بادشاہ نے کسی آدمی کے پاس قیمتی موتی امانت رکھا، جب واپسی کا مطالبہ کیا تو وہ شخص مکر گیا تو وہ دونوں اپنا جھگڑا زنجیر کے پاس لے گئے ، پس جس شخص کے پاس موتی امانت تھا اس نے لاٹھی میں سوارخ کرکے وہ موتی اس لاٹھی میں ڈال دیا اور اس لاٹھی پر سہارا لگا کر زنجیر کو حاضر ہوگئے ، پس موتی والے نے کہا میرا موتی واپس کر جو تیرے پاس امانت تھا ، دوسرے نے کہا میں تو نہیں جانتا کہ تیری کوئی امانت میرے پاس ہے اور کہا اگر تو دعوی میں سچا ہے تو اس زنجیر کو ہاتھ لگا تو موتی کی امانت کا مطالبہ کرنے والے نے ہاتھ لگایا تو اس کا ہاتھ زنجیر کو لگ گیا پھر منکر کو کہا گیا کہ تو زنجیر کو ہاتھ لگا تو منکر امانت نے صاحب جو ہرہ (موتی) کو کہا کہ میری یہ لاٹھی پکڑتا کہ میں زنجیر کو ہاتھ لگاؤں تو لاٹھی مالک جو ہرہ نے لے لی ، پھر منکر کھڑا ہوا اور زنجیر کو پکڑ لیا اور کہا یا اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ مدعی جس امانت کا دعوی کرتا ہے وہ امانت اس کے پاس پہنچ چکی ہے تو یہ زنجیر میرے قریب کر دے، پس ہاتھ لمبا کیا اور زنجیر کو لے لیا ، پس قوم نے تعجب کیا اور اس زنجیر کے معاملہ میں شک کرنے لگے ۔ پس انہوں نے اس حال میں صبح کی کہ اللہ تعالیٰ نے زنجیر کو اٹھا لیا تھا ۔ (آیت)” ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض “۔ اہل مدینہ اور یعقوب نے (دفاع اللہ) الف کے ساتھ پڑھا یہاں بھی اور سورة حج میں بھی اور باقیوں نے بغیر الف کے پڑھا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی بھی فعل میں مغالبہ و مقابلہ نہیں کرسکتا (کہ مدافعت میں کوئی مقابلہ کرے اور باب مفاعلہ سے اس کا ذکر کیا جائے) بلکہ اللہ تعالیٰ اکیلا دافع ہے اور جس نے الف کے ساتھ پڑھا اس کا جواب یہ ہے کہ دفاع کا عمل کبھی یکطرفہ بھی ہوتا ہے جیسا کہ اہل عرب کا قول ہے ” احسن اللہ عنک الدفاع “ (اب اس جملہ میں دفاع بمعنی دفع ہے) ابن مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ عساکر مسلمین کے ذریعے مشرکوں کو دفع نہ فرماتے تو مشرک لوگ زمین پر غالب آجاتے اور مساجد اور شہروں کو ویران کر ڈالتے اور ایمان والوں کو قتل کردیتے اور باقی مفسرین نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ ایمان والوں اور نیکوں کے ذریعے کفار وفجار کو دفع نہ فرماتے تو زمین اپنے باسیوں سمیت تباہ ہوجاتی لیکن ۔
Top