Al-Qurtubi - Al-Baqara : 251
فَهَزَمُوْهُمْ بِاِذْنِ اللّٰهِ١ۙ۫ وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَهٗ مِمَّا یَشَآءُ١ؕ وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ١ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
فَهَزَمُوْھُمْ : پھر انہوں نے شکست دی انہیں بِاِذْنِ اللّٰهِ : اللہ کے حکم سے وَقَتَلَ : اور قتل کیا دَاوٗدُ : داود جَالُوْتَ : جالوت وَاٰتٰىهُ : اور اسے دیا اللّٰهُ : اللہ الْمُلْكَ : ملک وَالْحِكْمَةَ : اور حکمت وَعَلَّمَهٗ : اور اسے سکھایا مِمَّا : جو يَشَآءُ : چاہا وَلَوْ : اور اگر لَا : نہ دَفْعُ : ہٹاتا اللّٰهِ : اللہ النَّاسَ : لوگ بَعْضَهُمْ : بعض لوگ بِبَعْضٍ : بعض کے ذریعہ لَّفَسَدَتِ : ضرور تباہ ہوجاتی الْاَرْضُ : زمین وَلٰكِنَّ : اور لیکن اللّٰهَ : اللہ ذُوْ فَضْلٍ : فضل والا عَلَي : پر الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
تو طالوت کی فوج نے خدا کے حکم سے ان کو ہزیمت دی اور داؤد نے جالوت کو قتل کر ڈالا اور خدا نے ان کو بادشاہی اور دانائی بخشی اور جو کچھ چاہا سکھایا اور خدا لوگوں کو ایک دوسرے (پر چڑھائی اور حملہ کرنے) سے نہ ہٹاتا رہتا تو ملک تباہ ہوجاتا لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہربان ہے
(آیت) ” نمبر 251۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” فھزموھم باذن اللہ “۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان پر مدد ونصرت نازل فرمائی۔ (آیت) ” فھزموھم “ تو انہوں نے انہیں شکست دی (ان کمر توڑ دی) اور الھزم کا معنی ہے توڑنا، اور اسی سے ہے سقاء متھزم “ ، یعنی ایسی مشک جو خشکی کے سبب ٹوٹ جائے اور اسی سے وہ قول ہے جو زمزم کے بارے میں کہا گیا ہے یہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کا گڑھا ہے (ھزمۃ جبریل) یعنی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے زمین کو اپنے پاؤں سے نیچے دبایا، گڑھا بن گیا اور پانی نکل آیا، اور الھزم سے مراد وہ خشک لکڑی بھی ہے جو ٹوٹ جاتی ہے۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” وقتل داؤد جالوت “ اس لئے کہ طالوت بادشاہ تھا اور جالوت کے ساتھ جنگ لڑنے کے لئے یہ اپنی قوم میں سے چنا گیا تھا، یہ قدو قامت کے اعتبار سے چھوٹا، زیادہ تر بیمار رہنے والا، زرد رنگ کا تھا اس کی (آنکھیں چھوٹی اور نیلی تھیں) اور جالوت لوگوں میں سے انتہائی مضبوط اور بہت زیادہ قوی تھا، اور یہ اکیلا لشکروں کو شکست دے سکتا تھا اور جالوت کو قتل کردیا گیا، حالانکہ وہ عمالقہ کا امیر اور سردار تھا اور (قتل کرنے والے) داؤد ابن ایشی تھے یہ ایشی ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ ہے، اور کہا جاتا ہے : وہ داؤد بن زکریا بن رشوی تھے، یہ یہوذا ابن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم (علیہم السلام) کی اولاد میں سے تھے اور بیت المقدس کے رہنے والے تھے، ان کی نبوت اور بادشاہت دونوں چیزیں اکٹھی عطا فرما دی گئیں۔ اس سے پہلے یہ چرواہے تھے اور یہ اپنے بھائیوں میں سے چھوٹے تھے اور ریوڑچراتے تھے اور ان کے ساتھ بھائی اصحاب طالوت میں سے تھے، پس جب جنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے دل میں کہا : میں ضرور بہ ضرور اس جنگ کو دیکھنے کے لئے جاؤں گا، جب اس راستے پر چلے ایک پتھر کے پاس سے گزرے تو اس نے آپ کو آواز دی اے داؤد، مجھے اٹھا لے، اور میرے ساتھ تو جالوت کو قتل کرے گا، پھر ایک دوسرے پتھر نے انہیں آواز دی، پھر ایک اور نے آواز دی، پس آپ نے انہیں اٹھا لیا اور انہیں اپنے تو بڑے میں رکھ لیا اور چل پڑے۔ پس جالوت (لشکر کی صفوں سے) باہر نکلا اور دعوت مبارزت دینے لگا تو لوگوں نے اس کے مقابلے کی جرات نہ کی اور کمزوری دکھائی یہاں تک کہ طالوت نے کہا : جو اس کا مقابلہ کرے گا اور اسے قتل کردے گا میں اس کا نکاح اپنی بیٹی سے کروں گا اور اپنے مال میں اسے حکم بناؤں گا، چناچہ حضرت داؤد (علیہ السلام) آئے اور کہا : میں اس کے ساتھ مقابلہ کروں گا اور اسے قتل کر دوں گا (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 337 دارالکتب العلمیہ) لیکن طالوت نے جب ان کی صغر سنی اور چھوٹے قد کو دیکھا تو انہیں کمزور قرار دے کر واپس لوٹا دیا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نیلگوں چھوٹے قد کے تھے، پھر طالوت نے دوبارہ اور سہ بارہ اعلان کیا اور پھر بھی حضرت داؤد (علیہ السلام) ہی باہر نکلے، تب طالوت نے ان سے کہا : کیا تو اپنی ذات میں کسی شے سے تجربہ رکھتا ہے ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں : اس نے پوچھا : وہ کیسے ؟ انہوں نے فرمایا : ایک دفعہ ایک بھیڑیا میرے ریوڑ میں داخل ہوگیا تو میں نے اسے مارا، پھر اس کے سر کو پکڑ لیا اور میں نے اسے اس کے جسم سے الگ کردیا، طالوت نے کہا : بھیڑیا تو کمزور ہے، کیا اس کے علاوہ بھی تو کوئی تجربہ رکھتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، ایک دفعہ ایک شیر میرے ریوڑ میں آگیا تو میں نے اسے مارا پھر میں نے اسے جبڑوں سے پکڑ لیا اور میں نے ان دونوں کو چیر ڈالا، کیا تو اسے شیر سے بھی زیادہ طاقتور جانتا ہے ؟ طالوت نے کہا : نہیں، طالوت کے پاس ایک زرہ تھی اور وہ اسی پوری آسکتی تھی جو جالوت کو قتل کرے گا، پس اس نے اس کے بارے آپ کو آگاہ کیا اور وہ زرہ آپ پر ڈال دی تو وہ بالکل برابر ہوگئی، پھر طالوت نے کا ہ : تو میرے گھوڑے پر سوار ہوجا، میرا ہتھیار پکڑلے (اور اس کے مقابلے میں جا) چناچہ آپ نے ایسا کرلیا، لیکن جب تھوڑا سا چلے تو واپس لوٹ آئے اور لوگوں نے کہا : یہ نوجوان تو بزدل ہوگیا ہے۔ تو حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ نے اسے میرے سبب قتل نہ کیا اور اس کے خلاف اس نے میری مدد نہ فرمائی تو پھر یہ گھوڑا اور یہ ہتھیار میرے لئے نفع بخش نہیں ہیں۔ البتہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میں اس سے اپنی عادت کے مطابق ہی لڑوں۔ راوی کا بیان ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) مقلاع (پتھر پھینکنے کا گوپھیا، فلاخن) کے ساتھ پتھر پھینکنے کے لوگوں کی نسبت زیادہ ماہر تھے، پس آپ (گھوڑے سے) اترے اور اپنے تو برے کو اٹھایا اور اسے لٹکا لیا اور اپنا گوپھیا اٹھایا اور جالوت کی طرف چل نکلے، وہ مکمل اپنے ہتھیار پہنے ہوئے تھا اس کے سر پر خود تھا اس میں تین سو رطل تھے، جیسا کہ الماوردی وغیرہ نے ذکر کیا ہے تو جالوت نے انہیں کہا : اے نوجوان ! تو میری طرف نکلا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، اس نے کہا : اس طرح جیسا کہ تو کتے کی طرف نکلا ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں، بلکہ تو اس سے بھی آسان ہے، فرمایا : میں یقینا آج تیرا گوشت پرندوں اور درندوں کو کھلاؤں گا پھر وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب ہوئے اور جالوت نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو حقیر جانتے ہوئے انہیں اپنے ہاتھ سے پکڑنے کی کوشش کی، تو حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اپنا ہاتھ پتھر کی طرف بڑھایا اور روایت ہے کہ وہ پتھر جڑ چکے تھے اور وہ ایک پتھر بن گیا تھا، سو آپ نے اسے پکڑا اور اپنے گوپھیا میں رکھا اور اللہ تعالیٰ کا نام لیا اور اسے گھمایا اور پھینک دیا، پس وہ جالوت کے سر میں جا لگا اور اسے قتل کردیا اور اس کے سر کو کاٹ کر اپنے تو بڑے میں رکھ لیا اور لوگوں میں مل گئے، اور طالوت کی فوج نے حملہ کردیا اور یہی ہزیمت اور شکست تھی (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 337 دارالکتب العلمیہ) یہ بھی کہا گیا ہے کہ پتھر خود سے ناک کی جگہ پر جا لگا اور بعض نے کہا ہے : اسے آنکھ پر جا کر لگا اور اس کی گدی کی جانب سے نکل گیا اور اس کے لشکر کی ایک جماعت کو جا کر لگا اور اس نے انہیں قتل کردیا، یہ قول بھی ہے کہ پتھر ٹوٹ کر بکھر گیا یہاں تک کہ لشکر کے ہر فرد کو اس کا کچھ حصہ جا کر لگا اور یہ (سنگریزوں کی) اس مشت کی طرح تھا جو حضور نبی مکرم ﷺ نے غزوہ حنین کے دن بنی ہوازن پر پھینکی۔ واللہ اعلم ان آیات کے قصص میں لوگوں نے بہت زیادہ بیان کیا ہے اور میں نے تیرے لئے ان میں سے خاص مقصود کو ہی ذکر کیا ہے واللہ المحمود۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : طالوت کے اس قول کے بارے میں ہے ” جو اس کا مقابلہ کرے گا اور اسے قتل کرے گا تو میں اس کی شادی اپنی بیٹی سے کروں گا اور اسے اپنے مال میں حکم بناؤں گا “ یہ مفہوم ہماری شریعت میں بھی ثابت اور موجود ہے اور وہ ہے کہ امام وقت کہے : جو فلاں کا سر لائے گا تو اس کے لئے اتنا ہوگا، یا جو فلاں کو قید بنا کر لاے تو اس کے لئے اتنا انعام ہوگا، اس کا بیان سورة الانفال میں آئے گا، انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور اس میں اس پر دلیل ہے کہ مبارزت امام کی اجازت کے بغیر نہیں ہو سکتی، جیسا کہ امام احمد اور اسحاق وغیرہما اس کے بارے کہتے ہیں اور اس میں امام اوزاعی (رح) سے اختلاف منقول ہے، سو ان سے بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا : کوئی بھی اپنے امام کی اجازت کے بغیر حملہ نہیں کرسکتا اور یہ بھی منقول ہے کہ انہوں نے کہا : کوئی حرج نہیں ہے۔ اور اگر امام مبارزت سے روک دے تو پھر اس کی اجازت کے بغیر کوئی مبارز طلب نہ کرے گا۔ اور ایک گروہ نے مقابلے کو مباح قرار دیا ہے اور انہوں نے امام کی اجازت ہونے یا نہ ہونے کا کوئی ذکر نہیں کیا یہ امام مالک کا قول ہے۔ امام مالک سے اس آدمی کے بارے پوچھا گیا جو دو صفوں کے درمیان کہتا ہے : کون مقابلہ کرے گا ؟ تو انہوں نے فرمایا اس کا انحصار اس کی نیت پر ہے اگر اس سے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا ارادہ رکھتا ہے تو میں امید رکھتا ہوں کہ اس کے لئے کوئی حرج نہ ہوگا، زمانہ ماضی میں ایسا کیا جاتا رہا ہے اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے : مبارزت طلب کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ابن منذر نے کہا ہے : امام کی اجازت کے ساتھ مبارزت طلب کرنا اچھا ہے اور اس پر بھی کوئی حرج نہیں ہے جس نے امام کی اجازت کے بغیر مبارز طلب کیا یہ مکروہ نہیں ہے کیونکہ اس کے بارے میں کوئی مانع خبر نہیں جانتا۔ (آیت) ” واتہ اللہ الملک والحکمۃ “۔ سدی نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤدعلیہ السلام کو طالوت کا ملک (بادشاہی) اور شمعون کی نبوت عطا فرمائی۔ اور وہ جو اللہ تعالیٰ نے انہیں علم عطا فرمایا وہ زرہیں بنانے اور پرندوں کی گفتگو سمجھنے اور دیگر ان علوم کی انواع میں سے کئی عطا فرمائے جو اللہ تعالیٰ نے حضور نبی مکرم ﷺ کو عطا فرمائے ہیں (1) ، حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے : اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک زنجیر عطا فرمایا جو کہکشاں اور فلک سے ملا ہوا تھا اور اس کا ایک سرا حضرت داؤد (علیہ السلام) کی عبادت گاہ کے پاس تھا اور ہوا میں جو واقعہ بھی پیش آتا زنجیر بجنے لگتا اور اس سے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو اس واقعہ کا علم ہوجاتا جو وقوع پذیر ہوتا اور کوئی آفت زدہ اسے چھو لیتا تو وہ اس سے نجات پا جاتا اور یہ آپ کی قوم کے دین میں داخل ہونے کی ملامت تھی کہ وہ اسے اپنے ہاتھوں کے ساتھ مس کرتے پھر اپنی ہتھیلیوں کو اپنے سینوں پر مل لیتے اور وہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بعد اس کے پاس فیصلے کرتے ہیں یہاں تک کہ اسے اٹھا لیا گیا۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” مما یشآء “ یہ بمنی مما شاء ہے اور کبھی ماضی کی جگہ مستقبل کا صیغہ رکھ دیا جاتا ہے اور یہ پہلے گزر چکا ہے۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لفسدت الارض ولکن اللہ ذوفضل علی العلمین “۔ اس میں دو مسئلے ہیں : قولہ تعالیٰ (آیت) ” ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض “۔ اسی طرح تمام کی قرات ہے سوائے حضرت نافع کے کیونکہ انہوں نے دفاع پڑھا ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ فعل کا مصدر ہو جیسا کہا جاتا ہے : حسبت الشیء حسابا ات ایابا، لقیتہ لقاء اور اس کی مثل کتبہ کتابا ہے اور اسی سے کتاب اللہ علیکم (النسائ) بھی ہے نحاس نے کہا ہے : یہ اچھا ہے پس دفاع اور دفع دونوں دفع کے مصدر ہوں گے، یہی سیبویہ کا مذہب ہے۔ اور ابو حاتم نے کہا ہے : دافع اور دفع دونوں کا معنی ایک ہے، جیسا طرقت النعمل اور طارقت ہے یعنی میں نے جوتے کو ایک دوسرے پر سیا، الخصف، کا معنی الخرز، سینا ہے۔ ابو عیبدہ نے جمہور کی قرات کو اختیار کیا ہے (یعنی) (آیت) ” ولولا دفع اللہ “ اور انہوں نے دفاع پڑھنے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کوئی بھی غالب نہیں آسکتا، مکی نے کہا ہے : یہ وہم ہے باب مفاعلہ نے اس میں وہم پیدا کیا ہے اور ایسا نہیں ہے، اور لفظ اللہ، فعل کے سبب محل رفع میں ہے، یعنی لولا ان یدفع اللہ، اور دفاع مسیبویہ کے نزدیک مبتدا ہونے کے سب مرفوع ہے۔ ” الناس “ مفعول ہے اور (آیت) ” بعضھم الناس “ سے بدل ہے اور ” ببعض “ سیبویہ کے نزدیک مفعول ثانی کے محل میں ہے اور یہ ان کے نزدیک تیرے اس قول کی مثل ہے : ذھبت بزید، تو اس میں زید مفعول کے محل میں ہے، اسے جان لو، مسئلہ نمبر : (2) علماء کا ان لوگوں کے بارے میں اختلاف ہے جنہیں فساد سے بچایا گیا ہے وہ کون ہیں ؟ تو کہا گیا ہے : وہ ابدال ہیں اور وہ چالیس آدمی ہیں ان میں سے جب بھی کوئی فوت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا بدل بنا دیتا ہے اور جب قیامت قریب ہوگی تو وہ تمام فوت ہوجائیں گے ان میں سے بائیس شام میں ہیں اور اٹھارہ عراق میں ہیں۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ان الابدال یکونون بالشام وھم اربعون رجلا کلما مات منھم رجل ابدل اللہ مکانہ رجلا یسقی بھم الغیث وینصربھم علی الاعداء ویصرف بھم عن اھل الارض البلائ “۔ (1) (بلاشبہ ابدال شام میں ہوں گے اور وہ چالیس آدمی ہیں جب بھی ان میں سے کوئی آدمی فوت ہوا اللہ تعالیٰ اس کی جگہ اور آدمی مقرر فرمادے گا انکے سبب اللہ تعالیٰ بارش برساتا ہے ان کے سبب دشمنوں کے خلاف مدد فرماتا ہے اور ان کے سبب اہل زمین سے بلائیں اور مصبیتیں دور فرماتا ہے۔ حکیم ترمذی نے اسے نوادر الاصول میں ذکر کیا ہے۔ اسی طرح حضرت ابو الدرداء ؓ سے بھی روایت کیا ہے : انہوں نے کہا : بلاشبہ انبیاء علیہم الصلوت والتسلیمات زمین کے اوتار ہیں اور جب نبوت کا سلسلہ منقطع ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے حضور نبی رحمت ﷺ کی امت سے ایک جماعت کو ان کا بدل بنا دیا۔ انہیں ابدال کہا جاتا ہے : اور کثرت صوم وصلوۃ کی وجہ سے ان لوگوں کو فضیلت نہیں دی گئی، بلکہ حسن خلق، صدق وورع، حسن نیت، تمام مسلمانوں کے لئے دلوں کا صاف اور سلامت ہونا اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی چاہنے کے لئے انہیں صبر، حلم، دانشمندی اور بغیر کسی ذلت کے تواضع و انکساری اختیار کرنے کی نصیحت کرنے کے سبب انہیں فضیلت دی گئی، اور وہ انبیاء (علیہم السلام) کے خلفاء ہیں، وہ ایسی قوم ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لئے چن لیا ہے اور انہیں اپنی ذات کے بارے میں اپنے علم کے ساتھ خالص اور مختص کرلیا ہے اور وہ چالیس صدیق ہیں، ان میں سے تیس آدمی حضرت ابراہیم خلیل الرحمن کے یقین کی مثل پر ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے سبب اہل زمین سے مصائب اور لوگوں سے آفات اور آزمائشوں کو دور فرماتا ہے اور ان کے سبب اہل زمین پر بارش برسائی جاتی ہے اور انہیں رزق دیا جاتا ہے اور ان میں سے کوئی آدمی فوت نہیں ہوتا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ایسا آدمی پیدا فرما دے جو اس خلیفہ اور نائب ہوگا (1) (نوادر الاصول الی بیان عدد الابدال، جلد 1، صفحہ 69، دارصادر بیروت) حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا : اگر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی فوجوں کے سبب دشمنوں کو دور نہ کرتا تو مشرکین غالب آجاتے اور وہ مومنین کو قتل کرتے اور شہروں اور مساجد کو برباد کردیتے۔ اور حضرت سفیان ثوری نے کہا ہے : مراد وہ گواہی اور شہادت دینے والے لوگ ہیں جن کے سبب حقوق حاصل کیے جاتے ہیں اور مکی نے بیان کیا ہے کہ اکثر مفسرین نے یہ معنی بیان کیا ہے : اگر اللہ تعالیٰ نماز پڑھنے والوں کے سبب انہیں نہ بچائے جو نماز نہیں پڑھتے اور تقوی اختیار کرنے والوں کے سبب ان کی حفاظت نہ کرے جو تقوی اختیار نہیں کرتے تو وہ لوگوں کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کر دے (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 338 دارالکتب العلمیہ) اسی طرح نحاس اور ثعلبی نے بھی ذکر کیا ہے، ثعلبی نے کہا ہے اور تمام مفسرین نے کہا ہے : اگر اللہ تعالیٰ نیکو کار مومنین کو فجار اور کفار سے نہ بچائے تو زمین برباد اور فاسد ہوجائے، اور ایک حدیث ذکر کی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ میری امت کے نماز پڑھنے والوں کے سبب نماز نہ پڑھنے والوں سے اور تزکیہ اختیار کرنے والوں کے سبب تزکیہ اختیار نہ کرنے والوں سے اور روزے رکھنے والوں کے سبب روزے نہ رکھنے والوں سے اور حج کرنے والوں کے سبب حج نہ کرنے والوں سے اور جہاد کرنے والوں کے سبب جہاد نہ کرنے والوں سے عذاب دور فرماتا رہے گا اور اگر وہ ان اعمال کے ترک کرنے پر جمع ہوگئے تو اللہ تعالیٰ انہیں آنکھ جھپکنے کی بھی مہلت نہ دے گا، پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (آیت) ” ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لفسدت الارض “۔ اور حضور نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے، آپ نے ارشاد فرمایا : ان اللہ ملائکۃ تنادی کل یوم لولا عباد رکع واطفال رضع وبھائم رتع لصب علیکم العذاب صبا، (بےشک اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں جو ہر روز ندا دیتے ہیں : اگر عبادت گزار بندے نہ ہوتے، شیر خوار بچے نہ ہوتے اور چرنے والے جانور نہ ہوتے تو تم پر عذاب موسلادھار برسا دیا جاتا) (3) (شعب الایمان، جلد 3، صفحہ 155 حدیث نمبر 9820، دارالکتب العلمیۃ) اسے ابوبکر الخطیب نے اسی معنی میں حضرت فضیل بن عیاض (رح) کی حدیث سے روایت کیا ہے۔ منصور نے ابراہیم عن علقمہ عن عبداللہ ؓ کی سند سے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” اگر تم میں خشوع کرنے والے آدمی، چرنے والے جانور اور شیر خوار بچے نہ ہوں تو مومنین پر موسلا دھار عذاب برسا دیا جائے (1) (السنن الکبری للبیہقی، صلاۃ الاستسقاء جلد 3، صفحہ 345، دارالفکر) بعض نے یہ معنی لیا اور کہا : لولا عباد للالہ رکع وصبیۃ من الیتامی رضع : اگر اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے نہ ہوں اور شیر خوار یتیم بچے نہ ہوں۔ ومھملات فی الفلاۃ رتع صب علیکم العذاب الاوجع : اور جنگل میں چھوڑے گئے چرنے والے جانور نہ ہوں تو تم پر درد ناک عذاب موسلادھار برسا دیا جائے۔ اور حضرت جابر ؓ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” بیشک اللہ تعالیٰ آدمی کے اپنے بیٹے اور پوتے کی اصلاح کرنے کے سبب اس کی اصلاح فرما دیتا ہے اس کے گھر والوں کی اور اس کے اردگرد کے گھروں کی (اصلاح فرما دیتا ہے) اور وہ مسلسل اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہتے ہیں جب تک وہ ان میں ہو۔ “ (2) (جامع البیان للطبری، جلد 2، صفحہ، 755) حضرت قتادہ نے بیان کیا ہے : اللہ تعالیٰ مومن کو کافر کے سبب آزماتا ہے اور کافر کو مومن کے سبب عافیت عطا کرتا ہے، اور حضرت ابن عمر ؓ نے بیان کیا کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ان اللہ لیدفع بالمؤمن الصالح عن مائۃ من اھل بیتہ وجیرانہ البلاء “۔ بیشک اللہ تعالیٰ نیک صالح مومن کے سبب اس کے گھر والوں اور پڑوسیوں میں سے سو افراد سے مصیبت اور آفت کو دور فرماتا ہے۔ (3) (تفسیر معالم التنزیل، جلد 1 صفحہ 355، درالفکربیروت) پھر حضرت ابن عمر ؓ نے یہ آیت پڑھی : (آیت) ” ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لفسدت الارض “۔ اور کہا گیا ہے : یہ دفاع اور بچاؤ اس شریعت کے سبب ہے جو انبیاء ورسل (علیہم السلام) کی زبانوں پر شریعتوں میں سے جاری ہوئیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگ ایک دوسرے سے زبردستی اشیاء چھینتے اور ایک دوسرے کا سامان لوٹتے اور ہلاک ہوجاتے، یہ حسین قول ہے کیونکہ روکنے اور دفاع وغیرہ میں عموم ہے، پس اس میں غور کرلو۔ (آیت) ” ولکن اللہ ذوفضل علی العلمین “۔ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا مومنین سے کفار کے شر کو دور کرنا یہ اس کا فضل اور خاص انعام ہے۔
Top