Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 154
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ١ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ
وَلَا : اور نہ تَقُوْلُوْا : کہو لِمَنْ : اسے جو يُّقْتَلُ : مارے جائیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ اَمْوَاتٌ : مردہ بَلْ : بلکہ اَحْيَآءٌ :زندہ ہیں وَّلٰكِنْ : اور لیکن لَّا تَشْعُرُوْنَ : تم شعور نہیں رکھتے
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں ان کو مردہ نہ کہوبل کہ وہ زندہ ہیں لیکن تم محسوس نہیں کرتے۔
وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ طبَلْ َحْیَآئٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ ۔ (البقرۃ۔ 154) (اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں ان کو مردہ نہ کہوبل کہ وہ زندہ ہیں لیکن تم محسوس نہیں کرتے) زندگی اور موت سے متعلق اسلامی تصور حق و باطل کی کشمکش میں سب سے مشکل مرحلہ وہ ہوتا ہے جب حق کی خاطر جان دینی پڑے۔ انسان کتنا بھی بہادر ہو وہ بہرحال زندگی سے پیار کرتا ہے۔ وہ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے زندہ رہنا چاہتا ہے۔ زندگی اگر سب سے بڑی نعمت اور سرمایہ ہے تو اسے کھو دینا کسی کو بھی گوارا نہیں ہوتا۔ جب کوئی سننے والا یہ سنتا ہے کہ فلاں شخص اس راستے میں مارا گیا تو موت کے لفظ سے اسے وحشت ہوتی ہے اور وہ اس سے خوف زدہ ہوکرحق کے راستہ سے ہی کنارہ کشی کرلیتا ہے۔ اس لیے اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ عزیمت اور استقامت کے راستے پر چلنے کے لیے ضروری ہے کہ زندگی اور موت سے متعلق اسلام کے دئیے ہوئے صحیح تصور کو ذہنوں میں مستحضر رکھاجائے کیونکہ جب تک یہ تصور طبیعتوں میں راسخ نہیں ہوگا، عزیمت اور استقامت کے راستے پر چلنا آسان نہیں ہوگا۔ اہل دنیا یہی سمجھتے ہیں کہ جو شخص مرا یا مارا گیا وہ ختم ہوگیا اور اس زندگی کے بعد کوئی زندگی نہیں۔ لیکن اسلام اپنے ماننے والوں کو زندگی اور موت کا جو تصور دیتا ہے، وہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ یہ زندگی تو چند روزہ اور فانی زندگی ہے۔ اصلی زندگی جو ابدی زندگی ہے، اس کا آغاز تو اس وقت سے ہوتا ہے جب یہ زندگی ختم ہوجاتی ہے اور وہ ابدی زندگی مرنے کے بعدعالمِ برزخ اور پھر عالم آخرت میں حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے جو لوگ اللہ کے راستے میں مارے جاتے ہیں، وہ شہادت کا مرتبہ پالیتے ہیں اور انھیں ایک ایسی زندگی نصیب ہوتی ہے جو اس دنیوی زندگی سے کہیں زیادہ قیمتی ہے اور اس زندگی میں وہ اللہ کے یہاں رزق بھی دیئے جاتے ہیں۔ اس کی تفصیلات بہت ہیں لیکن ان میں جو بات کتاب وسنت کے زیادہ قریب ہے اس کے لیے ہم بیان القرآن سے استفادہ کرتے ہیں۔ ” ایسے مقتول کو جو اللہ کی راہ میں قتل کیا جائے ” شہید “ کہتے ہیں اور اس کی نسبت گو یہ کہنا کہ وہ مرگیا صحیح اور جائز ہے۔ لیکن اس کی موت کو دوسرے مردوں کی سی موت سمجھنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ بعد مرنے کے گو برزخی حیات ہر شخص کی روح کو حاصل ہے اور اسی سے جزا اور سزا کا ادراک ہوتا ہے۔ لیکن شہید کو اس حیات اور مردوں سے ایک گونہ امتیاز حاصل ہے اور وہ امتیاز یہ ہے کہ اس کی یہ حیات آثار میں اوروں سے قوی ہے، جیسے انگلیوں کے اگلے پورے اور ایڑی، اگرچہ دونوں میں حیات ہے اور حیات کے آثار بھی دونوں میں موجود ہیں۔ لیکن انگلیوں کے پوروں میں حیات کے آثار، احساس وغیرہ بہ نسبت ایڑی کے زیادہ ہیں۔ اسی طرح شہداء میں آثار حیات عام مردوں سے بہت زیادہ ہیں۔ حتی کہ شہید کی اس حیات کی قوت کا ایک اثر برخلاف معمولی مردوں کے اس کے جسدِظاہری تک بھی پہنچا ہے کہ اس کا جسم باوجود مجموعہ گوشت و پوست ہونے کے خاک سے متاثر نہیں ہوتا اور مثل جسم زندہ کے صحیح سالم رہتا ہے۔ جیسا کہ احادیث اور مشاہدات شاہد ہیں، پس اس امتیاز کی وجہ سے شہداء کو احیاء کہا گیا ہے اور ان کو دوسرے اموات کے برابر اموات کہنے کی ممانعت کی گئی۔ مگر احکامِ ظاہرہ میں وہ عام مردوں کی طرح ہیں، ان کی میراث تقسیم ہوتی ہے اور ان کی بیویاں دوسروں سے نکاح کرسکتی ہیں اور یہی حیات ہے جس میں حضراتِ انبیاء (علیہم السلام) شہداء سے بھی زیادہ امتیاز اور قوت رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ سلامت جسم کے علاوہ اس حیات برزخی کے کچھ آثار ظاہری احکام پر بھی پڑتے ہیں۔ مثلاً ان کی میراث تقسیم نہیں ہوتی، ان کی ازواج دوسروں کے نکاح میں نہیں آسکتیں۔ پس اس حیات میں سب سے قوی تر انبیاء (علیہم السلام) ہیں، پھر شہداء پھر اور معمولی مردے۔ البتہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اولیاء اور صالحین بھی اس فضیلت میں شہداء کے شریک ہیں۔ مومجاہدہ ٔ نفس میں مرنے کو بھی اگر معناً شہادت میں داخل سمجھیں تو اس طور پر وہ بھی شہداء ہوگئے یا یوں کہا جاوے کہ آیت میں شہداء کی تخصیص عام مردوں کے اعتبار سے ہے، شہداء کے ہمرتبہ دوسرے لوگ صالحین وصدیقین کے اعتبار سے نہیں۔ اگر کسی شخص نے کسی شہید کی لاش کو خاک خوردہ پایا ہو تو سمجھ لے کہ ممکن ہے اس کی نیت خالص نہ ہو، جس پر مدار ہے قتل کے شہادت ہونے کا اور صرف قتل شہادت نہیں ہے اور اگر بالفرض ایسا شہید خاک خوردہ پایاجاوے، جس کا قتل فی سبیل اللہ اور اس کا جامع شرائط ِ شہادت ہونا دلیل قطعی تواتر وغیرہ سے ثابت ہو (جس کا شبہ صاحب روح المعانی کو ہوگیا ہے) تو اس کی وجہ میں کہا جاوے گا کہ حدیث میں جس چیز کی تصریح ہے وہ یہ ہے کہ انبیاء وشہداء کے جسم کو زمین نہیں کھاتی، یعنی مٹی ان کے جسم کو خراب نہیں کرسکتی۔ اجزاء ارضیہ مٹی وغیرہ کے علاوہ کسی دوسری چیز سے ان کے جسم کا متاثر ہو کر فنا ہوجانا پھر بھی ممکن ہے کیونکہ زمین میں اور بھی بہت سی اقسام و انواع کی دھاتیں اور ان کے اجزاء اللہ تعالیٰ نے رکھ دئیے ہیں۔ اگر ان کی وجہ سے کسی شہید کا جسم متاثر ہوجائے تو اس آیت کے منافی نہیں۔ چناچہ دوسرے اجسامِ مرکبہ اسلحہ وادویہ واخلاط واجسامِ بسیطہ مثل آب وآتش وباد کی تاثیر انبیاء (علیہم السلام) کے اجساد میں بھی ثابت ہے اور شہداء کی حیات بعد الممات انبیاء کی حیات قبل الممات سے اقویٰ نہیں اور بعض حصہـــ ارض میں بعض اجزا غیرارضیہ بھی شامل ہوجاتے ہیں جس طرح دوسرے عناصر میں بھی مختلف عناصر شامل ہوجاتے ہیں سو اگر ان اجزائے غیرارضیہ سے ان کے اجساد متاثر ہوجاویں تو اس سے ان احادیث پر اشکال نہیں ہوتا، جن میں حرمت اجساد علے الارض وارد ہے۔ اور ایک جواب یہ ہے کہ امتیاز اجسادِ شہداء کے لیے یہ کافی ہے کہ دوسری اموات سے زیادہ مدت تک ان کے اجساد خاک سے متاثرنہ ہوں گو کسی وقت میں ہوجاویں اور احادیث سے یہی امر مقصود کہا جاوے کہ ان کی محفوظیت اجساد کی خارق عادت ہے اور خرق عادت کی دونوں صورتیں ہیں حفظ مؤبّد اور حفظ طویل اور چونکہ عالم برزخ، حواس یعنی آنکھ، کان، ناک، ہاتھ وغیرہ سے مدرک نہیں ہوتا اس لیے لَا تَشْعُرُوْنَ فرمایا گیا کہ تم ان کی حیات کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔
Top