Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 80
وَ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَةً١ؕ قُلْ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللّٰهِ عَهْدًا فَلَنْ یُّخْلِفَ اللّٰهُ عَهْدَهٗۤ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا لَنْ تَمَسَّنَا : ہرگز نہ چھوئے گی النَّارُ : آگ اِلَّا : سوائے اَيَّامًا : دن مَعْدُوْدَةً : چند قُلْ اَتَّخَذْتُمْ : کہ دو کیا تم نے لیا عِنْدَ اللہِ : اللہ کے پاس عَهْدًا : کوئی وعدہ فَلَنْ يُخْلِفَ اللّٰہُ : کہ ہرگز نہ خلاف کرے گا اللہ عَهْدَهُ : اپنا وعدہ اَمْ : کیا تَقُوْلُوْنَ : تم کہتے ہو عَلَى اللہِ : اللہ پر مَا لَا تَعْلَمُوْنَ : جو تم نہیں جانتے
اور کہتے ہیں کہ (دوزخ کی) آگ ہمیں چند روز کے سوا چھو ہی نہیں سکے گی، ان سے پوچھو کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے کہ خدا اپنے اقرار کے خلاف نہیں کرے گا ؟ (نہیں) بلکہ تم خدا کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہو جن کا تمہیں مطلق علم نہیں
لن تمسنا النار۔ لن تمس۔ فعل مضارع نفی تاکید بلن واحد مؤنث غائب کا صیغہ۔ مس (باب نصر ضرب) سے ۔ نا ضمیر مفعول جمع متکلم ۔ وہ ہم کو ہرگز نہ چھوئے گی۔ ایاما معدودۃ۔ موصوف وصفت ایام ۔ یوم کی جمع ہے۔ اصل میں ایوام تھا۔ واؤ کو یا بنایا اور یا کو یاء میں مدغم کیا۔ ایام ہوگیا۔ ایاما بوجہ ظرف منصوب ہے اور معدودۃ اپنے موصوف کی نسبت سے منصوب ہے۔ معدودۃ۔ اسم مفعول واحد مؤنث ہے۔ اور اس کی جمع معدودات ہے۔ ایاما معدودۃ گنتی کے چند دن۔ عد (باب نصر) مصدر بمعنی شمار کرنا ۔ عدد۔ گنتی ۔ شمار۔ اتخذتم۔ اصل میں اَ اِتخذتم تھا۔ ہمزہ استفہام کے لئے ہے اور ہمزہ وصل محذوف ہے۔ اتخذتم ماضی کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اتخاذ مصدر (افتعال) سے ۔ کیا تم نے اختیار کیا ہے یا لے رکھا ہے عھدا مفعول عند اللہ اللہ کے حضور، اللہ کے پاس ۔ یعنی اللہ سے کوئی وعدہ لے رکھا ہے۔ فلن یخلف اللہ عھدہ۔ یہ جملہ جواب شرط میں ہے اس سے قبل شرط مقدر ہے ای ان اتخذتم عند اللہ عھدا فلن یخلف اللہ عھدہ۔ اگر تم نے اللہ سے کوئی عہد لے رکھا ہے تو وہ اپنے وعدہ کی ہرگز خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ فاء جواب شرط مقدرہ کے لئے ہے۔ لن یخلف۔ مضارع نفی تاکید بلن منصوب بوجہ عمل بلن۔ واحد مذکر غائب کا صیغہ اخلان (افعال) مصدر۔ ام تقولون۔ میں ام متصلہ اور منقطہ دونوں ہوسکتے ہیں۔ پہلی صورت میں اسے ام معادلۃ کہیں گے اور یہ ہمزہ استفہامیہ کے معنی دے گا۔ تقدیر کلام یوں ہوگی اتقولون علی اللہ مالا تعلمون ۔ ام تقولون علیہ مالا تعلمون۔ دوسری صورت میں (یعنی بصورت منقطہ) بمعنی بل ہوگا۔ ای بل اتقولون علی اللہ مالا تعلمون۔ یا کیا تم اللہ پر وہ باتیں بناتے ہو جن کو تم خود بھی نہیں جانتے۔ صاحب تفسیر حقانی لکھتے ہیں ام متصلہ یا اس کو منقطہ کہا جاوے بمعنی بل ہے۔ (نیز ملاحظہ ہو 18:9) مالا تعلمون ۔ اس میں ما موصولہ ہے اور لاتعلمون جملہ فعلیہ خبر یہ ہو کر صلہ ہے۔ جسے تم خود نہیں جانتے ۔
Top