Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 80
وَ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَةً١ؕ قُلْ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللّٰهِ عَهْدًا فَلَنْ یُّخْلِفَ اللّٰهُ عَهْدَهٗۤ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا لَنْ تَمَسَّنَا : ہرگز نہ چھوئے گی النَّارُ : آگ اِلَّا : سوائے اَيَّامًا : دن مَعْدُوْدَةً : چند قُلْ اَتَّخَذْتُمْ : کہ دو کیا تم نے لیا عِنْدَ اللہِ : اللہ کے پاس عَهْدًا : کوئی وعدہ فَلَنْ يُخْلِفَ اللّٰہُ : کہ ہرگز نہ خلاف کرے گا اللہ عَهْدَهُ : اپنا وعدہ اَمْ : کیا تَقُوْلُوْنَ : تم کہتے ہو عَلَى اللہِ : اللہ پر مَا لَا تَعْلَمُوْنَ : جو تم نہیں جانتے
اور وہ کہتے ہیں کہ ہم کو تو دوزخ کی آگ چھوئے گی بھی نہیں بجز چند گنے چنے دنوں کے،274 ۔ آپ کہیے کیا تم اللہ کے ہاں سے کوئی وعدہ پاچکے ہو، جو اللہ اب اپنے وعدہ کے خلاف نہ کرے گا ؟ ) یا (یوں ہی) اللہ پر وہ جوڑ رہے ہو جس کا علم تم نہیں رکھتے،275 ۔
274 ۔ اور یہ چند دن وہی ہیں، جیسا کہ پادری راڈول نے اپنے انگریزی ترجمہ قرآن کے حاشیہ میں اکابر یہود کے حوالہ سے لکھا ہے، جن میں قوم اسرائیل گوسالہ پرستی میں مبتلا رہی تھی، یعنی کوئی 40 دن۔ اور یہی بات ہمارے بعض ائمہ تفسیر نے بھی نقل کی ہے :۔ قد راربعین یوما التی عبد فیھا اباؤنا العجل (ابن عباس ؓ اور ایک دوسرے مسیحی مترجم قرآن، سیل ‘ یہ مدت گیارہ مہینہ یا ایک سال نقل کی ہے۔ اسی طرح ایک میعاد سات دن کی بھی نقل ہوئی ہے۔ بہرحال وہ تھی کوئی محدود و متعین مختصر ہی سی مدت۔ بلکہ بعض یہودی ماخذوں سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اسرائیل اپنے کو آتش دوزخ کی زد سے بالکل ہی باہر اور محفوظ سمجھ رہے تھے، چناچہ جیوش انسائیکلوپیڈیا میں یہ عقیدہ یوں نقل ہوا ہے :۔ ” آتش دوزخ گنہگار ان قوم یہود کو چھوئے گی بھی نہیں۔ اس لیے کہ وہ در جہنم پر پہنچتے ہی اپنے گناہوں کا اقرار کرلیں گے اور خدا کے پاس واپس آجائیں گے “۔ (جلد 5 صفحہ 583) اور یہود کا بڑے مقدس نوشتہ تالمود کے انتخابات کا جو مجموعہ انگریزی میں ڈاکٹر کو ہن Kohen کا مرتب کیا ہوا Series Everymans Library میں شائع ہوا ہے۔ اس میں یوں آیا ہے :۔ ” قیامت کے دن ابراہیم دردوزخ پر تشریف رکھتے ہوں گے اور کسی مختون اسرائیلی کو اس میں نہ گرنے دیں گے۔ “ (صفحۃ 4 ۔ 4) ” جہنم کی آگ اسرائیلی گنہگاروں پر کوئی قدرت نہیں رکھتی۔ “ (صفحۃ 405) حاصل یہ کہ بنی اسرائیل اپنی قوم کو خدا کی لاڈلی اور دلاری سمجھے ہوئے تھے اور اس پر حد سے زیادہ نازاں تھے، یہود کی زبان سے اس سلسلہ میں ” ہم “ صیغہ جمع متکلم جہاں جہاں بھی آیا ہے، اجتماعی معنی رکھتا ہے یعنی مراد قوم اسرائیل ہے۔ 275 ۔ یہود سے بطور حجت الزامی سوال ہورہا ہے کہ یہ جو اپنی قوم کی محبوبیت خاصہ کا عذاب آخرت سے محفوظیت کا، عدم مسؤلیت کا عقیدہ تم نے اپنے دل میں جمارکھا ہے۔ تو آخر یہ یوں ہی اپنے دل سے گڑھ لیا ہے، یہ اس کی کوئی سند بھی اپنے مقدس نوشتوں میں دکھا سکتے ہو ؟ آخر یہ اعتبار کہاں سے قائم کرلیا ہے ؟ (آیت) ” تقولون علی اللہ “ قال کا صلہ جب علی کے ساتھ آتا ہے تو معنی ہوتے ہیں کسی پر کوئی بات جوڑلی، کسی پر بہتان باندھ دیا۔ قال علیہ اے افتری (تاج)
Top