Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 251
فَهَزَمُوْهُمْ بِاِذْنِ اللّٰهِ١ۙ۫ وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَهٗ مِمَّا یَشَآءُ١ؕ وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ١ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
فَهَزَمُوْھُمْ : پھر انہوں نے شکست دی انہیں بِاِذْنِ اللّٰهِ : اللہ کے حکم سے وَقَتَلَ : اور قتل کیا دَاوٗدُ : داود جَالُوْتَ : جالوت وَاٰتٰىهُ : اور اسے دیا اللّٰهُ : اللہ الْمُلْكَ : ملک وَالْحِكْمَةَ : اور حکمت وَعَلَّمَهٗ : اور اسے سکھایا مِمَّا : جو يَشَآءُ : چاہا وَلَوْ : اور اگر لَا : نہ دَفْعُ : ہٹاتا اللّٰهِ : اللہ النَّاسَ : لوگ بَعْضَهُمْ : بعض لوگ بِبَعْضٍ : بعض کے ذریعہ لَّفَسَدَتِ : ضرور تباہ ہوجاتی الْاَرْضُ : زمین وَلٰكِنَّ : اور لیکن اللّٰهَ : اللہ ذُوْ فَضْلٍ : فضل والا عَلَي : پر الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
پھر طالوت کے ساتھیوں نے خدا کے حکم سے جالوت والوں کو شکست دیدی اور دائود نے جالوت کو مار ڈالا اور اللہ تعالیٰ نے دائود (علیہ السلام) کو سلطنت اور نبوت عطا فرمائی اور جو کچھ اور بھی چاہا اس کو سکھا دیا اور اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو بعض لوگوں کے ذریعہ دفع نہ کرتا رہے تو زمین تباہ ہوجائے لیکن اللہ تعالیٰ اہل عالم پر بڑا فضل کرنے والا ہے2
2 اس دعا کے بعد طالوت کے ساتھیوں نے جالوت والوں کو اللہ تعالیٰ کی مدد سے چکنا چور کردیا اور ان کو شکست دے دی اور ایشیا کے لڑکے دائود نے جالوت کو قتل کردیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد دائود کو سلطنت اور حکمت یعنی نبوت عطا کی اور بھی جو جو کچھ اللہ تعالیٰ نے چاہا دائود کے لئے مناسب سمجھا اس کو تعلیم کردیا اور سکھا دیا اور اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو یعنی اہل باطل کو بعض لوگوں یعنی اہل حق کے ہاتھوں دفع نہ کرائے اور اہل باطل کو شکست نہ دلاتا رہے تو زمین تبا ہ ہوجائے اور زمین اہل شر و فساد کی شرارتوں اور فساد سے بھر جائے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ اہل عالم پر بڑا صاحب فضل ہے کہ بروں کو اچھوں کے ہاتھوں دفع کرا دیتا ہے اور بروں کو مغلوب کرتا رہتا ہے۔ ( تیسیر) ہزم کے معنی ہیں توڑنے کے یہاں مقاتل کی شکست مراد ہے۔ ہم نے تیسیر میں دونوں رعایتیں رکھی ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ دونوں لشکر جب بالمقابل ہوئے تو جالوت اپنا فوجی لباس پہن کر تنہا آگے بڑھا اور کہنے لگا تم سب کو میں اکیلا ہی کافی ہوں آئو پہلے مجھ سے مقابلہ کرو اس وقت شمویل بنی کے کہنے سے طالو ت نے ایشیا کو بلایا اور ان سے دریافت کیا کہ تمہارے کتنے لڑکے ہیں ۔ انہوں نے عرض کیا میرے چھ لڑکے ہیں ۔ حضرت دائود کا ذکر نہیں کیا کیونکہ وہ چھوٹے تھے اور اس وقت میدان جنگ میں بھی نہیں تھے ، بلکہ وہ بکریاں چرانے گئے ہوئے تھے۔ مگر شمویل نبی کے حکم سے دائود کو بلایا گیا ۔ جب دائود حسب طلب آ رہے تھے تو راہ میں ان کو تین پتھروں نے آواز دے کر کہا ۔ اے دائود ہم کو تو اٹھا لے ہم تجھے کام دیں گے۔ چنانچہ انہوں نے وہ پتھر اٹھا لئے اور جب شمویل نبی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو شمویل نبی نے جالوت کے مقابلہ کے لئے ان کو منتخب کیا ۔ چناچہ انہوں نے وہ تینوں پتھر اپنے گوپیہ میں رکھ لئے اور آگے بڑھے اور جالوت کو للکارا جالوت نے کہامجھ کو تجھ پر رحم آتا ہے تو کیوں میرے ہاتھ سے مرنے کی خواہش کرتا ہے۔ حضرت دائود نے فرمایا نہیں میں ہی تیرا مقابلہ کروں گا ۔ چناچہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے اپناگوپیا پھرا کر وہ تینوں پتھر اس کے ماتھے پر مارے اس کا ماتھا ہی صرف کھلا ہوا تھا۔ باقی تمام بدن زرہ بکتر سے ڈھکا ہوا تھا۔ حسن اتفاق سے وہ پتھر اس کے سر میں گھس گئے سرپاش پاش ہوگیا ۔ جالوت کے مرتے ہی اس کا لشکر فرار ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فتح دی اور ان کا ملک واپس ہوا ۔ اس واقعہ کے بعد طالوت نے اپنی بیٹی کی شادی حضرت دائود (علیہ السلام) سے کردی اور طالوت کے بعد وہ بادشاہ ہوئے اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود (علیہ السلام) کو ملک بھی عنایت کیا اور نبوت بھی عطا فرمائی۔ حکمت کا مفہوم وسیع ہے ۔ اور سب سے بڑی دانش اور فہم صحیح نبوت ہے یہاں وہی مراد ہے اور جو کچھ سکھایا وہ لوہے کی زرع بنانا اور پہاڑوں کو اور پرندوں کو مسخر کرنا وغیرہ ہوگا یا حسن صوت ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ تدبیر سلطنت اور انتظام حکومت ہو۔ ( واللہ اعلم) اور یہ جو فرمایا بعض کو بعض سے دفع کراتے رہتے ہیں اس کا مفہوم بھی عام ہے ایک تو یہی شریروں کو نیکوں کے ہاتھوں دباتے رہتے ہیں اور کافروں کو جو مفسد ہیں اور مسلمان جو مصلح ہیں ان کے ہاتھوں مغلوب کرتے رہتے ہیں ۔ اگر ایسا نہ کرتے رہیں تو زمین کفر و شرک کی آلودگی سے لبریز ہوجائے اور یہی سب سے بڑا فساد ہے کہ خدا کی زمین کو شرک سے تباہ کیا جائے چونکہ اللہ تعالیٰ بڑا صاحب فضل ہے اس لئے اہل باطل کو ایسا موقع نہیں دیتا کہ وہ زمین کو اپنے افعال قبیحہ اور مفاسد کی آماجگاہ بنالیں اور کبھی کبھی جو مسلمان مغلوب ہوجاتے ہیں تو وہ عارضی مغلوبیت ہوتی ہے یا کسی غلطی یا جرم کی پاداش میں ایسا ہوجاتا ہے اور جب سزا کی مدت پوری ہوجاتی ہے اور مسلمان اپنی کمزوریوں کو دور کرلیتے ہیں تو پھر انہی کو غلبہ عطا ہوجاتا ہے۔ بہر حال ایک معنی تو یہی ہیں جو عام طور سے بیان کئے جاتے ہیں اور ایک معنی اور بھی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر برے لوگوں پر سے بلائیں اور آفات اور مصائب اچھے لوگوں کی برکت سے دفع نہ کرتا رہے تو سب دنیا والے اپنے اعمال کی سزائوں میں مبتلا کردیئے جائیں لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ جہان والوں کی مصیبتوں کو اپنے نیک بندوں کے صدقے میں اور نیک بندوں کی برکت سے ٹالتا رہتا ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ نمازیوں کی برکت سے بےنمازیوں کی اور حج کرنے والوں کی برکت سے حج نہ کرنے والوں کی اور اپنی اصلاح کرنے والوں کی برکت سے اصلاح نہ کرنے والوں کی مدافعت ہوتی رہتی ہے۔ ابن عدی نے ابن عمر سے مرفوعاًنقل کیا ہے اگرچہ سند میں ضعیف ہے کہ فرمایا نبی کریم ﷺ نے کہ اللہ تعالیٰ ایک نیک مسلمان کی برکت سے اس کے آس پاس پڑوس کے سو گھروں کی بلا دور کردیا کرتا ہے پھر ابن عمر ؓ نے استشہاد کے طور پر یہ آیت پڑھی ۔ ولو لا دفع اللہ الناس (واللہ اعلم) حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں تین سو تیرہ آدمیوں میں حضرت دائود (علیہ السلام) کا باپ اور یہ ان کے چھ بھائی تھے ان کی راہ میں تین پتھر ملے اور بولے کہ ہم کو اٹھا لے جالوت کو ہم ماریں گے ۔ جب مقابلہ ہوا جالوت خود باہرنکلا ، کہا تم سب کو میں کفایت ہوں میرے سامنے آتے جائو ۔ پیغمبر نے دائود کے والد کو بلایا کہ اپنے بیٹے مجھ کو دکھا۔ اس نے چھ بیٹے دکھائے جو قدآور تھے۔ حضرت دائود کو نہ دکھایا وہ قدر آور نہ تھے اور بکریاں چراتے تھے پیغمبر نے ان کو بلوایا اور پوچھا کہ تو جالوت کو مارے گا ۔ انہوں نے کہا ماروں گا پھر اس کے سامنے گئے وہ تین پتھر فلاخن میں رکھ کر مارے اس کا ماتھا کھلا تھا اور تمام بدن لوہے میں غرق تھا ماتھے کو لگے اور پیچھے کو نکل گئے۔ فائدہ بعد اس طالوت نے اپنی بیٹی ان کو نکاح کردی بعد طالوت کے یہ بادشاہ ہوئے۔ فائدہ نادان لوگ کہتے ہیں کہ لڑائی کرنی نبیوں کا کام نہیں ۔ اس قصے سے معلوم ہوا کہ جہاد ہمیشہ رہا ہے اور اگر جہاد نہ ہو تو مفسد لوگ ملک کو ویران کردیں۔ ( موضح القرآن) یہ ممکن ہے کہ حضرت شاہ صاحب (رح) کے زمانے میں بھی ایسے لوگ ہوں جنہوں نے جہاد کا انکار کیا ہو اور حضرت شاہ اسماعیل شہید کے جہاد پر اعتراض کیا ہو ۔ شاہ صاحب (رح) نے اس کا جواب دیا ہو اور ہمارے زمانے میں تو انگریزی تسلط اور یورپین تعلیم کے باعث لوگوں نے جہاد کے خلاف اتنی کتابیں لکھ ڈالیں کہ پچاسوں الماریاں ان ہفوات سے بھر جائیں اور حکومت متسلطہ کو خوش کرنے کی غرض سے ایسی رکیک اور بعید از عقل تاویلیں کی کہ اعاذنا اللہ منھا بہر حال ان ضمنی واقعات کو بیان کرنے کے بعد اصل مضمون جو توحید و رسالت ہے اس کا اعادہ فرماتے ہیں اور پہلے نبی کریم ﷺ کی نبوت اور رسالت کی تصدیق فرماتے ہیں۔ (تسہیل)
Top