Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 251
فَهَزَمُوْهُمْ بِاِذْنِ اللّٰهِ١ۙ۫ وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَهٗ مِمَّا یَشَآءُ١ؕ وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ١ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
فَهَزَمُوْھُمْ
: پھر انہوں نے شکست دی انہیں
بِاِذْنِ اللّٰهِ
: اللہ کے حکم سے
وَقَتَلَ
: اور قتل کیا
دَاوٗدُ
: داود
جَالُوْتَ
: جالوت
وَاٰتٰىهُ
: اور اسے دیا
اللّٰهُ
: اللہ
الْمُلْكَ
: ملک
وَالْحِكْمَةَ
: اور حکمت
وَعَلَّمَهٗ
: اور اسے سکھایا
مِمَّا
: جو
يَشَآءُ
: چاہا
وَلَوْ
: اور اگر
لَا
: نہ
دَفْعُ
: ہٹاتا
اللّٰهِ
: اللہ
النَّاسَ
: لوگ
بَعْضَهُمْ
: بعض لوگ
بِبَعْضٍ
: بعض کے ذریعہ
لَّفَسَدَتِ
: ضرور تباہ ہوجاتی
الْاَرْضُ
: زمین
وَلٰكِنَّ
: اور لیکن
اللّٰهَ
: اللہ
ذُوْ فَضْلٍ
: فضل والا
عَلَي
: پر
الْعٰلَمِيْنَ
: تمام جہان
تو طالوت کی فوج نے خدا کے حکم سے ان کو ہزیمت دی اور داؤد نے جالوت کو قتل کر ڈالا اور خدا نے ان کو بادشاہی اور دانائی بخشی اور جو کچھ چاہا سکھایا اور خدا لوگوں کو ایک دوسرے (پر چڑھائی اور حملہ کرنے) سے نہ ہٹاتا رہتا تو ملک تباہ ہوجاتا لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہربان ہے
(آیت) ” نمبر
251
۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” فھزموھم باذن اللہ “۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان پر مدد ونصرت نازل فرمائی۔ (آیت) ” فھزموھم “ تو انہوں نے انہیں شکست دی (ان کمر توڑ دی) اور الھزم کا معنی ہے توڑنا، اور اسی سے ہے سقاء متھزم “ ، یعنی ایسی مشک جو خشکی کے سبب ٹوٹ جائے اور اسی سے وہ قول ہے جو زمزم کے بارے میں کہا گیا ہے یہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کا گڑھا ہے (ھزمۃ جبریل) یعنی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے زمین کو اپنے پاؤں سے نیچے دبایا، گڑھا بن گیا اور پانی نکل آیا، اور الھزم سے مراد وہ خشک لکڑی بھی ہے جو ٹوٹ جاتی ہے۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” وقتل داؤد جالوت “ اس لئے کہ طالوت بادشاہ تھا اور جالوت کے ساتھ جنگ لڑنے کے لئے یہ اپنی قوم میں سے چنا گیا تھا، یہ قدو قامت کے اعتبار سے چھوٹا، زیادہ تر بیمار رہنے والا، زرد رنگ کا تھا اس کی (آنکھیں چھوٹی اور نیلی تھیں) اور جالوت لوگوں میں سے انتہائی مضبوط اور بہت زیادہ قوی تھا، اور یہ اکیلا لشکروں کو شکست دے سکتا تھا اور جالوت کو قتل کردیا گیا، حالانکہ وہ عمالقہ کا امیر اور سردار تھا اور (قتل کرنے والے) داؤد ابن ایشی تھے یہ ایشی ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ ہے، اور کہا جاتا ہے : وہ داؤد بن زکریا بن رشوی تھے، یہ یہوذا ابن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم (علیہم السلام) کی اولاد میں سے تھے اور بیت المقدس کے رہنے والے تھے، ان کی نبوت اور بادشاہت دونوں چیزیں اکٹھی عطا فرما دی گئیں۔ اس سے پہلے یہ چرواہے تھے اور یہ اپنے بھائیوں میں سے چھوٹے تھے اور ریوڑچراتے تھے اور ان کے ساتھ بھائی اصحاب طالوت میں سے تھے، پس جب جنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے دل میں کہا : میں ضرور بہ ضرور اس جنگ کو دیکھنے کے لئے جاؤں گا، جب اس راستے پر چلے ایک پتھر کے پاس سے گزرے تو اس نے آپ کو آواز دی اے داؤد، مجھے اٹھا لے، اور میرے ساتھ تو جالوت کو قتل کرے گا، پھر ایک دوسرے پتھر نے انہیں آواز دی، پھر ایک اور نے آواز دی، پس آپ نے انہیں اٹھا لیا اور انہیں اپنے تو بڑے میں رکھ لیا اور چل پڑے۔ پس جالوت (لشکر کی صفوں سے) باہر نکلا اور دعوت مبارزت دینے لگا تو لوگوں نے اس کے مقابلے کی جرات نہ کی اور کمزوری دکھائی یہاں تک کہ طالوت نے کہا : جو اس کا مقابلہ کرے گا اور اسے قتل کردے گا میں اس کا نکاح اپنی بیٹی سے کروں گا اور اپنے مال میں اسے حکم بناؤں گا، چناچہ حضرت داؤد (علیہ السلام) آئے اور کہا : میں اس کے ساتھ مقابلہ کروں گا اور اسے قتل کر دوں گا (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
337
دارالکتب العلمیہ) لیکن طالوت نے جب ان کی صغر سنی اور چھوٹے قد کو دیکھا تو انہیں کمزور قرار دے کر واپس لوٹا دیا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نیلگوں چھوٹے قد کے تھے، پھر طالوت نے دوبارہ اور سہ بارہ اعلان کیا اور پھر بھی حضرت داؤد (علیہ السلام) ہی باہر نکلے، تب طالوت نے ان سے کہا : کیا تو اپنی ذات میں کسی شے سے تجربہ رکھتا ہے ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں : اس نے پوچھا : وہ کیسے ؟ انہوں نے فرمایا : ایک دفعہ ایک بھیڑیا میرے ریوڑ میں داخل ہوگیا تو میں نے اسے مارا، پھر اس کے سر کو پکڑ لیا اور میں نے اسے اس کے جسم سے الگ کردیا، طالوت نے کہا : بھیڑیا تو کمزور ہے، کیا اس کے علاوہ بھی تو کوئی تجربہ رکھتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، ایک دفعہ ایک شیر میرے ریوڑ میں آگیا تو میں نے اسے مارا پھر میں نے اسے جبڑوں سے پکڑ لیا اور میں نے ان دونوں کو چیر ڈالا، کیا تو اسے شیر سے بھی زیادہ طاقتور جانتا ہے ؟ طالوت نے کہا : نہیں، طالوت کے پاس ایک زرہ تھی اور وہ اسی پوری آسکتی تھی جو جالوت کو قتل کرے گا، پس اس نے اس کے بارے آپ کو آگاہ کیا اور وہ زرہ آپ پر ڈال دی تو وہ بالکل برابر ہوگئی، پھر طالوت نے کا ہ : تو میرے گھوڑے پر سوار ہوجا، میرا ہتھیار پکڑلے (اور اس کے مقابلے میں جا) چناچہ آپ نے ایسا کرلیا، لیکن جب تھوڑا سا چلے تو واپس لوٹ آئے اور لوگوں نے کہا : یہ نوجوان تو بزدل ہوگیا ہے۔ تو حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ نے اسے میرے سبب قتل نہ کیا اور اس کے خلاف اس نے میری مدد نہ فرمائی تو پھر یہ گھوڑا اور یہ ہتھیار میرے لئے نفع بخش نہیں ہیں۔ البتہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میں اس سے اپنی عادت کے مطابق ہی لڑوں۔ راوی کا بیان ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) مقلاع (پتھر پھینکنے کا گوپھیا، فلاخن) کے ساتھ پتھر پھینکنے کے لوگوں کی نسبت زیادہ ماہر تھے، پس آپ (گھوڑے سے) اترے اور اپنے تو برے کو اٹھایا اور اسے لٹکا لیا اور اپنا گوپھیا اٹھایا اور جالوت کی طرف چل نکلے، وہ مکمل اپنے ہتھیار پہنے ہوئے تھا اس کے سر پر خود تھا اس میں تین سو رطل تھے، جیسا کہ الماوردی وغیرہ نے ذکر کیا ہے تو جالوت نے انہیں کہا : اے نوجوان ! تو میری طرف نکلا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، اس نے کہا : اس طرح جیسا کہ تو کتے کی طرف نکلا ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں، بلکہ تو اس سے بھی آسان ہے، فرمایا : میں یقینا آج تیرا گوشت پرندوں اور درندوں کو کھلاؤں گا پھر وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب ہوئے اور جالوت نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو حقیر جانتے ہوئے انہیں اپنے ہاتھ سے پکڑنے کی کوشش کی، تو حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اپنا ہاتھ پتھر کی طرف بڑھایا اور روایت ہے کہ وہ پتھر جڑ چکے تھے اور وہ ایک پتھر بن گیا تھا، سو آپ نے اسے پکڑا اور اپنے گوپھیا میں رکھا اور اللہ تعالیٰ کا نام لیا اور اسے گھمایا اور پھینک دیا، پس وہ جالوت کے سر میں جا لگا اور اسے قتل کردیا اور اس کے سر کو کاٹ کر اپنے تو بڑے میں رکھ لیا اور لوگوں میں مل گئے، اور طالوت کی فوج نے حملہ کردیا اور یہی ہزیمت اور شکست تھی (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
337
دارالکتب العلمیہ) یہ بھی کہا گیا ہے کہ پتھر خود سے ناک کی جگہ پر جا لگا اور بعض نے کہا ہے : اسے آنکھ پر جا کر لگا اور اس کی گدی کی جانب سے نکل گیا اور اس کے لشکر کی ایک جماعت کو جا کر لگا اور اس نے انہیں قتل کردیا، یہ قول بھی ہے کہ پتھر ٹوٹ کر بکھر گیا یہاں تک کہ لشکر کے ہر فرد کو اس کا کچھ حصہ جا کر لگا اور یہ (سنگریزوں کی) اس مشت کی طرح تھا جو حضور نبی مکرم ﷺ نے غزوہ حنین کے دن بنی ہوازن پر پھینکی۔ واللہ اعلم ان آیات کے قصص میں لوگوں نے بہت زیادہ بیان کیا ہے اور میں نے تیرے لئے ان میں سے خاص مقصود کو ہی ذکر کیا ہے واللہ المحمود۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : طالوت کے اس قول کے بارے میں ہے ” جو اس کا مقابلہ کرے گا اور اسے قتل کرے گا تو میں اس کی شادی اپنی بیٹی سے کروں گا اور اسے اپنے مال میں حکم بناؤں گا “ یہ مفہوم ہماری شریعت میں بھی ثابت اور موجود ہے اور وہ ہے کہ امام وقت کہے : جو فلاں کا سر لائے گا تو اس کے لئے اتنا ہوگا، یا جو فلاں کو قید بنا کر لاے تو اس کے لئے اتنا انعام ہوگا، اس کا بیان سورة الانفال میں آئے گا، انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور اس میں اس پر دلیل ہے کہ مبارزت امام کی اجازت کے بغیر نہیں ہو سکتی، جیسا کہ امام احمد اور اسحاق وغیرہما اس کے بارے کہتے ہیں اور اس میں امام اوزاعی (رح) سے اختلاف منقول ہے، سو ان سے بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا : کوئی بھی اپنے امام کی اجازت کے بغیر حملہ نہیں کرسکتا اور یہ بھی منقول ہے کہ انہوں نے کہا : کوئی حرج نہیں ہے۔ اور اگر امام مبارزت سے روک دے تو پھر اس کی اجازت کے بغیر کوئی مبارز طلب نہ کرے گا۔ اور ایک گروہ نے مقابلے کو مباح قرار دیا ہے اور انہوں نے امام کی اجازت ہونے یا نہ ہونے کا کوئی ذکر نہیں کیا یہ امام مالک کا قول ہے۔ امام مالک سے اس آدمی کے بارے پوچھا گیا جو دو صفوں کے درمیان کہتا ہے : کون مقابلہ کرے گا ؟ تو انہوں نے فرمایا اس کا انحصار اس کی نیت پر ہے اگر اس سے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا ارادہ رکھتا ہے تو میں امید رکھتا ہوں کہ اس کے لئے کوئی حرج نہ ہوگا، زمانہ ماضی میں ایسا کیا جاتا رہا ہے اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے : مبارزت طلب کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ابن منذر نے کہا ہے : امام کی اجازت کے ساتھ مبارزت طلب کرنا اچھا ہے اور اس پر بھی کوئی حرج نہیں ہے جس نے امام کی اجازت کے بغیر مبارز طلب کیا یہ مکروہ نہیں ہے کیونکہ اس کے بارے میں کوئی مانع خبر نہیں جانتا۔ (آیت) ” واتہ اللہ الملک والحکمۃ “۔ سدی نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤدعلیہ السلام کو طالوت کا ملک (بادشاہی) اور شمعون کی نبوت عطا فرمائی۔ اور وہ جو اللہ تعالیٰ نے انہیں علم عطا فرمایا وہ زرہیں بنانے اور پرندوں کی گفتگو سمجھنے اور دیگر ان علوم کی انواع میں سے کئی عطا فرمائے جو اللہ تعالیٰ نے حضور نبی مکرم ﷺ کو عطا فرمائے ہیں (
1
) ، حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے : اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک زنجیر عطا فرمایا جو کہکشاں اور فلک سے ملا ہوا تھا اور اس کا ایک سرا حضرت داؤد (علیہ السلام) کی عبادت گاہ کے پاس تھا اور ہوا میں جو واقعہ بھی پیش آتا زنجیر بجنے لگتا اور اس سے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو اس واقعہ کا علم ہوجاتا جو وقوع پذیر ہوتا اور کوئی آفت زدہ اسے چھو لیتا تو وہ اس سے نجات پا جاتا اور یہ آپ کی قوم کے دین میں داخل ہونے کی ملامت تھی کہ وہ اسے اپنے ہاتھوں کے ساتھ مس کرتے پھر اپنی ہتھیلیوں کو اپنے سینوں پر مل لیتے اور وہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بعد اس کے پاس فیصلے کرتے ہیں یہاں تک کہ اسے اٹھا لیا گیا۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” مما یشآء “ یہ بمنی مما شاء ہے اور کبھی ماضی کی جگہ مستقبل کا صیغہ رکھ دیا جاتا ہے اور یہ پہلے گزر چکا ہے۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لفسدت الارض ولکن اللہ ذوفضل علی العلمین “۔ اس میں دو مسئلے ہیں : قولہ تعالیٰ (آیت) ” ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض “۔ اسی طرح تمام کی قرات ہے سوائے حضرت نافع کے کیونکہ انہوں نے دفاع پڑھا ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ فعل کا مصدر ہو جیسا کہا جاتا ہے : حسبت الشیء حسابا ات ایابا، لقیتہ لقاء اور اس کی مثل کتبہ کتابا ہے اور اسی سے کتاب اللہ علیکم (النسائ) بھی ہے نحاس نے کہا ہے : یہ اچھا ہے پس دفاع اور دفع دونوں دفع کے مصدر ہوں گے، یہی سیبویہ کا مذہب ہے۔ اور ابو حاتم نے کہا ہے : دافع اور دفع دونوں کا معنی ایک ہے، جیسا طرقت النعمل اور طارقت ہے یعنی میں نے جوتے کو ایک دوسرے پر سیا، الخصف، کا معنی الخرز، سینا ہے۔ ابو عیبدہ نے جمہور کی قرات کو اختیار کیا ہے (یعنی) (آیت) ” ولولا دفع اللہ “ اور انہوں نے دفاع پڑھنے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کوئی بھی غالب نہیں آسکتا، مکی نے کہا ہے : یہ وہم ہے باب مفاعلہ نے اس میں وہم پیدا کیا ہے اور ایسا نہیں ہے، اور لفظ اللہ، فعل کے سبب محل رفع میں ہے، یعنی لولا ان یدفع اللہ، اور دفاع مسیبویہ کے نزدیک مبتدا ہونے کے سب مرفوع ہے۔ ” الناس “ مفعول ہے اور (آیت) ” بعضھم الناس “ سے بدل ہے اور ” ببعض “ سیبویہ کے نزدیک مفعول ثانی کے محل میں ہے اور یہ ان کے نزدیک تیرے اس قول کی مثل ہے : ذھبت بزید، تو اس میں زید مفعول کے محل میں ہے، اسے جان لو، مسئلہ نمبر : (
2
) علماء کا ان لوگوں کے بارے میں اختلاف ہے جنہیں فساد سے بچایا گیا ہے وہ کون ہیں ؟ تو کہا گیا ہے : وہ ابدال ہیں اور وہ چالیس آدمی ہیں ان میں سے جب بھی کوئی فوت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا بدل بنا دیتا ہے اور جب قیامت قریب ہوگی تو وہ تمام فوت ہوجائیں گے ان میں سے بائیس شام میں ہیں اور اٹھارہ عراق میں ہیں۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ان الابدال یکونون بالشام وھم اربعون رجلا کلما مات منھم رجل ابدل اللہ مکانہ رجلا یسقی بھم الغیث وینصربھم علی الاعداء ویصرف بھم عن اھل الارض البلائ “۔ (
1
) (بلاشبہ ابدال شام میں ہوں گے اور وہ چالیس آدمی ہیں جب بھی ان میں سے کوئی آدمی فوت ہوا اللہ تعالیٰ اس کی جگہ اور آدمی مقرر فرمادے گا انکے سبب اللہ تعالیٰ بارش برساتا ہے ان کے سبب دشمنوں کے خلاف مدد فرماتا ہے اور ان کے سبب اہل زمین سے بلائیں اور مصبیتیں دور فرماتا ہے۔ حکیم ترمذی نے اسے نوادر الاصول میں ذکر کیا ہے۔ اسی طرح حضرت ابو الدرداء ؓ سے بھی روایت کیا ہے : انہوں نے کہا : بلاشبہ انبیاء علیہم الصلوت والتسلیمات زمین کے اوتار ہیں اور جب نبوت کا سلسلہ منقطع ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے حضور نبی رحمت ﷺ کی امت سے ایک جماعت کو ان کا بدل بنا دیا۔ انہیں ابدال کہا جاتا ہے : اور کثرت صوم وصلوۃ کی وجہ سے ان لوگوں کو فضیلت نہیں دی گئی، بلکہ حسن خلق، صدق وورع، حسن نیت، تمام مسلمانوں کے لئے دلوں کا صاف اور سلامت ہونا اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی چاہنے کے لئے انہیں صبر، حلم، دانشمندی اور بغیر کسی ذلت کے تواضع و انکساری اختیار کرنے کی نصیحت کرنے کے سبب انہیں فضیلت دی گئی، اور وہ انبیاء (علیہم السلام) کے خلفاء ہیں، وہ ایسی قوم ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لئے چن لیا ہے اور انہیں اپنی ذات کے بارے میں اپنے علم کے ساتھ خالص اور مختص کرلیا ہے اور وہ چالیس صدیق ہیں، ان میں سے تیس آدمی حضرت ابراہیم خلیل الرحمن کے یقین کی مثل پر ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے سبب اہل زمین سے مصائب اور لوگوں سے آفات اور آزمائشوں کو دور فرماتا ہے اور ان کے سبب اہل زمین پر بارش برسائی جاتی ہے اور انہیں رزق دیا جاتا ہے اور ان میں سے کوئی آدمی فوت نہیں ہوتا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ایسا آدمی پیدا فرما دے جو اس خلیفہ اور نائب ہوگا (
1
) (نوادر الاصول الی بیان عدد الابدال، جلد
1
، صفحہ
69
، دارصادر بیروت) حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا : اگر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی فوجوں کے سبب دشمنوں کو دور نہ کرتا تو مشرکین غالب آجاتے اور وہ مومنین کو قتل کرتے اور شہروں اور مساجد کو برباد کردیتے۔ اور حضرت سفیان ثوری نے کہا ہے : مراد وہ گواہی اور شہادت دینے والے لوگ ہیں جن کے سبب حقوق حاصل کیے جاتے ہیں اور مکی نے بیان کیا ہے کہ اکثر مفسرین نے یہ معنی بیان کیا ہے : اگر اللہ تعالیٰ نماز پڑھنے والوں کے سبب انہیں نہ بچائے جو نماز نہیں پڑھتے اور تقوی اختیار کرنے والوں کے سبب ان کی حفاظت نہ کرے جو تقوی اختیار نہیں کرتے تو وہ لوگوں کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کر دے (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
338
دارالکتب العلمیہ) اسی طرح نحاس اور ثعلبی نے بھی ذکر کیا ہے، ثعلبی نے کہا ہے اور تمام مفسرین نے کہا ہے : اگر اللہ تعالیٰ نیکو کار مومنین کو فجار اور کفار سے نہ بچائے تو زمین برباد اور فاسد ہوجائے، اور ایک حدیث ذکر کی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ میری امت کے نماز پڑھنے والوں کے سبب نماز نہ پڑھنے والوں سے اور تزکیہ اختیار کرنے والوں کے سبب تزکیہ اختیار نہ کرنے والوں سے اور روزے رکھنے والوں کے سبب روزے نہ رکھنے والوں سے اور حج کرنے والوں کے سبب حج نہ کرنے والوں سے اور جہاد کرنے والوں کے سبب جہاد نہ کرنے والوں سے عذاب دور فرماتا رہے گا اور اگر وہ ان اعمال کے ترک کرنے پر جمع ہوگئے تو اللہ تعالیٰ انہیں آنکھ جھپکنے کی بھی مہلت نہ دے گا، پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (آیت) ” ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لفسدت الارض “۔ اور حضور نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے، آپ نے ارشاد فرمایا : ان اللہ ملائکۃ تنادی کل یوم لولا عباد رکع واطفال رضع وبھائم رتع لصب علیکم العذاب صبا، (بےشک اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں جو ہر روز ندا دیتے ہیں : اگر عبادت گزار بندے نہ ہوتے، شیر خوار بچے نہ ہوتے اور چرنے والے جانور نہ ہوتے تو تم پر عذاب موسلادھار برسا دیا جاتا) (
3
) (شعب الایمان، جلد
3
، صفحہ
155
حدیث نمبر
9820
، دارالکتب العلمیۃ) اسے ابوبکر الخطیب نے اسی معنی میں حضرت فضیل بن عیاض (رح) کی حدیث سے روایت کیا ہے۔ منصور نے ابراہیم عن علقمہ عن عبداللہ ؓ کی سند سے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” اگر تم میں خشوع کرنے والے آدمی، چرنے والے جانور اور شیر خوار بچے نہ ہوں تو مومنین پر موسلا دھار عذاب برسا دیا جائے (
1
) (السنن الکبری للبیہقی، صلاۃ الاستسقاء جلد
3
، صفحہ
345
، دارالفکر) بعض نے یہ معنی لیا اور کہا : لولا عباد للالہ رکع وصبیۃ من الیتامی رضع : اگر اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے نہ ہوں اور شیر خوار یتیم بچے نہ ہوں۔ ومھملات فی الفلاۃ رتع صب علیکم العذاب الاوجع : اور جنگل میں چھوڑے گئے چرنے والے جانور نہ ہوں تو تم پر درد ناک عذاب موسلادھار برسا دیا جائے۔ اور حضرت جابر ؓ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” بیشک اللہ تعالیٰ آدمی کے اپنے بیٹے اور پوتے کی اصلاح کرنے کے سبب اس کی اصلاح فرما دیتا ہے اس کے گھر والوں کی اور اس کے اردگرد کے گھروں کی (اصلاح فرما دیتا ہے) اور وہ مسلسل اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہتے ہیں جب تک وہ ان میں ہو۔ “ (
2
) (جامع البیان للطبری، جلد
2
، صفحہ،
755
) حضرت قتادہ نے بیان کیا ہے : اللہ تعالیٰ مومن کو کافر کے سبب آزماتا ہے اور کافر کو مومن کے سبب عافیت عطا کرتا ہے، اور حضرت ابن عمر ؓ نے بیان کیا کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ان اللہ لیدفع بالمؤمن الصالح عن مائۃ من اھل بیتہ وجیرانہ البلاء “۔ بیشک اللہ تعالیٰ نیک صالح مومن کے سبب اس کے گھر والوں اور پڑوسیوں میں سے سو افراد سے مصیبت اور آفت کو دور فرماتا ہے۔ (
3
) (تفسیر معالم التنزیل، جلد
1
صفحہ
355
، درالفکربیروت) پھر حضرت ابن عمر ؓ نے یہ آیت پڑھی : (آیت) ” ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لفسدت الارض “۔ اور کہا گیا ہے : یہ دفاع اور بچاؤ اس شریعت کے سبب ہے جو انبیاء ورسل (علیہم السلام) کی زبانوں پر شریعتوں میں سے جاری ہوئیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگ ایک دوسرے سے زبردستی اشیاء چھینتے اور ایک دوسرے کا سامان لوٹتے اور ہلاک ہوجاتے، یہ حسین قول ہے کیونکہ روکنے اور دفاع وغیرہ میں عموم ہے، پس اس میں غور کرلو۔ (آیت) ” ولکن اللہ ذوفضل علی العلمین “۔ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا مومنین سے کفار کے شر کو دور کرنا یہ اس کا فضل اور خاص انعام ہے۔
Top